View Full Version : عزم و شجاعت کی لازوال علامت معرکہ باٹا پور
intelligent086
09-02-2015, 10:51 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13711_76416246.jpg.pagespeed.ic.PmjY4BXMHh .jpg
میجر جنرل(ر) تجمل حسین ملک
اعلیٰ کمان کی بے خبری احکام کے مطابق ہم نے رات کے بارہ بجے یونٹ لائنز سے کوچ کیا۔ قریباً دس میل چلنے کے بعد ہربنس پورہ کے نزدیک میں نے بٹالین کو تھوڑی دیر سستانے کی غرض سے روک دیا۔ اس وقت صبح کے ساڑھے تین بج رہے تھے۔ بی آر بی تک پہنچنے کے لیے ہمیں چار میل کا فاصلہ مزید طے کرنا تھا۔ دوران وقفہ یونٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ میجر نفیس الدین انصاری نے مجھے بتایا کہ انھوں نے گزشتہ رات بھارتی ریڈیو پر یہ شرانگیز خبر سنی، پاکستانی فوج نے امرتسر اور بعض دوسرے سرحدی مقامات پر بمباری کی ہے۔ہمارے نزدیک اس خبر میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ انھوں نے خیال ظاہر کیا، شاید دشمن کوئی گڑبڑ کرنے کے لیے زمین ہموار کر رہا ہے۔میں نے کہا ’’ایسا ممکن ہے، لیکن ہمیں جو احکام ملے ہیں، ان کے مطابق ہم دفاعی مورچے بھی نہیں کھود سکتے جب تک کہ جی او سی اور بریگیڈ کمانڈر دونوں جگہ کا معائنہ کر کے اس کی منظوری نہ دیں۔‘‘ میں نے یہ جزئیات اس غرض سے بیان کی ہیں، ہماری اعلیٰ کمان دشمن کے منصوبے سے قطعی بے خبر تھی کہ وہ 6ستمبر کو صبح سویرے لاہور پر حملہ کرنے والا ہے۔ معاملے کا بدترین پہلو یہ ہے کہ دشمن کو اس چیز کا پوری طرح علم تھا کہ ہم نے حملے کی روک تھام کے لیے کوئی تیاری نہیں کی۔ بھارت کے کمانڈر انچیف جنرل چودھری (فاتح حیدر آباد دکن و گوا) نے جب یہ فرمان امروز جاری کیا کہ اس نے بعض افسروں کو آج شام چانچ بجے جم خانہ کلب، لاہور میں منعقد ہونے والی محفل رقص و سرود میں شرکت کی دعوت دی ہے، تو وہ قطعاً غلطی پر نہیں تھا۔اسے معلوم تھا کہ لاہور میں واہگہ اور راوی کے پل کے درمیان کوئی دفاعی لائن موجود نہیں، جو اس کی بڑھتی فوج کا راستہ روک سکے۔ اس علاقے میں سرحدی فوج کے جو چند چھوٹے موٹے دستے تعینات تھے، انھیں حملہ آور فوج کی قیادت کرنے والے ٹینک ذرا سی دیر میں نیست و نابود کر سکتے تھے۔ بھارتی فوج کی یلغار میری الفا کمپنی نے (جس کی کمان میجر انور حسین شاہ کر رہے تھے) پانچ ستمبر کی شام ڈوگرائی کے علاقے میں دفاعی پوزیشن سنبھال لی۔ انھیں بھی یہی ہدایت کی گئی کہ تاحکم ثانی مورچے نہ کھودیں، تاہم پوری طرح چوکس رہیں۔ 6ستمبر کو صبح ساڑھے پانچ بجے باقی بٹالین بھی اپنی منزل پر پہنچ گئی۔ میں نے کمپنیوں کو ان کی طے کردہ دفاعی پوزیشن کی طرف کوچ کا حکم دیا۔ میں نماز فجر پڑھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ بٹالین کے انٹیلی جنس افسر لیفٹنٹ خالد (بعدہ میجر جنرل) آئے اور کہنے لگے ’’سر بریگیڈ میجر نے ابھی ابھی فون پر اطلاع دی ہے کہ بھارتی فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ پیش قدمی کرتے ہوئے وہ واہگہ بارڈر کی سرحدی چوکی نیز گونڈی پر قبضہ کر چکی۔ اب وہ لاہور کی طرف بڑھ رہی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میں نے جسم میں جھرجھری سی محسوس کی۔ میرا سپاہیانہ جذبہ ایک دم بیدار ہو گیا۔ ایسے موقع پر مسلمان سپاہی محاذ جنگ پر جانے کی سوچتا ہے۔ جہاد کا اعلان سن کر اس کی کیفیت ہی کچھ اور ہو جاتی ہے اور وہاں تو حق و باطل کے درمیان سچ مچ کی لڑائی شروع ہو چکی تھی۔ میں نے انٹیلی جنس افسر کو حکم دیا کہ میری جیپ تیار کرائو، میں اگلے مورچوں کا معائنہ کرنے جائوں گا۔ دریں اثنا میں نے دوگانہ کے نفل ادا کیے۔ جہاد پر روانہ ہونے سے پہلے مسلمان سپاہی کے لیے دوگانہ نفلوں کی ادائی موجب اطمینان و تقویت ہوتی ہے۔ میں فرنٹ کی طرف روانہ ہونے والا تھا کہ فضا میں دشمن کے چھ طیارے نظر آئے جو ہماری پوزیشنوں پر سے ہوتے ہوئے لاہور کی طرف چلے گے۔ شاید یہ وہی بمبار طیارے تھے جنھوں نے 6ستمبر کی صبح سویرے گوجرانوالہ کے قریب ہماری ایک ریل گاڑی پر بمباری کی تھی۔ دشمن کی پیش قدمی دشمن کے 15ڈویژن نے جو چار بریگیڈ پر مشتمل تھا، واہگہ سیکٹر اور71ڈویژن نے جس میں مقررہ تعداد سے ایک بریگیڈ کم تھا، برکی سیکٹر میں پیش قدمی شروع کی۔ ان کے نزدیک واہگہ سیکٹر کی اہمیت بہت زیادہ تھی کیونکہ جی ٹی روڈ جیسی بڑی شاہراہ اس کے درمیان سے گزرتی ہے۔ پھر شالامار باغ پہنچنے کے بعد وہ محمود بوٹی بند تک پیش قدمی کرتے ہوئے شہر کے گنجان آباد علاقہ میں داخل ہوئے بغیر راوی پل پر قبضہ کر سکتے تھے۔ یوں لاہور چھائونی میں مقیم ہماری فوج گھیرے میں آجاتی۔اگر ہم لڑائی کے لیے تیار نہ ہوتے تو لاہور گیریژن کے محصور دستوںکو باہر سے کوئی کمک بھی نہیں پہنچ سکتی تھی۔ ڈویڑنل آرٹلری کی زیادہ تر یونٹیں اور22بریگیڈ (جو ریزرو میں تھا) 6ستمبر کو معمول کی پی ٹی اور پریڈ کرنے میں مصروف ہوتا۔ ادھر بی آر بی نہر کے کنارے ہماری اگلی پوزیشنوں پر حملہ ہو چکا تھا۔ لاہور گریژن کے زیادہ تر افسروں نے بھارتی حملے کی خبر ناشتہ کرتے ہوئے سنی۔ 15بلوچ رجمنٹ کی دو کمپنیاں معمول کی فائر پریکٹس کرنے رینچ پر گئی ہوئی تھی۔ انھیں فوراً واپسی کے احکام ملے۔میں نے بی کمپنی کے کمانڈر میجر محمد نواز کو جلوپل کے نزدیک لائن اور منہالہ برج کے درمیانی علاقہ کا دفاع کرنے کی ذمہ داری سونپی جو قریباً2000گز لمبا محاذ تھا۔ یہ کمپنی صبح چھ بجے کے قریب اپنی پوزیشن پر پہنچی تو انھیں ایک ہزارگز کے فاصلے پر دشمن کے دستے صف بندی کرتے نظر آئے۔ وہ حیران و ششدر رہ گئے کیونکہ دفاعی پوزیشنیں دشمن کے متوقع حملہ سے بہت پہلے بارودی سرنگیں بچھا اور مختلف قسم کی دوسری رکاوٹیں کھڑی کر کے تیار کی جاتی ہیں۔ ہماری حالت یہ تھی کہ نہ تو ہم مورچے کھود سکے تھے نہ ہی ہمارے پاس لڑائی کے لیے مطلوبہ اسلحہ تھا۔جوانوں کے پاس تھیلی (Pouch) میں موجود اسلحے سے زیادہ دیر تک لڑنا ممکن نہ تھا۔ کمپنی کمانڈر دلیر آدمی تھا، اس نے صورت حال کی سنگینی فوراً بھانپ لی۔ فائرنگ شروع کرنے کی خاطر اعلیٰ کمان سے اجازت لینے کے عام تکلفات پورے کرنے کا موقع نہیں تھا۔ اس نے توپ خانہ کے او پی (آبزویشن آفیسر) کو صورت حال سے مطلع کیا۔ او پی نے جلد ہدف کا پتا لگایا اور کمپنی کے دور تک مار کرنے والے ہتھیاروں سے دشمن پر فائرنگ شروع کرا دی۔ دشمن اس غیر متوقع شدید فائرنگ سے سٹ پٹا کے رہ گیا۔ انھیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ بی آر بی نہر کے علاقہ میں پاکستان کا ایک بھی فوجی موجود نہیں۔ اس ناگہانی فائر سے دشمن کے ہوش اڑ گئے،جس وقت میں بی کمپنی میں پہنچا دونوں طرف سے زبردست فائرنگ ہو رہی تھی۔ ہمارے جوانوں کے پاس وہی تھوڑا سا اسلحہ تھا جو وہ اپنی تھیلیوں میں لائے تھے۔ یونٹ کی گاڑیاں مزید اسلحہ لے کر روانہ ہوچکی تھیں، لیکن ان کے پہنچنے میں دیر تھی۔ اگر دشمن دبائو ڈالتا تو ہمارا اسلحہ جلد ختم ہو جاتا۔ تب جوانوں کو رائفلوں پر سنگینیں چڑھا کر لڑنا پڑتا جو جنگ کا آخری حربہ ہے۔ 6ستمبر کی صبح کو جنگ کا آغاز ہوا تو ہمارے جوانوں کے حوصلے بہت بلند تھے۔ ان میں کسی قسم کا خوف و ہراس تھا نہ مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھنے کی فرصت۔ وہ مضبوطی سے اپنی اپنی پوزیشن پر ڈٹ گئے اور دشمن کے پہلے اچانک حملہ کو ناکام بنا دیا۔بی کمپنی کی پوزیشن قدرے مستحکم ہو گئی تو میں نے بٹالین کے محاذ کامعائنہ کیا جو بی آر بی نہر کے ساتھ ساتھ قریباً پانچ میل تک پھیلاہوا تھا۔ ہمارے علاقے میں نہر پر چھے پل تھے۔ اگلی کمپنیوں نے نہر کے دونوں کناروں پر پوزیشنیں لے رکھی تھیں۔ جلو پل پر منہ کی کھانے کے بعد دشمن نے جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ بڑھنا شروع کیا۔ آگے آگے ٹینک اور ان کے پیچھے پیدل دستے۔ واہگہ پوسٹ اور باٹا پور برج کے درمیان قریباً سات میل کا فاصلہ ہے۔ واہگہ پر وہ پہلے ہی قبضہ کر چکے تھے۔ سرحدی پٹی میں رہنے والے لوگ دشمن کے ممکنہ حملہ سے خبردار نہیں تھے۔ وہ حسب معمول اٹھے اور معمول کی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ ناگہاں دشمن کے ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ سنی اور خود کو چاروں طرف سے دشمن کے نرغہ میں پایا تو سب کچھ چھوڑ کر لاہور کی طرف سرپٹ بھاگ اٹھے۔ (جاری ہے
UmerAmer
09-02-2015, 03:40 PM
(گذشتہ سے پیوستہ) غیبی مدد اب تک ہمارے تمام پل صحیح سالم تھے کیونکہ جی او سی کی اجازت کے بغیر پل تباہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میری دو اگلی کمپنیوں نے نہر کے دونوں کناروں پر پوزیشن لے رکھی تھی۔ ابھی تک انھیں مورچے کھودنے کی مہلت نہیں ملی تھی۔ اس لیے وہ قدرتی آڑیا اوٹ سے مدد لے رہے تھے۔ اگلی دفاعی لائن مستحکم کرنے کے لیے میں نے پیچھے کی دو کمپنیوں کو حکم دیا کہ وہ آگے بڑھ کر خالی جگہوں پر قبضہ کر لیں۔ میری بٹالین پورے پانچ میل کے محاذ پر صف آرا تھی۔ پلوں کی حفاظت کے لیے دو ٹینک شکن گنیں لگا دی گئیں۔ عین اس نازک لمحے پر جب ہم گنوں کے لیے آڑ ڈھونڈ رہے تھے، ایک بوڑھا آدمی چارے سے بھری بیل گاڑی پل کے پار لے آیا۔ میں نے اس سے کہا ’’بابا گاڑی یہیں رہنے دو اور اپنے بیل کھول کر لے جائو۔‘‘ اس نے میری بات مان لی۔ یہ ایک غیبی مدد تھی۔ ہم نے ایک گن بیل گاڑی کی اوٹ میں چھپا دی اور دوسری ایک زیر تعمیر مسجد کے پچھلے حصے میں۔ ہم اس بھاگ دوڑ میں مصروف تھے۔ اتنے میں بریگیڈ کمانڈر، بریگیڈیئر آفتاب، انجینئر کمانڈر کرنل سلیمان اور آرٹلری کمانڈر کرنل امداد حسین موقع پر پہنچ گئے۔ دشمن کے ٹینکوں کی تباہی دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا اور ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔مہاجرین دشمن ٹینک کے آگے آگے بھاگ رہے تھے۔ اس طرح ہماری گولہ باری میں رکاوٹ پڑی۔ ہم ممکنہ حد تک لوگوں کو فائر سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے جب کہ دشمن اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔ دشمن کا پہلا ٹینک جونہی پل کے نزدیک پہنچا، بیل گاڑی کی اوٹ میں چھپی گن نے ایک گولہ فائر کیا جو نشانے پر لگا۔ چند ثانئے بعد دشمن کے ٹینک سے شعلے اٹھتے نظر آئے۔ان کے دوسرے ٹینک نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور ہماری گن پوزیشن پر فائر کیا۔ گولہ لگنے سے جہاں بیل گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوئی وہاں معجزانہ طور پر گن صاف بچ گئی۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ہماری گن سے دوسرا گولہ داغا گیا، جس نے دوسرا ٹینک بھی تباہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی پیش قدمی کرتے دشمن پر خود کار ہتھیار سے فائر کھول دیا گیا۔ توپ خانہ بھی آگ اگلنے لگا۔ دشمن کے بڑھتے قدم عارضی طور پر رک گئے۔بریگیڈ کمانڈر نے صورت حال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ جی او سی کی طرف سے تمھیں پل تباہ کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔ ابھی تک دونوں طرف سے وقفے وقفے سے فائرنگ جاری تھی۔ انجینئر پارٹی نے پل اڑانے کی کوشش کی، لیکن اسے جزوی کامیابی حاصل ہوئی۔ بڑا حصہ دونوں کناروں سمیت محفوظ رہا۔ تاہم اس پر سے گاڑیاں نہیں، صرف پیدل دستے گزر سکتے تھے۔ صورت حال بڑی نازک ہو گئی۔ میں نے اپنی درمیانی دو کمپنیوں کی نہر کے ساتھ صف بندی کرا دی تاکہ پلوں کی حفاظت کر سکیں۔ اب میرے پاس ریزرو میں کوئی دستہ نہیں تھا۔ دشمن نہر پار کرنے کے لیے کسی جگہ پر قبضہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔اس مرحلے پر میں نے اپنے بریگیڈ کمانڈر سے کہا ’’مناسب ہو گا کہ آپ یہاں سے پیچھے جا کر دوسری دفاعی لائن بنا لیں۔ ممکن ہے دشمن ہماری پوزیشن روندتا ہوا آگے بڑھ جائے۔ وہ ہماری دفاعی پوزیشن کی کمزوریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔‘‘ بریگیڈیئر صاحب سیدھے لاہور سے آئے تھے۔ یہ بات ان کے علم میں تھی کہ پیچھے کا سارا علاقہ نیز بی آر بی نہر اور راوی کے پل تک کا درمیانی علاقہ مکمل طور پر خالی ہے۔ خدانخواستہ دشمن ہماری پوزیشنوں کو روند کر نکل جاتا تو لاہور تک کوئی اسے روکنے والا نہیں تھا۔ وہ ٹینکوں پر سوار ہو کرجی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے باآسانی شالامار باغ پہنچ جاتے۔وہاں سے محمود بوٹی بندکی راہ اختیار کر کے گیارہ بجے سے پہلے راوی برج تک کے علاقے پر قبضہ کرتے تو چھائونی میںموجود دستوں کو ان کے سامنے ہتھیار ڈالے بغیر چارہ نہ رہتا۔ یقینا یہ ایک قرین قیاس راہ عمل تھی، جسے اختیار میں وہ پوری طرح آزاد تھے۔ 6ستمبر کی نشانی بریگیڈ کمانڈر رخصت ہونے لگے ،تو میں نے ایک خالی کارتوس ۶ستمبر کی نشانی کے طور پر انھیں پیش کیا۔ میں نے ایسے دو کارتوس اس وقت اٹھائے جب صبح ہم دشمن کے فضائی حملے کی زد میں آئے تھے۔ دوسرا کارتوس میں نے اپنے پاس رکھ لیا۔ وطن کے جاں نثار سپاہیوں کے لیے ایسی نشانیاں کسی نئے تعمیر شدہ پل کی رسم افتتاح ادا کرنے یا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اربوں روپے کے صنعتی منصوبے کا ’’سنگ بنیاد‘‘ رکھنے کی یادگاری تختی سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ باٹاپور برج کے جزوی انہدام اور دو بھارتی ٹینکوں کی تباہی کے بعد دشمن کی پیش قدمی مدہم پڑ گئی، تاہم ان کے پیدل فوجی موضع ڈوگرائی کے آباد علاقے کی اوٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے اور ان کی خاصی تعداد پل کے قریب جمع ہو گئی۔ یوں میرے ان جوانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں جو پل کی حفاظت پر مامور تھے۔ نیز پل دشمن کے قبضہ میں چلے جانے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا۔ میں نے فوراً توپ خانے کو حکم دیا کہ پل کے اوپر ’’ایس او ایس‘‘ فائر گرایا جائے۔ جنگی طیاروں کی آمد یہ ایک مشکل فیصلہ تھا تاہم کمانڈر کو ضرورت پڑنے پر کسی سے مشورہ کیے بغیر ایسا کرنا پڑتا ہے۔ ہم ابھی تک کھلے میدان میں تھے۔ دشمن کے ناگہانی حملہ نے ہمیں مورچے کھودنے کی مہلت بھی نہ دی۔ میرے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ اپنے کچھ جوانوں کی جانوں کے ضیاع کا خطرہ قبول کرتے ہوئے توپ خانہ سے بمباری کرائوں۔ دشمن ہم پر بھرپور وار کرنے کے لیے قریب ہی جمع ہو رہا تھا۔ ہمیں ہر قیمت پر انھیں روکنا تھا۔ فائر کا حکم دینے کے بعد انٹیلی جنس افسر خالد نواز اور وائرلیس آپریٹر کے ساتھ میں بھی ایک گڑھے میں چھپ گیا۔ چند ثانیے بعد ہماری توپیں آگ اگلنے لگیں۔ زیادہ تر گولے پل پر گرے اور بالکل صحیح نشانے پر لگے۔ بھارتی سپاہی کسی اوٹ کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگے۔ عین اس وقت جب ہم موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے، ہمارے دو لڑاکا طیارے فضا میں نمودار ہوئے۔ انھوں نے زمین پر گھمسان کارن پڑتے دیکھا تو فوراً واپس پلٹے۔ دشمن کا ہر اول دستہ جس میں ٹینک، توپیں اور جنگی سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں شامل تھیں، اپنی سرحدوں کی جانب بڑھتے دیکھ کر انھوں نے غوطہ لگایا اور زبردست فائرنگ کر کے بھارتیوں کا اسی طرح کچومر نکال دیا جیسے ابابیلوں نے ابرہہ کے ہاتھیوں کا قیمہ بنا دیا تھا۔ دشمن کو پیش قدمی بھول گئی بلکہ الٹا اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ ہمارے شاہینوں نے اتنی پھرتی سے بم باری کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ میں نے کھڑے ہو کر وہ یادگار اور دلچسپ منظر دیکھا۔ حالانکہ اس لمحے میری اپنی پوزیشن فائر کی زد میں تھی۔ ان طیاروں کی اچانک آمد ہمارے لیے غیبی مدد ثابت ہوئی۔ جنگوں میں اکثر نازک لمحات آتے ہیں۔ میرے خیال میں ۱۹۶۵ء کی جنگ کا سب سے نازک لمحہ وہی تھا، جب وہ طیارے فضا میں نمودار ہوئے۔ جنگ بندی کے چند ماہ بعد ان دو لڑاکا طیاروں میں سے ایک طیارہ کا پائلٹ، جس نے ۶ستمبر کی صبح کو لڑائی میں حصہ لیا اور دشمن کا بھرکس نکال دیا، باٹا پور میں واقعی ہماری پوزیشن کے دورے پر آیا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’آیا اس روز انھیں خاص طور پر کسی جنگی مشن پر بھیجا گیا تھا یا وہ اتفاقاً ادھر آ نکلے تھے؟‘‘۔ اس نے بتایا ’’ہم معمول کے جاسوسی مشن پر تھے۔ جونہی ہم نے ٹینکوں اور گاڑیوں پر سوار دشمن سپاہیوں کو اپنی سرحدوں کی طرف بڑھتے دیکھا، تو اسے ایک اچھا ہدف سمجھا اور آناً فاناً سارا اسلحہ فائر کر دیا۔‘‘ ایوب خان کا قوم سے خطاب دشمن نے لاہور پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے منصوبے کی بنیاد ’’حیرت‘‘ اور ’’برق رفتاری‘‘ پر رکھی تھی۔ جنرل چودھری نے حیدرآباد دکن اور گوا پر حملہ کرتے وقت بھی اسی تدبیر پر عمل کیا تھا۔ (جاری ہے
Nice Sharing
Thanks For Sharing
KhUsHi
09-05-2015, 04:18 PM
بہت ہی پیاری شئیرنگ کی ہے
آپکی مزید اچھی اچھی شئیرنگ کا انتظار رہے گا
بہت بہت شکریہ
intelligent086
09-06-2015, 10:05 AM
بہت ہی پیاری شئیرنگ کی ہے
آپکی مزید اچھی اچھی شئیرنگ کا انتظار رہے گا
بہت بہت شکریہ
http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif
Dr Danish
09-15-2015, 09:28 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13711_76416246.jpg.pagespeed.ic.PmjY4BXMHh .jpg
میجر جنرل(ر) تجمل حسین ملک
اعلیٰ کمان کی بے خبری احکام کے مطابق ہم نے رات کے بارہ بجے یونٹ لائنز سے کوچ کیا۔ قریباً دس میل چلنے کے بعد ہربنس پورہ کے نزدیک میں نے بٹالین کو تھوڑی دیر سستانے کی غرض سے روک دیا۔ اس وقت صبح کے ساڑھے تین بج رہے تھے۔ بی آر بی تک پہنچنے کے لیے ہمیں چار میل کا فاصلہ مزید طے کرنا تھا۔ دوران وقفہ یونٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ میجر نفیس الدین انصاری نے مجھے بتایا کہ انھوں نے گزشتہ رات بھارتی ریڈیو پر یہ شرانگیز خبر سنی، پاکستانی فوج نے امرتسر اور بعض دوسرے سرحدی مقامات پر بمباری کی ہے۔ہمارے نزدیک اس خبر میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ انھوں نے خیال ظاہر کیا، شاید دشمن کوئی گڑبڑ کرنے کے لیے زمین ہموار کر رہا ہے۔میں نے کہا ’’ایسا ممکن ہے، لیکن ہمیں جو احکام ملے ہیں، ان کے مطابق ہم دفاعی مورچے بھی نہیں کھود سکتے جب تک کہ جی او سی اور بریگیڈ کمانڈر دونوں جگہ کا معائنہ کر کے اس کی منظوری نہ دیں۔‘‘ میں نے یہ جزئیات اس غرض سے بیان کی ہیں، ہماری اعلیٰ کمان دشمن کے منصوبے سے قطعی بے خبر تھی کہ وہ 6ستمبر کو صبح سویرے لاہور پر حملہ کرنے والا ہے۔ معاملے کا بدترین پہلو یہ ہے کہ دشمن کو اس چیز کا پوری طرح علم تھا کہ ہم نے حملے کی روک تھام کے لیے کوئی تیاری نہیں کی۔ بھارت کے کمانڈر انچیف جنرل چودھری (فاتح حیدر آباد دکن و گوا) نے جب یہ فرمان امروز جاری کیا کہ اس نے بعض افسروں کو آج شام چانچ بجے جم خانہ کلب، لاہور میں منعقد ہونے والی محفل رقص و سرود میں شرکت کی دعوت دی ہے، تو وہ قطعاً غلطی پر نہیں تھا۔اسے معلوم تھا کہ لاہور میں واہگہ اور راوی کے پل کے درمیان کوئی دفاعی لائن موجود نہیں، جو اس کی بڑھتی فوج کا راستہ روک سکے۔ اس علاقے میں سرحدی فوج کے جو چند چھوٹے موٹے دستے تعینات تھے، انھیں حملہ آور فوج کی قیادت کرنے والے ٹینک ذرا سی دیر میں نیست و نابود کر سکتے تھے۔ بھارتی فوج کی یلغار میری الفا کمپنی نے (جس کی کمان میجر انور حسین شاہ کر رہے تھے) پانچ ستمبر کی شام ڈوگرائی کے علاقے میں دفاعی پوزیشن سنبھال لی۔ انھیں بھی یہی ہدایت کی گئی کہ تاحکم ثانی مورچے نہ کھودیں، تاہم پوری طرح چوکس رہیں۔ 6ستمبر کو صبح ساڑھے پانچ بجے باقی بٹالین بھی اپنی منزل پر پہنچ گئی۔ میں نے کمپنیوں کو ان کی طے کردہ دفاعی پوزیشن کی طرف کوچ کا حکم دیا۔ میں نماز فجر پڑھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ بٹالین کے انٹیلی جنس افسر لیفٹنٹ خالد (بعدہ میجر جنرل) آئے اور کہنے لگے ’’سر بریگیڈ میجر نے ابھی ابھی فون پر اطلاع دی ہے کہ بھارتی فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ پیش قدمی کرتے ہوئے وہ واہگہ بارڈر کی سرحدی چوکی نیز گونڈی پر قبضہ کر چکی۔ اب وہ لاہور کی طرف بڑھ رہی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میں نے جسم میں جھرجھری سی محسوس کی۔ میرا سپاہیانہ جذبہ ایک دم بیدار ہو گیا۔ ایسے موقع پر مسلمان سپاہی محاذ جنگ پر جانے کی سوچتا ہے۔ جہاد کا اعلان سن کر اس کی کیفیت ہی کچھ اور ہو جاتی ہے اور وہاں تو حق و باطل کے درمیان سچ مچ کی لڑائی شروع ہو چکی تھی۔ میں نے انٹیلی جنس افسر کو حکم دیا کہ میری جیپ تیار کرائو، میں اگلے مورچوں کا معائنہ کرنے جائوں گا۔ دریں اثنا میں نے دوگانہ کے نفل ادا کیے۔ جہاد پر روانہ ہونے سے پہلے مسلمان سپاہی کے لیے دوگانہ نفلوں کی ادائی موجب اطمینان و تقویت ہوتی ہے۔ میں فرنٹ کی طرف روانہ ہونے والا تھا کہ فضا میں دشمن کے چھ طیارے نظر آئے جو ہماری پوزیشنوں پر سے ہوتے ہوئے لاہور کی طرف چلے گے۔ شاید یہ وہی بمبار طیارے تھے جنھوں نے 6ستمبر کی صبح سویرے گوجرانوالہ کے قریب ہماری ایک ریل گاڑی پر بمباری کی تھی۔ دشمن کی پیش قدمی دشمن کے 15ڈویژن نے جو چار بریگیڈ پر مشتمل تھا، واہگہ سیکٹر اور71ڈویژن نے جس میں مقررہ تعداد سے ایک بریگیڈ کم تھا، برکی سیکٹر میں پیش قدمی شروع کی۔ ان کے نزدیک واہگہ سیکٹر کی اہمیت بہت زیادہ تھی کیونکہ جی ٹی روڈ جیسی بڑی شاہراہ اس کے درمیان سے گزرتی ہے۔ پھر شالامار باغ پہنچنے کے بعد وہ محمود بوٹی بند تک پیش قدمی کرتے ہوئے شہر کے گنجان آباد علاقہ میں داخل ہوئے بغیر راوی پل پر قبضہ کر سکتے تھے۔ یوں لاہور چھائونی میں مقیم ہماری فوج گھیرے میں آجاتی۔اگر ہم لڑائی کے لیے تیار نہ ہوتے تو لاہور گیریژن کے محصور دستوںکو باہر سے کوئی کمک بھی نہیں پہنچ سکتی تھی۔ ڈویڑنل آرٹلری کی زیادہ تر یونٹیں اور22بریگیڈ (جو ریزرو میں تھا) 6ستمبر کو معمول کی پی ٹی اور پریڈ کرنے میں مصروف ہوتا۔ ادھر بی آر بی نہر کے کنارے ہماری اگلی پوزیشنوں پر حملہ ہو چکا تھا۔ لاہور گریژن کے زیادہ تر افسروں نے بھارتی حملے کی خبر ناشتہ کرتے ہوئے سنی۔ 15بلوچ رجمنٹ کی دو کمپنیاں معمول کی فائر پریکٹس کرنے رینچ پر گئی ہوئی تھی۔ انھیں فوراً واپسی کے احکام ملے۔میں نے بی کمپنی کے کمانڈر میجر محمد نواز کو جلوپل کے نزدیک لائن اور منہالہ برج کے درمیانی علاقہ کا دفاع کرنے کی ذمہ داری سونپی جو قریباً2000گز لمبا محاذ تھا۔ یہ کمپنی صبح چھ بجے کے قریب اپنی پوزیشن پر پہنچی تو انھیں ایک ہزارگز کے فاصلے پر دشمن کے دستے صف بندی کرتے نظر آئے۔ وہ حیران و ششدر رہ گئے کیونکہ دفاعی پوزیشنیں دشمن کے متوقع حملہ سے بہت پہلے بارودی سرنگیں بچھا اور مختلف قسم کی دوسری رکاوٹیں کھڑی کر کے تیار کی جاتی ہیں۔ ہماری حالت یہ تھی کہ نہ تو ہم مورچے کھود سکے تھے نہ ہی ہمارے پاس لڑائی کے لیے مطلوبہ اسلحہ تھا۔جوانوں کے پاس تھیلی (Pouch) میں موجود اسلحے سے زیادہ دیر تک لڑنا ممکن نہ تھا۔ کمپنی کمانڈر دلیر آدمی تھا، اس نے صورت حال کی سنگینی فوراً بھانپ لی۔ فائرنگ شروع کرنے کی خاطر اعلیٰ کمان سے اجازت لینے کے عام تکلفات پورے کرنے کا موقع نہیں تھا۔ اس نے توپ خانہ کے او پی (آبزویشن آفیسر) کو صورت حال سے مطلع کیا۔ او پی نے جلد ہدف کا پتا لگایا اور کمپنی کے دور تک مار کرنے والے ہتھیاروں سے دشمن پر فائرنگ شروع کرا دی۔ دشمن اس غیر متوقع شدید فائرنگ سے سٹ پٹا کے رہ گیا۔ انھیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ بی آر بی نہر کے علاقہ میں پاکستان کا ایک بھی فوجی موجود نہیں۔ اس ناگہانی فائر سے دشمن کے ہوش اڑ گئے،جس وقت میں بی کمپنی میں پہنچا دونوں طرف سے زبردست فائرنگ ہو رہی تھی۔ ہمارے جوانوں کے پاس وہی تھوڑا سا اسلحہ تھا جو وہ اپنی تھیلیوں میں لائے تھے۔ یونٹ کی گاڑیاں مزید اسلحہ لے کر روانہ ہوچکی تھیں، لیکن ان کے پہنچنے میں دیر تھی۔ اگر دشمن دبائو ڈالتا تو ہمارا اسلحہ جلد ختم ہو جاتا۔ تب جوانوں کو رائفلوں پر سنگینیں چڑھا کر لڑنا پڑتا جو جنگ کا آخری حربہ ہے۔ 6ستمبر کی صبح کو جنگ کا آغاز ہوا تو ہمارے جوانوں کے حوصلے بہت بلند تھے۔ ان میں کسی قسم کا خوف و ہراس تھا نہ مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھنے کی فرصت۔ وہ مضبوطی سے اپنی اپنی پوزیشن پر ڈٹ گئے اور دشمن کے پہلے اچانک حملہ کو ناکام بنا دیا۔بی کمپنی کی پوزیشن قدرے مستحکم ہو گئی تو میں نے بٹالین کے محاذ کامعائنہ کیا جو بی آر بی نہر کے ساتھ ساتھ قریباً پانچ میل تک پھیلاہوا تھا۔ ہمارے علاقے میں نہر پر چھے پل تھے۔ اگلی کمپنیوں نے نہر کے دونوں کناروں پر پوزیشنیں لے رکھی تھیں۔ جلو پل پر منہ کی کھانے کے بعد دشمن نے جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ بڑھنا شروع کیا۔ آگے آگے ٹینک اور ان کے پیچھے پیدل دستے۔ واہگہ پوسٹ اور باٹا پور برج کے درمیان قریباً سات میل کا فاصلہ ہے۔ واہگہ پر وہ پہلے ہی قبضہ کر چکے تھے۔ سرحدی پٹی میں رہنے والے لوگ دشمن کے ممکنہ حملہ سے خبردار نہیں تھے۔ وہ حسب معمول اٹھے اور معمول کی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ ناگہاں دشمن کے ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ سنی اور خود کو چاروں طرف سے دشمن کے نرغہ میں پایا تو سب کچھ چھوڑ کر لاہور کی طرف سرپٹ بھاگ اٹھے۔ (جاری ہے
(گذشتہ سے پیوستہ) غیبی مدد اب تک ہمارے تمام پل صحیح سالم تھے کیونکہ جی او سی کی اجازت کے بغیر پل تباہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میری دو اگلی کمپنیوں نے نہر کے دونوں کناروں پر پوزیشن لے رکھی تھی۔ ابھی تک انھیں مورچے کھودنے کی مہلت نہیں ملی تھی۔ اس لیے وہ قدرتی آڑیا اوٹ سے مدد لے رہے تھے۔ اگلی دفاعی لائن مستحکم کرنے کے لیے میں نے پیچھے کی دو کمپنیوں کو حکم دیا کہ وہ آگے بڑھ کر خالی جگہوں پر قبضہ کر لیں۔ میری بٹالین پورے پانچ میل کے محاذ پر صف آرا تھی۔ پلوں کی حفاظت کے لیے دو ٹینک شکن گنیں لگا دی گئیں۔ عین اس نازک لمحے پر جب ہم گنوں کے لیے آڑ ڈھونڈ رہے تھے، ایک بوڑھا آدمی چارے سے بھری بیل گاڑی پل کے پار لے آیا۔ میں نے اس سے کہا ’’بابا گاڑی یہیں رہنے دو اور اپنے بیل کھول کر لے جائو۔‘‘ اس نے میری بات مان لی۔ یہ ایک غیبی مدد تھی۔ ہم نے ایک گن بیل گاڑی کی اوٹ میں چھپا دی اور دوسری ایک زیر تعمیر مسجد کے پچھلے حصے میں۔ ہم اس بھاگ دوڑ میں مصروف تھے۔ اتنے میں بریگیڈ کمانڈر، بریگیڈیئر آفتاب، انجینئر کمانڈر کرنل سلیمان اور آرٹلری کمانڈر کرنل امداد حسین موقع پر پہنچ گئے۔ دشمن کے ٹینکوں کی تباہی دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا اور ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔مہاجرین دشمن ٹینک کے آگے آگے بھاگ رہے تھے۔ اس طرح ہماری گولہ باری میں رکاوٹ پڑی۔ ہم ممکنہ حد تک لوگوں کو فائر سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے جب کہ دشمن اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔ دشمن کا پہلا ٹینک جونہی پل کے نزدیک پہنچا، بیل گاڑی کی اوٹ میں چھپی گن نے ایک گولہ فائر کیا جو نشانے پر لگا۔ چند ثانئے بعد دشمن کے ٹینک سے شعلے اٹھتے نظر آئے۔ان کے دوسرے ٹینک نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور ہماری گن پوزیشن پر فائر کیا۔ گولہ لگنے سے جہاں بیل گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوئی وہاں معجزانہ طور پر گن صاف بچ گئی۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ہماری گن سے دوسرا گولہ داغا گیا، جس نے دوسرا ٹینک بھی تباہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی پیش قدمی کرتے دشمن پر خود کار ہتھیار سے فائر کھول دیا گیا۔ توپ خانہ بھی آگ اگلنے لگا۔ دشمن کے بڑھتے قدم عارضی طور پر رک گئے۔بریگیڈ کمانڈر نے صورت حال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ جی او سی کی طرف سے تمھیں پل تباہ کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔ ابھی تک دونوں طرف سے وقفے وقفے سے فائرنگ جاری تھی۔ انجینئر پارٹی نے پل اڑانے کی کوشش کی، لیکن اسے جزوی کامیابی حاصل ہوئی۔ بڑا حصہ دونوں کناروں سمیت محفوظ رہا۔ تاہم اس پر سے گاڑیاں نہیں، صرف پیدل دستے گزر سکتے تھے۔ صورت حال بڑی نازک ہو گئی۔ میں نے اپنی درمیانی دو کمپنیوں کی نہر کے ساتھ صف بندی کرا دی تاکہ پلوں کی حفاظت کر سکیں۔ اب میرے پاس ریزرو میں کوئی دستہ نہیں تھا۔ دشمن نہر پار کرنے کے لیے کسی جگہ پر قبضہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔اس مرحلے پر میں نے اپنے بریگیڈ کمانڈر سے کہا ’’مناسب ہو گا کہ آپ یہاں سے پیچھے جا کر دوسری دفاعی لائن بنا لیں۔ ممکن ہے دشمن ہماری پوزیشن روندتا ہوا آگے بڑھ جائے۔ وہ ہماری دفاعی پوزیشن کی کمزوریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔‘‘ بریگیڈیئر صاحب سیدھے لاہور سے آئے تھے۔ یہ بات ان کے علم میں تھی کہ پیچھے کا سارا علاقہ نیز بی آر بی نہر اور راوی کے پل تک کا درمیانی علاقہ مکمل طور پر خالی ہے۔ خدانخواستہ دشمن ہماری پوزیشنوں کو روند کر نکل جاتا تو لاہور تک کوئی اسے روکنے والا نہیں تھا۔ وہ ٹینکوں پر سوار ہو کرجی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے باآسانی شالامار باغ پہنچ جاتے۔وہاں سے محمود بوٹی بندکی راہ اختیار کر کے گیارہ بجے سے پہلے راوی برج تک کے علاقے پر قبضہ کرتے تو چھائونی میںموجود دستوں کو ان کے سامنے ہتھیار ڈالے بغیر چارہ نہ رہتا۔ یقینا یہ ایک قرین قیاس راہ عمل تھی، جسے اختیار میں وہ پوری طرح آزاد تھے۔ 6ستمبر کی نشانی بریگیڈ کمانڈر رخصت ہونے لگے ،تو میں نے ایک خالی کارتوس ۶ستمبر کی نشانی کے طور پر انھیں پیش کیا۔ میں نے ایسے دو کارتوس اس وقت اٹھائے جب صبح ہم دشمن کے فضائی حملے کی زد میں آئے تھے۔ دوسرا کارتوس میں نے اپنے پاس رکھ لیا۔ وطن کے جاں نثار سپاہیوں کے لیے ایسی نشانیاں کسی نئے تعمیر شدہ پل کی رسم افتتاح ادا کرنے یا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اربوں روپے کے صنعتی منصوبے کا ’’سنگ بنیاد‘‘ رکھنے کی یادگاری تختی سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ باٹاپور برج کے جزوی انہدام اور دو بھارتی ٹینکوں کی تباہی کے بعد دشمن کی پیش قدمی مدہم پڑ گئی، تاہم ان کے پیدل فوجی موضع ڈوگرائی کے آباد علاقے کی اوٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے اور ان کی خاصی تعداد پل کے قریب جمع ہو گئی۔ یوں میرے ان جوانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں جو پل کی حفاظت پر مامور تھے۔ نیز پل دشمن کے قبضہ میں چلے جانے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا۔ میں نے فوراً توپ خانے کو حکم دیا کہ پل کے اوپر ’’ایس او ایس‘‘ فائر گرایا جائے۔ جنگی طیاروں کی آمد یہ ایک مشکل فیصلہ تھا تاہم کمانڈر کو ضرورت پڑنے پر کسی سے مشورہ کیے بغیر ایسا کرنا پڑتا ہے۔ ہم ابھی تک کھلے میدان میں تھے۔ دشمن کے ناگہانی حملہ نے ہمیں مورچے کھودنے کی مہلت بھی نہ دی۔ میرے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ اپنے کچھ جوانوں کی جانوں کے ضیاع کا خطرہ قبول کرتے ہوئے توپ خانہ سے بمباری کرائوں۔ دشمن ہم پر بھرپور وار کرنے کے لیے قریب ہی جمع ہو رہا تھا۔ ہمیں ہر قیمت پر انھیں روکنا تھا۔ فائر کا حکم دینے کے بعد انٹیلی جنس افسر خالد نواز اور وائرلیس آپریٹر کے ساتھ میں بھی ایک گڑھے میں چھپ گیا۔ چند ثانیے بعد ہماری توپیں آگ اگلنے لگیں۔ زیادہ تر گولے پل پر گرے اور بالکل صحیح نشانے پر لگے۔ بھارتی سپاہی کسی اوٹ کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگے۔ عین اس وقت جب ہم موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے، ہمارے دو لڑاکا طیارے فضا میں نمودار ہوئے۔ انھوں نے زمین پر گھمسان کارن پڑتے دیکھا تو فوراً واپس پلٹے۔ دشمن کا ہر اول دستہ جس میں ٹینک، توپیں اور جنگی سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں شامل تھیں، اپنی سرحدوں کی جانب بڑھتے دیکھ کر انھوں نے غوطہ لگایا اور زبردست فائرنگ کر کے بھارتیوں کا اسی طرح کچومر نکال دیا جیسے ابابیلوں نے ابرہہ کے ہاتھیوں کا قیمہ بنا دیا تھا۔ دشمن کو پیش قدمی بھول گئی بلکہ الٹا اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ ہمارے شاہینوں نے اتنی پھرتی سے بم باری کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ میں نے کھڑے ہو کر وہ یادگار اور دلچسپ منظر دیکھا۔ حالانکہ اس لمحے میری اپنی پوزیشن فائر کی زد میں تھی۔ ان طیاروں کی اچانک آمد ہمارے لیے غیبی مدد ثابت ہوئی۔ جنگوں میں اکثر نازک لمحات آتے ہیں۔ میرے خیال میں ۱۹۶۵ء کی جنگ کا سب سے نازک لمحہ وہی تھا، جب وہ طیارے فضا میں نمودار ہوئے۔ جنگ بندی کے چند ماہ بعد ان دو لڑاکا طیاروں میں سے ایک طیارہ کا پائلٹ، جس نے ۶ستمبر کی صبح کو لڑائی میں حصہ لیا اور دشمن کا بھرکس نکال دیا، باٹا پور میں واقعی ہماری پوزیشن کے دورے پر آیا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’آیا اس روز انھیں خاص طور پر کسی جنگی مشن پر بھیجا گیا تھا یا وہ اتفاقاً ادھر آ نکلے تھے؟‘‘۔ اس نے بتایا ’’ہم معمول کے جاسوسی مشن پر تھے۔ جونہی ہم نے ٹینکوں اور گاڑیوں پر سوار دشمن سپاہیوں کو اپنی سرحدوں کی طرف بڑھتے دیکھا، تو اسے ایک اچھا ہدف سمجھا اور آناً فاناً سارا اسلحہ فائر کر دیا۔‘‘ ایوب خان کا قوم سے خطاب دشمن نے لاہور پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے منصوبے کی بنیاد ’’حیرت‘‘ اور ’’برق رفتاری‘‘ پر رکھی تھی۔ جنرل چودھری نے حیدرآباد دکن اور گوا پر حملہ کرتے وقت بھی اسی تدبیر پر عمل کیا تھا۔ (جاری ہے
Nice Sharing
Thanks For Sharing
Allahu Akbar
Aham sharing ka shukariya@};-:Annoucemnet::Annoucemnet:
intelligent086
09-18-2015, 02:34 AM
پسندیدگی کا شکریہ
Powered by Raja Imran® Version 4.2.2 Copyright © 2025 vBulletin Solutions, Inc. All rights reserved.