intelligent086
08-13-2015, 01:26 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13578_75218039.jpg.pagespeed.ic.R9AARdY_mN .jpg
احمد اعجاز
یہ کہانی مجھے اُس نے سُنائی جو کہانی کا کردار تو نہیں مگر کرداروں سے واقف تھا۔کہانی سناتے وقت وہ بھی مجھے کسی کہانی کا کردار ہی معلوم ہوا۔بیان کردہ کہانی کا مرکزی کردار ایسا شخص ہے جو اُس بستی کا مکین تھا جو دریائی کٹائو میں آگئی تھی ۔پوری بستی کی طرح اُس کے لیے یہ بڑا سانحہ تھا مگر دریا کی تباہی کے سامنے اُس نے اپنا حوصلہ اور شخصی تشخص نہ چھوڑا۔مَیں کہانی سنانے والے کے ساتھ اُس کی تلاش میں نکلا مگر اُس وقت ہونے والی طوفانی بارش ہمارے سروں پر برس پڑی۔ کہانی سنانے والے کے بقول: ’’وہ دریائے سندھ سے اُٹھنے والے سیلاب میں گردن گردن ڈوبتا اہل و عیال ،عزیز واقارب کو ڈھارس دیتا،ڈھورڈنگروں کو ہانکتا خشکی کی اُوربڑھا آرہا تھا۔اُس کی بستی دریا کے کنارے آبادتھی، جواب سار ی کی ساری زیرِ آب آکر دریا ہی کا حصہ معلوم ہو رہی تھی، دریا جسے وہ سندھو کے نام سے پکارتا ،مدتوں سے اس کی بستی کے لیے ایک زندگی بخش وجود تھا مگر جی میں کیا آئی کہ اچانک بپھر کر وجود سے باہر آگیا اور آن کی آن میں اس کی بستی سمیت اردگرد کے بڑے حصے کو اپنے پیٹ میں محفوظ کرتا چلا گیا۔اُسے ہمیشہ کی طرح اسی موسم میں دریاکے رویے میں تبدیلی نظر آئی جو ہر گز مثبت نہیں تھی ،یہاں اُسے سندھو کا رویہ اُن زمین داروں جیسا لگا جن کی ملکیت تو ہر گزرتے لمحے بڑھتی رہتی ہے مگر ہوس کم نہیں پڑتی۔ ہر طرف شور تھا دریا کی موجوں کا ،انسانوں کا ،ڈھورڈنگروں کا ۔۔۔ وہ جب خشکی پر پہنچا انسان اور ڈھورڈنگر دریا کے پانی کی طرح ہر طرف اُمنڈے پڑے تھے ،امداد تقسیم ہو رہی تھی اور سب کے سب امداد پر ٹوٹ رہے تھے ،بھوکے اور شوہدے سندھو کی طرح۔۔۔وہ حیرت سے تماشائی بنا رہا ،یوں لگ رہا تھا جیسے لوٹ مچی ہو ،سب کے سب خوراک اور دیگر استعمال کی اشیا کو حاصل کرنے کے لیے وحشی ہو رہے تھے،وحشی ہونے والوں میں سے بے شمار ایسے خاندان تھے جو ہزاروں لاکھوںکی نقدی ،لاکھوں کے زیورات اور لاکھوں ہی کے ڈھورڈنگر بہ حفاظت خشکی پر ہم راہ لے آئے تھے اور اخلاقی طور پر ہر گزکسی امداد کا استحقاق نہیں رکھتے تھے۔ایسے لوگ قطعی ضرورت مند نہیں تھے بلکہ ضرورت مندوں کے حصے پر دن دیہاڑے قبضہ جما رہے تھے۔وہ وحشی ہونے والوں کو چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ جس امداد کے لیے تم سب آسودہ اور خوش حال لوگ وحشی ہو رہے ہو،اپنی عزتِ نفس کا بھی خیال نہیں رکھ رہے ہو،یہ تمہارے لیے نہیں ،جس سرکاری بندوبست کردہ رہائش میں تم سب رہنے جا رہے ہو وہ بھی تمہارے لیے نہیں۔تمہار ے لیے تمہارا اپنا وہ مال و متاع ہے جسے تم اپنے ہم راہ لے آئے ہو اور ہر نوع کی امداد پر صرف اور صرف اُن کا حق ہے جو اپنا سب کچھ لٹا چکے اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ رہے ہیں ۔ اپنی زمین پر ،زمین کے باسیوں پر اور اپنے اُوپر ترس کھائو،سندھو ہمارا دوست ہے ،چند دن بعد اپنے وجود میں سمٹ جائے گا،ہماری زمین ہمارے حوالے کر دے گا،ہم ایک بار پھر زمین کا سینہ چیر کر خوش حالی اُگائیں گے۔ وہ چیختا رہا اور پکارتا رہا اور اُس کی پکار ایک حد تک کارگر ہوئی۔جب وہ اپنے کنبے سمیت ، ٹھکانا خود ڈھونڈنے کے واسطے روانہ ہوا تو ہم خیال لوگوں کا ایک کارواں اُس کے ہم رکاب تھا۔اُنھوں نے اپنے عزیز رشتہ دارجو تھل کے علاقے میں رہائش پزیر تھے کی مدد سے اپنے لیے چھت تلاش کی،ڈھورڈنگروں کے لیے چھائوں اور چارے کا بندوبست کیااوراپنی جمع پونجی،جو شاید ایسی ہی قدرتی اُفتاد کے لیے جوڑی گئی تھی،سے ضرورت کی ہر چیز خریدی۔اور جب راشن دینے والے حکومتی اور مقامی مخیر حضرات جو بڑے خلوص اور دیانت داری سے اپنی خدمات بہم پہنچانے کے واسطے اُن کے خیموں میں پہنچتے تو وہ شکریہ کے ساتھ امداد لینے سے معذوری کا اظہار کرتے۔جس سمے اُن سے زیادہ آسودہ حال لوگ اپنی شخصی عزت اور قومی غیرت کو پسِ پشت ڈال کر اپنے لیے چاولوں کے پیکٹوں،ڈھورڈنگروں کے لیے بھوسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور حکومت کی طرف سے ہونے والے نقصان پر پیسے کی امداد ملنے کی غرض سے ،غلط اور غیر حقیقی اندراج کرواکے غریب ہم وطنوں کے لیے خسارے کا سامان کر رہے تھے، وہ مصیبت اور بحران کے دنوں میں بھی اطمینان کی حالت میں تھے، قومی اداروں پر بوجھ نہیں بنے ہوے تھے اور مصیبت اور بحران کا مقابلہ کرکے اپنے ہونے کا بھر پور احساس دلا رہے تھے۔‘‘ کہانی سنانے والے اپنے جوش سے میرے اندر بھی ایک جوش بھر دیا۔ کاش ایسا جذبہ اور سوچ ہمارے ہاں عام اور راسخ ہو جائے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں کسی بیرونی امداد اور قرضے کی ضرورت نہیں،ہمیں ضرورت ہے تو صرف ایسے جذبوں کی ایسی سوچوں کی۔ہمارے مسائل کا حل بیرونی امدادیں اور بیرونی قرضے نہیں بلکہ ایسے جذبے اور سوچیں ہیں۔ہمیں اپنی توانائی کو اپنی محرومی کی تشہیر میں نہیں ایسے جذبوں اور سوچوں کو فروغ دینے میں صرف کرنا چاہیے۔ہمیں اپنے دکھوں کا مداوا خود کرنا چاہیے۔اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو زندگی شاندار انداز میں ہمارے لیے اپنے بازو وا کر دے گی۔۔۔کیا زندگی شاندار انداز میںہمارے لیے اپنے بازو وا نہیں کرے گی۔۔۔؟
احمد اعجاز
یہ کہانی مجھے اُس نے سُنائی جو کہانی کا کردار تو نہیں مگر کرداروں سے واقف تھا۔کہانی سناتے وقت وہ بھی مجھے کسی کہانی کا کردار ہی معلوم ہوا۔بیان کردہ کہانی کا مرکزی کردار ایسا شخص ہے جو اُس بستی کا مکین تھا جو دریائی کٹائو میں آگئی تھی ۔پوری بستی کی طرح اُس کے لیے یہ بڑا سانحہ تھا مگر دریا کی تباہی کے سامنے اُس نے اپنا حوصلہ اور شخصی تشخص نہ چھوڑا۔مَیں کہانی سنانے والے کے ساتھ اُس کی تلاش میں نکلا مگر اُس وقت ہونے والی طوفانی بارش ہمارے سروں پر برس پڑی۔ کہانی سنانے والے کے بقول: ’’وہ دریائے سندھ سے اُٹھنے والے سیلاب میں گردن گردن ڈوبتا اہل و عیال ،عزیز واقارب کو ڈھارس دیتا،ڈھورڈنگروں کو ہانکتا خشکی کی اُوربڑھا آرہا تھا۔اُس کی بستی دریا کے کنارے آبادتھی، جواب سار ی کی ساری زیرِ آب آکر دریا ہی کا حصہ معلوم ہو رہی تھی، دریا جسے وہ سندھو کے نام سے پکارتا ،مدتوں سے اس کی بستی کے لیے ایک زندگی بخش وجود تھا مگر جی میں کیا آئی کہ اچانک بپھر کر وجود سے باہر آگیا اور آن کی آن میں اس کی بستی سمیت اردگرد کے بڑے حصے کو اپنے پیٹ میں محفوظ کرتا چلا گیا۔اُسے ہمیشہ کی طرح اسی موسم میں دریاکے رویے میں تبدیلی نظر آئی جو ہر گز مثبت نہیں تھی ،یہاں اُسے سندھو کا رویہ اُن زمین داروں جیسا لگا جن کی ملکیت تو ہر گزرتے لمحے بڑھتی رہتی ہے مگر ہوس کم نہیں پڑتی۔ ہر طرف شور تھا دریا کی موجوں کا ،انسانوں کا ،ڈھورڈنگروں کا ۔۔۔ وہ جب خشکی پر پہنچا انسان اور ڈھورڈنگر دریا کے پانی کی طرح ہر طرف اُمنڈے پڑے تھے ،امداد تقسیم ہو رہی تھی اور سب کے سب امداد پر ٹوٹ رہے تھے ،بھوکے اور شوہدے سندھو کی طرح۔۔۔وہ حیرت سے تماشائی بنا رہا ،یوں لگ رہا تھا جیسے لوٹ مچی ہو ،سب کے سب خوراک اور دیگر استعمال کی اشیا کو حاصل کرنے کے لیے وحشی ہو رہے تھے،وحشی ہونے والوں میں سے بے شمار ایسے خاندان تھے جو ہزاروں لاکھوںکی نقدی ،لاکھوں کے زیورات اور لاکھوں ہی کے ڈھورڈنگر بہ حفاظت خشکی پر ہم راہ لے آئے تھے اور اخلاقی طور پر ہر گزکسی امداد کا استحقاق نہیں رکھتے تھے۔ایسے لوگ قطعی ضرورت مند نہیں تھے بلکہ ضرورت مندوں کے حصے پر دن دیہاڑے قبضہ جما رہے تھے۔وہ وحشی ہونے والوں کو چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ جس امداد کے لیے تم سب آسودہ اور خوش حال لوگ وحشی ہو رہے ہو،اپنی عزتِ نفس کا بھی خیال نہیں رکھ رہے ہو،یہ تمہارے لیے نہیں ،جس سرکاری بندوبست کردہ رہائش میں تم سب رہنے جا رہے ہو وہ بھی تمہارے لیے نہیں۔تمہار ے لیے تمہارا اپنا وہ مال و متاع ہے جسے تم اپنے ہم راہ لے آئے ہو اور ہر نوع کی امداد پر صرف اور صرف اُن کا حق ہے جو اپنا سب کچھ لٹا چکے اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ رہے ہیں ۔ اپنی زمین پر ،زمین کے باسیوں پر اور اپنے اُوپر ترس کھائو،سندھو ہمارا دوست ہے ،چند دن بعد اپنے وجود میں سمٹ جائے گا،ہماری زمین ہمارے حوالے کر دے گا،ہم ایک بار پھر زمین کا سینہ چیر کر خوش حالی اُگائیں گے۔ وہ چیختا رہا اور پکارتا رہا اور اُس کی پکار ایک حد تک کارگر ہوئی۔جب وہ اپنے کنبے سمیت ، ٹھکانا خود ڈھونڈنے کے واسطے روانہ ہوا تو ہم خیال لوگوں کا ایک کارواں اُس کے ہم رکاب تھا۔اُنھوں نے اپنے عزیز رشتہ دارجو تھل کے علاقے میں رہائش پزیر تھے کی مدد سے اپنے لیے چھت تلاش کی،ڈھورڈنگروں کے لیے چھائوں اور چارے کا بندوبست کیااوراپنی جمع پونجی،جو شاید ایسی ہی قدرتی اُفتاد کے لیے جوڑی گئی تھی،سے ضرورت کی ہر چیز خریدی۔اور جب راشن دینے والے حکومتی اور مقامی مخیر حضرات جو بڑے خلوص اور دیانت داری سے اپنی خدمات بہم پہنچانے کے واسطے اُن کے خیموں میں پہنچتے تو وہ شکریہ کے ساتھ امداد لینے سے معذوری کا اظہار کرتے۔جس سمے اُن سے زیادہ آسودہ حال لوگ اپنی شخصی عزت اور قومی غیرت کو پسِ پشت ڈال کر اپنے لیے چاولوں کے پیکٹوں،ڈھورڈنگروں کے لیے بھوسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور حکومت کی طرف سے ہونے والے نقصان پر پیسے کی امداد ملنے کی غرض سے ،غلط اور غیر حقیقی اندراج کرواکے غریب ہم وطنوں کے لیے خسارے کا سامان کر رہے تھے، وہ مصیبت اور بحران کے دنوں میں بھی اطمینان کی حالت میں تھے، قومی اداروں پر بوجھ نہیں بنے ہوے تھے اور مصیبت اور بحران کا مقابلہ کرکے اپنے ہونے کا بھر پور احساس دلا رہے تھے۔‘‘ کہانی سنانے والے اپنے جوش سے میرے اندر بھی ایک جوش بھر دیا۔ کاش ایسا جذبہ اور سوچ ہمارے ہاں عام اور راسخ ہو جائے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں کسی بیرونی امداد اور قرضے کی ضرورت نہیں،ہمیں ضرورت ہے تو صرف ایسے جذبوں کی ایسی سوچوں کی۔ہمارے مسائل کا حل بیرونی امدادیں اور بیرونی قرضے نہیں بلکہ ایسے جذبے اور سوچیں ہیں۔ہمیں اپنی توانائی کو اپنی محرومی کی تشہیر میں نہیں ایسے جذبوں اور سوچوں کو فروغ دینے میں صرف کرنا چاہیے۔ہمیں اپنے دکھوں کا مداوا خود کرنا چاہیے۔اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو زندگی شاندار انداز میں ہمارے لیے اپنے بازو وا کر دے گی۔۔۔کیا زندگی شاندار انداز میںہمارے لیے اپنے بازو وا نہیں کرے گی۔۔۔؟