PDA

View Full Version : حمائیت علی شاعر کی قابل رشک داستان حیات



intelligent086
07-28-2015, 10:46 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13457_43956530.jpg.pagespeed.ic.lBEaGluUqQ .jpg

عبدالحفیظ ظفرچ
ہر شخص کی یہ فطری خواہش ہے کہ وہ ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اس جہان رنگ بو سے رخصت ہو۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص کی اس خواہش کی تکمیل ہو۔ لوگ خواب دیکھتے ہیں، بعض کو ان کی تعبیرمل جاتی ہے اور بعض اپنے خوابوں کے محل چکنا چور ہوتے دیکھتے ہیں۔ مایوسی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ آخر اسے مقدر کا لکھا جان کرصبر سے کام لیتے ہیں۔ بہرحال قسمت بھی تو کوئی چیز ہے۔ بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ قسمت ہی سب کچھ ہے۔ حمائیت علی شاعر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری ہے۔ بہت کام کیا، بہت نام کمایا اور زندگی کے اس حصے میں بھی ان کے راستے میں ناکامیوں کے کانٹے نہیں بلکہ کامیابیوں اور مسرت کے پھول بکھرے پڑے ہیں۔ بہت کم ہوتے ہیں ایسے لوگ۔ یقینا بہت کم۔ وہ سر سے پائوں تک ایک فنکار ہیں ایک کثیر الجہات (Multi-faceted) فنکار۔ ہم اپنے قارئین کو اس نادر روزگار شخصیت کے ہر گوشے کے متعلق بتائیں گے۔ حمائیت علی شاعر 14 جولائی کو اورنگ آباد (بھارت) کے ایک فوجی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام حمائیت تراب ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے افسانہ نگاری کی اور بعد میںشعر کے میدان میں قدم رکھا۔ 1950ء کے اوائل میں حمائیت علی شاعر نے کراچی آ کر ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کرلی۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان میں مختلف ذمہ داریاں نبھائیں۔60ء کے عشرے میں وہ فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے پاکستانی فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے۔ ان کی یہ وابستگی 15 برس تک جاری رہی۔ انہوں نے ایک عمدہ غزل گو کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا۔ وہ اردو کے سکہ بند شاعر، گیت نگار، اداکار اور ریڈیو ڈرامہ آرٹسٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اتنا ہمہ جہت فنکار واقعی کوئی کوئی ہوتا ہے۔ ایک زمانہ ان کی خداداد صلاحیتوں کا معترف ہے۔ پاکستان آنے سے پہلے وہ آل انڈیا ریڈیو میں کام کرتے تھے۔ ان کی شاعری کی پہلی کتاب ’’آگ میں پھول‘‘ 1956ء میں شائع ہوئی اور 1958ء میں اسے صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ فلم ’’آنچل‘‘ اور ’’دامن‘‘ کے گیتوں پر انہیں دوبار نگار ایوارڈ سے نوازاگیا۔ 1966ء میں انہوں نے اپنی ذاتی فلم ’’لوری‘‘ بنائی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ کراچی میں اس فلم نے گولڈن جوبلی منائی۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ’’مٹی کا قرض‘‘،’’ تشنگی کاسفر‘‘ اور ’’ہارون کی آواز‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعے ’’حرف حرف روشنی‘‘ نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔ حمائیت علی شاعر اردو ادب کی تاریخ کے واحد شاعر ہیں جن کی خودنوشت 3500 اشعار پر مشتمل ہے۔ 2007ء میں ان کے کلیات ’’کلیات شاعر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ ان کی شاعری کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے۔1976ء میں انہوں نے سندھ یونیورسٹی میں اردو ادب کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا۔ جب ان کے بچے بڑے ہوئے تو انہوں نے فلمی صنعت کو خیرباد کہا۔ دراصل ان کی اہلیہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے بچے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فلمی صنعت سے وابستہ ہو جائیں۔1989ء میں حمائیت علی شاعر کو دہلی میں مخدوم محی الدین انٹرنیشنل ایوارڈ ملا۔2001ء میںانہیں واشنگٹن میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملا۔ ذیل میں ہم اپنے قارئین کی خدمت میں ان کی غزلیات کے چند اشعار پیش کر رہے ہیں جو ان کی شعری عظمت کا بین ثبوت ہیں۔ اس کے غم کوغم ہستی تو مرے دل نہ بنا زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا ہمارے سامنے زیبا نہیں غرور تمہیں جہاں پہ بیٹھے ہو تم وہ جگہ ہماری ہے میں نے کہا کہ یار تجھے کیا ہوا ہے یہ اس نے کہا کہ عمر رواں کی عطا ہے یہ تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے جو کچھ بھی گزرنا ہے مرے دل پہ گزر جائے اترا ہوا چہرہ مری دھرتی کا نکھرجائے ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ ازل سے ایک عذاب قبول درد میں ہوں کبھی خدا تو کبھی ناخدا کی زد میں ہوں آج کی شب بھی ہو جو ممکن تو جاگتے رہنا کوئی نہیں ہے جان کا ضامن جاگتے رہنا وہ ایک رومانوی شاعر ہیں لیکن انہوں نے اپنی شاعری کے کینوس کو محدود نہیں رکھا۔ ان کی غزلیات میں ہمیں معروضی حالات کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ وقت کے ساتھ وہ اپنا شعری اسلوب بھی تبدیل کرتے رہے۔ ان کے اشعار میں ہمیں شعری طرز احساس اور جدید طرز احساس کا بڑا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ حمائیت علی شاعر نے فلمی گیت نگاری میں بھی کمالات دکھائے۔ انہوں نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ ان کے فلمی گیتوں کا معیار بہت بلند تھا اوروہ ادبی چاشنی سے مزین ہوتے تھے۔ ان کی فلم ’’لوری‘‘ کے اداکاروں میں محمد علی، زیبا اور سنتوش کمارشامل تھے۔ اس فلم کی ہدایتکاری کے فرائض بھی انہوں نے سرانجام دیئے۔ ان فلم کے گیت لاجواب تھے۔ انہوں نے مزاحیہ گیت بھی لکھے اور لوریاں بھی تخلیق کیں جو بے حد مقبول ہوئیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ حمائیت علی شاعر کے زیادہ تر فلمی نغمات کی موسیقی خلیل احمد نے ترتیب دی۔ خلیل احمد کے ساتھ ان کی دیرینہ دوستی تھی۔ حمائیت صاحب کو اپنے ہم عصر نغمہ نگاروں میں ممتاز مقام حاصل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت کے مشہور فلمساز و ہدایتکار آنجہانی یش چوپڑا نے انہیں اپنی فلم میں نغمہ نگاری کی پیش کش کی لیکن وہ نجی مصروفیات کی وجہ سے ممبئی نہ جاسکے۔ وہ مشاعروں کے بھی بڑے کامیاب شاعر تھے اور ان کے تنقیدی مضامین کے بھی تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ’’لوری‘‘ کے علاوہ دو اور فلمیں بھی بنائیں جن کے نام تھے ’’گڑیا‘‘ اور ’’منزل کہاں ہے تیری‘‘۔ اب ہم حمائیت علی شاعر کے چند شاندار فلمی نغمات کا ذکر کریں گے جن کی شہرت اور اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ فلموںکے نام بھی دیئے جا رہے ہیں۔ -1 جب سے دیکھا ہے تمہیں دل کا عجب عالم ہے (جب سے دیکھا ہے تمہیں) -2 ہمت سے ہر قدم بڑھانا تو ہے پاکستانی (جب سے دیکھا ہے تمہیں) -3 اپنے پرچم تلے ہرسپاہی چلے (اک تیرا سہارا) -4 نہ چھڑا سکو گے دامن (دامن) -5 میں نے تو پریت نبھائی (خاموش رہو) -6 ساتھیو مجاہدو (ترانہ) (مجاہد) -7 دور ویرانے میں اک شمع ہے روشن (نائیلہ) -8 جب رات ڈھلی تم یاد آئے (کنیز) -9 ہر قدم پر نت نئے سانچے میں (میرے محبوب) -10 اے جان وفا دل میں تری یاد رہے گی (تصویر) -11 ہم بھی مسافر تم بھی مسافر(بدنام) -12 نوازش کرم شکریہ مہربانی (میں وہ نہیں) -13 خداوندا یہ کیسی آگ سی جلتیہے سینے میں (لوری) -14 چندا کے ہنڈولے میں (لوری) -15 میں خوشی سے کیوں نہ گائوں(لوری) حمائیت علی شاعر حیات ہیں۔ اللہ انہیں عمر خضر عطا کرے۔ یقینا ان جیسے فنکار اس ملک کا گرانقدر سرمایہ ہیں۔ ٭…٭…٭