intelligent086
08-22-2015, 10:04 AM
آہٹ معروف شاعر شہزاد احمدکا ایک یادگار انشائیہ
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13642_38386479.jpg.pagespeed.ic.lzMh_Jp600 .jpg
آپ نے سنا وہ آہٹ پھر آرہی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ دن اور رات میں کئی بار یہی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ راٹ کے سناٹے میں تو یہ اور بھی بلند آہنگ ہوجاتی ہے۔ شاید کوئی اس آہٹ سے اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے مگر میرے پاس بھی تو اپنے وجود کی کوئی گواہی اس کے سوا نہیں کہ میں یہ آہٹ سنتا ہوں، اور اس آہٹ کے درمیان وہی رشتہ موجود ہے جو منظر اور آنکھ کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر آنکھ نہ ہو تو منظر کا وجود باقی نہ رہے۔ اگر سننے والے کان نہ ہوں تو یہ آہٹ خلا کی وسعتوں میں ذرے کی طرح کھو جائے۔ ایک ایسے ذرے کی طرح جو محض ذرہ ہی نہیں ایک لہر بھی ہے۔ ایک ایسا ارتعاش بھی ہے کہ اگر ساری کائنات یکایک خاموش ہوجائے تو اس کی آواز کانوں کے پردے پھاڑ دے۔ ہم شاید ازل سے آوازوں کے جنگل میں رہتے ہیں یہ جنگل بہت پرشور ہے، اس کے پتھر، پہاڑ، وادیاں، درخت، پودے، دریا، ندیاں نالے اورپرندے درندے غرض سبھی کچھ اپنی ذات کا اظہار گلا پھاڑ پھاڑ کر کرتے ہیں۔ ہم نے دھیما پن سیکھا ہی نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر دس پندرہ منٹ کے بعد ہم اپنا سائونڈ بیریئر بریک کریں تاکہ دنیا دہل جائے۔ ہم ہر گھڑی صورِ اسرافیل پھونکنے کے خواہش مند ہیں تاکہ لوگ سنیں اور خواہ یہ سننے والے لاکھوں برس پرانے فوسل شدہ ہڈیوں کے ڈھانچے ہی کیوں نہ ہوں۔ دھیمی آوازیں، آوازیں نہیں ہیں ، سرسراہٹیں ہیں جیسے کوئی شہزادی نیا لباس پہن کر غلام گردش میں گھوم رہی ہو۔ دنیا کی ہر شے اپنا اظہار آوازوں کی وسعت سے کرتی ہے۔ اس میں حیوانات، نباتات، جمادات سبھی شامل ہیں۔ سب سے بڑا دھماکہ پتھروں کے آپس میں ٹکرانے سے ہوتا ہے۔ درخت ہوائوں کے دوش پر اپنے پیغامات میلوں دور تک لے جاتے ہیںاور ہوا کے پاس جب کہنے کو کچھ نہ بھی ہو تو وہ سائیں سائیں ضرور کرتی ہے۔ پانی جب برستا ہے یادھرتی کی چھاتیوں میں سے دودھ کی طرح باہر نکلتا ہے تو بے حد شوریدہ سر ہوتا ہے اور جب بلندی سے گرتا ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ مگر پرندے بہت سبک رفتار ہیں، ان کی آوازیں دھیمی بھی ہیں اور سریلی بھی ہیں۔ مگر یہ سب ایک فریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بہت اونچا سنتے ہیں ورنہ یہی آوازیں ہمارے دلوں کو دہلا دینے کے لیے کافی ہوں، جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہمارے کانوں کے پردوں پر روئی کی دبیز تہہ موجود ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہم نے اس تہہ کو مٹانے کی کبھی کوشش نہیں کی اور یہی قرینِ مصلحت بھی ہے۔ روئی کی یہ دبیز تہہ سب آوازیں ہمارے دل تک لے کر نہیں جاتی۔ ہم اپنی مرضی سے پسندیدہ اور ناپسندیدہ آوازوں میں امتیاز کرتے ہیں۔ ہمارے دل تک عام طور پر وہی آواز رسائی حاصل کرتی ہے جو پسندیدہ ہو مگر کبھی کبھی کوئی ناپسندیدہ گستاخ آواز بھی دلوں تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو گویا زلزلہ سا آجاتا ہے۔ مدتوں سے خاموشی کا جوالا مکھی پھٹ پڑتا ہے اور آنسوئوں کی صورت میں موتیوں جیسا لاوا بہہ نکلتا ہے۔ ہم شاید ازل سے خاموشی کے متلاشی ہیں اور اسی لیے صحرائوں یا دریائوں کا رُخ کرتے ہیں۔ مگر ان میں خاموشی کہاں؟ جنگلوں میں بڑے بڑے درخت، جھاڑیاں، پرندے، درندے غرض ہر ایک ہم سے ہمکلام ہونا شروع کردیتا ہے۔ صحرائوں میں ہر ذرہ بولتا ہے کبھی آگ کی زبان میں اور کبھی سرد کردینے والی نرماہٹ کے لہجے میں، رہے دریا تو وہ شہروں سے بھی گئے گزرے ہیں، ان میں نام نہاد خاموشی نام کی کوئی شے موجود ہونے کا سوال ہی کیا ہے؟ وہ تو ہر شے کے ساتھ گفتگو کرنے کے عادی ہیںمگر مشکل یہ ہے کہ انہیں قیام نہیں اور جو شے بھاگ رہی ہو‘ وہ خاموش کیسے ہوسکتی ہے؟ دوسری مشکل یہ بھی ہے کہ ہماری اور دریائوں کی سمت ایک نہیں، ہم ایک دوسرے کے الٹے رُخ میں سفر کرتے ہیں۔ لہٰذا آوازوں کا تصادم شدید تر ہوجاتا ہے لیکن اگر دریا کے بہائو کے ساتھ ساتھ چلنے کی صورت نکل بھی آئے تو بھی لہروں سے ٹکرائو تو قائم رہے گا۔ ہم روشنی تو نہیں ہیں کہ لہریں ہم میں سے اور ہم لہروں میں سے بغیر کوئی تبدیلی پیدا کیے گزر جائیں۔ شہروں میں البتہ خاموشی ہے، ازل سے ابد تک تنہائی ہے، یہ صرف شہر ہی میں ممکن ہے کہ ہم تنہائی اور خاموشی تلاش کرسکیں کیونکہ شہر میں کوئی شہر ہم سے مخاطب نہیں ہوتی، کوئی اڑتا ہوا پتا، گزرتا ہوا ہوا کا جھونکا یا گرد کا کوئی گرم بادل ہمارا راستہ نہیں روکتا۔ کوئی ہم سے تعارف حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی ہم تو یہ بتانا پسند کرتا ہے کہ وہ کون ہے؟ مجھے حیرت ہے ان راہبوں پر جو سکون کی تلاش میں جنگلوں، پہاڑوں یا صحرائوں کا رُخ کرتے ہیں۔ ممکن ہے انہیں کسی سے مکالمہ کرنے کی خواہش ہو کیونکہ شہر جتنا بڑا ہوتا ہے اتناہی گونگا ہوتا ہے۔ آپ کراچی سے لاہور آجائیں تو آپ کو ہر شے میں تھوڑی بہت زندگی کی رمق نظر آنے لگتی ہے۔ لاہور سے شیخوپورہ ہی چلے جائیں توآپ کا تعلق بولنے والی چیزوں سے پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے مگر یہ سارا سفر تو حال سے ماضی کی طرف کا سفر ہے۔ ہمیں تو مستقبل کی طرف جانا ہے۔ جہاں بڑے بڑے شہر ہیں، آسمانوں کو چھوتی ہوئی عمارات ہیں، خود بخود چلنے والی مشینیں ہیں، غرض وہ سبھی کچھ موجود ہے جو شور تو بہت مچاتا ہے مگر گفتگو کبھی نہیں کرتا۔ وہ ایسی زبان بولتا ہے جو سیکھی نہیںجاسکتی ہے۔ ہم نے مشینیں تو بنا لیںمگر مشینوں کی زبان نہ سمجھ پائے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ خالق مخلوق کو پیدا تو کرے مگر اس سے مکالمہ نہ کرسکے۔ اقبالؔ نے کہا تھا کہ’’ نقش ہوں اپنے مصور سے گلہ رکھتا ہوں میں۔‘‘ اس کا احساس تو اسی صورت میں ممکن تھا کہ خالق اپنے نقش کی زبان سمجھتا ہو یا نقش خالق سے مکالمہ کرنا چاہے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ ہم جس عہد میں موجود ہیں وہاں سب کچھ ہوتا ہے مکالمہ نہیں ہوتا۔ سبب یہ ہے کہ کوئی کسی کی زبان سمجھتا ہے نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ لیجئے وہ آہٹ پھر ہوئی، یہ کون ہے جو دن اور رات میں کئی بار آتا ہے اور بغیر دستک دیئے چلے جاتا ہے۔ آخر وہ دستک کیوں نہیں دیتا؟ میَں نے کئی بار اس آہٹ پر دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ شاید میں ہمیشہ دیر کردیتا ہوں! مگر کچھ ذمے داری تو آنے والے پر بھی عاید ہوتی ہے، کسی دن اسے بھی تو دستک دے کر میرے آنے کا انتظار کرنا چاہئے۔ وہ آہٹ جو ابھی ابھی آئی ہے مجھے کہہ رہی ہے تو کون ہے؟ یہ سوال میری زندگی میں پہلی بار اٹھایا گیا ہے۔ آج تک تو مجھے یقین تھا کہ اس کائنات میں کوئی شے ایسی نہیںجو مجھے نہ جانتی ہو! مگر اب معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک دھوکا تھا۔ دن میں کئی بار سُنی جانے والی آہٹ بھی مجھے نہیں جانتی، نہ جاننا چاہتی ہے۔ میں بھی شاید اسے جاننا نہیں چاہتا، اس لیے کہ میں اسے جانتا ہوں۔ میرے دل کے کسی گوشے میں کوئی آواز مجھے کہتی ہے کہ تم سب کو جانتے ہو کیونکہ پیدائش کے وقت تمہیں سب چیزوں کے نام بتا دیئے گئے تھے۔ میں تمام اشیا اور مظاہر کوحرفوں اور آوازوں کی وساطت سے جانتا ہوں۔ تمام حرف بھی تو آوازیں ہیں مگر کوئی آواز بھی حرف نہیں ہے۔ انسان نے آوازیں لکھنے کا فن ابھی تک نہیں سیکھا، وہ آوازوں کے گیند میں قید ہے‘ اگر اسے آوازوں کو لکھنے یاسمجھنے کا فن آتا ہوتا تو وہ تہذیب کے اس چھلکے کو توڑ کر تازہ ہوا میں سانس لینے کے قابل تو ہوسکتامگر یہ حصار ٹوٹے گا نہیں، آوازوں کے منظر بدلتے رہیں گے۔ دیواروں کے رنگ ضرور متغیر ہوں گے مگر دیواریں رہیں گی، آہٹیں آتی رہیں گی مگر دستک کبھی نہیں ہوگی، کوئی آکر یہ نہیں کہے گا کہ میں ہوں! ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13642_38386479.jpg.pagespeed.ic.lzMh_Jp600 .jpg
آپ نے سنا وہ آہٹ پھر آرہی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ دن اور رات میں کئی بار یہی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ راٹ کے سناٹے میں تو یہ اور بھی بلند آہنگ ہوجاتی ہے۔ شاید کوئی اس آہٹ سے اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے مگر میرے پاس بھی تو اپنے وجود کی کوئی گواہی اس کے سوا نہیں کہ میں یہ آہٹ سنتا ہوں، اور اس آہٹ کے درمیان وہی رشتہ موجود ہے جو منظر اور آنکھ کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر آنکھ نہ ہو تو منظر کا وجود باقی نہ رہے۔ اگر سننے والے کان نہ ہوں تو یہ آہٹ خلا کی وسعتوں میں ذرے کی طرح کھو جائے۔ ایک ایسے ذرے کی طرح جو محض ذرہ ہی نہیں ایک لہر بھی ہے۔ ایک ایسا ارتعاش بھی ہے کہ اگر ساری کائنات یکایک خاموش ہوجائے تو اس کی آواز کانوں کے پردے پھاڑ دے۔ ہم شاید ازل سے آوازوں کے جنگل میں رہتے ہیں یہ جنگل بہت پرشور ہے، اس کے پتھر، پہاڑ، وادیاں، درخت، پودے، دریا، ندیاں نالے اورپرندے درندے غرض سبھی کچھ اپنی ذات کا اظہار گلا پھاڑ پھاڑ کر کرتے ہیں۔ ہم نے دھیما پن سیکھا ہی نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر دس پندرہ منٹ کے بعد ہم اپنا سائونڈ بیریئر بریک کریں تاکہ دنیا دہل جائے۔ ہم ہر گھڑی صورِ اسرافیل پھونکنے کے خواہش مند ہیں تاکہ لوگ سنیں اور خواہ یہ سننے والے لاکھوں برس پرانے فوسل شدہ ہڈیوں کے ڈھانچے ہی کیوں نہ ہوں۔ دھیمی آوازیں، آوازیں نہیں ہیں ، سرسراہٹیں ہیں جیسے کوئی شہزادی نیا لباس پہن کر غلام گردش میں گھوم رہی ہو۔ دنیا کی ہر شے اپنا اظہار آوازوں کی وسعت سے کرتی ہے۔ اس میں حیوانات، نباتات، جمادات سبھی شامل ہیں۔ سب سے بڑا دھماکہ پتھروں کے آپس میں ٹکرانے سے ہوتا ہے۔ درخت ہوائوں کے دوش پر اپنے پیغامات میلوں دور تک لے جاتے ہیںاور ہوا کے پاس جب کہنے کو کچھ نہ بھی ہو تو وہ سائیں سائیں ضرور کرتی ہے۔ پانی جب برستا ہے یادھرتی کی چھاتیوں میں سے دودھ کی طرح باہر نکلتا ہے تو بے حد شوریدہ سر ہوتا ہے اور جب بلندی سے گرتا ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ مگر پرندے بہت سبک رفتار ہیں، ان کی آوازیں دھیمی بھی ہیں اور سریلی بھی ہیں۔ مگر یہ سب ایک فریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بہت اونچا سنتے ہیں ورنہ یہی آوازیں ہمارے دلوں کو دہلا دینے کے لیے کافی ہوں، جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہمارے کانوں کے پردوں پر روئی کی دبیز تہہ موجود ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہم نے اس تہہ کو مٹانے کی کبھی کوشش نہیں کی اور یہی قرینِ مصلحت بھی ہے۔ روئی کی یہ دبیز تہہ سب آوازیں ہمارے دل تک لے کر نہیں جاتی۔ ہم اپنی مرضی سے پسندیدہ اور ناپسندیدہ آوازوں میں امتیاز کرتے ہیں۔ ہمارے دل تک عام طور پر وہی آواز رسائی حاصل کرتی ہے جو پسندیدہ ہو مگر کبھی کبھی کوئی ناپسندیدہ گستاخ آواز بھی دلوں تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو گویا زلزلہ سا آجاتا ہے۔ مدتوں سے خاموشی کا جوالا مکھی پھٹ پڑتا ہے اور آنسوئوں کی صورت میں موتیوں جیسا لاوا بہہ نکلتا ہے۔ ہم شاید ازل سے خاموشی کے متلاشی ہیں اور اسی لیے صحرائوں یا دریائوں کا رُخ کرتے ہیں۔ مگر ان میں خاموشی کہاں؟ جنگلوں میں بڑے بڑے درخت، جھاڑیاں، پرندے، درندے غرض ہر ایک ہم سے ہمکلام ہونا شروع کردیتا ہے۔ صحرائوں میں ہر ذرہ بولتا ہے کبھی آگ کی زبان میں اور کبھی سرد کردینے والی نرماہٹ کے لہجے میں، رہے دریا تو وہ شہروں سے بھی گئے گزرے ہیں، ان میں نام نہاد خاموشی نام کی کوئی شے موجود ہونے کا سوال ہی کیا ہے؟ وہ تو ہر شے کے ساتھ گفتگو کرنے کے عادی ہیںمگر مشکل یہ ہے کہ انہیں قیام نہیں اور جو شے بھاگ رہی ہو‘ وہ خاموش کیسے ہوسکتی ہے؟ دوسری مشکل یہ بھی ہے کہ ہماری اور دریائوں کی سمت ایک نہیں، ہم ایک دوسرے کے الٹے رُخ میں سفر کرتے ہیں۔ لہٰذا آوازوں کا تصادم شدید تر ہوجاتا ہے لیکن اگر دریا کے بہائو کے ساتھ ساتھ چلنے کی صورت نکل بھی آئے تو بھی لہروں سے ٹکرائو تو قائم رہے گا۔ ہم روشنی تو نہیں ہیں کہ لہریں ہم میں سے اور ہم لہروں میں سے بغیر کوئی تبدیلی پیدا کیے گزر جائیں۔ شہروں میں البتہ خاموشی ہے، ازل سے ابد تک تنہائی ہے، یہ صرف شہر ہی میں ممکن ہے کہ ہم تنہائی اور خاموشی تلاش کرسکیں کیونکہ شہر میں کوئی شہر ہم سے مخاطب نہیں ہوتی، کوئی اڑتا ہوا پتا، گزرتا ہوا ہوا کا جھونکا یا گرد کا کوئی گرم بادل ہمارا راستہ نہیں روکتا۔ کوئی ہم سے تعارف حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی ہم تو یہ بتانا پسند کرتا ہے کہ وہ کون ہے؟ مجھے حیرت ہے ان راہبوں پر جو سکون کی تلاش میں جنگلوں، پہاڑوں یا صحرائوں کا رُخ کرتے ہیں۔ ممکن ہے انہیں کسی سے مکالمہ کرنے کی خواہش ہو کیونکہ شہر جتنا بڑا ہوتا ہے اتناہی گونگا ہوتا ہے۔ آپ کراچی سے لاہور آجائیں تو آپ کو ہر شے میں تھوڑی بہت زندگی کی رمق نظر آنے لگتی ہے۔ لاہور سے شیخوپورہ ہی چلے جائیں توآپ کا تعلق بولنے والی چیزوں سے پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے مگر یہ سارا سفر تو حال سے ماضی کی طرف کا سفر ہے۔ ہمیں تو مستقبل کی طرف جانا ہے۔ جہاں بڑے بڑے شہر ہیں، آسمانوں کو چھوتی ہوئی عمارات ہیں، خود بخود چلنے والی مشینیں ہیں، غرض وہ سبھی کچھ موجود ہے جو شور تو بہت مچاتا ہے مگر گفتگو کبھی نہیں کرتا۔ وہ ایسی زبان بولتا ہے جو سیکھی نہیںجاسکتی ہے۔ ہم نے مشینیں تو بنا لیںمگر مشینوں کی زبان نہ سمجھ پائے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ خالق مخلوق کو پیدا تو کرے مگر اس سے مکالمہ نہ کرسکے۔ اقبالؔ نے کہا تھا کہ’’ نقش ہوں اپنے مصور سے گلہ رکھتا ہوں میں۔‘‘ اس کا احساس تو اسی صورت میں ممکن تھا کہ خالق اپنے نقش کی زبان سمجھتا ہو یا نقش خالق سے مکالمہ کرنا چاہے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ ہم جس عہد میں موجود ہیں وہاں سب کچھ ہوتا ہے مکالمہ نہیں ہوتا۔ سبب یہ ہے کہ کوئی کسی کی زبان سمجھتا ہے نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ لیجئے وہ آہٹ پھر ہوئی، یہ کون ہے جو دن اور رات میں کئی بار آتا ہے اور بغیر دستک دیئے چلے جاتا ہے۔ آخر وہ دستک کیوں نہیں دیتا؟ میَں نے کئی بار اس آہٹ پر دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ شاید میں ہمیشہ دیر کردیتا ہوں! مگر کچھ ذمے داری تو آنے والے پر بھی عاید ہوتی ہے، کسی دن اسے بھی تو دستک دے کر میرے آنے کا انتظار کرنا چاہئے۔ وہ آہٹ جو ابھی ابھی آئی ہے مجھے کہہ رہی ہے تو کون ہے؟ یہ سوال میری زندگی میں پہلی بار اٹھایا گیا ہے۔ آج تک تو مجھے یقین تھا کہ اس کائنات میں کوئی شے ایسی نہیںجو مجھے نہ جانتی ہو! مگر اب معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک دھوکا تھا۔ دن میں کئی بار سُنی جانے والی آہٹ بھی مجھے نہیں جانتی، نہ جاننا چاہتی ہے۔ میں بھی شاید اسے جاننا نہیں چاہتا، اس لیے کہ میں اسے جانتا ہوں۔ میرے دل کے کسی گوشے میں کوئی آواز مجھے کہتی ہے کہ تم سب کو جانتے ہو کیونکہ پیدائش کے وقت تمہیں سب چیزوں کے نام بتا دیئے گئے تھے۔ میں تمام اشیا اور مظاہر کوحرفوں اور آوازوں کی وساطت سے جانتا ہوں۔ تمام حرف بھی تو آوازیں ہیں مگر کوئی آواز بھی حرف نہیں ہے۔ انسان نے آوازیں لکھنے کا فن ابھی تک نہیں سیکھا، وہ آوازوں کے گیند میں قید ہے‘ اگر اسے آوازوں کو لکھنے یاسمجھنے کا فن آتا ہوتا تو وہ تہذیب کے اس چھلکے کو توڑ کر تازہ ہوا میں سانس لینے کے قابل تو ہوسکتامگر یہ حصار ٹوٹے گا نہیں، آوازوں کے منظر بدلتے رہیں گے۔ دیواروں کے رنگ ضرور متغیر ہوں گے مگر دیواریں رہیں گی، آہٹیں آتی رہیں گی مگر دستک کبھی نہیں ہوگی، کوئی آکر یہ نہیں کہے گا کہ میں ہوں! ٭…٭…٭