intelligent086
08-21-2015, 02:03 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13637_75719544.jpg.pagespeed.ic.4HsDaGEdt7 .jpg
ہمارے دین کی بنیاد اخلاقیات ہے ۔ رسول اکرم ﷺ سے کسی شخص نے پوچھا ’’یارسول اللہ دین کیا ہے ؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’اچھے اخلاق ‘‘ اس شخص نے بار بار یہ سوال دہرایا اور رسول پاک ﷺ نے بار بار یہی جواب دیا کہ دین سارے کا سارا اخلاق ہے ۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ سے پوچھا گیا ’’ یارسول اللہ کس مومن کا ایمان افضل ہے فرمایا جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں ‘‘۔ حضرت جنید ؒ نے فرمایا کہ میں نے حارث محاسبی کو کہتے سنا ہے کہ ہم نے تین چیزوں کو کھو دیا ہے ۔ ایک کشادہ روئی مع حفظ آبرو ، دوم بغیر خیانت کے خوش کلامی ، سوئم دوستی کی خوبی وفا کرتے ہوئے اور بعض نے کہا کہ حسن خلق یہ ہے کہ تجھ سے جو چیز دوسروں کو پہنچے اس کو حقیر خیال کرے اور جو دوسروں سے تجھے ملے اس کو بڑا سمجھے اور بعض نے کہا ہے کہ حسن خلق یہ ہے کہ اپنی طرف سے دوسروں کو ایذانہ دے اور دوسروں کی طرف سے پہنچنے والے دکھ کو برداشت کرے۔ حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ ’’تمہارے مال میں سب لوگوں کا حصہ یقیناً نہیں ہے لیکن شگفتہ روئی اور حسن خلق حصہ کر لو ‘‘۔ بعض کے نزدیک حسن خلق یہ ہے کہ مخلوق کی طرف سے جو ظلم تم پر کیا جائے اس کو برداشت کر لو اور (ان کا ) حق بغیر تنگ دلی اور کبیدگی خاطر کے ادا کردو ، اگر آج ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو اخلاقیات کا جنازہ نکلا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ سیاسی امور ہوں یا کاروباری آپس کے تعلقات ہوں یا ریاستی مسائل ہر کوئی ہر کسی کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھتا ہے۔ باہمی اعتماد اور اتحاد تو ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ قوت برداشت ختم ہو چکی ہے ۔ سچی خوشیوں کا حصول ناممکن ہو چکا ہے خوش اخلاقی مفقود ہو گئی ہے ۔ اور ہم بحیثیت قوم اخلاقی پستی کی گہرائیوں میں گر چکے ہیں اور وہ کونسا گناہ ہے جو ہم نہیں کرتے ، رشوت ، اقرباپروری ، سود خوری ، قانون کی خلاف ورزی ، ڈاکہ زنی ، دہشتگردی اور ہم بحیثیت قوم اس قدر بھٹک چکے ہیں کہ اپنی اصل منزل کا نشان تک کھو بیٹھے ہیں کیونکہ بحیثیت قوم اگر افراد کا اخلاق سنوارنا ہے تو قومیں بنتی ہیں اور جب افراد کا اخلاق بگڑتا ہے تو بڑی بڑی سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں گویا کسی قوم کا مقدر سنورتا ہے تو پہلے اس قوم کا اخلاق سنورتا ہے ۔ ہمارے ملکی حالات بھی بدل سکتے ہیں ۔ ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ کہلا سکتا ہے کہ اگر ہم خود کو بدل لیں بحیثیت مسلم قوم اپنے اندر مسلمانوں والی خوبیاں لائیں ،اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی کو چھوڑ کر صراط مستقیم پر چلیں اور اپنے اخلاق کو مومن کا اخلاق بنالیں ۔ ہم اب بھی اپنے ملک کے حالات بدل سکتے ہیں ۔ ہم اب بھی ترقی یافتہ قوم کہلا سکتے ہیں اگر ہم اپنے اخلاق کو مومن کا اخلاق بنالیں ہم بھی دنیا کی بہترین قوموں میں شمار ہونے لگیں گے ، اگر ہم سنبھل جائیں اور رب العزت کے حضور توبہ کریں دین و دنیا کی بھلائی اس میں ہے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ پر عمل پیرا ہوں ، اپنے ہر عمل اور اپنے ہر قول کو آپ ﷺ کے قول اور عمل کے مطابق کریں اگر ہم اخلاق حسنہ پر چلیں گے اور اس پر عمل کریں گے تو رہتی دنیا تک ہمارا نام و نشان روشن رہے گا۔ ٭…٭…٭
ہمارے دین کی بنیاد اخلاقیات ہے ۔ رسول اکرم ﷺ سے کسی شخص نے پوچھا ’’یارسول اللہ دین کیا ہے ؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’اچھے اخلاق ‘‘ اس شخص نے بار بار یہ سوال دہرایا اور رسول پاک ﷺ نے بار بار یہی جواب دیا کہ دین سارے کا سارا اخلاق ہے ۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ سے پوچھا گیا ’’ یارسول اللہ کس مومن کا ایمان افضل ہے فرمایا جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں ‘‘۔ حضرت جنید ؒ نے فرمایا کہ میں نے حارث محاسبی کو کہتے سنا ہے کہ ہم نے تین چیزوں کو کھو دیا ہے ۔ ایک کشادہ روئی مع حفظ آبرو ، دوم بغیر خیانت کے خوش کلامی ، سوئم دوستی کی خوبی وفا کرتے ہوئے اور بعض نے کہا کہ حسن خلق یہ ہے کہ تجھ سے جو چیز دوسروں کو پہنچے اس کو حقیر خیال کرے اور جو دوسروں سے تجھے ملے اس کو بڑا سمجھے اور بعض نے کہا ہے کہ حسن خلق یہ ہے کہ اپنی طرف سے دوسروں کو ایذانہ دے اور دوسروں کی طرف سے پہنچنے والے دکھ کو برداشت کرے۔ حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ ’’تمہارے مال میں سب لوگوں کا حصہ یقیناً نہیں ہے لیکن شگفتہ روئی اور حسن خلق حصہ کر لو ‘‘۔ بعض کے نزدیک حسن خلق یہ ہے کہ مخلوق کی طرف سے جو ظلم تم پر کیا جائے اس کو برداشت کر لو اور (ان کا ) حق بغیر تنگ دلی اور کبیدگی خاطر کے ادا کردو ، اگر آج ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو اخلاقیات کا جنازہ نکلا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ سیاسی امور ہوں یا کاروباری آپس کے تعلقات ہوں یا ریاستی مسائل ہر کوئی ہر کسی کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھتا ہے۔ باہمی اعتماد اور اتحاد تو ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ قوت برداشت ختم ہو چکی ہے ۔ سچی خوشیوں کا حصول ناممکن ہو چکا ہے خوش اخلاقی مفقود ہو گئی ہے ۔ اور ہم بحیثیت قوم اخلاقی پستی کی گہرائیوں میں گر چکے ہیں اور وہ کونسا گناہ ہے جو ہم نہیں کرتے ، رشوت ، اقرباپروری ، سود خوری ، قانون کی خلاف ورزی ، ڈاکہ زنی ، دہشتگردی اور ہم بحیثیت قوم اس قدر بھٹک چکے ہیں کہ اپنی اصل منزل کا نشان تک کھو بیٹھے ہیں کیونکہ بحیثیت قوم اگر افراد کا اخلاق سنوارنا ہے تو قومیں بنتی ہیں اور جب افراد کا اخلاق بگڑتا ہے تو بڑی بڑی سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں گویا کسی قوم کا مقدر سنورتا ہے تو پہلے اس قوم کا اخلاق سنورتا ہے ۔ ہمارے ملکی حالات بھی بدل سکتے ہیں ۔ ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ کہلا سکتا ہے کہ اگر ہم خود کو بدل لیں بحیثیت مسلم قوم اپنے اندر مسلمانوں والی خوبیاں لائیں ،اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی کو چھوڑ کر صراط مستقیم پر چلیں اور اپنے اخلاق کو مومن کا اخلاق بنالیں ۔ ہم اب بھی اپنے ملک کے حالات بدل سکتے ہیں ۔ ہم اب بھی ترقی یافتہ قوم کہلا سکتے ہیں اگر ہم اپنے اخلاق کو مومن کا اخلاق بنالیں ہم بھی دنیا کی بہترین قوموں میں شمار ہونے لگیں گے ، اگر ہم سنبھل جائیں اور رب العزت کے حضور توبہ کریں دین و دنیا کی بھلائی اس میں ہے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ پر عمل پیرا ہوں ، اپنے ہر عمل اور اپنے ہر قول کو آپ ﷺ کے قول اور عمل کے مطابق کریں اگر ہم اخلاق حسنہ پر چلیں گے اور اس پر عمل کریں گے تو رہتی دنیا تک ہمارا نام و نشان روشن رہے گا۔ ٭…٭…٭