PDA

View Full Version : یورپ کا ثقافتی قلب اور علوم و فنون کا مرکز خ&a



intelligent086
09-14-2015, 12:51 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13750_11572395.jpg.pagespeed.ic.TyfYT2tYwr .jpg

عبدالستار ہاشمی
برلن شہر کے وسط میں تقریباً 400 فٹ بلند ایک پہاڑی ہے جو قدرت کی تخلیق نہیں بلکہ ان شاندار عمارتوں کے ملبے سے وجود میں آئی جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادی طیاروں اور توپوں کی گولہ باری کے باعث پتھروں کا ڈھیر بن گئیں۔ آپ برلن کی سیاحت کرنا چاہیں اور اس پہاڑی کا دورہ نہ کریں تو برلن کا تعارف ادھورا رہے گا اور آپ کا دورہ نا مکمل۔ برلن کی تباہی پر برطانوی فضائیہ کے سربراہ سر آرتھر ٹیڈر کا دعویٰ تھا کہ’’یہ شہر اب دوبارہ آباد نہیں ہو سکتا۔‘‘ آرتھر کو کیا معلوم تھا کہ وقت اس کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیگا ۔آرتھر برلن کے شہریوں کی ہمت و محنت سے بھی ناواقف تھا۔ ان شہریوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھی اور شہر کو دوبارہ تعمیر کردیا۔ جرمنی کا دل یہ شہراپنے میلوں، طرز تعمیر، شاندارزندگی اور جدید فنون کے باعث بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔ 180 سے زائد اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے برلن ایک خوبصورت گھر اور توجہ کا مرکز ہے۔ برلن وفاقی جمہوریہ جرمنی کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ انتظامی طور پر یہ جرمنی کے 16 صوبوں میں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جب کئی چھوٹی بڑی سلطنتوں اور ریاستوں نے متحد ہو کر ایک ملک جرمنی کی بنیاد رکھی تب 1871ء میں برلن کو جرمنی کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ۔ 1940ء سے 1990ء تک برلن دو حصوں میں منقسم رہا۔ دوسری جنگ عظیم (1939ء تا 1945ء) کی فاتح اتحادی قوتوں (امریکہ، سوویت یونین، برطانیہ اور فرانس) نے جرمنی کو4خطوں میں تقسیم کیااور ہر خطے پر ایک طاقت قابض رہی۔ جس حصے پر روس کا قبضہ تھا وہ مشرقی برلن اور اتحادی قوتوں والا مغربی برلن کہلانے لگا۔ 1949ء میں مشرقی برلن نئی مملکت مشرقی جرمنی کا دارالحکومت بنا۔ اسی سال مغربی جرمنی نے بون کو اپنا صدر مقام بنا لیا۔ 1990ء میں سوویت یونین اور مشرقی جرمنی میں کمیونزم کے زوال کے باعث دیوار برلن گرا دی گئی اور جرمنی کے دونوں بازو پھر سے ایک جسم کا حصہ بن گئے اور متحدہ برلن دوبارہ نئی مملکت کا دارالحکومت بن گیا۔ تاریخ:مؤرخین کے مطابق جہاں آج برلن آباد ہے وہاں بارہ ہزار سال قبل شکاری اور خانہ بدوش قبائل مقیم تھے۔ پہلی صدی میں یہاں جرمانی قبائل رہتے تھے جو 500ء عیسوی کے بعد یہاں سے چلے گئے۔ ان کی جگہ سلاویک قبائل نے لے لی جو وینڈ کہلاتے تھے۔ آٹھویں صدی میں فرانسیسی بادشاہ شارلیمان علاقے پر قابض ہو گیا تاہم دسویں صدی تک یہاں وینڈوں کا ہی اثر و رسوخ رہا۔ 1147ء میں جرمن جاگیرداروں نے وینڈوں کو بھگا دیا۔ 1230ء میں جرمن اشرافیہ نے دریائے سیری کے مغربی کنارے برلن کی بنیاد رکھی۔ اسی دوران سیری کے جزیرے پر کولن نام کی بستی آباد ہو ئی۔ وقت کیساتھ ساتھ دونوں آبادیاں ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چل پڑیں۔ 1576ء میں برلن زوال کا شکار ہو گیا ۔ طاعون کے باعث اس کی آبادی کم ہو گئی۔ 30 سالہ جنگ (1618-48ء) کے دوران یورپ کی افواج سرزمین جرمن پر ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں۔یہ لڑائی دو عیسائی فرقوں پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک کے درمیان تھی۔اسی لڑائی کے دوران 1631 ء میں سویڈن کی فوج نے بھی برلن پر چڑھائی کر دی۔ سویڈن افواج نے کئی مرتبہ برلن پر حملے کئے اور لوٹ مار کی ۔ اس فوج کشی کا مقصد صرف اور صرف شہریوں کی جمع پونجی لوٹنا تھا۔ غربت، طاعون اور بار بار کی لوٹ مار نے برلن کو زوال سے دوچار کر دیا اور اس کی آبادی جنگ کے خاتمے تک 12 ہزار سے کم ہو کر صرف 6 ہزار رہ گئی۔ چند عمارتوں کے سوا باقی تمام جنگ نے ملیا میٹ کر دیں۔ ان اندوہناک واقعات میںبرینڈن برگ اور برلن میں ہومین زلیرون خاندان برسراقتدار رہا۔ ولیم نے برلن کو تجارتی مالیاتی اور صنعتی لحاظ سے اہم مرکز بنا یا اور اپنے ورثاء کیلئے ایک مستحکم حکومت چھوڑی۔ جنگ عظیم اول (1917ء…1914ء) میں جرمنی کی شکست کے بعد شہنشاہ ولیم دوئم نے تخت چھوڑ دیا اور شاہی حکومت ختم ہو گئی۔ اس کی جگہ پارلیمانی حکومت جمہوریہ وائی مار وجود میں آئی۔ 1920ء کے ابتدائی مہینوں میں برلن شدید معاشی زوال کا شکار ہوا۔ افراط زر کے باعث کرنسی کی قدر تقریباً صفر ہو گئی۔ معاشی و سیاسی ابتری کے باوجود برلن میں علوم و فنون جلا پاتے رہے۔ فنکاروں نے مصوری، ادب، تھیٹر، فلم اور تعمیرات کے شعبوں میں نت نئے تجربے کئے۔ ان میں قابل ذکر موسیقار کرٹ، ونیل، ادیب گرہارڈیٹ مان اور ڈرامہ نگار برٹولٹ برخت ہیں۔ 1939ء میں جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو برطانوی اور امریکی جنگی جہازوں نے بطور خاص برلن کی عمارتوںکو نشانہ بنایا۔ سوویت اور جرمن فوجیوں کے مابین دست بدست جنگ کے باعث تباہی پھر برلن کے حصے میں آئی اور60 فیصدشہر تباہ ہو گیا۔ برلن کی آبادی44 لاکھ سے کم ہو کر 28 لاکھ رہ گئی۔ 1949ء سے 1961ء تک بہتر مستقبل اور زیادہ سیاسی آزادی حاصل کرنے کی خاطر مشرقی جرمنی کے 27 لاکھ سے زائد افراد مغربی برلن آ گئے۔ ان شہریوں کے انخلاء کو روکنے کیلئے مغربی برلن کے گرد خار دار تاروں اور کنکریٹ دیوار کی صورت میں رکاوٹ کھڑی کی گئی جو دیوار برلن کے نام سے مشہور ہوئی۔ 1970ء میں دیوار کے باعث جنم لینے والی کشیدگی کم ہوئی۔ 9 نومبر 1979ء تک مشرقی جرمنی کی حکومت دیوار برلن کو منہدم کرنے کے قریب پہنچ گئی۔ اسی دن شام کی خبروں میں سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ دیوار برلن کھول دی گئی ہے۔ یہ سنتے ہی دیوار کے دونوں اطراف ہزاروں شہری جمع ہو گئے اور کدالوں، چھینیوں، رسوں اور ہاتھوں کی مدد سے دیوار کا بیشتر حصہ گرا دیا۔ اس کے بعد برلن تعمیرنو کے دور میںداخل ہوا اور اب متحدہ جرمنی کے متحدہ دارالحکومت کی حیثیت سے تعمیر و ترقی کا سفر کر رہا ہے۔ تعلیم و ثقافت:برلن سائنسی تحقیق اور نظریات رکھنے والی شخصیات کی من پسند جگہ ہے ۔ان شخصیات میں البرٹ سٹائن اور ورنر ہائزن برگ نمایاں ہیں۔ 1810ء میں بننے والی ہمبولٹ یونیورسٹی سائنسی تحقیق کا اہم مرکز ہے اور اس سے وابستہ25 سائنسدان نوبل انعام جیت چکے ہیں۔ دوسرے اہم اداروں میں برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، فری یونیورسٹی اور سائنسز سینٹر قابل ذکر ہیں۔ برلن کئی ماہر مصوروں، موسیقاروں اور ماہر تعمیرات کا گھر بھی رہا ہے۔ شارلٹن برگ سمر پیلس وہ منفرد عمارت ہے جس میں زیبائشی فنون کا عجائب گھر واقع ہے۔ جرمن مجسمہ ساز ایندریاس شوٹر نے معروف عمارت’ اینزڈن لندن‘‘ کا خواب دیکھا اور 1706ء میں اس عمارت کی تعمیر شروع ہوئی۔ برلن میں پبلک گیلری بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس لائبریری میں یورپی مصوروں کے وہ شاہکار محفوظ ہیں جو تیرہویں صدی تا سولہویں صدی تک تخلیق کئے گئے ۔ سٹائلشے عجائب گھر میں مصر کی مشہور ملکہ، نفرتیتی کا چونے کے پتھر سے بنا انتہائی قیمتی مجسمہ بھی قابل دید ہے۔ موسیقی سے وابستہ خصوصی پروگرامز سینٹ اوپیرا ہائوس، جرمن اوپیرا ،برلن گومانے اوپیرا اور شاذشیل ہائوس میں منعقد ہوتے ہیں۔ سیاحت:برلن میں باغات کا ایک وسیع سلسلہ بھی موجود ہے ۔سیر و تفریح کے کئی مقامات ہیں مثلاً واسی جھیل، سٹیگ لٹز کے نباتاتی باغات اور گرونے والڈ کا جنگل۔ ضلع ٹیرگارٹن میں برلن کے سب سے زیادہ باغات ہیں۔ یہیں دنیا کا قدیم اور بڑا چڑیا گھر بھی واقع ہے۔ برلن میں کھیل اور سیر و سیاحت کی سہولیات فراہم کرنیوالے تقریباً 16 ہزار سرکاری و نجی ادارے ہیں۔ کھیل کے کلبوں میں سب سے بڑا فٹ بال لوکرم کلب ہے۔ فٹ بال کا عالمی کپ 2006ء کا انعقاد بھی اسی شہر میں ہوا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ خانہ بدوشوں کے ہاتھوں تعمیر ہونے والی چھوٹی سی بستی برلن آج یورپ کی معاشی تہذیب، ثقافتی قلب اور علوم و فنون کا مرکز بن چکی ہے۔ ٭…٭…٭

KhUsHi
09-21-2015, 02:27 AM
آپ نے بہت پیاری پوسٹ کی ہے
آپ کی اور بھی اچھی اچھی شیئرنگ کا انتظار رہے گا
شیئرنگ کا شکریہ

intelligent086
09-24-2015, 01:43 AM
پسندیدگی کا شکریہ

hir
09-24-2015, 03:39 PM
Thanks for sharing!!!

intelligent086
09-25-2015, 12:44 AM
Thanks for sharing!!!



پسندیدگی کا شکریہ