intelligent086
07-31-2015, 02:38 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13486_87749661.jpg.pagespeed.ic.AbKk3Hau36 .jpg
ترجمہ:منورآکاش
سوال:۔آپ نے لکھنا کیسے شروع کیا؟ مارکیز:۔ کارٹون بنا کر، جب میں لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا۔ ایک ہائی سکول میں مزاحیہ کارٹون بناتا تھا۔ اس میں مزاح کی بات یہ تھی کہ ہائی سکول میں میری شہرت ایک لکھاری کی تھی۔ جب کہ اس وقت تک میں نے لکھا کچھ بھی نہیں تھا۔ اشتہارات اور درخواستیں لکھنے کے لئے مجھے کہا جاتا کیونکہ میں لکھاری مانا جاتا تھا ۔ جب میں کالج میں داخل ہوا تو میرے دوستوں کی نسبت میرا ادبی حوالہ زیادہ اچھا تھا۔ بوگاتا یونیورسٹی میں میری کچھ ایسے لوگوں سے دوستی ہوئی جنہوں نے اس وقت کے ادیبوں سے میرا تعارف کروایا۔ مجھے ایک رات ایک دوست سے کافکا کی کہانیوں کی کتاب ملی ۔ میں نے کمرے میں آ کر پڑھنا شروع کر دیا ۔ کہانی کی پہلی سطر پڑھتے ہی میں چونک کر بستر سے اٹھ بیٹھا ۔ وہ سطر یہ تھی’’ ایک صبح جب گریگور سامسا اپنے خوابوں سے جاگا ، اس نے اپنے آپ کو بستر میں ایک بڑے سے کاکروچ میں تبدیل ہوا ہوا پایا ‘‘ ۔ جب میں نے یہ سطریں پڑھیں تو مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ ایسا لکھنے کی اجازت ہے۔ اگر معلوم ہوتا تو میں بہت پہلے ہی لکھنے لگ جاتا۔ اس کے فوراً بعد میں نے لکھنا شروع کر دیا جو کہ اخبارات کے ادبی صفحات میں چھپنا شروع ہو گیا۔ یہ کہانیاں سنجیدہ موضوعات پر مبنی تھیں ۔ میں انہیں اپنے ادبی تجربات کی بنا پر لکھ رہا تھا ۔ اس وقت تک میں ادب اور زندگی میںاپنے لئے کوئی راستہ تلاش نہیں کر سکا تھا ۔ ان کہانیوں کوکچھ کامیابی ملی کیونکہ اس وقت کولمبیا میں کوئی اور اس طرح کی کہانیاں نہیں لکھ رہا تھا ۔ اس وقت تک زیادہ تر دیہاتی اور سماجی زندگی کے حوالے سے لکھا جاتا تھا ۔ جب میں نے اپنی پہلی کہانی لکھی تو مجھ سے کہا گیا کہ اس پر جیمز جوائس کے اثرات ہیں ۔ سوال:۔کیا آپ کچھ ایسے لوگوں کے نام بتا سکتے ہیں جن کے اثرات آپ نے قبول کئے؟ مارکیز:۔وہ لوگ جنہوں نے لکھنے کے اس دانشورانہ رویے سے میری جان چھڑائی وہ امریکہ کی ایک گم شدہ نسل کے ادیب تھے۔ میں سمجھتا تھا ان کے ادب کا زندگی کے ساتھ گہرا رشتہ ہے جو میری کہانیوں میں نہیںہے ۔ پھر ایک واقعہ ہوا جومیرے لئے اس حوالے سے بہت اہم ہے ۔اپریل ۱۹۴۸ء میں حورخے گیتان نامی ایک رہنما کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، لوگ سڑکوں پر نکل آئے میں اپنے کمرے میں کھانا کھا رہا تھا ۔ جب میں نے یہ خبر سنی میں لوگوں کی طرف بھاگا اس وقت گیتان کو ٹیکسی میں ڈال کر ہسپتال لے جایا جارہا تھا ۔لوگ دوکانیں لوٹ رہے تھے ۔اور عمارتوں کو آگ لگا رہے تھے میں لوگوں کے ساتھ مل گیا اس دن میں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ میں کس طرح کے لوگوں میں رہ رہا ہوں اور میری کہانیوں کا ان کے ساتھ کتنا کمزور رشتہ ہے ۔ کچھ عر صے کے بعد مجھے واپس بار نکیلا جانے کیلئے مجبور ہونا پڑا ۔ جہاں میں نے اپنا بچپن گزارہ تھا وہاں ویسی زندگی تھی جسے میں جانتا تھا ، جسے میں نے جیا تھا اور اب میں اس کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا ۔ ۵۱۔۱۹۵۰ء میں ایک اور واقعہ ہوا جس نے میرے ادبی رحجانات پر اثر ڈالا ۔ میری والدہ مجھے اپنے گھر آر اکاتاکا میں لے گئیں جہاں میں پیدا ہوا تھا ، اپنا بچپن گزارا تھا ۔ وہاں جا کر مجھے جھٹکا لگا میں اب ۲۲ سال کا تھا جب میں نے یہ جگہ چھوڑی تھی تب میں ۸ سال کا تھا ۔ وہاں پر کچھ نہیں بدلا تھا مجھے ۔ ایسا لگا جیسے میں گائوں کو دیکھ نہیں رہا بلکہ محسوس کر رہا ہوں ۔ اس کو بسر کر رہا ہوں مجھے ایسا لگ رہا تھا ہر وہ چیز جو میں دیکھ رہا ہوں پہلے دیکھی جاچکی ہے ۔ مجھے بس اتنا کرنا تھا اس سب کو دوبارہ لکھنا تھا جو میں نے ادب میں نئے رویوں ، گھر ،لوگ ، یادوں کے حوالے سے دیکھا ۔مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ یہ سب میں نے فاکنر کے ہاں پڑھا ہے ۔یا نہیں؟لیکن میں جان چکا ہوں کہ فاکنر وہ سب لکھنے میں ناکام رہا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں ۔ گائوں کی فضا ، وہاں کی گرمی ویسی ہی تھی جیسی کہ فاکنر کی تحریروں میں محسوس ہوتی تھی ۔ ناقدین نے میرے بارے میں کہا کہ مجھ پر فاکنر کے اثرات ہیں لیکن میں اس کے برعکس سوچتا ہوں ۔میں نے دن رات مواد اکٹھا کیا اور اس مواد کو فالکنر سے مختلف انداز سے استعمال کیا۔ گائوں سے واپس آنے کے بعد اپنا پہلا ناول لکھا۔ جب میں ناول لکھ رہا تھا میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور محسوس کیا کہ میں ایک ادیب بننا چاہتا ہوں اور کوئی مجھے روک نہیں سکتا ۔ صرف ایک چیز میرے لئے باقی تھی کہ مجھے دنیا کا سب سے اچھا ادیب بننا تھا ۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۸ء تک اپنی ۸ میں سے ۵ کتابوں کو رائلٹی ملی۔ ٭…٭…٭
Admin
ترجمہ:منورآکاش
سوال:۔آپ نے لکھنا کیسے شروع کیا؟ مارکیز:۔ کارٹون بنا کر، جب میں لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا۔ ایک ہائی سکول میں مزاحیہ کارٹون بناتا تھا۔ اس میں مزاح کی بات یہ تھی کہ ہائی سکول میں میری شہرت ایک لکھاری کی تھی۔ جب کہ اس وقت تک میں نے لکھا کچھ بھی نہیں تھا۔ اشتہارات اور درخواستیں لکھنے کے لئے مجھے کہا جاتا کیونکہ میں لکھاری مانا جاتا تھا ۔ جب میں کالج میں داخل ہوا تو میرے دوستوں کی نسبت میرا ادبی حوالہ زیادہ اچھا تھا۔ بوگاتا یونیورسٹی میں میری کچھ ایسے لوگوں سے دوستی ہوئی جنہوں نے اس وقت کے ادیبوں سے میرا تعارف کروایا۔ مجھے ایک رات ایک دوست سے کافکا کی کہانیوں کی کتاب ملی ۔ میں نے کمرے میں آ کر پڑھنا شروع کر دیا ۔ کہانی کی پہلی سطر پڑھتے ہی میں چونک کر بستر سے اٹھ بیٹھا ۔ وہ سطر یہ تھی’’ ایک صبح جب گریگور سامسا اپنے خوابوں سے جاگا ، اس نے اپنے آپ کو بستر میں ایک بڑے سے کاکروچ میں تبدیل ہوا ہوا پایا ‘‘ ۔ جب میں نے یہ سطریں پڑھیں تو مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ ایسا لکھنے کی اجازت ہے۔ اگر معلوم ہوتا تو میں بہت پہلے ہی لکھنے لگ جاتا۔ اس کے فوراً بعد میں نے لکھنا شروع کر دیا جو کہ اخبارات کے ادبی صفحات میں چھپنا شروع ہو گیا۔ یہ کہانیاں سنجیدہ موضوعات پر مبنی تھیں ۔ میں انہیں اپنے ادبی تجربات کی بنا پر لکھ رہا تھا ۔ اس وقت تک میں ادب اور زندگی میںاپنے لئے کوئی راستہ تلاش نہیں کر سکا تھا ۔ ان کہانیوں کوکچھ کامیابی ملی کیونکہ اس وقت کولمبیا میں کوئی اور اس طرح کی کہانیاں نہیں لکھ رہا تھا ۔ اس وقت تک زیادہ تر دیہاتی اور سماجی زندگی کے حوالے سے لکھا جاتا تھا ۔ جب میں نے اپنی پہلی کہانی لکھی تو مجھ سے کہا گیا کہ اس پر جیمز جوائس کے اثرات ہیں ۔ سوال:۔کیا آپ کچھ ایسے لوگوں کے نام بتا سکتے ہیں جن کے اثرات آپ نے قبول کئے؟ مارکیز:۔وہ لوگ جنہوں نے لکھنے کے اس دانشورانہ رویے سے میری جان چھڑائی وہ امریکہ کی ایک گم شدہ نسل کے ادیب تھے۔ میں سمجھتا تھا ان کے ادب کا زندگی کے ساتھ گہرا رشتہ ہے جو میری کہانیوں میں نہیںہے ۔ پھر ایک واقعہ ہوا جومیرے لئے اس حوالے سے بہت اہم ہے ۔اپریل ۱۹۴۸ء میں حورخے گیتان نامی ایک رہنما کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، لوگ سڑکوں پر نکل آئے میں اپنے کمرے میں کھانا کھا رہا تھا ۔ جب میں نے یہ خبر سنی میں لوگوں کی طرف بھاگا اس وقت گیتان کو ٹیکسی میں ڈال کر ہسپتال لے جایا جارہا تھا ۔لوگ دوکانیں لوٹ رہے تھے ۔اور عمارتوں کو آگ لگا رہے تھے میں لوگوں کے ساتھ مل گیا اس دن میں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ میں کس طرح کے لوگوں میں رہ رہا ہوں اور میری کہانیوں کا ان کے ساتھ کتنا کمزور رشتہ ہے ۔ کچھ عر صے کے بعد مجھے واپس بار نکیلا جانے کیلئے مجبور ہونا پڑا ۔ جہاں میں نے اپنا بچپن گزارہ تھا وہاں ویسی زندگی تھی جسے میں جانتا تھا ، جسے میں نے جیا تھا اور اب میں اس کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا ۔ ۵۱۔۱۹۵۰ء میں ایک اور واقعہ ہوا جس نے میرے ادبی رحجانات پر اثر ڈالا ۔ میری والدہ مجھے اپنے گھر آر اکاتاکا میں لے گئیں جہاں میں پیدا ہوا تھا ، اپنا بچپن گزارا تھا ۔ وہاں جا کر مجھے جھٹکا لگا میں اب ۲۲ سال کا تھا جب میں نے یہ جگہ چھوڑی تھی تب میں ۸ سال کا تھا ۔ وہاں پر کچھ نہیں بدلا تھا مجھے ۔ ایسا لگا جیسے میں گائوں کو دیکھ نہیں رہا بلکہ محسوس کر رہا ہوں ۔ اس کو بسر کر رہا ہوں مجھے ایسا لگ رہا تھا ہر وہ چیز جو میں دیکھ رہا ہوں پہلے دیکھی جاچکی ہے ۔ مجھے بس اتنا کرنا تھا اس سب کو دوبارہ لکھنا تھا جو میں نے ادب میں نئے رویوں ، گھر ،لوگ ، یادوں کے حوالے سے دیکھا ۔مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ یہ سب میں نے فاکنر کے ہاں پڑھا ہے ۔یا نہیں؟لیکن میں جان چکا ہوں کہ فاکنر وہ سب لکھنے میں ناکام رہا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں ۔ گائوں کی فضا ، وہاں کی گرمی ویسی ہی تھی جیسی کہ فاکنر کی تحریروں میں محسوس ہوتی تھی ۔ ناقدین نے میرے بارے میں کہا کہ مجھ پر فاکنر کے اثرات ہیں لیکن میں اس کے برعکس سوچتا ہوں ۔میں نے دن رات مواد اکٹھا کیا اور اس مواد کو فالکنر سے مختلف انداز سے استعمال کیا۔ گائوں سے واپس آنے کے بعد اپنا پہلا ناول لکھا۔ جب میں ناول لکھ رہا تھا میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور محسوس کیا کہ میں ایک ادیب بننا چاہتا ہوں اور کوئی مجھے روک نہیں سکتا ۔ صرف ایک چیز میرے لئے باقی تھی کہ مجھے دنیا کا سب سے اچھا ادیب بننا تھا ۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۸ء تک اپنی ۸ میں سے ۵ کتابوں کو رائلٹی ملی۔ ٭…٭…٭
Admin