intelligent086
07-14-2015, 08:46 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13382_18655221.jpg.pagespeed.ic.BcMYAiXr4p .jpg
عبدالرشید
آم ایک ایسا موسمی پھل ہے ،جسے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتاہے اور یہ غلط بھی نہیں۔ آم بچوں اور بڑوں کا شروع ہی سے پسندیدہ اور مرغوب پھل رہا ہے۔ آم کا جب موسم آتا ہے تو یہ مشہور ہے کہ حلوائیوں کا کام بھی مندا ہوجاتا ہے۔ یہ پھل اپنے بہترین ذائقے، خوشبو اور غذائیت کے حوالے سے ہر عام و خاص میں یکساں پسند کیا جاتا ہے۔ یہ پھل اپنے رنگ کی کشش اور ذائقے کی وجہ سے بہت زیادہ نہ صرف برصغیر بلکہ دْنیا کے دیگر ممالک میں بھی بڑی رغبت سے اور سوغات سمجھ کر کھایا جاتا ہے۔ یہی صحت بخش اور خوش ذائقہ پھل حضرت انسان کی زیادہ دولت کمانے کے چکر میں صحت کے لیے خطرہ بن رہا ہے اور بجائے فائدہ دینے کے ممکنہ مہلک بیماریوں کے پیدا کرنے کا سبب بن جائے گا۔ آئندہ جب آپ مارکیٹ میں آم خریدنے جائیں تو یہ اطمینان کر لیں کہ آپ صحت مند آم ہی خرید رہے ہیں یا یہ آم انتہائی خطرناک ممکنہ بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ جو آم آپ کو نہایت خوشنما اور دلکش معلوم ہو رہے ہیں ہوسکتا ہے وہ اپنے ساتھ انتہائی خطرناک بیماریاںلیے ہوں۔اس کی وجہ اس پھل میں پائے جانے والی کوئی قدرتی بیماری یا نقص نہیں بلکہ حضرت انسان کے لالچ کی وجہ سے اس کے پکانے کے مصنوعی طریقے کی وجہ سے اس میں منتقل ہونے والے خطرناک کیمیائی اجزاء ہیں، جو لاعلمی یا دانستہ طور پر ایک صحت مند موسمی پھل میں منتقل ہو رہے ہیں۔ جب مارکیٹ میں آم لینے جائیں تو اطمینان کر لیں کہ یہ مہلک اور پابندی والے مصنوعی طریقے سے تو پکائے نہیں گئے۔ مارکیٹ میں بکنے والے اکثر آم بہت زیادہ دلکش رنگت لیے ہوئے ہوتے ہیں، جو خریداروں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ بہت زیادہ چمک دمک اور یکساں رنگت رکھنے والے آم خریدنے سے گریز کریں کیونکہ ہو سکتا ہے یہ مصنوعی طریقے سے پکائے گئے ہوں۔عام طور پھلوں کو پکانے کے ۲ بنیادی طریقے ہیں۔ ٭ قدرتی طریقہ جس میں پھل کو درخت کے ساتھ ہی رہنے دیا جاتاہے جس میں وہ خود کار نظام سے پکتا ہے۔ ٭ دوسرا مصنوعی طریقہ ، جس میں مختلف کیمیکل کے استعمال سے پھلوں کو پکایا جاتاہے۔ قدرتی طریقے سے پکے ہوئے پھلوں کا ذائقہ مصنوعی طریقے سے پکے ہوئے پھلوں کی نسبتاً بہتر ہوتاہے کیونکہ پھل پکنے تک درخت کی شاخ سے منسلک رہتاہے اور اس میں اہم غذائی اجزاء کی مقدار بڑھتی رہتی ہے جبکہ مصنوعی طریقے سے پھلوں کو پکانے کے لیے درخت سے پکنے سے پہلے ہی توڑ لیا جاتا ہے، لہٰذا اس میں اہم غذائی اجزاء کی مقدار کم ہوتی ہے۔ مصنوعی طریقے سے پھلوں کوپکانے کے لیے پاکستان میں عام طور پر ایک کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے جِسے کیلشیم کاربائیڈ کہا جاتا ہے۔ کیلشیم کاربائیڈ کی مددسے آموں کو پکانے کا طریقہ آج کل ٹریڈرز میں بہت زیادہ مقبول ہے کیونکہ آم کا قدرتی طریقہ سے پکنے کا عمل بہت زیادہ وقت لیتا ہے۔ جبکہ کیلشیم کاربائیڈ کے طریقے سے یہی عمل تقریبا 24 گھنٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے، لیکن اس طریقہ سے پکنے والا آم صحت کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ عام طور پر آم مئی کے آخر میں مکمل میچور اور استعمال کے قابل ہو جاتا ہے۔ لیکن تاجر حضرات اور فروٹ مارکیٹ میں موجود کمیشن ایجنٹ زیادہ منافع کمانے کے چکر میں آم کی تڑوائی کاٹنے اس کے مکمل طور پر میچور ہونے سے پہلے ہی کروا لیتے ہیں۔ پھر اس کچے آم کو مصنوعی طریقے سے کیلشیم کاربائیڈ کو استعمال کرتے ہوئے پکایا جاتا ہے تاکہ مارکیٹ میں جلدی لایا جا سکے کیونکہ شروع سیزن میں آم کا مارکیٹ ریٹ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ کیلشیم کا ربا ئیڈ ایک ایسا کیمیکل ہے جو صنعتوں میں مختلف کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فضا میں موجو د نمی سے مل کر حرارت پیدا کرتی ہے اور ساتھ ’’ایسیٹیلین‘‘ اور کیلشیم ہائیڈروآکسائیڈ گیس پیدا کرتی ہے، ’’ایسیٹیلین گیس‘‘ بہت زیادہ خطرناک اور شعلے سے جلنے والی گیس ہے جو عام طور پر دھاتوں کو کاٹنے کے کام آتی ہے۔ صنعتی استعمال کے لیے بنائے جانے والے’’سی اے سی ۲‘‘ کیلشیم کاربا ئیڈ میں آرسینک اور فاسفورس کے ذرات بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ دونوں کیمیکل صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ اس طریقے سے آم پکانے کے لیے کیلشیم کاربائیڈ کی معمولی مقدار کاغذ کی تھیلی میں ڈال کر آموں کی پیٹیوں میں رکھ دی جاتی ہے جو فضا میں موجود نمی سے عمل کر کے ’’ایسیٹیلین گیس‘‘ خارج کرتی اور آم کو جلد پکنے میں مدد دیتی ہے۔ اس گیس کی فطرت ’’اینتیلین گیس‘‘ ہی کی طرح ہوتی ہے جو سائنسی طریقے سے آم کو پکانے کے لیے استعمال کی جاتی اور غیر مضر ہوتی ہے۔ اس کی ایک مخصوص مقدار ہوتی ہے اور یہ پھلوں کو مضر صحت بھی نہیں بناتی۔ اس گیس کو پلانٹ کی ہارمون بھی کہتے ہیں۔ بہت سارے پھل قدرتی طریقے سے پکنے کے عمل کے دوران ‘‘اینتیلین گیس’’ خارج بھی کرتے ہیں۔ کیلشیم کاربائیڈ کی مقدار چونکہ نامعلوم ہوتی ہے اور اس کو اندازے سے کاغذ میں لپیٹ کر آموں کے درمیان رکھ دیا جاتاہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی گیس کی مقدار بھی نامعلوم ہی ہوتی ہے اور یہ زیادہ خطرناک عمل ہے۔ سی اے سی ۲ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ’’ایسیٹیلین گیس‘‘ بھی’’اینتیلین گیس‘‘کی طرح کام کرتی ہے اور پھلوں کو پکنے میں مدد دیتی ہے لیکن اس میں موجود سنکھیا اور فاسفورس کے ذرات صحت مند پھل کو زہریلا کردیتے ہیں۔ سی اے سی ۲ کی مدد سے آم پکانے کے طریقے پر بہت سے ممالک میں پابندی ہے اور اس عمل کو غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی متعلقہ حکام اور صحت کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کو اس پر سخت ایکشن لینا چاہیے اور اس طریقے سے پھلوں کو پکانے کے عمل پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے پاکستان کی تمام منڈیوں اور گوداموں میں جہاں اس طریقے سے پھلوں کو پکایا جاتاہے، مانیٹرنگ کرنی چاہیے اور ساتھ ساتھ آگاہی کے پروگرام بھی ترتیب دینے چاہئیں اور اس کے علاوہ فوڈ ایکسپرٹ کی مدد سے متبادل طریقوں کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے تا کہ عوام الناس کی صحت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔کیلشیم کاربائیڈ سے نکلنے والی’’ایسیٹیلین گیس‘‘ انسان کے عصبی نظام، پر بُرے اثرات مرتب کرتی ہے جو سردرد، غنودگی اور موڈڈسٹربینس غفلت، یادداشت کا کھو جانا، ذہنی انتشار، دماغی جلندر اور مرگی کا باعث بن سکتی ہے۔ کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے آم پکانے کے غیر قانونی عمل پر کئی ملکوں میں پابندی ہے مصنوعی طریقہ سے پھلوں کو پکانے کی ایک بڑی وجہ اور بھی ہے جسکا تذکرہ نہ کرنا آم کے کارو بار سے منسلک فارمز کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ قدرتی طریقے سے آم پکانے سے تاجروں اور فارمز کو نقصان ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ موسمی اثرات ہیں۔ کیونکہ اگر آم کو درختوں پر ہی پکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو تیز ہوا اور آندھی کی وجہ سے آم درختوں سے گر کر ضائع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے فارمز کو نقصان ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اسی وجہ سے عام طور پر کیلشیم کاربائیڈ کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔اس نقصان سے بچنے کے لیے گیس کی مدد سے پکانے والے چیمبر کا ہونا ضروری ہے تاکہ کنٹرولڈ ماحول اور محفوظ طریقے سے آموں کو پکایا جاسکے۔کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے آم کے علاوہ دیگر پھل بھی پکائے جاتے ہیں۔ جن میں خوبانی، کیلا، جاپانی پھل، چیکو اور کچھ دیگر پھل بھی شامل ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پھل پکانے والے چیمبر لگانے چاہئیں جن میں کنٹرولڈ گیس کی مدد سے پھلوں کو پکایا جاسکے۔ ایسے کیمیکل کے مسلسل استعمال سے انسانی نظام انہضام کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس کے نتیجے میں پیچش، یرقان اور جگر سے متعلق بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ کاربائیڈ کے آزاد ریڈیکلز انسانی عمر کو گھٹانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کسی بھی شخص کی قوتِ مدافعت کمزور ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دل کی بیماریاں ، فالج اور کینسر جیسی خطرناک بیماریاں ہونے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتاہے۔ محفوظ طریقے سے پھل پکانے کے لیے چیمبر لگانے چاہئیں جن میں ایتھلین گیس سے آم، چیکو، خوبانی، کیلا اور جاپانی پھل پکائے جا سکتے ہیں- کچھ کیسوں میں کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے پکے ہوئے آم کی صرف اوپری جلد ہی اپنا رنگ تبدیل کرتی ہے لیکن اندورنی طور پر آم مکمل طور پر ہرے اور کچے ہی رہتے ہیں۔ ایسے پھلوں کو مزید پکانے کے لیے مزید کیلشیم کاربائیڈ استعمال کیا جاتاہے جوپھل کو بے ذائقہ، غیر صحت مند اور ممکنہ طور پر زہریلا بنا دیتا ہے۔ بہت ساری گودا ’’پلپ‘‘ اور جوس بنانے والی کمپنیاں اسی طریقے سے پکے ہوئے پھلوں کو استعمال کرکے گودا’’پلپ‘‘ بناتی ہیں اور اسی گودا ’’پلپ‘‘ سے جوس کے ڈبے تیار کرکے مارکیٹ میں فروخت کر دیتی ہیں۔ جن میں بھی آرسینک اور فاسفورس کے ذرات شامل ہوتے ہیں اور وہ بھی صحت کے لیے مضر ثابت ہوسکتے ہیں۔قدرتی طریقہ سے پکے ہوئے آم میں غذایت مصنوعی طریقے سے پکے ہوئے آم کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کس طرح معلوم ہو کہ بازار میں فروخت ہونے والے آم کیلشیم کاربائیڈ کی مددسے پکے ہوئے ہیں یا قدرتی طریقے سے؟ ہم یہاں اپنے قارئین کی خدمت میں نہایت آسان سا طریقہ بیان کر دیتے ہیں جس کی مدد سے کوئی بھی عام شخص بآسانی معلوم کر سکتا ہے کہ جو آم وہ خریدنے لگا ہے وہ کس طریقے سے پکے ہوئے ہیں۔ ٭1 اگر بکنے والا آم یکساں رنگت والا ہے یعنی وہ آم پورے طور پر یکساں رنگ لیے ہوئے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ وہ آم کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے پکایا گیا ہے۔ ٭2 کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے پکے ہوئے آم پر ۲ سے ۳ دن کے بعد کالے دھبے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کو کالے دھبے والے آم بکتے ہوئے نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ وہ کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے پکے ہوئے ہوسکتے ہیں۔ ٭3 قدرتی طریقے سے پکنے والے آم کا کچھ حصہ ہرا اور کچھ حصہ رنگ دار ہوتاہے۔ یہ مکمل طور پر یکساں رنگت والے نہیں ہوتے۔ احتیاطی تدبیر چونکہ قدرتی اور محفوظ طریقے سے پکے ہوئے آم تلاش کرنا ذرا مشکل کام ہے، لہٰذا آم کے شوقین اور دلدادہ افراد کو چاہیے کہ وہ خو د ہی درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں تاکہ صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ کم سے کم ہو۔ ٭1 تمام پھل خاص طور پر آم جو کیلشیم کاربائیڈ کے عمل سے پکائے جاتے ہیں استعما ل کرنے سے پہلے اچھی طرح دھولیں اور چند منٹ تک ان کو نلکے یا ٹونٹی کے نیچے پڑا رہنے دیں تاکہ تمام خطرناک کیمیائی اجزاء سے کسی حد تک پاک ہو جائیں۔ ٭2 ایسے آم خریدنے سے گریز کریں جو اپنے وقت سے پہلے ہی مارکیٹ میں بکنے کے لیے موجود ہوں۔ ٭3 آم کھانے سے پہلے مندرجہ بالا طریقے سے دھو کر، ٹکڑوں میں کاٹ کر کھائیں نہ کہ ثابت ہی۔ ٭…٭…٭
عبدالرشید
آم ایک ایسا موسمی پھل ہے ،جسے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتاہے اور یہ غلط بھی نہیں۔ آم بچوں اور بڑوں کا شروع ہی سے پسندیدہ اور مرغوب پھل رہا ہے۔ آم کا جب موسم آتا ہے تو یہ مشہور ہے کہ حلوائیوں کا کام بھی مندا ہوجاتا ہے۔ یہ پھل اپنے بہترین ذائقے، خوشبو اور غذائیت کے حوالے سے ہر عام و خاص میں یکساں پسند کیا جاتا ہے۔ یہ پھل اپنے رنگ کی کشش اور ذائقے کی وجہ سے بہت زیادہ نہ صرف برصغیر بلکہ دْنیا کے دیگر ممالک میں بھی بڑی رغبت سے اور سوغات سمجھ کر کھایا جاتا ہے۔ یہی صحت بخش اور خوش ذائقہ پھل حضرت انسان کی زیادہ دولت کمانے کے چکر میں صحت کے لیے خطرہ بن رہا ہے اور بجائے فائدہ دینے کے ممکنہ مہلک بیماریوں کے پیدا کرنے کا سبب بن جائے گا۔ آئندہ جب آپ مارکیٹ میں آم خریدنے جائیں تو یہ اطمینان کر لیں کہ آپ صحت مند آم ہی خرید رہے ہیں یا یہ آم انتہائی خطرناک ممکنہ بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ جو آم آپ کو نہایت خوشنما اور دلکش معلوم ہو رہے ہیں ہوسکتا ہے وہ اپنے ساتھ انتہائی خطرناک بیماریاںلیے ہوں۔اس کی وجہ اس پھل میں پائے جانے والی کوئی قدرتی بیماری یا نقص نہیں بلکہ حضرت انسان کے لالچ کی وجہ سے اس کے پکانے کے مصنوعی طریقے کی وجہ سے اس میں منتقل ہونے والے خطرناک کیمیائی اجزاء ہیں، جو لاعلمی یا دانستہ طور پر ایک صحت مند موسمی پھل میں منتقل ہو رہے ہیں۔ جب مارکیٹ میں آم لینے جائیں تو اطمینان کر لیں کہ یہ مہلک اور پابندی والے مصنوعی طریقے سے تو پکائے نہیں گئے۔ مارکیٹ میں بکنے والے اکثر آم بہت زیادہ دلکش رنگت لیے ہوئے ہوتے ہیں، جو خریداروں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ بہت زیادہ چمک دمک اور یکساں رنگت رکھنے والے آم خریدنے سے گریز کریں کیونکہ ہو سکتا ہے یہ مصنوعی طریقے سے پکائے گئے ہوں۔عام طور پھلوں کو پکانے کے ۲ بنیادی طریقے ہیں۔ ٭ قدرتی طریقہ جس میں پھل کو درخت کے ساتھ ہی رہنے دیا جاتاہے جس میں وہ خود کار نظام سے پکتا ہے۔ ٭ دوسرا مصنوعی طریقہ ، جس میں مختلف کیمیکل کے استعمال سے پھلوں کو پکایا جاتاہے۔ قدرتی طریقے سے پکے ہوئے پھلوں کا ذائقہ مصنوعی طریقے سے پکے ہوئے پھلوں کی نسبتاً بہتر ہوتاہے کیونکہ پھل پکنے تک درخت کی شاخ سے منسلک رہتاہے اور اس میں اہم غذائی اجزاء کی مقدار بڑھتی رہتی ہے جبکہ مصنوعی طریقے سے پھلوں کو پکانے کے لیے درخت سے پکنے سے پہلے ہی توڑ لیا جاتا ہے، لہٰذا اس میں اہم غذائی اجزاء کی مقدار کم ہوتی ہے۔ مصنوعی طریقے سے پھلوں کوپکانے کے لیے پاکستان میں عام طور پر ایک کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے جِسے کیلشیم کاربائیڈ کہا جاتا ہے۔ کیلشیم کاربائیڈ کی مددسے آموں کو پکانے کا طریقہ آج کل ٹریڈرز میں بہت زیادہ مقبول ہے کیونکہ آم کا قدرتی طریقہ سے پکنے کا عمل بہت زیادہ وقت لیتا ہے۔ جبکہ کیلشیم کاربائیڈ کے طریقے سے یہی عمل تقریبا 24 گھنٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے، لیکن اس طریقہ سے پکنے والا آم صحت کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ عام طور پر آم مئی کے آخر میں مکمل میچور اور استعمال کے قابل ہو جاتا ہے۔ لیکن تاجر حضرات اور فروٹ مارکیٹ میں موجود کمیشن ایجنٹ زیادہ منافع کمانے کے چکر میں آم کی تڑوائی کاٹنے اس کے مکمل طور پر میچور ہونے سے پہلے ہی کروا لیتے ہیں۔ پھر اس کچے آم کو مصنوعی طریقے سے کیلشیم کاربائیڈ کو استعمال کرتے ہوئے پکایا جاتا ہے تاکہ مارکیٹ میں جلدی لایا جا سکے کیونکہ شروع سیزن میں آم کا مارکیٹ ریٹ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ کیلشیم کا ربا ئیڈ ایک ایسا کیمیکل ہے جو صنعتوں میں مختلف کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فضا میں موجو د نمی سے مل کر حرارت پیدا کرتی ہے اور ساتھ ’’ایسیٹیلین‘‘ اور کیلشیم ہائیڈروآکسائیڈ گیس پیدا کرتی ہے، ’’ایسیٹیلین گیس‘‘ بہت زیادہ خطرناک اور شعلے سے جلنے والی گیس ہے جو عام طور پر دھاتوں کو کاٹنے کے کام آتی ہے۔ صنعتی استعمال کے لیے بنائے جانے والے’’سی اے سی ۲‘‘ کیلشیم کاربا ئیڈ میں آرسینک اور فاسفورس کے ذرات بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ دونوں کیمیکل صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ اس طریقے سے آم پکانے کے لیے کیلشیم کاربائیڈ کی معمولی مقدار کاغذ کی تھیلی میں ڈال کر آموں کی پیٹیوں میں رکھ دی جاتی ہے جو فضا میں موجود نمی سے عمل کر کے ’’ایسیٹیلین گیس‘‘ خارج کرتی اور آم کو جلد پکنے میں مدد دیتی ہے۔ اس گیس کی فطرت ’’اینتیلین گیس‘‘ ہی کی طرح ہوتی ہے جو سائنسی طریقے سے آم کو پکانے کے لیے استعمال کی جاتی اور غیر مضر ہوتی ہے۔ اس کی ایک مخصوص مقدار ہوتی ہے اور یہ پھلوں کو مضر صحت بھی نہیں بناتی۔ اس گیس کو پلانٹ کی ہارمون بھی کہتے ہیں۔ بہت سارے پھل قدرتی طریقے سے پکنے کے عمل کے دوران ‘‘اینتیلین گیس’’ خارج بھی کرتے ہیں۔ کیلشیم کاربائیڈ کی مقدار چونکہ نامعلوم ہوتی ہے اور اس کو اندازے سے کاغذ میں لپیٹ کر آموں کے درمیان رکھ دیا جاتاہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی گیس کی مقدار بھی نامعلوم ہی ہوتی ہے اور یہ زیادہ خطرناک عمل ہے۔ سی اے سی ۲ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ’’ایسیٹیلین گیس‘‘ بھی’’اینتیلین گیس‘‘کی طرح کام کرتی ہے اور پھلوں کو پکنے میں مدد دیتی ہے لیکن اس میں موجود سنکھیا اور فاسفورس کے ذرات صحت مند پھل کو زہریلا کردیتے ہیں۔ سی اے سی ۲ کی مدد سے آم پکانے کے طریقے پر بہت سے ممالک میں پابندی ہے اور اس عمل کو غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی متعلقہ حکام اور صحت کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کو اس پر سخت ایکشن لینا چاہیے اور اس طریقے سے پھلوں کو پکانے کے عمل پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے پاکستان کی تمام منڈیوں اور گوداموں میں جہاں اس طریقے سے پھلوں کو پکایا جاتاہے، مانیٹرنگ کرنی چاہیے اور ساتھ ساتھ آگاہی کے پروگرام بھی ترتیب دینے چاہئیں اور اس کے علاوہ فوڈ ایکسپرٹ کی مدد سے متبادل طریقوں کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے تا کہ عوام الناس کی صحت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔کیلشیم کاربائیڈ سے نکلنے والی’’ایسیٹیلین گیس‘‘ انسان کے عصبی نظام، پر بُرے اثرات مرتب کرتی ہے جو سردرد، غنودگی اور موڈڈسٹربینس غفلت، یادداشت کا کھو جانا، ذہنی انتشار، دماغی جلندر اور مرگی کا باعث بن سکتی ہے۔ کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے آم پکانے کے غیر قانونی عمل پر کئی ملکوں میں پابندی ہے مصنوعی طریقہ سے پھلوں کو پکانے کی ایک بڑی وجہ اور بھی ہے جسکا تذکرہ نہ کرنا آم کے کارو بار سے منسلک فارمز کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ قدرتی طریقے سے آم پکانے سے تاجروں اور فارمز کو نقصان ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ موسمی اثرات ہیں۔ کیونکہ اگر آم کو درختوں پر ہی پکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو تیز ہوا اور آندھی کی وجہ سے آم درختوں سے گر کر ضائع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے فارمز کو نقصان ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اسی وجہ سے عام طور پر کیلشیم کاربائیڈ کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔اس نقصان سے بچنے کے لیے گیس کی مدد سے پکانے والے چیمبر کا ہونا ضروری ہے تاکہ کنٹرولڈ ماحول اور محفوظ طریقے سے آموں کو پکایا جاسکے۔کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے آم کے علاوہ دیگر پھل بھی پکائے جاتے ہیں۔ جن میں خوبانی، کیلا، جاپانی پھل، چیکو اور کچھ دیگر پھل بھی شامل ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پھل پکانے والے چیمبر لگانے چاہئیں جن میں کنٹرولڈ گیس کی مدد سے پھلوں کو پکایا جاسکے۔ ایسے کیمیکل کے مسلسل استعمال سے انسانی نظام انہضام کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس کے نتیجے میں پیچش، یرقان اور جگر سے متعلق بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ کاربائیڈ کے آزاد ریڈیکلز انسانی عمر کو گھٹانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کسی بھی شخص کی قوتِ مدافعت کمزور ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دل کی بیماریاں ، فالج اور کینسر جیسی خطرناک بیماریاں ہونے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتاہے۔ محفوظ طریقے سے پھل پکانے کے لیے چیمبر لگانے چاہئیں جن میں ایتھلین گیس سے آم، چیکو، خوبانی، کیلا اور جاپانی پھل پکائے جا سکتے ہیں- کچھ کیسوں میں کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے پکے ہوئے آم کی صرف اوپری جلد ہی اپنا رنگ تبدیل کرتی ہے لیکن اندورنی طور پر آم مکمل طور پر ہرے اور کچے ہی رہتے ہیں۔ ایسے پھلوں کو مزید پکانے کے لیے مزید کیلشیم کاربائیڈ استعمال کیا جاتاہے جوپھل کو بے ذائقہ، غیر صحت مند اور ممکنہ طور پر زہریلا بنا دیتا ہے۔ بہت ساری گودا ’’پلپ‘‘ اور جوس بنانے والی کمپنیاں اسی طریقے سے پکے ہوئے پھلوں کو استعمال کرکے گودا’’پلپ‘‘ بناتی ہیں اور اسی گودا ’’پلپ‘‘ سے جوس کے ڈبے تیار کرکے مارکیٹ میں فروخت کر دیتی ہیں۔ جن میں بھی آرسینک اور فاسفورس کے ذرات شامل ہوتے ہیں اور وہ بھی صحت کے لیے مضر ثابت ہوسکتے ہیں۔قدرتی طریقہ سے پکے ہوئے آم میں غذایت مصنوعی طریقے سے پکے ہوئے آم کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کس طرح معلوم ہو کہ بازار میں فروخت ہونے والے آم کیلشیم کاربائیڈ کی مددسے پکے ہوئے ہیں یا قدرتی طریقے سے؟ ہم یہاں اپنے قارئین کی خدمت میں نہایت آسان سا طریقہ بیان کر دیتے ہیں جس کی مدد سے کوئی بھی عام شخص بآسانی معلوم کر سکتا ہے کہ جو آم وہ خریدنے لگا ہے وہ کس طریقے سے پکے ہوئے ہیں۔ ٭1 اگر بکنے والا آم یکساں رنگت والا ہے یعنی وہ آم پورے طور پر یکساں رنگ لیے ہوئے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ وہ آم کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے پکایا گیا ہے۔ ٭2 کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے پکے ہوئے آم پر ۲ سے ۳ دن کے بعد کالے دھبے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کو کالے دھبے والے آم بکتے ہوئے نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ وہ کیلشیم کاربائیڈ کی مدد سے پکے ہوئے ہوسکتے ہیں۔ ٭3 قدرتی طریقے سے پکنے والے آم کا کچھ حصہ ہرا اور کچھ حصہ رنگ دار ہوتاہے۔ یہ مکمل طور پر یکساں رنگت والے نہیں ہوتے۔ احتیاطی تدبیر چونکہ قدرتی اور محفوظ طریقے سے پکے ہوئے آم تلاش کرنا ذرا مشکل کام ہے، لہٰذا آم کے شوقین اور دلدادہ افراد کو چاہیے کہ وہ خو د ہی درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں تاکہ صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ کم سے کم ہو۔ ٭1 تمام پھل خاص طور پر آم جو کیلشیم کاربائیڈ کے عمل سے پکائے جاتے ہیں استعما ل کرنے سے پہلے اچھی طرح دھولیں اور چند منٹ تک ان کو نلکے یا ٹونٹی کے نیچے پڑا رہنے دیں تاکہ تمام خطرناک کیمیائی اجزاء سے کسی حد تک پاک ہو جائیں۔ ٭2 ایسے آم خریدنے سے گریز کریں جو اپنے وقت سے پہلے ہی مارکیٹ میں بکنے کے لیے موجود ہوں۔ ٭3 آم کھانے سے پہلے مندرجہ بالا طریقے سے دھو کر، ٹکڑوں میں کاٹ کر کھائیں نہ کہ ثابت ہی۔ ٭…٭…٭