intelligent086
08-17-2015, 10:07 AM
استاد کا مقام پہچانیے (http://www.express.pk/story/383797/)
محمد سلمان (http://www.express.pk/author/1961/mohammad-salman/)
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/383797-teacher-1439620505-505-640x480.jpg
گزشتہ دنوں میٹرک کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ویسے تو ہمارا تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں مطلب کہ جرائم کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ کی ہی تلاش تھی۔ نارتھ ناظم آباد کی طرف سے آرہے تھے کہ آفس سے کال آئی کہ بورڈ آفس نکل جائیں کوئی احتجاج ہورہا ہے۔
بس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کچھ ہی لمحوں میں ٹیم کے ساتھ بورڈ آفس پہنچ گئے۔ لیکن وہاں جاکر کرنا کیا ہے کچھ علم نا تھا بس یہ معلوم تھا کہ طلبہ کی بڑی تعداد کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا اور فیل کردیا گیا۔ کچھ تعلیمی رپورٹر ساتھی موجود تھے۔ ان سے جانا تو بتایا گیا کہ بورڈ نے طلبہ کے اعتراض پر اسکروٹنی فارم جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ بھی بورڈ کی روایت کے برعکس تھا کیونکہ اسکروٹنی کا عمل مارک شیٹ ملنے کے بعد ہوتا تھا، لیکن بورڈ میں کرپشن کا گرم بازار کہیں یا اپنوں پر کی گی مہربانیوں کا ڈر، روایت ٹوٹ گئی۔ احتجاج تو نہ تھا لیکن بورڈ کی بلڈنگ میں موجود طلبہ نے کیمرہ دیکھا تو شور شرابہ کیا کہ بہت زیادتی کی گئی ہے کہ نویں جماعت میں گریڈ اے ون اور اے بن رہا تھا اس بار فیل کردیا گیا اور اسکروٹنی کا عمل بھی پیسے بنانے کا طریقہ ہے۔
چئیرمین ثانوی تعلیمی بورڈ نے اگلے روز نیوز کانفرنس میں بچوں کی اسکروٹنی کا نتجہ ذرائع ابلاغ کو دکھانے کا اعلان کیا، اتفاق تھا کہ اگلے روز نیوز کانفرنس بھی اپنے حصے میں آئی اور کمال ہوگیا۔ 300 سے زائد کاپیوں کی اسکروٹنی ہوئی اور پاس پھر بھی کوئی نہ ہوا۔ (http://www.express.pk/story/380898/) ہاں 4 طلبہ کے نمبرز میں 2 یا 4 نمبرز کا اضافہ ضرور ہوا۔ کام مکمل کیا اور واپس اس امید سے لوٹا کہ اب میٹرک بورڈ آنے کی ضرورت پیش نہیں ائے گی۔ اگلے روز منگھوپیر سے واپس آرہا تھا کہ فون بجا، حکم تھا میٹرک بورڈ آفس پہنچ جاؤ احتجاج ہورہا ہے۔ بورڈ آفس کی عمارت میں داخل ہوا تو ہر طرف سے یہ آوازیں تھیں۔ بڑا ظلم کیا ہے فیل کرکے، کرپشن کا بازار لگایا ہوا ہے۔ مگر میں سیدھا دوسری منزل پر گیا جہاں اطلاع تھی کہ بچے اپنی نویں کی مارک شیٹ جلارہے ہیں اور والدین بھی ساتھ ہیں، پہنچا تو ایسا ہی تھا۔ میں ناظم امتحانات کے کمرے میں داخل ہوا تو ہلڑ بازی عروج پر تھی۔ میرے بچہ بہت تیز ہے پڑھائی میں نویں جماعت میں 82 فیصد نمبر تھے، والدین کی صدائیں سنائی دے رہیں تھیں۔
میں بھی حیران تھا کہ نویں میں اِس قدر نمبر حاصل کرنے کے بعد بھلا دسویں جماعت میں ریاضی کے پرچے میں 14 نمبر کس طرح آسکتے ہیں؟ ضرور کوئی غلطی ہوگئی ہوگی انتطامیہ سے، لیکن بورڈ نے بھی ثبوت کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایک طالبہ کی والدہ کے اصرار پر امیدوار کی کاپی منگوائی گئی۔ محترم استاد بھی تھے، کاپی طالبہ کو دی گئی اور کہا گیا کہ خود دیکھ لے اپنا کام اور کوئی اعتراض ہے تو بتائیے۔ جس بچی نے اعتراض کیا اُن کی بچی بھی وہاں موجود تھیں۔ استاد نے سمجھانے کی کوشش کی تو بچی اور اس کی والدہ نے جو رویہ اپنا اُسے دیکھ کر دل بہت دکھی ہوا۔ بچی نے استاد سے کہا کہ فلاں سوال کا جواب یہ ہے آپ کو نہیں معلوم۔ ایک طرف استاد کی تذلیل ہورہی تھی (http://www.express.pk/story/360457/) اور دوسری طرف والدہ نے بھی بچی کے اِس برتاؤ کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ استاد جاہل ہیں۔
دل بوجھل ہوگیا کیونکہ جس طالبہ کو استاد نے سمجھنا بوجھنا، پڑھنا، لکھنا، صحیح، غلط، معاشرے میں ٹھیک سے رہنے کے ’گر سکھائے آج وہی طالبہ ایک 58 سالہ استاد کو بتارہی ہے کہ آپ کو اس سوال کا جواب ہی نہیں معلوم، میں اس بزرگ استاد کو بالکل نہیں جانتا تھا لیکن اپنی اسکول کا زمانہ یاد آگیا جب میں گورنمنٹ اسکول کا طالبعلم تھا۔ اساتذہ کہتے رہتے تھے اور ہم پڑھتے نہ تھے لیکن اساتذہ کی مہربانی تھی جب امتحان سر پر آتا تھا تو استاد ہمیں کچھ بنانے کے چکر میں 15 سے 20 سوال دیتے اور کہتے یہ ہی یاد کرلو تاکہ پاس تو ہوجاؤ۔
میں اِس بات سے انکار کر ہی نہیں سکتا کہ میں پڑھنے میں نالائق تھا اور زیادہ دلچسپی نہیں لیتا تھا لیکن استاد کی ایک ایک بات کو اہمیت دیتا تھا اورکوشش کرتا تھا کہ ان باتوں پر عمل کروں لیکن آج کی نئی نسل کو دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنےاستادوں کیساتھ اس طرح پیش آتے ہیں (http://www.express.pk/story/293127/) جیسے کہ استاد کوئی چپراسی ہو۔ لیکن اُن کو یہ معلوم نہیں یہ وہی اساتذہ ہیں جو علم سکھانے اور طلبہ کے روشن مستقبل کے لیے سب کچھ برادشت کرتے ہیں۔ لیکن علم لینے والے خود کو استاد سے بھی بڑا استاد سمجھتے ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ ذہین انسان کامیابی کی اعلی منازل کو طے کرسکتے ہیں لیکن ذہین انسان کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر استاد نہ ہوتا اس کی ذہانت کے بارے میں خود انسان کو اپنی ذہانت کے بارے میں بھی علم نہ ہو۔ ہم اِس بات کو جتنا جلدی سمجھ جائیں ہمارے لیے بہتر ہے کہ استاد کے ساتھ احترام اور محبت کا رشتہ قائم کرکے ہی ہم معاشرے میں ایک اچھا انسان اورعزت دار شہری بن سکتے ہیں۔
محمد سلمان (http://www.express.pk/author/1961/mohammad-salman/)
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/383797-teacher-1439620505-505-640x480.jpg
گزشتہ دنوں میٹرک کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ویسے تو ہمارا تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں مطلب کہ جرائم کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ کی ہی تلاش تھی۔ نارتھ ناظم آباد کی طرف سے آرہے تھے کہ آفس سے کال آئی کہ بورڈ آفس نکل جائیں کوئی احتجاج ہورہا ہے۔
بس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کچھ ہی لمحوں میں ٹیم کے ساتھ بورڈ آفس پہنچ گئے۔ لیکن وہاں جاکر کرنا کیا ہے کچھ علم نا تھا بس یہ معلوم تھا کہ طلبہ کی بڑی تعداد کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا اور فیل کردیا گیا۔ کچھ تعلیمی رپورٹر ساتھی موجود تھے۔ ان سے جانا تو بتایا گیا کہ بورڈ نے طلبہ کے اعتراض پر اسکروٹنی فارم جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ بھی بورڈ کی روایت کے برعکس تھا کیونکہ اسکروٹنی کا عمل مارک شیٹ ملنے کے بعد ہوتا تھا، لیکن بورڈ میں کرپشن کا گرم بازار کہیں یا اپنوں پر کی گی مہربانیوں کا ڈر، روایت ٹوٹ گئی۔ احتجاج تو نہ تھا لیکن بورڈ کی بلڈنگ میں موجود طلبہ نے کیمرہ دیکھا تو شور شرابہ کیا کہ بہت زیادتی کی گئی ہے کہ نویں جماعت میں گریڈ اے ون اور اے بن رہا تھا اس بار فیل کردیا گیا اور اسکروٹنی کا عمل بھی پیسے بنانے کا طریقہ ہے۔
چئیرمین ثانوی تعلیمی بورڈ نے اگلے روز نیوز کانفرنس میں بچوں کی اسکروٹنی کا نتجہ ذرائع ابلاغ کو دکھانے کا اعلان کیا، اتفاق تھا کہ اگلے روز نیوز کانفرنس بھی اپنے حصے میں آئی اور کمال ہوگیا۔ 300 سے زائد کاپیوں کی اسکروٹنی ہوئی اور پاس پھر بھی کوئی نہ ہوا۔ (http://www.express.pk/story/380898/) ہاں 4 طلبہ کے نمبرز میں 2 یا 4 نمبرز کا اضافہ ضرور ہوا۔ کام مکمل کیا اور واپس اس امید سے لوٹا کہ اب میٹرک بورڈ آنے کی ضرورت پیش نہیں ائے گی۔ اگلے روز منگھوپیر سے واپس آرہا تھا کہ فون بجا، حکم تھا میٹرک بورڈ آفس پہنچ جاؤ احتجاج ہورہا ہے۔ بورڈ آفس کی عمارت میں داخل ہوا تو ہر طرف سے یہ آوازیں تھیں۔ بڑا ظلم کیا ہے فیل کرکے، کرپشن کا بازار لگایا ہوا ہے۔ مگر میں سیدھا دوسری منزل پر گیا جہاں اطلاع تھی کہ بچے اپنی نویں کی مارک شیٹ جلارہے ہیں اور والدین بھی ساتھ ہیں، پہنچا تو ایسا ہی تھا۔ میں ناظم امتحانات کے کمرے میں داخل ہوا تو ہلڑ بازی عروج پر تھی۔ میرے بچہ بہت تیز ہے پڑھائی میں نویں جماعت میں 82 فیصد نمبر تھے، والدین کی صدائیں سنائی دے رہیں تھیں۔
میں بھی حیران تھا کہ نویں میں اِس قدر نمبر حاصل کرنے کے بعد بھلا دسویں جماعت میں ریاضی کے پرچے میں 14 نمبر کس طرح آسکتے ہیں؟ ضرور کوئی غلطی ہوگئی ہوگی انتطامیہ سے، لیکن بورڈ نے بھی ثبوت کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایک طالبہ کی والدہ کے اصرار پر امیدوار کی کاپی منگوائی گئی۔ محترم استاد بھی تھے، کاپی طالبہ کو دی گئی اور کہا گیا کہ خود دیکھ لے اپنا کام اور کوئی اعتراض ہے تو بتائیے۔ جس بچی نے اعتراض کیا اُن کی بچی بھی وہاں موجود تھیں۔ استاد نے سمجھانے کی کوشش کی تو بچی اور اس کی والدہ نے جو رویہ اپنا اُسے دیکھ کر دل بہت دکھی ہوا۔ بچی نے استاد سے کہا کہ فلاں سوال کا جواب یہ ہے آپ کو نہیں معلوم۔ ایک طرف استاد کی تذلیل ہورہی تھی (http://www.express.pk/story/360457/) اور دوسری طرف والدہ نے بھی بچی کے اِس برتاؤ کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ استاد جاہل ہیں۔
دل بوجھل ہوگیا کیونکہ جس طالبہ کو استاد نے سمجھنا بوجھنا، پڑھنا، لکھنا، صحیح، غلط، معاشرے میں ٹھیک سے رہنے کے ’گر سکھائے آج وہی طالبہ ایک 58 سالہ استاد کو بتارہی ہے کہ آپ کو اس سوال کا جواب ہی نہیں معلوم، میں اس بزرگ استاد کو بالکل نہیں جانتا تھا لیکن اپنی اسکول کا زمانہ یاد آگیا جب میں گورنمنٹ اسکول کا طالبعلم تھا۔ اساتذہ کہتے رہتے تھے اور ہم پڑھتے نہ تھے لیکن اساتذہ کی مہربانی تھی جب امتحان سر پر آتا تھا تو استاد ہمیں کچھ بنانے کے چکر میں 15 سے 20 سوال دیتے اور کہتے یہ ہی یاد کرلو تاکہ پاس تو ہوجاؤ۔
میں اِس بات سے انکار کر ہی نہیں سکتا کہ میں پڑھنے میں نالائق تھا اور زیادہ دلچسپی نہیں لیتا تھا لیکن استاد کی ایک ایک بات کو اہمیت دیتا تھا اورکوشش کرتا تھا کہ ان باتوں پر عمل کروں لیکن آج کی نئی نسل کو دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنےاستادوں کیساتھ اس طرح پیش آتے ہیں (http://www.express.pk/story/293127/) جیسے کہ استاد کوئی چپراسی ہو۔ لیکن اُن کو یہ معلوم نہیں یہ وہی اساتذہ ہیں جو علم سکھانے اور طلبہ کے روشن مستقبل کے لیے سب کچھ برادشت کرتے ہیں۔ لیکن علم لینے والے خود کو استاد سے بھی بڑا استاد سمجھتے ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ ذہین انسان کامیابی کی اعلی منازل کو طے کرسکتے ہیں لیکن ذہین انسان کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر استاد نہ ہوتا اس کی ذہانت کے بارے میں خود انسان کو اپنی ذہانت کے بارے میں بھی علم نہ ہو۔ ہم اِس بات کو جتنا جلدی سمجھ جائیں ہمارے لیے بہتر ہے کہ استاد کے ساتھ احترام اور محبت کا رشتہ قائم کرکے ہی ہم معاشرے میں ایک اچھا انسان اورعزت دار شہری بن سکتے ہیں۔