intelligent086
09-02-2015, 10:56 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13710_87839482.jpg.pagespeed.ic.EFjX-xBmL-.jpg
سمیع خان
جب 1965ء کی جنگ شروع ہوئی تھی، تو عنایت حسین بھٹی نے اپنا تمام سرمایہ پاکستان آرمی ڈیفنس میں جمع کرادیا۔ صرف 250 روپے اپنے پاس رکھے۔اُن کی بیگم نے کہا بھٹی صاحب اگر جنگ طویل ہوگئی، تو پھر کیا ہوگا؟بھٹی صاحب نے جواب دیا اگر میرا وطن ہی نا رہا تو پھر کیا ہوگا؟جنگ کے دوران بھٹی صاحب نے اپنی سحر بیان آواز میں جنگی ترانے گا گا کر پاکستانی فوجیوں کے خون کو گرما دیا۔ اُن کا گایا ایک جنگی ترانہ بہت مقبول ہوا ،جس کے بول تھے ’’اللہ کی رحمت کا سایہ،توحید کا پرچم لہرایا۔ ۔۔اے مرد ِمجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا ۔۔۔اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘۔اس ترانے کے آن ائیر ہونے کی دیر تھی کہ بھارتی سپاہیوں میں رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔اس کے علاوہ گلوکار شوکت علی نے اور بھی کئی ایسے گیت گائے ،جنھوں نے اس غیرت مندقوم کے جذبوں کو مزید اُجاگر کیا۔ اس کے علاوہ احمد رشدی کے گائے ہوئے گیتوں میں ’’میرا پیغام پاکستان‘‘،’’میری سرحد کو میرا لہو چاہیے‘‘،’’لاہور سربلند رہے لاہور‘‘ جیسے ملی نغمے شامل تھے ،جن کو سن کر روح میں ایک ولولہ پیدا ہوتا تھا۔گلوکار مسعود رانا نے بھی کئی یادگار ملی نغمے ریکارڈ کروائے، جن میں’’ ساتھیو جاگ اٹھا ہے، سارا وطن‘‘،’’اے دشمن ِدیں، تو نے کس قوم کو للکارا‘‘،’’یاد کرتا ہے زمانہ انھی انسانوں کو‘‘،’’میرا سوہنا دیس کساناں دا‘‘۔مہدی حسن کے ترانوں میں’’ اپنی جاں نذرکروں، اپنی وفا پیش کروں‘‘،’’یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے‘‘۔سلیم رضا نے ’’ہم لائے ہیں، طوفان سے کشتی نکال کے، اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے‘‘۔محمد علی شہکی کے گیتوں میں ’’میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے‘‘،’’وطن میں تیری عظمتوں کو سلام لکھتا ہوں‘‘ ،’’میرے وطن میرے چمن میری تمام شاعری ‘‘۔جنید جمشید کا گیت ’’دل دل پاکستان ،جاں جاں پاکستاں‘‘،’’ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے‘‘۔عالمگیر کا گیت ’’چاند میری پھول میرا وطن‘‘۔غلام عباس کا نغمہ’’ اے پاک وطن اے پاک زمیں تیرا دن موتی تیری رات نگیں‘‘۔گلوکار مجیب عالم کا گیت’’ یا رب میرے وطن کا پرچم بلند رکھنا‘‘۔استاد امانت علی خان کا گیت ’’ اے وطن پیارے وطن‘‘ ۔شہناز بیگم کا گیت ’’جیوے جیوے پاکستان ‘‘۔نسیم بیگم کا گیت ’’اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘‘۔منیر حسین کا گیت ’’جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی‘‘۔محمد افراہیم کا نغمہ ’’زمیں کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے‘‘جیسے ولولہ آمیز نغمے شامل تھے۔اس دَور کے ناقدین کا کہنا تھا کہ اُن نغموں کی گونج جب سرحد پار پہنچی تو دشمن کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ پاکستانی قوم کو شکست دینا آسان کام نہیں ۔ یہ جذبہ نہ صرف اس دَور میں زندہ تھا بلکہ اس کے بعد بھی یہ جذبہ آنے والی نسلوں تک پہنچا اور آج بھی یہ قوم تمام تر اختلافات کے باوجود مصیبت کی گھڑیوں میں ایک جھنڈے تلے جمع ہوکر اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک ہوجاتی ہے ۔آج ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اس جذبے کو پھر دلوں میں زندہ کیا جائے ،جس نے 1965ء میں بھارت کے دانت کھٹے کیے تھے تاکہ دنیا کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ مسلمانوں کا یہ ملک تا قیامت ناقابل تسخیر رہنے کے لیے بنا ہے اور اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دی جائیں گی۔ ٭…٭…٭
سمیع خان
جب 1965ء کی جنگ شروع ہوئی تھی، تو عنایت حسین بھٹی نے اپنا تمام سرمایہ پاکستان آرمی ڈیفنس میں جمع کرادیا۔ صرف 250 روپے اپنے پاس رکھے۔اُن کی بیگم نے کہا بھٹی صاحب اگر جنگ طویل ہوگئی، تو پھر کیا ہوگا؟بھٹی صاحب نے جواب دیا اگر میرا وطن ہی نا رہا تو پھر کیا ہوگا؟جنگ کے دوران بھٹی صاحب نے اپنی سحر بیان آواز میں جنگی ترانے گا گا کر پاکستانی فوجیوں کے خون کو گرما دیا۔ اُن کا گایا ایک جنگی ترانہ بہت مقبول ہوا ،جس کے بول تھے ’’اللہ کی رحمت کا سایہ،توحید کا پرچم لہرایا۔ ۔۔اے مرد ِمجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا ۔۔۔اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘۔اس ترانے کے آن ائیر ہونے کی دیر تھی کہ بھارتی سپاہیوں میں رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔اس کے علاوہ گلوکار شوکت علی نے اور بھی کئی ایسے گیت گائے ،جنھوں نے اس غیرت مندقوم کے جذبوں کو مزید اُجاگر کیا۔ اس کے علاوہ احمد رشدی کے گائے ہوئے گیتوں میں ’’میرا پیغام پاکستان‘‘،’’میری سرحد کو میرا لہو چاہیے‘‘،’’لاہور سربلند رہے لاہور‘‘ جیسے ملی نغمے شامل تھے ،جن کو سن کر روح میں ایک ولولہ پیدا ہوتا تھا۔گلوکار مسعود رانا نے بھی کئی یادگار ملی نغمے ریکارڈ کروائے، جن میں’’ ساتھیو جاگ اٹھا ہے، سارا وطن‘‘،’’اے دشمن ِدیں، تو نے کس قوم کو للکارا‘‘،’’یاد کرتا ہے زمانہ انھی انسانوں کو‘‘،’’میرا سوہنا دیس کساناں دا‘‘۔مہدی حسن کے ترانوں میں’’ اپنی جاں نذرکروں، اپنی وفا پیش کروں‘‘،’’یہ وطن تمھارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے‘‘۔سلیم رضا نے ’’ہم لائے ہیں، طوفان سے کشتی نکال کے، اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے‘‘۔محمد علی شہکی کے گیتوں میں ’’میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے‘‘،’’وطن میں تیری عظمتوں کو سلام لکھتا ہوں‘‘ ،’’میرے وطن میرے چمن میری تمام شاعری ‘‘۔جنید جمشید کا گیت ’’دل دل پاکستان ،جاں جاں پاکستاں‘‘،’’ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے‘‘۔عالمگیر کا گیت ’’چاند میری پھول میرا وطن‘‘۔غلام عباس کا نغمہ’’ اے پاک وطن اے پاک زمیں تیرا دن موتی تیری رات نگیں‘‘۔گلوکار مجیب عالم کا گیت’’ یا رب میرے وطن کا پرچم بلند رکھنا‘‘۔استاد امانت علی خان کا گیت ’’ اے وطن پیارے وطن‘‘ ۔شہناز بیگم کا گیت ’’جیوے جیوے پاکستان ‘‘۔نسیم بیگم کا گیت ’’اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘‘۔منیر حسین کا گیت ’’جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی‘‘۔محمد افراہیم کا نغمہ ’’زمیں کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے‘‘جیسے ولولہ آمیز نغمے شامل تھے۔اس دَور کے ناقدین کا کہنا تھا کہ اُن نغموں کی گونج جب سرحد پار پہنچی تو دشمن کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ پاکستانی قوم کو شکست دینا آسان کام نہیں ۔ یہ جذبہ نہ صرف اس دَور میں زندہ تھا بلکہ اس کے بعد بھی یہ جذبہ آنے والی نسلوں تک پہنچا اور آج بھی یہ قوم تمام تر اختلافات کے باوجود مصیبت کی گھڑیوں میں ایک جھنڈے تلے جمع ہوکر اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک ہوجاتی ہے ۔آج ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اس جذبے کو پھر دلوں میں زندہ کیا جائے ،جس نے 1965ء میں بھارت کے دانت کھٹے کیے تھے تاکہ دنیا کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ مسلمانوں کا یہ ملک تا قیامت ناقابل تسخیر رہنے کے لیے بنا ہے اور اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دی جائیں گی۔ ٭…٭…٭