PDA

View Full Version : ڈیڈی…’’ح د ا۔ ۶۰۴۵‘‘



intelligent086
09-14-2015, 12:43 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/13752_58457698.jpg

عزخ
’’ح د ا ۶۰۴۵‘‘یہ کوئی ڈورڈ یا کسی فارسی کتاب کا حوالہ نہیں ہے بلکہ ایک عدد ہنڈا ففٹی سی سی کا رجسٹریشن نمبر ہے بلکہ یوں کہیے کہ HDA-6045کا اردو ترجمہ ہے۔ HDA ساٹھ پینتالیس کو ہمارے بچپن والے گھر (۱/۷۳جس کا ذکر آگے آئے گا ) اور ماھول میں ہمیشہ مقدس حیثیت حاصل رہی ۔ اس پر سواری کا شرف حاصل کرنا روحانی فیض ھاصل کرنے سے کم نہ تھا ۔ ساٹھ پینتالیس کو یہ تقدس ، پیرانہ درجہ اور طریقتی رتبہ ڈیڈی کی اپنی اس لاڈلی و چہیتی سواری سے انتہا درجے کی وابستگی نے دیا تھا جس سے وہ اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے تھے ۔ غیر تو اس پر سواری کی جسارت کیا کرتے ، خود ان کے اپنے بچے بھی کبھی کبھار ہی فیض حاصل کر پاتے تھے ۔ امی کو بھی ڈیڈی نے کبھی encourageنہیں کیا کہ وہ 6045پر ڈیڈی کی ہم رکاب ہوں گو کہ اس کم رکابی میں خود امی کا بھی عمل دخل ہے جو ہمیشہ موٹر سائیکل کی سواری سے خوفزدہ رہیں بلکہ کبھی اور کہیں کہیں دبے دبے طور پر اس کو کم تر بھی شمار کر جاتی تھیں گویا وجہ ء کم رکابی بعذ رکم ترابی ۔۔۔۔۔چنانچہ ساٹھ پینتالیس جس کو عرف عام میں ڈیڈی ’’ہنڈا ‘‘ کہا کرتے تھے اپنی کم سہتی ، کم سیسی (CC-50)اور نازک جسامت کے باوجود ایک مذکر درجے کا حامل تھا اور اس کے ساتھ کسی کبھی مؤنث حاضر یا غائب متکلم کا صیغہ استعمال نہیں کیا گیا ۔ ہر روز صبح صبح ڈیڈی اپنے شیو سے فارغ ہو کر برش اور دیگر سامان سرخ رنگ کے ایک 3×3×5انچ کے ٹین کے بکس میں رکھتے جو شریف لوہار کی انتہائی محنت اور عقیدت مندانہ صناعی کا ثبوت تھا ۔ ان کے ناشتے کا ایک لازمی جزو ریڈیو پر صبح سات بجے کی خبریں اور خبروں کا پس منظر بروز اتوار ’’حامد میاں کے ہاں کا ریڈیو پروگرام ‘‘ اور دیگر نشریات پر مبنی ہوتا تھا ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب نشریاتی ذرائع یقینی طور پر بہت محدود تھے ۔ اور ٹی وی کو ابھی گھر کے فرد کا درجہ حاصل نہ ہوا تھابلکہ ایک مہمان کی مانند اس کی نشریات مختصر دورانئے کی حاضری تک ہی محدود تھیں اسکول کی تیاری مکمل ہونے پر ایک عدد کپڑے کا تھیلا جو بہت جلد (امی کے اصرار پر بلکہ بلند شکوے پر ) ریکسین کی زپ والے کالے رنگ کے بیگ میں تبدیل ہو گیا تھا ہنڈے کے ہینڈل پر لٹکاتیاور ففٹی کو کپڑے سے جھاڑتے پھر ہاتھ سے دھکیلتے ہوئے گھر کے چبوترے پر بنی ڈھلان سے اتارتے ۔۔گلی میں پہنچ کر بھی ڈیڈی ہنڈے پر سوار نہیں ہوتے بلکہ اس کو ہاتھ ہی سے دھکیلتے ہوئے بڑی سڑک تک لے جاتے جہاں تک گلی میں کافی چڑھائی چڑھنے کے بعد پہنچا جا سکتا تھا ،،مبادا انجن پر زور پڑے کہ اسٹارٹ کرتے ہی انجن کو چڑھائی پر مامور کر دیا گیا ۔(جس گلی میں ہمارا گھر واقع تھا وہ سڑک سے نشیب طرز میں تھی )اسکول سے واپسی پر ففٹی کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ تقریباً اتنے اہتمام سے پارک کر دیا جاتا جس طرح چھوٹے تربیتی مشاق جہازوں کو ہینگر میں کھڑا کیا جاتا ہے ۔ یہ احتیاطی تدابیر گھر پہنچنے سے تقریباً 50سے 100میٹر پہلے پیٹرول کے سوئچ بند کر دینے سے شروع ہوتیں تا کہ اس بات کا احتمال بھی نہ رہے کہ کاربوریٹر میں پیٹرول پڑا پڑا بیکاراڑ نہ جائے۔ ڈیڈی کے خیال میں پیٹرول کی مناسب بلکہ واحد جگہ پیٹرول کا ٹینک ہی تھا اس کے علاوہ تمام جگہیں (بشمول کاربوریٹر یا انجن وغیرہ کے پرزے ) پیٹرول کا زیاں تھے ۔۔زمانہ جاہلیت میں بھی ، جبکہ ابھی بڑی بڑیNGOs نے pollution کے خلاف مہم شروع نہیں کی تھی ، ڈیڈی کا یہ یقین انہیں ایک بہت بڑے Environmentalistکے درجے پر فائز کرتا تھا کہ وہ بقیہ پورا دن موٹر سائیکل کے بجائے پیدل جانے کو ترجیح دیتے یوں نہ انجن سٹارٹ ہوتا نہ ایندھن جلتا نہ موحول آلودہ ہوتا ۔ اسے ہم ڈیڈی کا اپنی موٹر سائیکل سے قرب سمجھیں یا اقربا سے عدم رواداری کہ ایک روز کسی جاننے والے نے دیڈی سے موٹر سائیکل مستعار لینے کی فرمائش کر دی (یہ واقعہ ڈیڈی نے خود سنایا ہے ) چنانچہ ان کا فرمائشی جملے سنتے ہی ایک لمحے کو ماحول انتہائی سنجیدہ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ رنجیدہ ہو گیا جس طرح اچانک فائر ہو جائے تو قریب موجود کان سُن ہو جاتے ہیں ۔ ت اہم لمحے سے بھی کم تاخیر کرتے ہپوئے ڈیڈی نے دو طرفہ تعلقات میں مزید بگاڑ آنے سے سنبھالا اور اس سے پہلے کہ اس فرمائشی جملے یا حملے کی وجہ سے پاک بھارت Stand offیا Escallationکی کیفیت ہو جاتی ڈیڈی نے ’’سفارتکارانہ ‘‘ مسکراہٹ سے ، جس کو نا سمجھ مقابل موصوف شاید ’’ سفاکانہ ‘‘ مسکراہٹ سمجھ بیٹھے ہوں ، سے کام لیتے ہوئے جواباً سوال داغا ۔ حضرت کہاں تشریف لے جائیں گے ؟ ۔۔۔۔۔صاحب بس ذرا ’’گاڑی کھاتے ‘‘ تک ! اور واپسی ؟۔۔۔۔مخصوص زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ ڈیڈی نے اگلا سوال کیا’’وہاں رکشے والا کتنے پیسے میںلے کر جائیگا ‘‘۔’’پانچ روپے شاید ‘‘ موصوف کا جواب تھا ۔ ایک لمحے کی تاکیر کئے ڈیڈی نے کون بنے گا کروڑ پتی نما سوالات کے اس پروگرام کا خاتمہ کیا ، پتلون کی پچھلی جیب سے اپنا بٹوہ برآمد کیا دس روپے سکہ رائج الوقت برائے کرایہ نکالے اور موصوف کو تھماتے ہوئے کہا ’’حضرت یہ رکھیئے دس روپے آنے اور جانے کے اور رکشے پر تشریف لے جائیے ‘‘۔۔یہ یاد رہے کہ اسٹار پلس تو دور کی بات ابھی تک ٹی وی بھی پاکستان میں گھر گھر عام نہیں ہوا تھا اور یہ ڈیڈی مخالف موصوف کے ساتھ یہ اداکارانہ کھیل اداکارانہ طور کھیل گئے ۔ موجودہ دور کی نسل تو اسے کواہ جو نام بھی دے ہم تو ’’ح د ا ‘‘ سے ان کا پیار ہی کہیں گے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ’’ح د ا ‘‘ کو جو غیر ہاتھ پہلی مرتبہ چھو سکے وہ کوئی اور نہیں ڈیڈی کے پسرِ کلاں یعنی بھائی جان کے تھے ، ۱۹۶۸ء میں خریدی گئی موٹر سائیکل کو ۱۹۸۲یا ۸۳میں بھائی جان نے ریلوے ہائی اسکول کے میدان میں بغیر کلچ کے ، (کیوں کہ اس میک و ماڈل میں کلچ ہوتا ہی نہیں ہے ) خود چلانے کا شرف ھاصل کر ہی لیا ۔۔اجازت مرحمت ہونے کے باوجود بھائی جان خوفزدہ ہی رہے ہوں گے مبادا موٹر سائیکل کہیں ٹکرا گئی تو ؟؟؟یہ ہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ انہیں اپنے جسم سے زیادہ موٹر سائیکل کی باڈی کی حفاظت مقدم ہوئی ہو گی ۔ یہ ’’ح د ا ‘‘ کی سادہ بناوٹ کا ہی کمال تھا کہ طویل عرصے تک بھائی جان کے لئے CD-50سے اوپر کے تمام Versionsیعنی CD-50 و دیگر وغیرہ ، انتہائی Hi techرہے کہ انہیں Operateکرنے کیلئے Clutchکا استعمال ضروری تھا بلکہ خود Clutchٹیکنالوجی کا علم بھی بھائی جان کو تب ہوا جب کہ عرصہ طویل کے بعد چھیپوں نے یکے بعد دیگرے موٹر سائیکل خریدنا شروع کیے جو زیادہ تر CD-70تھے ۔ آج کل ہنڈا ففٹی مفقود ہے تا ہم اگر آپ نے یہ موٹر سائیکل نما سواری دیکھنی ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کا پٹرول ٹینک جو سائز میں کولا مشروبات کی دیڑھ لیٹر بوتل سے کچھ ہی بڑا ہو گا اس لئے اسے مناسب طور پر ٹینک نہیں ٹینکی پکارا جائے گا ۔ یہ ٹینکی بجائے ہینڈل اور سیٹ کے درمیان نصب ہونے کے عین سیٹ کے نیچے واقع ہوتی تھی ۔ چنانچہ دوسری موٹر سائیکلوں کے برعکس اس کے ہینڈل ، اگلے پہییکے ایکسل اور سیٹ کے درمیان ایک خلا سا قائم رہ جاتا ہے کہ مرد حضرات اپنی لات اور ضرورتاً خواتین ڈرائیورز بھی اپنی لتی کو عمودی سمت کے بجائے افقی محور پر موڑ کاٹتے ہوئے ہوئے دوسرے پیڈل پر لے جائیں (جیسا کہ مشرق بعید اور ایک پڑوسی ملک میں مروج ہے ) پڑوسی ملک سے یاد آیا کہ یہ C-50ہماری مغربی سرھد سے پیوستہ ملک میں بھی 90کی دہائی میں ان کے حکمرانوں کی اختراع شدہ مذہبی مزاج کی سواری تھی کہ فرض کریں اس ملک میں ان کا حکم قائم بھی رہتا تو اس سواری کو مُلا جی خود ہی عورتوں کے لئے جائز قرار دے دیتے کہ اپنی مختصر جسامت کی وجہ سے یہ چلانے والی بی بی خانم کے شٹل کاک برقعے میں یوں مکمل چھپ جاتی کہ دیکھنے والے کو محسوس ہی نہ ہو پاتا کہ پلوشہ موٹر سائیکل سواری سے شغف فرما رہی ہیں یا کچی روڈ (خاکِ پاکِ افغان میں پکے روڈ نہیں ہوتے ) پر تیز رفتاری سے چہل قدمی کر رہی ہیں ۔۔۔۔بہر حال ڈیڈی کی نظر میں یہ مصرف بے کار اور قیمتی جگہ کا زیاں تھا ۔ چنانچہ شریف لوہار یا لوکوشیڈ کے کسی گمنام مستری کی مدد سے لوہے کی ایک چھوٹی سی سیٹ ڈھلوائی گئی اور اسے دو بریکٹس کی مدد سے سیٹ اور ہینڈل کے درمیان اس خل کو پُر کرنے کے لیے نصب کر دیا گیا ۔ اب یہ ایک اضافی نشست تھی جس پر چھوٹا بچہ آسانی سے سما جا سکتا تھا ۔ اس کو اگلی سیٹ کا نام دیا گیا ۔ ڈیڈی اپنے بچوں کو ان کی عمر کے مطابق بتدریج اس سیٹ پر بٹھا کر ہنڈے کی سواری کرات رہے ۔ دوران ِ سفرحفاظتی اقدامات کے طور پر اپنے گھٹنوں سے بچے کو بے اختیار دائیں بائیں گرنے سے محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی بند کا کام بھی لیتے رہے ۔ لوہے کی اس سیٹ پر ایک ایک کر کے بچے سوار ہوئے اور گزشتہ ماہ و سال کے چکروںکے بیس سالوں میںبڑے ہوتے گئے ۔ میرا خیال ہے ہم سب بہن بھائی آج میسر شدہ سواریوں کی انتہائی آرام دہ نشستوں کے درمیان بھی ’’ اگلی سیٹ ‘‘ نہیں بھول سکے ۔ میں ان سطور کی مدد سے اس گمنام کاریگر کی فنکاری کو خراج تحسین پیش کروں گا جس نے اس سیٹ کو تخلیق کیا ۔ برسوں تک بلا شرکتِ غیرے خاندانی سواری کا اعزاز رکھنے والا ریڈ اینڈ وائٹ ہنڈا بالآخر بھائی جان کی ضد نما خواہش کے آگے ڈیڈی نے اپنے اسکول کے ایک اسٹاف ٹیچر مسٹر عبداللہ سہتو کو فروخت کر دیا ( اور ایک عدد بلیک اینڈ وائٹ CD-50خرید لی گئی جو ماہ و سال کے استعمال کے باوجود بھی اجنبی و گمنام ہی رہی )۔ڈیڈی نے یہ سواری سہتو صاحب کے حوالے کرتے ہوئے یقیناً عبداللہ صاحب کی خاندانی شرافت، ذاتی متانت ، دیانت داری کا جذبہ ضرور مد نظر رکھا ہو گا ۔ اور آخری اطلاعات آنے تک عبداللہ صاحب نے ہنڈے کی دیکھ بھال اسی انہماک اور انسیت کے ساتھ جس طرح وہ اپنے خُو برو چہرے پر سجی گھنی روایتی سندھی ڈاڑھی اور مونچھوں کی کیا کرتے تھے ۔ عبداللہ صاحب کا ذکر ڈیڈی نے ہمیشہ محبت اور تعریفی کلمات ہی کے ساتھ کیا ۔ڈیڈی کے اسکول کے نورتن میں شامل ایک اور محترم اور نفیس شخصیت کے مالک یعقوب صاحب نے بھی ڈیڈی کی تقلید میں ہنڈا ففٹی خریدی تھی تا ہم اس وقت تک رجسٹریشن نمبر ’’ ح د ب ‘‘ تک پہنچ چکے تھے۔ (کتاب ’’ڈیڈی‘‘ سے انتخاب)

Ainee
09-16-2015, 12:55 PM
haha..acha article hai.

hir
09-16-2015, 02:39 PM
Nice article.

KhUsHi
09-17-2015, 10:45 PM
Nice one

intelligent086
09-18-2015, 10:26 AM
haha..acha article hai.


Nice article.


Nice one



http://www.mobopk.com/images/hanks4commentsvev.gif