intelligent086
07-18-2015, 02:50 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13409_83094983.jpg.pagespeed.ic.1J5q_vHEhB .jpg
فائزہ نذیر احمد
’’ عید الفطر‘‘ کا لفظ دو لفظوں عید اور الفطر سے مرکب ہے۔ اس کی تشریح اس طرح ہے کہ عید کا مادہ سہ حرفی ہے اور وہ ہے۔ عود عادً یعود عوداً وعیاداً کا معنی ہے لوٹنا، پلٹنا واپس ہونا ، پھر آنا چونکہ یہ دن ہر سال آتا ہے اور اس کے لوٹ آنے سے اس کی فرحت و مسرت اور برکت و سعادت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں اس لیے اس روز سعید کو عید کہتے ہیں۔ رات بھر کی نیند اور سکون و آرام کے بعد انسان صبح کو اٹھ کرجس مختصر خوراک سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے اسے فطور کہتے ہیں۔ اسی طرح ماہ صیام میں سحری سے غروب آفتاب تک بن کھائے پیے رہنے کے بعد روزہ پورا کرکے روزہ دار کی بھوک مٹانے اور پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتا ہے۔ مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میں یکم شوال المکرم کو حسب حیثیت عمدہ و لذیذ کھانے اور میٹھے پکوان پکاتے ہیں اور اسلامی برادی کے ان افراد کو بھی صدق الفطر ادا کرکے اچھے کھانے پکانے کے قابل بناتے اور اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں جو اپنی ناداری و افلاس کے باعث اچھے کھانے پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تیس روزوں کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے اور صدق الفطر کی ادائیگی کی بنا پر اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔ عید الفطر کو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے ۔یہ تہوار اسلام کے مزا ج اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ اس تہوار سے مسلمانوں کی اللہ سے وابستگی اورعبادت الٰہی سے دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ عاقل و بالغ اور تندرست مسلمان مہینہ بھر دن کو روزہ رکھتے اور رات کو تراویح میں قرآن پا ک سنتے ہیں۔ مسلمان ماہ رمضان میں تلاوت قرآ ن حکیم کا بالخصوص اہتمام کرتے ہیں۔ یوں ماہِ رمضان کے انتیس یا تیس دن گزرنے کے بعد اپنی عبادت و ریاضت اور ماہِ مبارک کی برکت و سعادت حاصل کرنے کی خوشی میں عید مناتے ہیں۔ عید کے دن علی الصبح اٹھ کر عسل کرتے ہیں چند کھجوریں یا کوئی میٹھی چیز کھا کر بلند آوازسے تکبیریں پڑھتے ہوئے بوڑھے بچے، جوان سب عید گاہ کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ شہر ہوں یا دیہات ہرجگہ مسلمان مرد و زن اور چھوٹے بڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ کپڑے پہنے ، آنکھیں بشاشت سے روشن اور پیشانیاں عید کی مسرت سے منور لیے نظر آتے ہیں۔ عیدگاہوں اور کھلے میدانوں میں نماز عید کے لیے مسلمانوں کے اجتماعات ملی شان و شوکت کے نئے ولولے پیدا کرتے اور’’ شکو ہ ملک و دیں‘‘ کے دلنواز مناظر ، قلب و نظر کی تسکین و تمکین کا باعث بنتے ہیں۔ یوم عید کے اکثر اعمال مسنونہ سے اس عقیدے کا اظہار ہوتا ہے کہ عظمتوں کے تمام پہلو اور کبریائی کی تمام صورتیں صرف خداوند ذوالجلال کی ذات بابرکات کے شایانِ شان ہیں۔ کبریائی اسی کی ذات کی زیبائی اور عظمت وجبروت اس کی قدرت کی جلوہ نمائی ہیں۔ تمام بندگانِ الٰہی وہ حاکم ہوں یا محکوم ، خادم ہوں یا مخدوم ، امیر ہوں یا غریب ، قوی ہوں یا ضعیف، سب کے سب اس کے عاجز بندے اور فانی مخلوق ہیں۔ وہ سب کا حاکم علی الاطلاق اور رازق دان داتا ہے۔ وہی اوّل و آخر ، وہی حیی وقیوم اور وہی ازلی اور ابدی ہے اور عظمت و کبریائی کے تمام مظاہر صرف اور صرف اس کا ذاتی حق ہیں۔ عید الفطر کے روز عیدگاہ جاتے ہوئے سب بلند آواز سے تکبیریں کہتے ہوئے جانا صلو العیدین میں زائد تکبیریں پڑھنا اور پھر خطبہ عید میں متعدد بار ان تکبیروں کا دہرایا جانا محض اس لیے ہوتا ہے کہ توحید الٰہی اور مساوات اسلامی کا تصور مسلمانوں کے دلوں میں رج بس جائے اور ذہن کے نہاں خانوں میں اتر کر ان کے عقیدہ و عمل کا جز و لاینفک بن جائے۔ ٭…
فائزہ نذیر احمد
’’ عید الفطر‘‘ کا لفظ دو لفظوں عید اور الفطر سے مرکب ہے۔ اس کی تشریح اس طرح ہے کہ عید کا مادہ سہ حرفی ہے اور وہ ہے۔ عود عادً یعود عوداً وعیاداً کا معنی ہے لوٹنا، پلٹنا واپس ہونا ، پھر آنا چونکہ یہ دن ہر سال آتا ہے اور اس کے لوٹ آنے سے اس کی فرحت و مسرت اور برکت و سعادت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں اس لیے اس روز سعید کو عید کہتے ہیں۔ رات بھر کی نیند اور سکون و آرام کے بعد انسان صبح کو اٹھ کرجس مختصر خوراک سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے اسے فطور کہتے ہیں۔ اسی طرح ماہ صیام میں سحری سے غروب آفتاب تک بن کھائے پیے رہنے کے بعد روزہ پورا کرکے روزہ دار کی بھوک مٹانے اور پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتا ہے۔ مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میں یکم شوال المکرم کو حسب حیثیت عمدہ و لذیذ کھانے اور میٹھے پکوان پکاتے ہیں اور اسلامی برادی کے ان افراد کو بھی صدق الفطر ادا کرکے اچھے کھانے پکانے کے قابل بناتے اور اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں جو اپنی ناداری و افلاس کے باعث اچھے کھانے پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تیس روزوں کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے اور صدق الفطر کی ادائیگی کی بنا پر اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔ عید الفطر کو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے ۔یہ تہوار اسلام کے مزا ج اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ اس تہوار سے مسلمانوں کی اللہ سے وابستگی اورعبادت الٰہی سے دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ عاقل و بالغ اور تندرست مسلمان مہینہ بھر دن کو روزہ رکھتے اور رات کو تراویح میں قرآن پا ک سنتے ہیں۔ مسلمان ماہ رمضان میں تلاوت قرآ ن حکیم کا بالخصوص اہتمام کرتے ہیں۔ یوں ماہِ رمضان کے انتیس یا تیس دن گزرنے کے بعد اپنی عبادت و ریاضت اور ماہِ مبارک کی برکت و سعادت حاصل کرنے کی خوشی میں عید مناتے ہیں۔ عید کے دن علی الصبح اٹھ کر عسل کرتے ہیں چند کھجوریں یا کوئی میٹھی چیز کھا کر بلند آوازسے تکبیریں پڑھتے ہوئے بوڑھے بچے، جوان سب عید گاہ کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ شہر ہوں یا دیہات ہرجگہ مسلمان مرد و زن اور چھوٹے بڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ کپڑے پہنے ، آنکھیں بشاشت سے روشن اور پیشانیاں عید کی مسرت سے منور لیے نظر آتے ہیں۔ عیدگاہوں اور کھلے میدانوں میں نماز عید کے لیے مسلمانوں کے اجتماعات ملی شان و شوکت کے نئے ولولے پیدا کرتے اور’’ شکو ہ ملک و دیں‘‘ کے دلنواز مناظر ، قلب و نظر کی تسکین و تمکین کا باعث بنتے ہیں۔ یوم عید کے اکثر اعمال مسنونہ سے اس عقیدے کا اظہار ہوتا ہے کہ عظمتوں کے تمام پہلو اور کبریائی کی تمام صورتیں صرف خداوند ذوالجلال کی ذات بابرکات کے شایانِ شان ہیں۔ کبریائی اسی کی ذات کی زیبائی اور عظمت وجبروت اس کی قدرت کی جلوہ نمائی ہیں۔ تمام بندگانِ الٰہی وہ حاکم ہوں یا محکوم ، خادم ہوں یا مخدوم ، امیر ہوں یا غریب ، قوی ہوں یا ضعیف، سب کے سب اس کے عاجز بندے اور فانی مخلوق ہیں۔ وہ سب کا حاکم علی الاطلاق اور رازق دان داتا ہے۔ وہی اوّل و آخر ، وہی حیی وقیوم اور وہی ازلی اور ابدی ہے اور عظمت و کبریائی کے تمام مظاہر صرف اور صرف اس کا ذاتی حق ہیں۔ عید الفطر کے روز عیدگاہ جاتے ہوئے سب بلند آواز سے تکبیریں کہتے ہوئے جانا صلو العیدین میں زائد تکبیریں پڑھنا اور پھر خطبہ عید میں متعدد بار ان تکبیروں کا دہرایا جانا محض اس لیے ہوتا ہے کہ توحید الٰہی اور مساوات اسلامی کا تصور مسلمانوں کے دلوں میں رج بس جائے اور ذہن کے نہاں خانوں میں اتر کر ان کے عقیدہ و عمل کا جز و لاینفک بن جائے۔ ٭…