intelligent086
08-20-2015, 01:36 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13625_62605034.jpg.pagespeed.ic.cwdKIfkES1 .jpg
وسیم صدیقی
پاکستانی معاشرے میںجاپانی گڑیا کا تخیل ہی نہایت حسین ہے۔ روایتاً جب بھی کسی کے حسن کو لازوال قرار دینا ہو۔۔ اسے جاپانی گڑیا سے تشبیہ دے دی جاتی ہے۔ یہ تصور ’پریوں‘ اور’شہزادیوں‘ کے حسن سے شاید ہی کچھ کم ہو۔ جاپانی گڑیاں، جاپان کے روایتی فن اور ثقافت کا عکاس ہوتی ہیں۔ ہماری سرزمین اس زرخیز ثقافت کی امین ہے۔ ہر گڑیا اپنا ایک علیحدہ مفہوم اور مقصد رکھتی ہے۔ عوامی زندگی سے ان کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ ان کے لباس میں جاپان اور جاپانی عوام کی خواہشات کا عکس جھلملاتا ہے۔ آرائشی فن کی اس اہم مثال کے ذریعے جاپان کی ثقافت کو با آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔جاپان میں گڑیاں دو اہم فیسٹیولز پربطور خاص بنائی جاتی ہیں۔ ہر سال 3 مارچ کولڑکیوں کا دن یعنی حنا متسوری اور5 مارچ کو لڑکوں کا دن تانگو نوسیکو'منایا جاتا ہے۔ یہ دونوں فیسٹیولز گڑیوں کی نمائش کے ذریعے بچوں کی حرمت کا مظہر ہوتے ہیں۔ دونوں فیسٹیولز پر ہرخاندان بہت سی گڑیوں کی نمائش کرتا ہے۔یہ گڑیاں بیٹیوں کی خوشحالی ،خوش بختی اور اچھے مستقبل کے لئے مانگی گئی دعاؤں کی علامت تصورہوتی ہیں۔جاپان فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق جاپان میں قدیم زمانوں سے ہی گڑیاں عام زندگی کا اہم حصہ رہی ہیں۔ان کے ذریعے بچپن، خواتین کا رہن سہن، لائف اسٹائل، فیشن، ہیراسٹائل، مزاج، تہذیب وتمدن، علاقائی رسم ورواج، کھیل، جنگ، تھیٹر، تفریح۔۔غرض کہ روز مرہ زندگی سے جڑا کوئی شعبہ ایسا نہیں ،جس کی عکاسی یہ گڑیاں نہ کرتی ہوں۔گذشتہ دنوں کراچی میں ایک نمائش میں مختلف اقسام کی گڑیاں رکھی گئیں۔ ان میں ایک قسم ’کابوکی ڈول‘ بھی تھی۔ یہ جاپانی خواتین کا لائف اسٹائل ،فیشن اور ان کے ہیراسٹائل کو اجاگر کرتی نظر آئی۔ کچھ گڑیاں لکڑی کی بنی ہوئی تھیں، جنہیں ایک خاص تکنیک کے ذریعے بنایاجاتا ہے،اسے ’کیمی کومی‘ کہا جاتا ہے۔ اس ٹیکنک کے تحت مختلف رنگوں کے کپڑے جوڑ کر گڑیا کا لباس تیا رکیا جاتا ہے۔جاپانی خواتین کی موسیقی سے لگاؤ کو من و عن پیش کرتی ایک گڑیا بھی ہال میں موجود تھی، جسے ’بی وا‘ بجاتے دکھایا گیا ہے۔ ’بی وا‘ چار تاروں والا ایک روایتی ساز ہے۔’ہکاتا‘ گڑیاں مٹی سے بنائی جاتی ہیں۔ ہکاتا جاپان میں ایک علاقے کا نام ہے۔ یہ نام اسی علاقے کی مناسبت سے پڑا۔ یہ گڑیاں جاپان میں بہت مشہور ہواکرتی ہیں۔ ان کے رنگ انتہائی دیدہ زیب ہوتے ہیں۔ذکر جاپان کی حسین روایات کا ہو اور یوکوزونا، سوموریسلر کا ذکر نہ ہویہ بھلا کس طرح ممکن ہے لہٰذا نمائش میں یہ’پہلوان جی‘ بھی گڑیا کی شکل میں موجود ہیں۔جاپانی بچوں کا گھٹوں کے بل چلنا اور موسم بہار کی سنہری دھوپ کا مزے لینے کا خیال ہی بہت سہانا ہے ، اس منظر کو پیش کرتی کچھ گڑیاں بھی نمائش کا حصہ ہیں۔ بڑے سروں اورسفید رنگت والی یہ گڑیاں خاص طورپر ننھے منے بچوں کا دل لبھانے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔جاپان کا ایک بہت مشہور فنکار تھا۔۔سنگو گاوا ایچی ماتسو ، جو نوجوان لڑکیوں کی تصاویر بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ اس کی گڑیا بھی ثقافتی مرکز میں نمائش کے لئے رکھی گئی تھی۔جاپانی گڑیاں، انہیں تیار کرنے والے آرٹسٹ کے تخیل کا شاہکار ہوتی ہیں۔جنگ عظیم دوئم کے بعدان گڑیوں کو بنانے کا آغاز ہواجن میں اوریجنل تکنیک استعمال کرکے گڑیوں پرنقش بنا کر انہیں پکایا جاتا تھا۔ اس ہنرکو منفرد ہونے کی وجہ سے خوب پذیرائی ملی۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ 1972ء میں امریکہ اور جاپان نے دوستی کی نشانی کے طورپر گڑیوں کا تبادلہ کیا۔ تبادلے کے طور پر ایچی ماتسو کی اس گڑیاکی ایک نقل بھی نمائش کی شان بڑھانے کا سبب ثابت ہوئی۔گڑیوں کی شکل میں جاپانی بچوں کی مختلف سرگرمیاں بھی جیتی جاگتی گڑیوں کے روپ میں دکھائی گئی ہیں جبکہ 1603ء سے 1868ء کے دوران آنے والے نئے سال کی آمد پر بچے ایک ایسا کھیل بھی کھیلا کرتے تھے جس میں لکڑی کے ہتھوڑے سے بال کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس کھیل کی نشاندہی کرنے والی گڑیا بھی نمائش کے لئے رکھی گئی تھیں۔ ٭…٭…٭
وسیم صدیقی
پاکستانی معاشرے میںجاپانی گڑیا کا تخیل ہی نہایت حسین ہے۔ روایتاً جب بھی کسی کے حسن کو لازوال قرار دینا ہو۔۔ اسے جاپانی گڑیا سے تشبیہ دے دی جاتی ہے۔ یہ تصور ’پریوں‘ اور’شہزادیوں‘ کے حسن سے شاید ہی کچھ کم ہو۔ جاپانی گڑیاں، جاپان کے روایتی فن اور ثقافت کا عکاس ہوتی ہیں۔ ہماری سرزمین اس زرخیز ثقافت کی امین ہے۔ ہر گڑیا اپنا ایک علیحدہ مفہوم اور مقصد رکھتی ہے۔ عوامی زندگی سے ان کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ ان کے لباس میں جاپان اور جاپانی عوام کی خواہشات کا عکس جھلملاتا ہے۔ آرائشی فن کی اس اہم مثال کے ذریعے جاپان کی ثقافت کو با آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔جاپان میں گڑیاں دو اہم فیسٹیولز پربطور خاص بنائی جاتی ہیں۔ ہر سال 3 مارچ کولڑکیوں کا دن یعنی حنا متسوری اور5 مارچ کو لڑکوں کا دن تانگو نوسیکو'منایا جاتا ہے۔ یہ دونوں فیسٹیولز گڑیوں کی نمائش کے ذریعے بچوں کی حرمت کا مظہر ہوتے ہیں۔ دونوں فیسٹیولز پر ہرخاندان بہت سی گڑیوں کی نمائش کرتا ہے۔یہ گڑیاں بیٹیوں کی خوشحالی ،خوش بختی اور اچھے مستقبل کے لئے مانگی گئی دعاؤں کی علامت تصورہوتی ہیں۔جاپان فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق جاپان میں قدیم زمانوں سے ہی گڑیاں عام زندگی کا اہم حصہ رہی ہیں۔ان کے ذریعے بچپن، خواتین کا رہن سہن، لائف اسٹائل، فیشن، ہیراسٹائل، مزاج، تہذیب وتمدن، علاقائی رسم ورواج، کھیل، جنگ، تھیٹر، تفریح۔۔غرض کہ روز مرہ زندگی سے جڑا کوئی شعبہ ایسا نہیں ،جس کی عکاسی یہ گڑیاں نہ کرتی ہوں۔گذشتہ دنوں کراچی میں ایک نمائش میں مختلف اقسام کی گڑیاں رکھی گئیں۔ ان میں ایک قسم ’کابوکی ڈول‘ بھی تھی۔ یہ جاپانی خواتین کا لائف اسٹائل ،فیشن اور ان کے ہیراسٹائل کو اجاگر کرتی نظر آئی۔ کچھ گڑیاں لکڑی کی بنی ہوئی تھیں، جنہیں ایک خاص تکنیک کے ذریعے بنایاجاتا ہے،اسے ’کیمی کومی‘ کہا جاتا ہے۔ اس ٹیکنک کے تحت مختلف رنگوں کے کپڑے جوڑ کر گڑیا کا لباس تیا رکیا جاتا ہے۔جاپانی خواتین کی موسیقی سے لگاؤ کو من و عن پیش کرتی ایک گڑیا بھی ہال میں موجود تھی، جسے ’بی وا‘ بجاتے دکھایا گیا ہے۔ ’بی وا‘ چار تاروں والا ایک روایتی ساز ہے۔’ہکاتا‘ گڑیاں مٹی سے بنائی جاتی ہیں۔ ہکاتا جاپان میں ایک علاقے کا نام ہے۔ یہ نام اسی علاقے کی مناسبت سے پڑا۔ یہ گڑیاں جاپان میں بہت مشہور ہواکرتی ہیں۔ ان کے رنگ انتہائی دیدہ زیب ہوتے ہیں۔ذکر جاپان کی حسین روایات کا ہو اور یوکوزونا، سوموریسلر کا ذکر نہ ہویہ بھلا کس طرح ممکن ہے لہٰذا نمائش میں یہ’پہلوان جی‘ بھی گڑیا کی شکل میں موجود ہیں۔جاپانی بچوں کا گھٹوں کے بل چلنا اور موسم بہار کی سنہری دھوپ کا مزے لینے کا خیال ہی بہت سہانا ہے ، اس منظر کو پیش کرتی کچھ گڑیاں بھی نمائش کا حصہ ہیں۔ بڑے سروں اورسفید رنگت والی یہ گڑیاں خاص طورپر ننھے منے بچوں کا دل لبھانے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔جاپان کا ایک بہت مشہور فنکار تھا۔۔سنگو گاوا ایچی ماتسو ، جو نوجوان لڑکیوں کی تصاویر بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ اس کی گڑیا بھی ثقافتی مرکز میں نمائش کے لئے رکھی گئی تھی۔جاپانی گڑیاں، انہیں تیار کرنے والے آرٹسٹ کے تخیل کا شاہکار ہوتی ہیں۔جنگ عظیم دوئم کے بعدان گڑیوں کو بنانے کا آغاز ہواجن میں اوریجنل تکنیک استعمال کرکے گڑیوں پرنقش بنا کر انہیں پکایا جاتا تھا۔ اس ہنرکو منفرد ہونے کی وجہ سے خوب پذیرائی ملی۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ 1972ء میں امریکہ اور جاپان نے دوستی کی نشانی کے طورپر گڑیوں کا تبادلہ کیا۔ تبادلے کے طور پر ایچی ماتسو کی اس گڑیاکی ایک نقل بھی نمائش کی شان بڑھانے کا سبب ثابت ہوئی۔گڑیوں کی شکل میں جاپانی بچوں کی مختلف سرگرمیاں بھی جیتی جاگتی گڑیوں کے روپ میں دکھائی گئی ہیں جبکہ 1603ء سے 1868ء کے دوران آنے والے نئے سال کی آمد پر بچے ایک ایسا کھیل بھی کھیلا کرتے تھے جس میں لکڑی کے ہتھوڑے سے بال کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس کھیل کی نشاندہی کرنے والی گڑیا بھی نمائش کے لئے رکھی گئی تھیں۔ ٭…٭…٭