PDA

View Full Version : آج کا سب سے بڑا اظہاریہ ادب یا صحافت؟



intelligent086
06-14-2015, 12:27 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13172_90757703.jpg.pagespeed.ic.gbrvJp1E7G .jpg

احمد اعجاز
صحافت ایک شعبہ ہے،دیگر معاشرتی شعبوں کی طرح۔مگر معاشرتی زندگی میںیہ شعبہ طاقتور ترین اہمیت اختیار کر چکا ہے۔اس کی طاقت کے پیشِ نظر ترقی پذیر مملکتیںاسے ریاستی ستون کے درجے کے طور پر تسلیم کر چکی ہیں۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دنیا ایک گائوں کی صورت اختیار کر چکی ہے،تو واقعہ یہ ہے کہ دنیا کو گائوں کی صورت دینے میں میڈیا کا سب سے بڑا حصہ ہے اور یہ غیر معمولی حصہ ہے۔میڈیا کے اسی پہلو کی وجہ سے مضبوط ریاستوں نے بھی اسے ایک ستون کی حیثیت دے ڈالی۔ایک معاشرے میںانسانی اظہار کے بہت سارے پہلو ہمیشہ سے رہے ہیں ،اُن میں ایک بڑا اظہار فنونِ لطیفہ کی صورت میں موجود رہا ہے ۔فنون لطیفہ سماجی رویوں اور انسانی سوچوں پر اثر انداز ہو کر معاشرے کی صورت گری کر تا رہاہے۔ایک شاعر کی شاعرانہ تخلیق اور مصور کی بنائی ہوئی تصویریں پورے معاشرتی ڈھانچے کو اپنی لپیٹ میں لے کر بڑے انقلاب کے لیے راہ ہموار کر دیا کرتی تھیں۔بنیادی طور پر وہ فنونِ لطیفہ کا منصب تھا۔میتھیو آرنلڈ نے کہا تھا کہ ’ادب تنقیدِ حیات ہے‘یعنی ادب سماجی عمل کا حصہ بن کر سماج کو سدھارنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔لیکن چند ایک برسوں سے صحافت کی اثریت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ شعبہ سماجی عمل کا سب سے بڑا حصہ بن چکا ہے ۔اور دیگر تمام انسانی اظہار سے متعلق شعبے، میڈیا کے اظہار کے سامنے محدود حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ آزادی ٔ اظہار کا ذریعہ یا پلیٹ فارم میڈیا بن چکا ہے۔اس کے اظہارکی طاقت کے نشان ہمیں بہ آسانی نظر آتے رہتے ہیں۔یہ اس قدر طاقتور اظہار بن چکا ہے کہ جھوٹ کو سچ میں بدلنے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور بعض مرتبہ گمان تک نہیں ہونے دیتا کہ وہ جھوٹ کو سچائی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔وہ اپنے اظہار کی بدولت بہت آسانی سے اور بڑی مہارت کے ساتھ عوامی مزاج تشکیل دے ڈالتا ہے۔عوامی مزاج تشکیل دینے کے پہلو سے حکومتیں بہت متاثر ہوتی ہیں اور اسے اپنا ہمنوا بنانے کے جتن شروع کردیتی ہیں۔علاوہ ازیں ایک صحافی کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو چکا ہے۔ماضی میں فنون لطیفہ سے متعلق شخصیات اور اساتذہ کا دائرہ وسعت کا حامل ہوتا تھا۔دائرہ اثر کے تعین کا مسئلہ بہت آسان ہے۔ ایک شاعر ،ایک اُستاد اور ایک صحافی کا ورک سماجی عمل میں کتنا حصہ ڈال رہا ہے؟اس سوال کا جواب لمحۂ موجود میں ایک صحافی کے حق میں نکلے گا۔جب ایک شاعر اور اُستاد اپنی بات یا پیغام اپنے سامنے موجود آمر کو برملا دیا کرتے تھے اور سماجی سطح پر اُن کی بات اثر انداز بھی ہوتی تھی،وہ زمانہ ہمارے ہاں اب لَد چکا ہے۔اب یہ منصب ایک صحافی کو میسر آچکا ہے۔ادب اور ادیب تو کسی کونے میں پڑے ہانپ رہے ہیں۔یہ تنزلی ثقافتی سرگرمی کا حصہ نہ بننے کا نتیجہ ہے۔کیا یہ درست نہیں کہ ہمارا ادب ثقافتی سرگرمی سے اپنا رشتہ توڑ چکا ہے؟اور یہ رشتہ اب صحافت جوڑ چکی ہے۔ٹیلی ویژن کی سکرین پر بیٹھا ہوا صحافی ملکی و غیر ملکی اُمور پر اپنی رائے کا اظہار کر کے عوام الناس میں ایک دانشور کی حیثیت پا چکا ہے۔ایک کالم نگار کا لکھا ہو ا کالم عوامی سطح پر مقدس تحریر کی حیثیت اختیا رکر چکا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ صحافت ثقافتی سرگرمی کا حصہ بنی ہوئی ہے ۔صحافت خود کو سماج کا آئینہ دار تسلیم کروا چکی ہے۔ ہمارے ہاں یہ بحث بھی رہی ہے کہ بڑا ادب بڑے واقعہ یا سانحہ کے وجود سے پھوٹتا ہے۔یعنی بڑا فن پارہ تخلیق کرنے کے لیے بڑے سانحہ کا رُونما ہونا ضروری ہو چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا بڑا ادب برصغیر کی تقسیم کے پس منظر میں تخلیق ہوا ہے۔ایک شاعر ایک ادیب واقعہ کی تلاش میں رہتے ہیں اور صحافی خبر کی تلاش میں۔ مگر صحافی اور اس کی خبر کو فوری سماجی پذیرائی حاصل ہو جاتی ہے جب کہ شاعر اور ادیب کی لکھت کو اعتبار حاصل کرنے میں ایک وقت لگ جاتا ہے۔صحافی کا رُتبہ ملاحظہ کریں کہ وہ بڑی سے بڑی سیاسی و غیر سیاسی شخصیت کو کہیں بھی روک کر اپنی مرضی کا سوال پوچھ سکتا ہے۔عام آدمی صحافی اور اس شعبے کی اثریت کو دیکھ رہا ہے۔لہٰذا وہ دیگر شعبوں کو وہ مقام نہیں دیتا جو اس شعبے کو دے رہاہے۔میڈیا میں گواہی کا تصور بہت اہمیت کا حامل ہے ۔میڈیا کی گواہی سماجی سطح پر سند پاچکی ہے۔جب ایک صحافی کسی واقعہ کی رپورٹ پیش کر تا ہے تو حکومت فوری ایکشن لے لیتی ہے۔جب متاثرین میڈیا کے ذریعے اپنی داد رسی ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو حکومت سے زیادہ میڈیا پر اعتبار کر نا شروع کر دیتے ہیں ۔ہمارے ہاں اس شعبے کی سماجی حیثیت کیا ہے ؟ہماری حکومتوں کے سرکردہ رہنما جب قومی ترقی کی بات کرتے ہیں تو میڈیا کا ذکر اختصاص کے ساتھ کرتے ہیں ۔ہماری حکومتیں میڈیا کو ریاست کا ایک ستون قرار دیتی ہیں ۔ایسا ایک حد تک درست نتائج کا حامل ٹھہرتا ہے اور اس کے نتائج بھیانک بھی برآمد ہوتے ہیں ۔ترقی پذیر ممالک میں چونکہ سماج ارتقا پذیر ہوتا ہے جبھی شعبوں اور شعبوں کے حاملین میں اس شعوری بالیدگی کا فقدان ہوتا ہے جو مثبت فیصلے کرواتی ہے۔ہمارا میڈیا ابھی مکمل طو رپر میچو رنہیں ہے۔یوں اس کی طاقت کا اظہار بارہا موقعوں پر غلط ہوا ہے،جس سے ادارہ جاتی ٹکرائو کی کیفیت بھی پیدا ہو ئی ہے۔ -

intelligent086
11-14-2015, 12:19 AM
bath: