Log in

View Full Version : ایٹمی توانائی ابتدا کیسے ہوئی؟



intelligent086
07-26-2015, 12:59 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13430_41575036.jpg.pagespeed.ic.nyDEL2AnxB .jpg

ڈاکٹر محمد اسلم پرویز


نیوکلیائی دور کی شروعات2 دسمبر 1942ء کو ہوئی تھی۔ امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی میں سائنسدانوں کے ایک گروپ نے، جس کی سربراہی ڈاکٹر فرمی کر رہے تھے، کامیابی کے ساتھ دنیا کی پہلی ایٹمی بھٹی روشن کی۔ تین سال بعد 16 جولائی 1945ء کی صبح کو دنیا نے ایٹمی توانائی کا دوسرا رخ دیکھا۔ جنوبی میکسیکو کے ریگستان میں پہلا ایٹم بم ٹیسٹ کیا گیا۔ یہ پہلا ایٹمی دھماکا اور تجربہ تھا۔ محض چند ہفتے بعد 6 اگست 1945ء کو امریکہ نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا جس سے کم ازکم ستّر ہزار افراد ہلاک اور اس سے کہیں زیادہ عمر بھر کے لیے اپاہج ہوگئے۔ گویا محض تین سال کے قلیل عرصے میں سائنس کی ایک زبردست ایجاد نے ایک خطرناک ہتھیار کی شکل اختیار کرلی۔ جو توانائی کنٹرول کے ساتھ استعمال کرنے پر انسان کی خادم ثابت ہوئی تھی، وہی جب بے مہارنکلی تو قاتل بن گئی۔ ننھے سے اور آنکھ سے نظر نہ آنے والے ایٹم کے قلب میں چھپی یہ توانائی موجودہ صدی کی سب سے اہم دریافت ہے۔ زمین میں پائی جانے والی دیگر معدنیات اور دھاتوں کی طرح یورینیم بھی ایک دھات ہے تاہم اس کی اہمیت انیسویں صدی کے آخر میں واضح ہوئی جب 1896ء میں ہنری بیکیوریل نامی فرانسیسی سائنسداں نے یہ دریافت کیا کہ یورینیم (Uranium) سے بنے مادے کچھ خاص قسم کی شعاعیں خارج کرتے ہیں۔ یہ شعاعیں روشنی کی شعاعوں کی طرح فوٹو گرافک فلم پر اپنا نشان چھوڑتی ہیں۔ ایسے تمام مادوں کو ’’ریڈیو ایکٹو‘‘(تابکار) کہا جاتا ہے اور یہ عمل ’’ریڈیو ایکٹوٹی‘‘ کہلاتا ہے۔ ہر مادہ بنیادی طور پر ایٹم سے بنا ہوتا ہے۔ ایٹم کے مرکز میں ایک ننھی سی گیند نما چیز ہوتی ہے جس کو نیوکلیس کہتے ہیں۔ اس نیوکلیس میں دو قسم کے ذرات ہوتے ہیں۔ مثبت برقی چارج رکھنے والے ذرات کو ’’پروٹون‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ دوسری قسم کے ذرات پر کوئی برقی چارج نہیں ہوتا اور ان کو ’’نیوٹرون‘‘ کہا جاتا ہے۔ پروٹون کی وجہ سے نیوکلیس پر مثبت چارج ہوتا ہے۔ نیوکلیس کے گرد مختلف ہالوں میں منفی چارج رکھنے والے ذرات گردش کرتے رہتے ہیں جن کو ’’الیکٹران‘‘ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی ایٹم کے نیوکلیس میں جتنے پروٹون ہوتے ہیں اتنا ہی مثبت چارج نیوکلیس پر ہوتا ہے اور نیوکلیس پر جتنا مثبت چارج ہوتا ہے اتنے ہی الیکٹران اس کے گرد گھومتے ہیں۔ اس طرح کسی بھی ایٹم پر بذات خود کوئی چارج نہیں ہوتا۔ تابکار(ریڈیو ایکٹو) مادوں کے نیوکلیس ناپائیدار ہوتے ہیں۔ ان میں موجود ذرات اپنی شکل تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ نیوکلیس کے ٹوٹنے کے اس عمل کی وجہ سے اس میں سے شعاعیں خارج ہوتی ہیں۔ یہ شعاعیں تین اقسام کی ہو سکتی ہیں۔ کچھ ایلفا (Alpha) ذرات پر مشتمل ہوتی ہے تو کچھ بِیٹا(Beta) ذرات پر۔ جبکہ کچھ گاما (Gama) شعاعیں ہوتی ہیں۔ کسی بھی تابکار مادے سے عموماً بِیٹا ذرات پر مشتمل شعاعیں خارج ہوتی ہیں۔ ان کے اخراج کی دووجوہات ہو سکتی ہیں۔ یا تو تابکار مادے کے ناپائیدار نیوکلیس میں موجود نیوٹرون، پروٹون میں تبدیل ہو جاتا ہے(اس عمل کے دوران نیوٹرون سے ایک الیکٹران اور ایک ’’اینٹی نیوٹرنو‘‘(Anti-Neutrino) نامی ذرہ الگ ہوتا ہے) یا پھر پروٹون، نیوٹرون میں تبدیل ہو جاتا ہے (اس عمل کے دوران ایک پوزیٹرون (Positron) اور ایک نیوٹرنو(Neutrion)اس سے الگ ہوتے ہیں) ایلفا شعاعیں، ایلفا ذرات پر مشتمل ہوتی ہیں اور ایلفا ذرے میں دو نیوٹرون اور پروٹون ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایلفا ذرّے پر دو مثبت چارج ہوتے ہیں۔ ایلفا ذرّات کم قوت کے حامل ہوتے ہیں اور محض کاغذ بھی ان کو روک سکتا ہے۔ بِیٹا شعاعیں بھی ذرات پر مشتمل ہوتی ہیں اور یہ ذرّات الیکٹران ہوتے ہیں۔ بِیٹا شعاعوں کو روکنے کے لیے ہلکی دھات یا پلاسٹک کی پرت درکار ہوتی ہے۔ گاما شعاعیں روشنی کی طرح برقی، مقناطیسی شعاعوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ زیادہ قوت رکھتی ہیں اور کنکریٹ کی دیوار کی مدد سے روکی جاتی ہیں۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تابکار مادوں کے نیوکلیس ناپائیدار ہونے کی وجہ سے مستقل توانائی خارج کرتے رہتے ہیں جو کہ شعاعوں کی شکل میں خارج ہوتی ہیں۔ چونکہ ان شعاعوں میں کافی توانائی ہوتی ہے اس لیے یہ سبھی جانداروں کے لیے مہلک اور جان لیوا ہوتی ہیں۔ چھوٹے جاندار تو ان کی معمولی سی مقدار بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ 1903ء میں ردر فورڈ اور سوڈی نامی دو سائنسدانوں نے یہ انکشاف کیا کہ صرف تابکار مادوں کے نیوکلیس میں ہی توانائی نہیں ہوتی بلکہ ہر ایٹم کے نیوکلیس میں توانائی کا ایک ذخیرہ ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ پتا نہیں لگا سکے کہ یہ توانائی کس شکل میں موجود ہوتی ہے اور اس کو کس طرح نیوکلیس سے نکالا جا سکتا ہے۔ 1905ء میں البرٹ آئن سٹائن نے اس سوال کا حل کسی حد تک دریافت کرلیا۔ اس نے یہ تھیوری پیش کی کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں اور یہ کہ دونوں کو ایک دوسرے کی شکل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر مادے کی بہت تھوڑی مقدار(M) کو توانائی کی شکل میں تبدیل کیا جائے تو اس سے بہت زیادہ مقدار میں توانائی(E) حاصل ہوتی ہے۔ اس مطابقت کو انہوں نے ایک فارمولے (E=MC2) کی شکل میں پیش کیا۔ یہ آسان اور سادہ سا نظر آنے والا فارمولا نیوکلیائی خزانے کی کنجی نکلا۔ اسی کی بنیاد پر نیوکلیائی(یا ایٹمی) توانائی آج مختلف کاموں میں استعمال ہوتی ہے۔ تاہم آئن سٹائن کا یہ زبردست فارمولا کافی عرصہ تک مطلوبہ توجہ نہ پا سکا۔ 1939ء میں اوٹوہان، لیزاسٹیز اور فرزاسٹراسمان نے جب نیوکلیرفژن کے ذریعے نیوکلیس سے توانائی حاصل کرلی جبھی دنیا پوری طرح اس فارمولے کی افادیت (یا خطرات) سے آگاہ ہوئی۔ (سائنس نامہ سے ماخوذ)