intelligent086
07-13-2015, 10:54 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13370_23117548.jpg.pagespeed.ic.8WygnG-20v.jpg
حسّیت(Sensibility) ، منطقیت پسندی (Rationalizm) کے ردِعمل میں منظر عام پر آنے والی ایک ایسی تحریک تھی، جس نے اٹھارویں صدی کے آخر میں مغربی اصناف سخن خصوصاً ناول پر اپنے گہرے اثرات مرتسم کیے، تاہم کچھ مغربی ناقدین نے اس تحریک کو ایک محدود تناظر میں لیا اور اسے جذباتیات (Sentimetalizm) کے مترادف ٹھہراتے ہوئے سستی قسم کی جذبات نگاری سے مملو تحریروں کو بھی اسی تحریک کا شاخسانہ قرار دیا۔ جینٹ ٹو ڈ(Jannet Todd) کے مطابق: ’’ادبی تنقید میںجذبہ اور حسیّت مترادف تصور کیے جاتے ہیں۔ایک جذباتی ناول کسی بھی صورت میں حسّی ناول سے مختلف نہیں ہو سکتا‘‘۔ مغربی ناقدین کا مندرجہ بالا نقطہء نظر بتدریج ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا اور بعد ازاں انسائیکلو پیڈیا بریٹنکا "Encyclopedia Britanica"(1797) میں حسّیت کی تعریف ذرا جامع انداز میں کرتے ہوئے اسے اُس ’فہم‘ سے تعبیر کیا گیا جو خوشی/غم۔ خوب صورتی/بدہیئتی کے باہمی تفاوت کا ادراک نفاست سے کر سکتی ہے۔ ’’حسیّت خوشی اور غم ،خوب صورتی اور بدہیئتی کا ایک عمدہ اور نازک ادراک ہے ‘‘ جینٹ ٹوڈنے جس عہد کو بنیاد بنا کر حسّیت اور جذباتیت کو ہم معنی قرار دیا تھا اسی عہد کے بعض مفکرین نے اس تحریک کو تھامس ہابس Thomas Hobbes) (کے اس مادی فلسفے کا ردِعمل قرار دیا جس فلسفے کی رو سے انسان کے عمومی رویّے اور کردار کے لیے ’خود غرضی‘ کوایک جزوِ لاینفک قرار دیا گیا تھا۔ مندرجہ بالا آرا کی روشنی اور ااٹھارویں صدی کے مغربی سیاق اور تناظر میں اب اگر ہم حسّیت کی تعریف کریں تو حسّیت انسانی ذات کا وہ مظہر قرار پائے گی جس کے ذریعے انسان نہ صرف جمالیاتی سطح پر اپنے حواسِ خمسہ کے ذریعے حظ اٹھاتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے بلکہ اخلاقی سطح پر دوسروں کے دکھ درد اور اجتماعی مسائل کا ادراک کرکے اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرتا ہے۔حسّیت مندرجہ بالا دو سطحوں پر ایک طرف تو ’فہم‘سے مملوہو کر معاشری سطح پر فعال ہوتی ہے اور مختلف مظاہر مثلاً خیر/شر، اچھائی/برائی، ظلم/انصاف کے مابین تفوق کا فریضہ انجام دے کر ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کا باعث بنتی ہے اور دوسری طرف جمالیاتی سطح پر انسانی جذبات مثلاً خوشی/غمی، غصّہ/پیار، نفرت/محبت کا فوری اظہار بہتر طریقے سے کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ ادبی سیاق میں ہم حسّیت کو ایک ایسا زود حسی ادراک قرار دے سکتے ہیںجو کسی چیز یاجذبے سے فوری اثر پذیری حاصل کرتا ہے، اگر عالمی ادبی روایت کا جائزہ لیا جائے تو ایسا ادب ہمیشہ کلاسیک کا درجہ اختیار کر لیتا ہے جس میں مذکورہ عہد کی حسّیت اپنے تمام تر عناصرِ ترکیبی کے ساتھ جذب ہو کر سامنے آتی ہے۔ وہ فنکار جو اپنی قوتِ متخیلہ کے ساتھ ساتھ ادراکی اور حسی سطح پر بھی فعال ہوتا ہے۔ اپنے فن پارے کو آفاقی جہات کا حامل بنادیتا ہے۔ (اختشام علی کی تازہ تصنیف’’جدید اُردو نظم میں عصری حسیّت ‘‘ سے مقتبس)
حسّیت(Sensibility) ، منطقیت پسندی (Rationalizm) کے ردِعمل میں منظر عام پر آنے والی ایک ایسی تحریک تھی، جس نے اٹھارویں صدی کے آخر میں مغربی اصناف سخن خصوصاً ناول پر اپنے گہرے اثرات مرتسم کیے، تاہم کچھ مغربی ناقدین نے اس تحریک کو ایک محدود تناظر میں لیا اور اسے جذباتیات (Sentimetalizm) کے مترادف ٹھہراتے ہوئے سستی قسم کی جذبات نگاری سے مملو تحریروں کو بھی اسی تحریک کا شاخسانہ قرار دیا۔ جینٹ ٹو ڈ(Jannet Todd) کے مطابق: ’’ادبی تنقید میںجذبہ اور حسیّت مترادف تصور کیے جاتے ہیں۔ایک جذباتی ناول کسی بھی صورت میں حسّی ناول سے مختلف نہیں ہو سکتا‘‘۔ مغربی ناقدین کا مندرجہ بالا نقطہء نظر بتدریج ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا اور بعد ازاں انسائیکلو پیڈیا بریٹنکا "Encyclopedia Britanica"(1797) میں حسّیت کی تعریف ذرا جامع انداز میں کرتے ہوئے اسے اُس ’فہم‘ سے تعبیر کیا گیا جو خوشی/غم۔ خوب صورتی/بدہیئتی کے باہمی تفاوت کا ادراک نفاست سے کر سکتی ہے۔ ’’حسیّت خوشی اور غم ،خوب صورتی اور بدہیئتی کا ایک عمدہ اور نازک ادراک ہے ‘‘ جینٹ ٹوڈنے جس عہد کو بنیاد بنا کر حسّیت اور جذباتیت کو ہم معنی قرار دیا تھا اسی عہد کے بعض مفکرین نے اس تحریک کو تھامس ہابس Thomas Hobbes) (کے اس مادی فلسفے کا ردِعمل قرار دیا جس فلسفے کی رو سے انسان کے عمومی رویّے اور کردار کے لیے ’خود غرضی‘ کوایک جزوِ لاینفک قرار دیا گیا تھا۔ مندرجہ بالا آرا کی روشنی اور ااٹھارویں صدی کے مغربی سیاق اور تناظر میں اب اگر ہم حسّیت کی تعریف کریں تو حسّیت انسانی ذات کا وہ مظہر قرار پائے گی جس کے ذریعے انسان نہ صرف جمالیاتی سطح پر اپنے حواسِ خمسہ کے ذریعے حظ اٹھاتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے بلکہ اخلاقی سطح پر دوسروں کے دکھ درد اور اجتماعی مسائل کا ادراک کرکے اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرتا ہے۔حسّیت مندرجہ بالا دو سطحوں پر ایک طرف تو ’فہم‘سے مملوہو کر معاشری سطح پر فعال ہوتی ہے اور مختلف مظاہر مثلاً خیر/شر، اچھائی/برائی، ظلم/انصاف کے مابین تفوق کا فریضہ انجام دے کر ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کا باعث بنتی ہے اور دوسری طرف جمالیاتی سطح پر انسانی جذبات مثلاً خوشی/غمی، غصّہ/پیار، نفرت/محبت کا فوری اظہار بہتر طریقے سے کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ ادبی سیاق میں ہم حسّیت کو ایک ایسا زود حسی ادراک قرار دے سکتے ہیںجو کسی چیز یاجذبے سے فوری اثر پذیری حاصل کرتا ہے، اگر عالمی ادبی روایت کا جائزہ لیا جائے تو ایسا ادب ہمیشہ کلاسیک کا درجہ اختیار کر لیتا ہے جس میں مذکورہ عہد کی حسّیت اپنے تمام تر عناصرِ ترکیبی کے ساتھ جذب ہو کر سامنے آتی ہے۔ وہ فنکار جو اپنی قوتِ متخیلہ کے ساتھ ساتھ ادراکی اور حسی سطح پر بھی فعال ہوتا ہے۔ اپنے فن پارے کو آفاقی جہات کا حامل بنادیتا ہے۔ (اختشام علی کی تازہ تصنیف’’جدید اُردو نظم میں عصری حسیّت ‘‘ سے مقتبس)