intelligent086
08-12-2015, 02:08 AM
حادثات سے بچنا ممکن، لیکن کیا ہم سنجیدہ ہیں؟ (http://www.express.pk/story/382733/)
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/382733-Accident-1439278643-828-640x480.jpg
جمہوری معاشرے کا یہ وصف ہوتا ہے کہ عوام حکومت کو بروقت ٹیکس ادا کرتے ہیں اور حکومت عوام کے ٹیکسوں کو انتہائی شفاف اور منظم طریقے سے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے تاکہ ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جاسکے، جس میں ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہوں کیوںکہ ہر شہری کی زندگی کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔
پاکستان کوقائم ہوئے آج 68 برس ہوچکے ہیں مگر یہاں بنیادی حقوق کی کہانی آج بھی دل خراش منظر پیش کرتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں (ن) لیگ کی حکومت سے قائم ہر طرح کی عوامی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ ایک جانب لاہور، اسلام آباد اور راول پنڈی کے بعد اب ملتان میں میٹرو بس سروس منصوبہ (http://www.express.pk/story/146770/) شروع کردیا گیا ہے۔ جب کہ ان شہروں کی حالت اتنی نا گفتہ بہ ہے کہ اس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ دنیا کے ان مہنگے ترین منصوبوں کو صرف اس لیے جاری رکھا ہوا ہے کہ یہ عمل سیمنٹ اور سریا کی فروخت سے حاصل ہونے والے کمیشن کی شکل میں تجوریاں بھر رہا ہے۔ میٹرو بس منصوبے پر انتہائی بھاری رقم خرچ کرنے کے بعد عوام کو کتنا فائدہ اور ریاست کو سالانہ کتنا نقصان ہوا، اس بات سے قطع نظر اصل مسئلہ تو ٹریفک کا نظام بہتر بنانا ہے تاکہ ہر کوئی میٹرو بس منصوبے کی طرح آرام دہ، پرسکون اور محفوظ سفر کرسکے۔ ایک نئی عالمی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے پاکستان کو ان 20 ممالک کی صف میں شامل کیا ہے جہاں سڑک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد ترقی یافتہ ممالک سے تین گنا زیادہ ہوچکی ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے گلوبل روڈ سیفٹی ویک کا انعقاد کیا تھا۔ ویک کا موضوع اس بار Save kids life تھا۔ یہ ہفتہ مختلف ممالک میں حکومتوں، بین الاقوامی ایجنسیوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور مختلف نجی کمپنیوں کی طرف سے بھرپور شرکت کے بعد یادگار رہا۔ جس میں روڈ سیفٹی کے حوالے سے مختلف ممالک کے عوام میں شعور اجاگر کیا گیا۔ اسی طرح عالمی ادارہ صحت کی بچوں کے بارے میں حالیہ جاری کردہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر گزرنے والے چار منٹ میں ایک بچہ روڈ پر حادثے میں ہلاک ہوجاتا ہے۔ ہلاک ہونے والے بچوں میں زیادہ تر تعداد ان بچوں کی ہوتی ہے جو پیدل چلتے ہوئے یا روڈ پار کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے محفوظ رہنے کے لیے ادارے نے بچاؤ کے طریقے تجویز کیے ہیں۔
اِن حادثات میں جہاں دیگر بہت ساری وجوہات (http://www.express.pk/story/372868/) رکھی گئی ہیں وہاں دوران ڈرائیونگ الکحل کے استعمال کو مکمل ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بچے کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں اور کوئی بھی ملک اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے مستقبل کو سڑک حادثات (http://www.express.pk/story/363867/)میں کھو دے۔ ٹریفک قوانین کی تعلیم کو تمام اسکولوں کے بچوں کے لیے ضروری قرار دیا جائے۔ ہر اسکول کی اسمبلی میں روزانہ بچوں کو ٹریفک قوانین پر عمل درآمد اور حفاظتی نقطہ نظر سے ضروری اقدامات کے حوالے سے آگاہی دینا لازمی ہو۔ میڈیا کو بھی روڈ سیفٹی کے حوالے سے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہیے۔ مختلف اخبارات کو چاہیے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے صفحات پر روڈ سیفٹی کے قوانین کے بارے میں آگاہی دیں اور تمام حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ان سرگرمیوں کو نہ صرف مکمل مانیٹر کرے بلکہ اُن کی سرپرستی کرے۔
پاکستانی شہری پاکستان میں اپنے آپ کو ہر قسم کے قانون سے مبرا سمجھتے ہیں۔ سڑکیں چاہے جتنی کشادہ ہوں، ٹریفک اشاروں کا نظام جتنا اچھا ہو اگرآپ کے ہاں ٹریفک قوانین پر سزا کا (http://www.express.pk/story/349210/)قانون موجود نہیں تو سب بیکار ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی تہوار کے موقع پر خطرناک حالت کو پہنچی ہوئی دیکھی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر عیدالفطر، (http://www.express.pk/story/377062/) عیدالاضحیٰ اور یوم آزادی کے موقع پر ٹریفک قوانین کی جس طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں وہ قابل غور ہے۔ نوجوان طبقہ ون ویلنگ اور آپس میں ریس لگاتے ہوئے انتہائی خطرناک حادثوں کا شکار ہورہے ہیں۔ ون ویلنگ کرنے اور سائلنسر نکال کر عوام کا سکون غارت کرنے کو یہ فن سمجھتے ہیں۔
سچ پوچھئے تو پاکستان میں حادثات کی شرح کو کم کرنے (http://www.express.pk/story/330150/) کے لیے کبھی بھی سرکاری سطح پر کوئی کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک منظم طریقے سے ڈرائیونگ ٹریننگ اسکولز کا انتظام کیا جائے۔ روڈ سیفٹی کے قوانین پر عمل درآمد کے لیے سزائیں اور جرمانے بڑھائے جائیں۔ ٹریفک پولیس ٹریننگ کا بندوبست کیا جائے۔ لائسنس کا حصول تمام تر ٹیسٹوں اور مکمل یقین دہانی کے بعد ہی جاری کیا جائے اور سڑک پر گاڑی چلاتے وقت لائسنس کے نہ ہونے پر بھاری جرمانہ کیا جائے۔ جتنا زیادہ بھاری جرمانہ اور سزا ہوگی لوگ اسی طرح اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے۔
http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/382733-Accident-1439278643-828-640x480.jpg
جمہوری معاشرے کا یہ وصف ہوتا ہے کہ عوام حکومت کو بروقت ٹیکس ادا کرتے ہیں اور حکومت عوام کے ٹیکسوں کو انتہائی شفاف اور منظم طریقے سے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے تاکہ ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جاسکے، جس میں ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہوں کیوںکہ ہر شہری کی زندگی کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔
پاکستان کوقائم ہوئے آج 68 برس ہوچکے ہیں مگر یہاں بنیادی حقوق کی کہانی آج بھی دل خراش منظر پیش کرتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں (ن) لیگ کی حکومت سے قائم ہر طرح کی عوامی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ ایک جانب لاہور، اسلام آباد اور راول پنڈی کے بعد اب ملتان میں میٹرو بس سروس منصوبہ (http://www.express.pk/story/146770/) شروع کردیا گیا ہے۔ جب کہ ان شہروں کی حالت اتنی نا گفتہ بہ ہے کہ اس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ دنیا کے ان مہنگے ترین منصوبوں کو صرف اس لیے جاری رکھا ہوا ہے کہ یہ عمل سیمنٹ اور سریا کی فروخت سے حاصل ہونے والے کمیشن کی شکل میں تجوریاں بھر رہا ہے۔ میٹرو بس منصوبے پر انتہائی بھاری رقم خرچ کرنے کے بعد عوام کو کتنا فائدہ اور ریاست کو سالانہ کتنا نقصان ہوا، اس بات سے قطع نظر اصل مسئلہ تو ٹریفک کا نظام بہتر بنانا ہے تاکہ ہر کوئی میٹرو بس منصوبے کی طرح آرام دہ، پرسکون اور محفوظ سفر کرسکے۔ ایک نئی عالمی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے پاکستان کو ان 20 ممالک کی صف میں شامل کیا ہے جہاں سڑک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد ترقی یافتہ ممالک سے تین گنا زیادہ ہوچکی ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے گلوبل روڈ سیفٹی ویک کا انعقاد کیا تھا۔ ویک کا موضوع اس بار Save kids life تھا۔ یہ ہفتہ مختلف ممالک میں حکومتوں، بین الاقوامی ایجنسیوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور مختلف نجی کمپنیوں کی طرف سے بھرپور شرکت کے بعد یادگار رہا۔ جس میں روڈ سیفٹی کے حوالے سے مختلف ممالک کے عوام میں شعور اجاگر کیا گیا۔ اسی طرح عالمی ادارہ صحت کی بچوں کے بارے میں حالیہ جاری کردہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر گزرنے والے چار منٹ میں ایک بچہ روڈ پر حادثے میں ہلاک ہوجاتا ہے۔ ہلاک ہونے والے بچوں میں زیادہ تر تعداد ان بچوں کی ہوتی ہے جو پیدل چلتے ہوئے یا روڈ پار کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے محفوظ رہنے کے لیے ادارے نے بچاؤ کے طریقے تجویز کیے ہیں۔
اِن حادثات میں جہاں دیگر بہت ساری وجوہات (http://www.express.pk/story/372868/) رکھی گئی ہیں وہاں دوران ڈرائیونگ الکحل کے استعمال کو مکمل ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بچے کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں اور کوئی بھی ملک اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے مستقبل کو سڑک حادثات (http://www.express.pk/story/363867/)میں کھو دے۔ ٹریفک قوانین کی تعلیم کو تمام اسکولوں کے بچوں کے لیے ضروری قرار دیا جائے۔ ہر اسکول کی اسمبلی میں روزانہ بچوں کو ٹریفک قوانین پر عمل درآمد اور حفاظتی نقطہ نظر سے ضروری اقدامات کے حوالے سے آگاہی دینا لازمی ہو۔ میڈیا کو بھی روڈ سیفٹی کے حوالے سے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہیے۔ مختلف اخبارات کو چاہیے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے صفحات پر روڈ سیفٹی کے قوانین کے بارے میں آگاہی دیں اور تمام حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ان سرگرمیوں کو نہ صرف مکمل مانیٹر کرے بلکہ اُن کی سرپرستی کرے۔
پاکستانی شہری پاکستان میں اپنے آپ کو ہر قسم کے قانون سے مبرا سمجھتے ہیں۔ سڑکیں چاہے جتنی کشادہ ہوں، ٹریفک اشاروں کا نظام جتنا اچھا ہو اگرآپ کے ہاں ٹریفک قوانین پر سزا کا (http://www.express.pk/story/349210/)قانون موجود نہیں تو سب بیکار ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی تہوار کے موقع پر خطرناک حالت کو پہنچی ہوئی دیکھی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر عیدالفطر، (http://www.express.pk/story/377062/) عیدالاضحیٰ اور یوم آزادی کے موقع پر ٹریفک قوانین کی جس طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں وہ قابل غور ہے۔ نوجوان طبقہ ون ویلنگ اور آپس میں ریس لگاتے ہوئے انتہائی خطرناک حادثوں کا شکار ہورہے ہیں۔ ون ویلنگ کرنے اور سائلنسر نکال کر عوام کا سکون غارت کرنے کو یہ فن سمجھتے ہیں۔
سچ پوچھئے تو پاکستان میں حادثات کی شرح کو کم کرنے (http://www.express.pk/story/330150/) کے لیے کبھی بھی سرکاری سطح پر کوئی کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک منظم طریقے سے ڈرائیونگ ٹریننگ اسکولز کا انتظام کیا جائے۔ روڈ سیفٹی کے قوانین پر عمل درآمد کے لیے سزائیں اور جرمانے بڑھائے جائیں۔ ٹریفک پولیس ٹریننگ کا بندوبست کیا جائے۔ لائسنس کا حصول تمام تر ٹیسٹوں اور مکمل یقین دہانی کے بعد ہی جاری کیا جائے اور سڑک پر گاڑی چلاتے وقت لائسنس کے نہ ہونے پر بھاری جرمانہ کیا جائے۔ جتنا زیادہ بھاری جرمانہ اور سزا ہوگی لوگ اسی طرح اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے۔