PDA

View Full Version : بیلا



CaLmInG MeLoDy
08-11-2015, 11:31 PM
چمکتی دمکتی شفاف پیشانی پر ،پسینے کی نمی تیرتی ہوئی قطرہ بن کر، الجھے بالوں کی ایک لٹ سے جو پیشانی کو چھوتی ہوئی آنکھ کے اوپر سے گزر رہی تھی ، شفاف قطرے کی صورت میں اس لٹ پر سے بہ رہی تھی . اور آئینے کے سامنے بیٹھی خود کو دیکھتی اور سوچ میں مگن بیلا کی سوچ کو یکدم بھٹکا جاتا . آج گرمی تھی بھی بہت ، اور دن بھر کی تنہائ اور بجلی کے آنے جانے کی اٹھکھیلیوں نے بیلا کو ذہنی طور پر تھاکہ بھی بہت دیا تھا. اس کو انتظار تھا کے آسمان سے کسی طرف سے کوئی کالی گھٹا اے اور کچھ پانی برسا جائے، مگر ابھی صرف ہلکی ہلکی ہوا چھلنی شروع ہوئی تھی. جو کمرے کی کھلی کھڑکیوں سے گزرتی ہوئی کمرے کے دروازے سے آر پار ہو رہی تھی، اور کمرے کے باہر رکھی مختلف چیزوں سے ٹکرا رہی تھی. بیلا کو ڈر بھی تھا ، کہ ہوا کے تیز ہو جانے سے یہ چیزیں گر نہ جائیں ، پر پھر بھی اس کی ذہنی تھکاوٹ اس کو آئینے کے سامنے رکھی کرسی پر نیم دراز کے ہوئے تھی.

وہ چاہ کر بھی اٹھ نہیں پا رہی تھی، چیزوں کے گر کر ٹوٹنے کا خوف اسکے خیال کو اسکے بچپن کی طرف لے گیا، جب وہ بھوکی پیاسی گھنٹوں بیٹھی اپنی ماں کا انتظار کیا کرتی تھی. کہ کب ماں آے گی لوگوں کے گھروں کا کوڑا کرکٹ صاف کر کے ، اور پھر ان کا بچا کچا خانہ کسی مومی لفافے میں لٹکا کر ،
بیلا
بیلا
آواز دیتی ہوئی ، میری بچی آؤ کھانا کھا لو، صبح سے بھوکی ہو، اور بیلا بھوک سے پریشان بھاگتی ہوئی ماں کے پاس جانے کی کوشش کر ہی رہی تھی، کہ کمرے میں رکھے مٹی کے مٹکے سے ٹکرا گئی، اور وہ مٹکا زمین پر گر کر ٹوٹ جاتا ہے، یہ دیکھتے ہی کیسے کام سے تھکی ماں جو اس خواہش میں گھر میں داخل ہوئی تھی ، کہ بیلا کو کھانے کے لئے بلا کر اس کو کہونگی کہ پہلے مجھے ایک گلاس پانی پلا دو، پھر آ کر کھانا کھا لو، اپنی نہ بجھنے والی پیاس کے غصے میں بیلا کے معصوم رخسار پر ایک تھپڑ جڑتی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ تجھے کسی بات کا احساس بھی ہے، اگر سوچتی کہ ماں بھوکی پیاسی تیرے لئے محنت کر کے گھر لوٹی ہے تو پہلے خود ہی پانی کا بندوبست رکھتی، اور یوں لا پرواہی سے بھاگ کر مٹکے کو نہ توڑ دیتی، جس کو ماں صبح گھر سے نکلنے سے پہلے گلی کے آخری کونے پر لگے نلکے سے بھر لاتی تھی، کہ دن بھر کے کام سے تھک کے جب گرمی میں لوٹے گی تو یہ مٹکے کا پانی اس کو ٹھنڈک کا احساس دے گا.

اپنے بچپن کو سوچ سوچ بیلا کرسی پر نیم دراز ایسے اپنا رخ بدلتی ہے جیسے ، بے آرام بستر پر کروٹ بدلتی ہو، پھر ایک کروٹ پر اسکو بچپن کے اس بستر کا خیال آیا جو کبھی ٹوٹی پرانی مونجھ کی بنی ہوئی ڈھیلی ڈھالی چارپائی پر اس کی ماں اس کے لئے بچھا دیتی تھی، جس پر اس کے پاؤں پھیل کر پورے بھی نہ آتے تھے، یا کبھی کروٹ بدلنے کو جی چاہتا تو یہ خیال اس کو کروٹ بدلنے نہ دیتا کہ ماں کی تھکاوٹ کی نیند بیلا کی وجہ سے خراب نہ ہو، اور وہ گھٹی گھٹی اپنے سانس کو ہلکا لیتی پتا نہیں کب کس وقت سو جاتی تھی.

سانس بھر کر بیلا نے خود کو کرسی پر کچھ ایسے ذرا سا اٹھا لیا ، جیسے سامنے رکھی کسی میز پر وہ ابھی قلم کاغذ اٹھا کے لکھ لگ جائے گی، مگر لکھنا کہاں ، آج تو اسکو صرف سوچنا تھا، جیسے آج نہیں سوچے گی، تو کبھی کوئی خیال اسکو آے گا ہی نہہ ، وہ تھوڑی اور جھک گئی، جیسے کوئی بوڑھا انسان اپنے نہ توان کاندھوں کو جھکا کر ذرا سانس لیتا ہے، اور اٹھنے کی ہمت اکھٹی کرتا ہے، اور پھر ایک دم سے کرسی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، مگر بیلا وہیں بیٹھی رہی ، اور اپنی ماں کو یاد کرتی رہی جب اسکی ماں ایسے ہی گھر کی ایک زمانے پرانی کرسی پر بیٹھی اپنی زندگی کی آخری کھانسی کھانس رہی تھی.

کام کر کر کے جب بیلا کی ماں کو سردیوں میں ٹھنڈ لگ گئی تھی، تو وہ اپنے میں کمزوری کی وجہ سے سردی کے اثر کو برداشت نہیں کر پائی تھی، اور بہت بیمار ہو گئی تھی، ایسے میں اسکو اپنا کام کاج بھی چھوڑنا پڑا تھا، اور بیلا کو جو پندرہ برس کی ہونے کو تھی، نہ پڑھ پائی تھی،نہ کچھ خاص سیکھ پائی تھی، مگر روپ میں وہ زمانے بھر کی لڑکیوں کی طرح نکھر گئی تھی، اس کے روپ کو چھپانے کی بجاے ماں کو بیلا کو ان لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرنے کو بھیجنا پڑا ، کہ جن کے گھروں کے لڑکے اگر کبھی بیلا کی ماں کو کام کاج دیر سے ختم ہونے کی وجہ سے ، رات کو گھر ڈروپ کرنے آ جاتے ، تو ماں ڈر جاتی کے کہیں ، ان لڑکوں کی نظر اس کی بیلا پر نہ پڑ جائے ، مگر اب اپنی صحت کے ہاتھوں مجبور بیلا کی ماں کے پاس کوئی اور چارہ بھی تو نہ تھا ، کہ بیلا کا اور اپنا گزر بسر کر سکتی، ماں نے بیلا کو ان ہی لوگوں کے رحم و کرم پر کام کاج کرنے کو چھوڑ دیا.


خد بیلا کی ماں گھنٹوں بیٹھی انتظار کرتی کہ کب بیلا بلکل اس ہی عزت کے ساتھ گھر واپس آ جائے ، جس عزت کے ساتھ وو گھر سے جایا کرتی ہے، مگر بیلا جو شاید وقت اور
حالات کی قیدی ہو گئی تھی، اس کو گھر سے باہر کی رونق اپنی طرف کھینچنے لگی ، مگر ماں کا خیال اس کو واپس اپنی حد پر لے آیا اور پھر وہ خود بھی اپنی حد جان گئی تھی،
اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے لگی تھی.

بیلا

بیلا
ماں کو جب دروازے پر تھوڑی آہٹ ہوئی تو وہ بیلا کو آواز دینے لگی کے شاید بیلا ہے، مگر وہ آہٹ بیلا کی نہیں تھی، بیلا کی ماں کی آواز پڑوسیوں نے بھی سنی، مگر سب اپنی زندگی میں جیسے مگن ہوا کرتے تھے، ویسے ہی مگن رہے، کیوں کے یہ تو روز کی آواز تھی، مگر آج وہ آہٹ بیلا کی ماں کی موت کی آہٹ تھی، بیلا کی ماں کو اپنی طرف بلانے کے لئے ، اس آہٹ کا جواب نہ پا کر بیلا کی ماں ، اپنے اس بستر سے جو جسم کو نوچا کرتا تھا، چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی، لڑکھڑاتے ہوئے ، مگر دروازے تک جانے کی بجاے بیلا کی ماں وہیں زمین پر نیم دراز ہو گئی، وہ زمین پر ایسے گری کے پھر کھبی اٹھ نہ سکی، اسکی زندگی کا چراغ جو آج تک محنت مزدوری، اور فاقوں کے لئے روشن تھا، آج ہمیشہ کے لئے زمین بوس ہو گیا . اور بیلا کی ماں کا انتظار ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا،

بیلا لوٹی مگر آج اسکو آواز دینے کے لئے کوئی نہیں تھا، بیلا کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی، اسکو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے، کہاں جائے . اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی، اور پل بھر میں دنیا بھر کے سوالات اس کے ذہن میں گھومنے لگے، اس کا کیا ہوگا، اس کا سہارا کون ہوگا، لوگوں کی ان نظروں کا وہ کیسے مقابلہ کرے گی جن کا ذکر وو اپنی ماں سے اسلئے نہیں کرتی تھی کہ ماں اپنا آرام چھوڑ کر پھر سے کام کو نہ چل دے، مگر اسکی ماں تو دنیا سے ہی چل دی تھی. ماں کے قریب کھڑی وہ زور زور سے رونے لگی، کچھ اڑوس پڑوس کے لوگ اس کے گرد جما ہو گئے، اور بیلا کی ماں کی آخری رسومات ادا کرنے کے واسطے ادھر ادھر سے خرچہ پانی جما کر کے اس کے کفن دفن کا بندوبست کرنے لگے. تمام رسومات پوری ہونے کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیے، کوئی کرتا بھی کیا، ویسے بھی کوئی کسی کا کب تک ساتھ دیتا ہے. سب اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوئے.

چند روز بیلا کام کو بھی نہ گئی، کبھی ادھر والے گھر سے ، کبھی ادھر والے گھر سے بیلا کے لئے کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ آ جاتا. ایک آدھ محلّہ کی عورت اس کے گھر کا چکر لگا لیتی، زندگی ختم ہو جاتی ہے، مگر زندگی کے کاروبار تو چلتے رہتے ہیں، دس بارہ دن میں لوگ پھر سے اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہو گئے، بیلا کو اب تنہائی ستانے لگی، اور بھوک پیاس بھی کسی انسان کے صبر کی بات نہیں ہوتی، وو اگلے دیں بوسیدہ حال ، پھٹی چادر میں خود کو ڈھانپ کر کام کو چل دی، جن گھروں میں وہ کام کیا کرتی تھی، ان گھروں میں سے کچھ لوگ تو اسکے اب تک منتظر تھے، مگر کچھ لوگ اس کے نا آنے سے بد زن ہو کر نئی کام والی رکھ چکے تھے. بیلا کے لئے یہ سب مشکل تھا، مگر اسکو زندگی تو گزارنی تھی، کام کاج کر کے گھر آ کر کبھی وہ روتی ، کبھی پچھتاتی، کے اپنے باپ کے بے حد اسرار پر بھی اس نے اپنی تعلیم جاری نہ رکھی تھی، اگر اس نے اپنی تعلیم جاری رکھی ہوتی تو آج باپ کے مرنے کے دس سال بعد، اور ماں کے مرنے کے کچھ دن بعد ہی ، وہ اس قابل تو ہوتی کہ کوئی کام کر لیتی، کوئی چھوٹی موٹی نوکری کر لیتی. مگر اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت.

بیلا کو لوگوں کی نظروں شروع سے ہی کھٹکا رہتا تھا. پہلے امیروں کی اس کی غریبی پر نظر اس کو کھٹکتی تھی، پھر ان ہی امیروں کی اسکی لہکتی عمر کی خوبصورتی پر نظر اسکو چبھنے لگی تھی. مرتی کیا نہ کرتی. بیلا سب کی نظروں کو چیرتی ہوئی بارہ برس سے بائیس برس کی ہو گئی تھی. کبھی کسی کی مجال ہوتی بھی اس کی طرف بری نگاہ ڈالنے کی تو وہ چیخ چیخ کر محلے بھر کے لوگوں کو اکھٹا کر لیتی. عزت جو پیاری تھی اسکو. بیلا کی سوچیں اس کو اپنے آپ میں با کردار پا کر خوشی محسوس کر رہی تھیں.


چونک اٹھی بیلا یکدم سے . ایک چھناکے کی آواز نے اس کو سوچوں کے سمندر سے باہر نکال لیا. کچھ گرا اور ٹوٹ گیا. اور بیلا کا دھیان اپنے پرانے وقت سے اوجھل ہو گیا ، وہ تیزی سے کمرے سے باہر بھاگی. یہ دیکھنے کو کہ آج پھر اس کی لا پرواہی سے اس گھر کا قیمتی گلدان تیز ہوا کے جھونکے سے زمین بوس ہو گیا. بیلا کا تو جیسے سکوں ہی درہم برہم ہو گیا. اس کو افسوس ہونے لگا. کے کاش اس نے لا پرواہی نہ کی ہوتی. اور اپنی مالکن کے کہنے پر گھر کی کھڑکیاں دروازے بند کر لئے ہوتے. تو آج یوں اچانک اس کی بے دھیانی میں کب ہوا تیزی ہو گئی، کہ کمرے سے گزرتی ہوئی بالکونی تک جا پوھنچی اور وہاں رکھے گلدان کو گرا کر چلتی بنی. اور اس خاموشی کو بھی توڑ گئی ، جو اس نے ایک گھنٹے سے قائم رکھی ہوئی تھی. وہ جلدی جلدی کانچ کے ٹکڑے سمیٹنے لگی. اور رونے لگی. کہ پتا نہیں اس کی مالکن اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی. آج کسی فنکشن میں جانے کے واسطے بیلا کو رات دیر تک گھر کا خیال رکھنے کو گھر میں چھوڑا گیا تھا. اس کو کیا کیا سوالوں کے جواب دینے ہونگے. کہاں تھی. دھیان کدھر تھا. کیا کر رہی تھی. اور نہ جانے ان گنت کتنے سوالات اور کس طرح کے.
ایک مفلس اپنی مفلسی پر پریشان صرف ایک گلدان کی قیمت چکانے کے لئے کتنے سوال اپنے ذہن میں لا کر انکو جھٹک رہی تھی. کیوں کے وہ جانتی تھی کے اس گلدان کی قیمت اسکے مہینے بھر کی کمائی سے بھی زیادہ تھی . نہ جانے اس گلدان کو دنیا کے کس کونے سے مگنوا کر اس گھر کی زینت بنایا گیا تھا. اور اس کے آگے بیلا کی زینت پھیکی پڑ گئی تھی. بیلا کانچ کے ٹکڑوں کو سمیٹتی جا رہی تھی. اور اکیلے گھر کے سنّاٹے سے گھبرایے ہوئے اس انتظار میں تھی کہ کب گھر کے مالک گھر کو واپس آیئں اور وہ اس نقصان کے لئے معافی مانگ سکے. . آج کا دن تو بیلا کے لئے ویسے بھی نہ خوشگوار ہی رہا تھا. گزرے وقت کی یادیں اسکو ایسے ستا رہی تھیں ، جیسے کسی کام کے ہو جانے پڑ انسان کو ملال ہوتا ہے. کانچ کے ٹکڑوں کو بیلا نے اپنے آنچل میں سمیٹ لیا اور پھینکنے کے لئے باسکٹ کی طرف چل دی.


دروازہ کھٹکنے کی آواز نے بیلا کو ڈرا بھی دیا ، اور یہ امید بھی دلا دی کہ شاید گھر کے مالک گھر لوٹ آے ہیں، بیلا نے ڈرتی آواز سے پوچھا کون......


کون ہے بیلا بٹیا
بولو بیلا بٹیا کون ہے، یہ کچھ ٹوٹنے کی آواز آی ہے مجھے.
بول بیلا بٹیا تو ڈر تو نہیں رہی.


مگر بیلا کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا. اسکے منہ سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی. یکدم سے سارے گھر میں روشنی پھیل گئی. اور سب جگ مگ ہو گیا. بیلا کا خوف تھوڑا کم ہوا. بجلی آتے ساتھ ہی بیلا میں جیسے حوصلہ پیدا ہوا.


کک کک کچھ نہیں ہوا آپ فکر نہ کریں بابا . بیلا کانچ کو کوڑے میں پھینک کر جلدی سے دروازے کی طرف بھاگی . اور خوف میں دروازہ کھولے بغیر چوکیدار سے مخاطب ہوئی.
بابا ہوا تیز چل رہی تھی. میری آنکھ لگ گئی ذرا دیر کو تو کھڑکی بند نہیں کر سکی. گلدان ٹوٹ گیا.


اچھا اچھا ...ٹھیک ہے. تو اکیلی ہے نہ بٹیا تو میں ڈر گیا کے کوئی مثلہ تو نہیں. چوکیدار بیلا کو تسلی دے کر اپنی کوٹھری کی طرف روانہ ہو گیا. مگر بیلا پھر سے ایک عجیب سے خوف کا شکار ہو گئی. پرایا گھر، کوئی رکھوالا نہیں، بابا بھی تو انجان انسان ہے، کسی کا کیا بھروسہ ، مگر ہے ہمارا پرانا جاننے والا ، بس ایک اس ہی اعتبار پر بیلا نے اپنی ساری زندگی اکیلے گزار دی کے اور کوئی نہیں تو بابا تو ہے اس کی خیر خواہی کے لئے . بابا بیلا کے باپ کا دوست تھا. بیلا اور اسکی ماں کا حال احوال بابا ہی کبھی کبھار آ کر پوچھ لیا کرتا تھا. اور اپنی ہی وجہ سے بابا نے بیلا کو اس گھر کی نوکری دلائی ہوئی تھی. بیلا کا بھی گزر بسر ہو رہا تھا اس گھر کی تنخواہ پر ، اور بابا کا بھی. ان ہی سوچوں کے ساتھ ہلکے ہلکے قدم بڑھاتی بیلا پھر سے اس ہی کمرے میں داخل ہو گئی، جہاں آئنے کے سامنے بیٹھے وہ اپنا گزرا پل یاد کر رہی تھی. لائٹ آ جانے کی وجہ سے بیلا میں اب تھوڑا حوصلہ پیدا ہو گیا تھا. تو اس نے سوچا کے تھوڑی دیر کو بے خوف ہو کر سویا جائے. رات بھی کافی ہو گئی تھی. اور اس گھر کے مالکان کی آمد کا ابھی تک کوئی نام و نشان نہیں تھا.


بیلا نے خود کو بستر پر ڈھیر کر دیا. اسکے نصیب میں کہاں تھے ایسے نرم گداز بستر، پنکھے کی ہوا اس کے چہرے کو ٹھنڈک کا احساس دے رہی تھی. اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے جان میں جان آئ ہو، ایسا اسکی زندگی میں پہلی دفعہ ہوا تھا، کے کسی نے اپنا سارا گھر اسکے ذمے ڈال دیا ہو، اس گھر کی رکھوالی اسکے لئے بوجھ بھی تھی. اور زندگی کو پہلی دفعہ عیاشی سے دیکھنے کا ایک موقع بھی ، بیلا کو فریزر کا خیال آیا، اور پیاس بجھانے کی طلب سے یہ احساس بھی ہوا کے دو گھنٹے سے غایب بجلی نے اس گھر کے فریزر پر کونسا برا اثر چھوڑا ہوگا. ابھی بھی پینے کو ٹھنڈا پانی ہوگا ، صوفے پر بیٹھ کر بیلا نے جی بھر کر پانی پیا. اور گہرا سانس لیا، جیسے اسے آکسیجن نصیب ہو گئی ہو، اپنی ہتھیلی کو اپنے ہونٹوں پر پھیر کر اسنے ٹھنڈے پانی کو صاف کیا. اور دوبارہ سے دم بھرنے کو بستر کی طرف چل دی. بستر پر نیم دراز اسنے ٹیلیویزن آن کر لیا. اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ٹیلیویزن ایسے دیکھنے لگی جیسے اسنے کبھی ٹیوی دیکھا ہی نہ ہو. اسکو احساس ہی نہیں ہوا کب اس نرم بستر پر اسکی آنکھ لگ گئی. اور اسکی ساری سوچیں خواب میں چلی گیئں.


































چمکتی دمکتی شفاف پیشانی پر پسینے کی نمی بالوں پر سے تیرتی ہوئی قطرہ قطرہ بن کر الجھے بالوں کی ایک لٹ سے جو پیشانی کو چھوتی ہوئی آنکھ کے اوپر سے گزر رہی تھی ، اس پر سےہوتے ہوئے ٹپک رہے تھے۔































chamakdi damakti shaffaf paishaani pe paseene ki nami
baaloun pe se tairti hui qatra ban ke uljhe baaloun ki aik lat se jo paishani ko chooti hui aankh ke oopar se guzar rahi thi chalak jata tha aur aaine ke saamne baithe khud ko daikhti aur soch main magan bela ki soch ko aik dam se bhatka jata tha , aj garmi thi bhi bohot aur dinn bhar ki tanhayee aur bijli ke aane jane ki athkhaliyoun ne bela ko zehni tour pe thaka bhi bohot dia tha us ko intizar tha ke aasmaan se kisi taraf se koi kali ghata aaye aur kuch pani barsa jaye magar abhi sirf halki halki hawa chalna hi shroo hui thi jo kamre ki khuli khirkiyoun se guzarti hui kamre ke darwaze se guzar rahi thi aur kamre ke bahar rakhi hui mukhtalif cheezoun se takra rahi thi, bela ko dar bhi tha ke hawa ki tezi in cheezoun ko gira na de par phir bhi us ki zehni thakwat us ko aaine ke samne rakhi kursi pe neem daraz kiye hue thi .


چمکتی دمکتی شفاف پیشانی پر پسینے کی نمی بالوں پر سے تیرتی ہوئی قطرہ قطرہ بن کر الجھے بالوں کی ایک لٹ سے جو پیشانی کو چھوتی ہوئی آنکھ کے اوپر سے گزر رہی تھی ، اس پر سےہوتے ہوئے ٹپک رہے تھے۔
wo chah kar bhi uth nahi paa rahi thi,,cheezoun ke giirr ke tootne ka darr us ka khayal achanak us ke bachpan ki taraf le gaya , jab wo bhooki piyasi ghantoun baithi apni maan ka intizar karti thi, ke kab maan aaye gi lougon ke gharoun ko koora karkat saaf kar ke aur phir un ka bacha kucha khana kisi moum ke lifaafe main latka kar bela!! bela!! awaz deti hui meri bachi aao khana kha lo subh se bhooki ho aur bela bhook se pareshan dorti hui maan ke paas jane ki koshish kar hi rahi thi ke kamre main rakhe matti ke matke se takra gai hai aur wo matka zameen pe girr kar toot jata hai ,ye daikhte hi kaise kaam se thaki maan jo is khuahish main ghar main dakhil hui thi ke bela ko khane ke liye bula kar us ko kahoongi ke pehle mujhe aik glass pani pila do phir aa ke khana kha lo , apni na bujhne wali piyas ke gusse main bela ke masoom rukhsar pe aik thappar jar deti hai ye kehte hue ke tujhe kisi baat ka ehsaas bhi hai, agar sochti ke maan bhooki pyasi tere liye mehnat karti ghar louti hai toh pehle khud hi pani ka bandobast rakhti aur youn la parwahi se bhaag kar matke ko na tour deti jis ko maan subh ghar se nikalne se pehle gali ke aakhir kone pe lage pani ke nalke se bhar laati thi ke dinn bhar ke kaam se thak ke jab garmi se loute gi toh ye matke ka paani us ko thandak ka ehsaas de ga.

kaisa guzra bela ke bachpan ye soch soch wo kursi pe neem daraz aise apna rukh badal leti jaise be araam bistar pe karwat badalti ho, phir aik karwat pe us ko bachpan ke us bistar ka khayal aaya jo kabhi tooti purani moonjh ki buni hui dheeli dhali charpaaye pe us ki maan us ke liye bicha deti thi jis pe us ke paaon phail kar poore bhi na aate the ya kahbi karwat badalne ko jee chahta toh ye khayal us ko karwat badalne na deta ke maan ki thakawat ki neend bela ki waja se maan ko pareshan na kar de aur wo ghuti ghuti apne saans ko halka leti pata nahi kab kis waqt so jati thi.

saans bhar ke bela ne phir khud ko kursi se zara aise utha liya jaise saamne rakhi kisi maiz pe wo abhi kalm khagaz utha ke likhne lag jaye gi,magar likhna kahan aaj toh us ko sirf sochna tha jaise aj nahi soche gi toh kabhi koi khayal us ko aaye ga hi nahi ,wo thori aur jhuk gai jaise koi boorha insan apne na tawaan kaandhoun ko jhuka kar zara saans leta hai aur uthne ki himmat ikkhatti karta hai aur phir aik dam se kursi se uth khara hota hai , magar wo wahin baithi rahi aur apni maan ko yaad karti rahi ,jab us ki maan bhi aise hi ghar ki aik zamane purani kursi pe baithi apni zindagi ki aakhri khansi khaans rahi thi.

kaam kar kar ke jab us ko sardiyoun main thand lag gai toh wo apne main kamzori ki waja se is sardi ke asar ko bardaasht nahi kar paayee aur bohot bimar ho gai , aur aise main us ko apna kaam kaaj bhi chorna para aur bela ko jo ab pandra baras ki hone ko thi na parh payee thi na kuch khas seekh paayee thi magar roop main wo dunia ki kafi khoobsoorat larkiyoun se bhi ziada nikhar gai thi ,us ke roop ko chupane ki bajaye maan ko us ko un lougon ke gharoun pe kaam karne ko bhaijna para jin ke gharoun ke larke agar kabhi bela ki maan ko kisi dinn shadi wadi ke kaamoun main dair ho jane ki waja se raat bara baje ghar pe drop karne aa jate toh maan dar jati ke kahin un larkoun ki nazar us ki bela pe na par jaaye , magar ab apni sehat ke hathoun majboor bela ki maan ke paas koi aur chaara bhi na tha ke bela ka aur apna guzar basar kar sakti ,bela ko un lougon ke rehm-o-karam pe kaam kaaj ko chor dia,khud ghantoun baithi intizar karti ke kab bela bilkul us hi izzat ke sath ghar wapas aa jaye gi jis izzat ke sath wo ghar se jaaya karti thi,magar bela jo shayad waqt ki aur halat ki qaidi ho gai thi us ko ghar se bahar ki ronaq apni taraf khainchne lagi.magar phir maan ka khayal us ko wapas apni hadd pe le aaya aur phir wo khud bhi apni hadd jaan gai aur khud ko mehfooz rakhne lagi.

bela!! bela!! ye awaz dene lagi jab maan ko darwaze pe thori aahat hui magar wo aahat bela ki toh nahi thi ,wo aahat toh bela ki maan ki mout ne ki thi, bela ki maan ko apni taraf bulane ke liye bela ki maan apne jisam ko nochnte bistar se uth kar darwaze tak jane ki koshish main thi ke chakkra ke girr pari us ko na toh pata chala ke us ko chakkar kion aaye aur na hi pata chala ke wo kion girr pari wo zameen pe daraz ho gai asal main wo aise giri ke phir kahbi uth hi nahi saki....us ki zinadgi ka chiraagh bas yaheen tak roshan tha jo girte sath hi zameen bos ho gaya aur phir bela ki maan ka bela ka intizar bhi khatam ho gaya ,bela louti magar us ko awaz dene ke liye uski maan na thi ,bela ke toh paaon ke neeche se zameen nikal gai ,us ko kuch samajh nahi aaya wo kia kare kahan jaaye, us ka sahara koun hoga..lougon ki un nazroun ka wo kaise muqabla kare gi jin ka zikar wo apni maan se isliye nahi karti thi ke maan apna aram chor kar phir se kam ko na chal de,magar us ki maan toh dunia hi se chal di, pata nahi kia kia sochne lagi wo maan ke kareeb khari , aur zor zor se rone lagi arous parous ke kuch loug us ke girdd jama hue aur idhar udhar se kharcha pani jama kar ke us ki maan ki aakhri rasoomaat poori kar ke us ko dua de kar apne apne gharoun ko rukhsat hue..

chand roz bela kaam ko bhi na gai, kabhi idhar wale ghar se kahbi udhar wale ghar se bas guzare laaiq khana us ke liye aa jata, aik aadh mohalle ki parosan us ke ghar ka chakkar laga leti ,magar zindagi khatam ho jati hai zindagi ke karobaar toh chalte hi rehte hain, phir das baara dinn main phir se loug apni apni zindagiyoun main magan ho gaye ,bela ko ab tanhayee satane lagi aur bhook pyas bhi kisi insan ke sabar ki baat nahi hoti hai,wo agle dinn boseeda haal phati kale rang ki chadar main khud ko dhaanmp ke kaam ko chal di, das baara dinn ho gaye the jin ke gharoun pe kaam kia karti thi un lougon main se bhi kuch loug us ke muntazir the aur kuch ne us ka intizar karna na munasib samajh kar us ki bajaye kisi aur ko apne ghar pe kaam kaaj ke liye rakh liya, wo aj phir se apni zindagi guzarne ki koshish karne lagi, ghar aa ke kabhi roti toh kabhi pachtaati ke apne baap ke be had israar ke bawajood agar us ne apni taleem jari rakhi hoti toh aaj is haal main na hoti, kam az kam baap ke marne ke baad maan ki mout tak wo baarweehn jamat paas kar chuki hoti

maan ke maheene ki kamayee itni toh thi hi ke wo itna toh parh hi leti ,,magar bela ko toh lougno ki nazroun ka shroo se hi khatka tha , pehle ameeroun ki us ki gareebi pe nazar us ko khatakti thi toh phir un hi ameeroun ki us ki khoobsoorti pe nazar us ko khatakne lagi..magar marti kia na karti. bela sab ki nazroun ko cheerti hui satra baras ki ho gai thi kabhi kisi ki majaal hoti bhi us pe nazar karne ki toh wo cheekh cheekh kar apne gali mohalle ke lougon ko jama kar leti ,izzat joh pyari thi..jaane de deti par apni izzat pe kabhi aanch na aane deti..

aik dam bela chounk gai!!!!! chaanaaaaaaaaak............kuch gira aur toot gaya aur aik dam bela ka dhayan apne purane waqt se ojhal ho gaya aur wo kamre se bahar bhaagi ye daikhne ko ke aj phir us ki la parwahi ho gai aur ghar ki malikan ke kehne ke bawajood us ne ghar ki khirkiyaan band nahi ki aur us ke khayaloun main be dhayani main kab hawa itni taiz ho gai ke kamre se bahar rakhe gulldaan ko zameen pe gira ke chalti bani aur us ki soch ko aur us khamoshi ko tour gai jo us ne is kamre main aik ghante se qaaim rakhi hui thi, wo jaldi jaldi kaanch ke tukre samaintne lagi aur rone lagi ke pata nahi us ki malkan ab us ko kia kahe gi ,bela tu kis khayal main thi, kia kar rahi thi, kahan thi, ghar ka khayal kion nahi rakha, garz ye ke malkan ki befikri ab us ke liye fikar ki waja ban gai.

wo soch rahi thi aur darr rahi thi ke ye crystel ka gulldaan jo malkan ke bhai ne us ko pata nahi dunia ke kis hisse se khareed kar gift kia tha wo us ne tour dala us ne kia us ke naseeb ne tour dala jjis ka azaala ab us ko apni tankhuah ki katoti ki soorat main karna pare ga, magar us ke liye tankhuah ka katna acha nahi tha makaan ka kiraya bhi toh us ne dena tha, hazaar haa lougon ki nazroun se bachne ke liye , aaj saaloun purani nokar hone ke naate malkan us pe bharosa kar gai aur apni bohot guzarish pe sirf us ke hawale apne ghar ko kar ke chali gai ke do dinn ke baad wapsi pe us ko apna ghar waisa hi mile jaisa wo chor kar gai thi , raat ko sone ke liye dono dinn ghar ke bahar baitha gate keeper ghar se bahar bane choki daari wale kamre main hi so jata ..ghar main hue khatke ki awaaz sunn ke aik dam ghar ka darwaza khatkaane laga kia ho gaya,,koun hai kia ho gaya koun hai bela rani !!

bela bitya bolo na kia hua..

bela!! bela!!

magar bela jaise dar si gai thi us ke moonh se awaz tak nahi nikal rahi thi aik dam se sare ghar main roshni phail gai, shayad bijli aa gai thi....kaanch ko samait kar koore main phaink kar darwaze ki taraf bhagi aur andar se hi darwaza khole bagair gate keeper ko kaha kuch nahi saayeen baba , gulldan hawa se toot gaya hai andhare main khirki band karna bhool gai thi..

bela ka tassali bakhsh jawab sunn kar gate keeper acha theek hai keh kar apni kothri ki taraf chal dia aur bela ko ab jaise hosh aa gaya ,aur us ki aankhain poori tarha khul gai ke ab us ko khona nahi hai us ka kahin bhi kho jana us ke liye kaise bhi nuqsan ka baais ho sakta hai , ya toh wo kaam kaaj se nikali jaye gi , ya phir aise hi kisi roz kisi ke ghar ki chaakri karti kisi ki gandi soch aur buri nazar ka nishana bann jaye gi.us ne khud ko aj bohot samait liya aur ye pachtawa bhi chor dia ke us ka guzra waqt kasia tha..aur halke halke chalti aik dam dour kar begam sahiba ke us naram bistar pe rawana ho li jo sari zindagi istimal karne ka wo soch bhi nahi sakti thi halanke wo bistar sirf ghar ke noukroun ke liye tha magar bela ke liye toh phir bhi bara araam deh tha...aur phir bela ye soch kar bistar main araam sa mehsoos karne lagi ke jab ye waqt ALLAH ne guzaar dia hai jo har larki ki zindagi main sab se mushkil hota hai toh baki waqt bhi guzar hi dega..phir us ko khayal bhi toh aane laga ke gate keeper jis ko pyar se sab saayeen kehte the wo bhi toh us ke areeb kareeb hai aur us waqt se us ke kareeb hai jab bela ka baap bela ko bela ki maan ke hawale kar ke hamesha ke liye is dunia se rukhsat ho gaya tha aur apne ikloute dost sayeen ko marte marte ye keh gaya tha ke wo apna khayal rakh nahi paaye toh saayeen hi us ka khayal rakh lega , aur parosi hone ke naate sayeen ne us ke ghar aur aabroo ki hifiazat ki .

aur jab saayeen ko laga ke bela ki maan nahi rahi aur bela ab is dunia main aikaili hai apne dukh dard daikhne ko toh sayeen ne bela ko apna liya ,aur apna samajhne laga kion ke bela ab chand roz hi main saayen ki bahoo bann ne wali thi..barsoun purani chakri karte daikh raha tha ,bachpan se aj tak bela us ki nazroun main rahi bela ki sharm-o-haya ka qaail tha aur phir dil ka bhi naik tha apne bete ke naseeb ko us ne bela ki khoobsoorti aur us ki naiki se saja dia,,aur muqaddar bhi bela ka acha hi nikla kion ke bela ke naseeb se is hi hafte dubai ke liye mazdoori ka bandobast ho gaya tha saayeen ke bete ka aur ye bhi tae ho gaya tha ke bela bhi saayeen baba ke bete ke sath kuch waqt baad dubai chali jaye ye soch us ke chehre pe halki si muskurahat laayee aur issi muskurahat ke sath hi bela ko neend aa gai........