Anmol
05-31-2014, 05:37 PM
علاقائی ادب
خوشحال خان خٹک (1613-1689
http://pakistaniadab.files.wordpress.com/2011/02/khushal-khan-khattak.jpg?w=455
پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک (1613۔1689 عیسوی) صوبہ سرحد کے شہر نوشہرہ کے نزدیک ۱کوڑہ نامی قصبے میں پیدا ہوئے آپ خٹک قبیلے کے سربراہ تھے اور آپ نے کچھ عرصہ کے لئے مغلیہ حکمرانوں کے لئے بھی خدمات سرانجام دیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو حربی شاعر کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنے قلم کو بھی تلوار کی طرح استعمال کیا۔ اور اپنے گردا گرد پھیلی ہوئی دنیا میں اپنے افکار کی جڑیں مضبوط کرتے رہے۔ مغل بادشاہ شاہ جہان نے آپ کو اپنے ایک فوجی دستے کا سالار مقرر کیا اور آپ نے بلخ، بدخشاں اور کانگڑہ کی مہمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بعد ازاں آپ اورنگزیب کے ساتھ منسلک ہو گئے اور لاتعداد مہمات میں شامل رہے ۔ خوشحال خان خٹک مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ تھے ۔ آپ کی شعری تخلیقات میں ہندو ستان کے عصری تخلیقی ادب کی تمام تر خصوصیات واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
آپ کی شعری تخلیقات کو تین ادوار میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ ابتدائی شاعری روحانی تفکرات سے پر ہے۔ قیدی کی حیثیت سے لکھی گئی نظمیں حقیقی زندگی کے مختلف ادوار کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں اور اس کے بعد کے دور کی نظمیں صوفیانہ انداز میں مذہبی جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ آپ کی شاعری میں قبائلی روایات و انداز کے ساتھ ساتھ اخلاقی ، فطری اور انسانی حسن کی ترجمانی جا بجا نظر آتی ہے۔ روحانی تجربات اور آزادی پر مبنی موضوعات کو آپ نے اپنے پر قوت انداز میں اس طرح ادا کیا ہے کہ آپ کی شاعری عوام الناس میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرتی نظر آتی ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آپ کے گیت آج بھی حجروں اور چوپالوں میں اپنی تانیں بکھیر رہے ہیں۔ پشتو جاننے والا ہر شخص اپنے سینے میں خوشحال خان خٹک کی شاعری کا کچھ نہ کچھ حصہ لازمی طور پر سنبھالے بیٹھا ہے۔
خوشحال خان کی شاعری میں عربی الفاظ و اصطلاحات محض قرآن کے مطالعہ سے ہی نہیں آئے بلکہ ان کا گہرا مطالعہ ،عربی کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کی بے ساختہ شعری تعلیمات کو بھی آپ کی شاعری میں لے آیا۔ آپ کی شاعری میں زباندانی کے تجربوں کے ساتھ ساتھ سر اور لے میں ہم آہنگی بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ آپ نے عربی شاعری کی صنف بیت کو زیادہ تر اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ جو کہ نہ صرف پشتو زبان میں بلکہ لا تعداد دوسری زبانوں میں بھی بے پناہ مقبول ہے۔ اگرچہ جنگ وحرب آپ کا پیشہ تھا لیکن شاعری جیسے نازک جذبے کو آپ نے اپنے آپ سے الگ نہیں ہونے دیا۔
اورنگزیب ہی کے زمانے میں شہنشاہ نے یوسف زئی قبائل کو زیادہ ترجیح دینی شروع کر دی اور خوشحال کو گرفتار کر کے جئے پور کے قلعہ میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ قید و بند کی صعوبتوں کے بعد خوشحال خان خٹک کی تمام تر زندگی مغلوں کے خلاف مہمات میں بسر ہوئی اور انہوں نے پشتون قبائل کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی اس دور کی نظمیں بادشاہی نظام کے خلاف اور قبائل کے اتحاد کے لئے جدوجہد پر مبنی مضامین پر مشتمل ہیں۔اسی دور کی نظموں میں پشتون تشخص کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات، تصوف ، اقدار اور روایات پر مبنی ان کی شاعری آج تک زبان زدِ خاص وعام ہے۔ خوشحال خان خٹک نے جلا وطنی کے عالم میں۱۶۸۹ء میں وفات پائی اور اپنے پسندیدہ گاؤں سرائے ۱کوڑہ میں دفن کیے گئے۔
خوشحال خان خٹک (1613-1689
http://pakistaniadab.files.wordpress.com/2011/02/khushal-khan-khattak.jpg?w=455
پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک (1613۔1689 عیسوی) صوبہ سرحد کے شہر نوشہرہ کے نزدیک ۱کوڑہ نامی قصبے میں پیدا ہوئے آپ خٹک قبیلے کے سربراہ تھے اور آپ نے کچھ عرصہ کے لئے مغلیہ حکمرانوں کے لئے بھی خدمات سرانجام دیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو حربی شاعر کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنے قلم کو بھی تلوار کی طرح استعمال کیا۔ اور اپنے گردا گرد پھیلی ہوئی دنیا میں اپنے افکار کی جڑیں مضبوط کرتے رہے۔ مغل بادشاہ شاہ جہان نے آپ کو اپنے ایک فوجی دستے کا سالار مقرر کیا اور آپ نے بلخ، بدخشاں اور کانگڑہ کی مہمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بعد ازاں آپ اورنگزیب کے ساتھ منسلک ہو گئے اور لاتعداد مہمات میں شامل رہے ۔ خوشحال خان خٹک مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ تھے ۔ آپ کی شعری تخلیقات میں ہندو ستان کے عصری تخلیقی ادب کی تمام تر خصوصیات واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
آپ کی شعری تخلیقات کو تین ادوار میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ ابتدائی شاعری روحانی تفکرات سے پر ہے۔ قیدی کی حیثیت سے لکھی گئی نظمیں حقیقی زندگی کے مختلف ادوار کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں اور اس کے بعد کے دور کی نظمیں صوفیانہ انداز میں مذہبی جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ آپ کی شاعری میں قبائلی روایات و انداز کے ساتھ ساتھ اخلاقی ، فطری اور انسانی حسن کی ترجمانی جا بجا نظر آتی ہے۔ روحانی تجربات اور آزادی پر مبنی موضوعات کو آپ نے اپنے پر قوت انداز میں اس طرح ادا کیا ہے کہ آپ کی شاعری عوام الناس میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرتی نظر آتی ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آپ کے گیت آج بھی حجروں اور چوپالوں میں اپنی تانیں بکھیر رہے ہیں۔ پشتو جاننے والا ہر شخص اپنے سینے میں خوشحال خان خٹک کی شاعری کا کچھ نہ کچھ حصہ لازمی طور پر سنبھالے بیٹھا ہے۔
خوشحال خان کی شاعری میں عربی الفاظ و اصطلاحات محض قرآن کے مطالعہ سے ہی نہیں آئے بلکہ ان کا گہرا مطالعہ ،عربی کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کی بے ساختہ شعری تعلیمات کو بھی آپ کی شاعری میں لے آیا۔ آپ کی شاعری میں زباندانی کے تجربوں کے ساتھ ساتھ سر اور لے میں ہم آہنگی بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ آپ نے عربی شاعری کی صنف بیت کو زیادہ تر اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ جو کہ نہ صرف پشتو زبان میں بلکہ لا تعداد دوسری زبانوں میں بھی بے پناہ مقبول ہے۔ اگرچہ جنگ وحرب آپ کا پیشہ تھا لیکن شاعری جیسے نازک جذبے کو آپ نے اپنے آپ سے الگ نہیں ہونے دیا۔
اورنگزیب ہی کے زمانے میں شہنشاہ نے یوسف زئی قبائل کو زیادہ ترجیح دینی شروع کر دی اور خوشحال کو گرفتار کر کے جئے پور کے قلعہ میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ قید و بند کی صعوبتوں کے بعد خوشحال خان خٹک کی تمام تر زندگی مغلوں کے خلاف مہمات میں بسر ہوئی اور انہوں نے پشتون قبائل کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی اس دور کی نظمیں بادشاہی نظام کے خلاف اور قبائل کے اتحاد کے لئے جدوجہد پر مبنی مضامین پر مشتمل ہیں۔اسی دور کی نظموں میں پشتون تشخص کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات، تصوف ، اقدار اور روایات پر مبنی ان کی شاعری آج تک زبان زدِ خاص وعام ہے۔ خوشحال خان خٹک نے جلا وطنی کے عالم میں۱۶۸۹ء میں وفات پائی اور اپنے پسندیدہ گاؤں سرائے ۱کوڑہ میں دفن کیے گئے۔