Log in

View Full Version : Part-4



CaLmInG MeLoDy
06-05-2015, 11:37 AM
is se pehle waale 3 parts main aap ne aik bete ka us ke baap ke sath ikhtilaaf daikha, aur us ikhtilaaf par dada dadi ki pareshani daikhi, 3rd part main aap ki mulaqat is novel ke new characters sania and uski mother se hui...ab aage...






ماما ، آپ اپنی صحت کا بلکل بھی خیال نہیں رکھتی ہیں، جبکہ آپ جانتی بھی ہیں کہ میرے پاس آپ کی دیکھ بھال کے لئے بہت وقت نہیں ہوتا. آپ نے مجھے پڑھانا لکھانا بھی اپنا مقصد بنا رکھا ہے، اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے آپ جان کی بازی لگانے کو بھی تیار ہیں، میں ایسے کیسے آپ کو اس حال میں دیکھ کر اپنی تعلیم پر توجوہ دے سکتی ہوں؟

نہیں میری جان ، یہ بیماریاں تو انسان کی زندگی کا لازم و ملزوم حصہ ہیں ، ان سے ہم خود کو کیسے جدا کر سکتے ہیں. ہاں مگر. یہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے ، گاڑی کے سارے پہیے سلامت ہونا ضروری ہیں. میں یہ گاڑی چلا تو رہی ہوں، مگر اگر دوسرا پہیہ بھی اس گاڑی کو میرے ساتھ چلا رہا ہوتا ، تو شاید آج مجھ پر زمیداریوں کو اتنا بوجھ نہ ہوتا .
لیکن ایک میں ہی نہیں، اس معاشرے میں لا تعداد خواتین ایسی ہیں، جو زندگی کی گاڑی اکیلے چلا رہی ہیں. چلانا پڑتی ہے گاڑی . ورنہ راستے میں رک جاؤ تو نا جانے کتنے لوگ جو ہم سے تیز چل رہے ہوتے ہیں، ہمیں کچل کر ہم سے آگے نکل جاتے ہیں،

ماما ، آج آپ مجھے بتاتی کیوں نہیں کہ . جس دوسرے پہیے کی آپ بات کر رہی ہیں ، وہ پہیہ کون ہے، وہ کہاں ہے. آپ مجھے اس سے بے خبر کیوں رکھے ہوئے ہیں ؟
بس ثانیہ ہماری زندگی میں کبھی ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں ، کہ ہم اپنے ماضی کو یاد نہ ہی کریں تو ٹھیک ہوتا ہے.

باتیں کرتے کرتے ثانیہ کا ذہن اسکے موبائل فون کی گھنٹی نے اس سوال سے ہٹا دیا . اور ثانیہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی.

--------------------------------------------------------------

آپ بڑی سمجھدار اور قابل تعریف خاتون ہیں نیلم . جس طرح سے آپ نے اپنی بیٹی کی پرورش کی ہے، اور جس طرح سے آپ نے اپنی زندگی کو آپ کی کم عمری سے لے کر اب تک گزارا ہے. یہ بڑے حوصلے کی بات ہے . میں جانتا ہوں ہمارا معاشرہ کیسا ہے. ایک ایسی عورت کہ جسکو اسکے شوہر نے اس دنیا میں نظروں کی سازشیں بنتے مردوں، قاتلانہ فطرت کے مالک جابروں اور اکیلے پن کی دلدل کے حوالے کر دیا ہو . ایسی خاتون کا اس دنیا میں سروائیو کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے. نا صرف سروائیو کرنا بلکہ بغیر کسی سہارے کے زندگی کے سفر کو تنہا گزارنا یہ ایک کامیاب انسان کے بس کی ہی بات ہوتی ہے. میں تو اس انسان کی بد قسمتی پر حیران ہوں کہ اس نے آپ جیسی پر وقار خاتون کو کیسے تنہا چھوڑ دیا.

بس سفیر صاحب ، ہر انسان کو آسائشیں جھولی میں پڑی ہوئی نہیں ملتی ہیں. ہر انسان کی تقدیر میں خوش قسمتی ہی نہیں ہوتی . اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہمسفر بھی ایسا ملے جو ساری زندگی ساتھ دے. آپ کا اور میرا ساتھ اس آفس میں برسوں پرانا ہے. آپ نے ہمیشہ میرا بھائیوں کی طرح خیال رکھا ہے. آپ میرے محسنوں کی طرح ہیں. آپ کاینڈلی ایڈمن سے میری ایک ماہ کی لیو اپروو کروا دیں . میں بہت شدت سے محسوس کر رہی ہوں ثانیہ کے بدلتے رویے کو.

الله خیر کرے، کیا ہوا ہماری بیٹی کو. کوئی خاص بات ہے نیلم ؟ سفیر صاحب نے تشویش سے سوال کر ڈالا نیلم سے.

نہیں سفیر صاحب . کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے. بس تھوڑی چڑچڑی ہو گئی ہے ثانیہ، شاید میں اسے صحیح سے وقت نہیں دے پا رہی ہوں. میں کچھ روز اسکے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں. آخر میرے علاوہ اسکا اس دنیا میں ہے ہی کون. نیلم نے اپنی ذہنی کوفت کو سفیر صاحب سے چھپاتے ہوئے ثانیہ کے چڑچڑے ہونے کا بہانہ بنایا .

ٹھیک ہے نیلم بی . آپ بے فکر ہو کر اپنے آفس میں جایئے . میں آپ کی لیو آج ہی سبمٹ کروا دونگا.

او کے سفیر صاحب . آپ کا بہت بہت شکریہ.

کتنا مشکل ہوتا ہے. ایک باپ کے بغیر اسکی اولاد کی پرورش کرنا، کتنا مشکل ہوتا ہے، ایک خاندان کے بغیر اپنی اولاد کے لئے زندگی کے فیصلے کرنا، کتنا عجیب ہوتا ہے، کسی اپنے کے بغیر بڑے بڑے مسائل کو خود حل کرنا.یا الله کسی انسان کی خاص تقدیر ہی کیوں ہوتی ہے. میرا ہمسفر نہیں ہے میرے ساتھ، تو کوئی اپنا بھی تو نہیں ہے ، کہ جس سے میں دل کھول کر اپنے وسوسوں کا، اپنی سوچ کا، اپنے فیصلوں کا ذکر کر سکون. کہ جس سے میں ضرورت پڑنے پر مشورے مانگ سکون. میں ایک عورت ہوں. معاشرے کو صرف ایک عورت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں. کسی مرد کا ساتھ بھی ہم ماں بیٹی کی زندگی میں ہوتا. تو مرد کی نگاہ سے بھی ہم اس دنیا کے رنگ ڈھنگ پہچان سکتے . کہنے کو سفیر صاحب میرے بھائیوں جیسے ہیں، مگر پرایا مرد پرایا ہی ہوتا ہے. میں کبھی ان سے اپنی اور ثانیہ کی زندگی کے بارے میں دل کھول کر بات نہیں کر سکتی. میں نے اپنی بیٹی کو ایک ماں کا بھر پور پیار دیا ہے. مگر باپ کی شفقت سے میری بیٹی محروم ہی رہی ہے. میری بیٹی تو باپ بھائیوں جیسی پاک نظروں سے بھی واقف نہیں، تو انجان مردوں کی اس دنیا میں وہ نا پاک اور پاک نظروں میں کیسے فرق کر سکے گی. ابھی تک تو میں نے اسے اپنی پلکوں کے سائے میں پالا ہے، ایک پل اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا. مگر اب وہ بڑی ہو گئی ہے. اس کی اپنی زندگی بھی ہے، اپنی سوچ ، اپنی آزادی اور اپنی پرائیویسی ہے . میں کب تک اسکی زندگی میں مخل ہوتی رہونگی. جب اولاد جواں ہو جاتی ہے، وہ اپنے ماں باپ سے تھوڑا فاصلہ چاہتی ہے. کیا میں ثانیہ کو خود مختاری کا یہ فاصلہ دے پاونگی ؟

میں نے تو آج تک اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ صحیح نہیں کیا. تو میں ثانیہ کو صحیح غلط کی تمیز کیسے دے پاؤں گی. کم عمری میں ،میں نے جو بھی قدم اٹھائے. وہ مجھے نصیب سے کامیابی یا ناکامی کی طرف لے آئے. اس کے لئے میں اپنی زندگی کے لئے خود جواب دہ ہوں. پر اگر میں نے ثانیہ کے لئے کوئی غلط فیصلہ کیا تو اس کی زندگی کے لئے کون جواب دہ ہوگا ؟
کتنی شدید کمی محسوس ہو رہی ہے مجھے زندگی کے اس موڑ پر آ کر ایک ہم سفر کی . ان ہی خیالات میں الجھے ہوئے نیلم اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی. راستے بھر اسکے اریب قریب سے کون گزرا ، سڑک پر تیز رفتار ٹریفک کے کیا حالات تھے. کب آفس وین آفس سے گھر تک کی سڑکوں پر فراٹے بھرتے ہوئے نیلم کے گھر کے دروازے پر رک گئی نیلم کو اس کا احساس تک نا ہوا.

اتریں میڈم .

ڈرائیور کی آواز پر نیلم چونک گئی .
اوہ سوری .
نیلم وین سے اتر کر اپنے دروازے کی طرف بڑھی. ہمیشہ کی طرح آج بھی اسکا دروازہ لاک تھا. لاک ہوتا بھی کیوں نہیں. آخر نیلم اور ثانیہ کے سوا اس گھر میں رہتا ہی کون تھا. نیلم ہمیشہ گھر آ جاتی تھی کبھی گرمیوں کی چلچلاتی دوپہر میں، تو کبھی سردیوں کی تیز برستی بارش میں. مگر گرمی اور بارش کی شدت کو جھیلتے ہوئے نیلم کو ہمیشہ ہی اپنا دروازہ خود کھولنا پڑتا . ایسا مہینے میں اکا دکا بار ہی ہوتا تھا کے ثانیہ گھر پر موجود ہوتی تو دروازہ نیلم کو کھلا ملتا . مگر آج نیلم کو دروازہ کھولنا ایک زحمت معلوم ہو رہا تھا. کیوں کے دن بھر کی سوچ بچار اور آفس کے کام کی وجہ سے ذہنی تھکاوٹ نیلم کو نڈھال کئے ہوئے تھی. اور آج نیلم کے پختہ ارادے، سوچ اور پر تاثیر شخصیت ماند پڑتے دکھائی دے رہے تھے.

اوہ ہو. اب کھل بھی جا . نیلم نے بڑی بد مزاجی سے دروازے کے لاک کو کھولنے کے لئے جھنجھوڑا. پھر یہاں وہاں دیکھ کر اپنے رویے میں نرمی لے آئی .کہیں اس حرکت پر کسی کی نظر تو نہیں پر گئی. اس ہی شش و پنج میں دروازہ کھل گیا. نیلم سیدھے گھر کے اندر داخل ہوئی . اپنے بیگ کو صوفے پر پھینکا اور سیدھے بستر پر جا کر بے سدھ لیٹ گئی.
یا الله میری تو ہمت ہی جواب دیتی جا رہی ہے. مجھے اب ثانیہ کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کر لینا چاہئے . میری تو ہڈی ہڈی جواب دینے لگی ہے. آج مجھے اندازہ ہو رہا ہے، ایک مرد کی تھکاوٹ کیا ہوتی ہے. آج مجھے شدت سے اندازہ ہو رہا ہے کہ نوکری کسے کہتے ہیں، کیوں ایک مرد گھر آ کر اپنی بیوی کی ایک مسکراہٹ کا خواہاں ہوتا ہے. کیوں بیوی کی ذرا سی توجوہ مرد کو اپنی بیوی اپنے بچوں کے لئے اتنی تھکاوٹ کے بعد بھی ایسے ترو تازہ کر دیتی ہے ، جیسے صبح سویرے آنکھ کھولتے ساتھ ہی انسان سکون کی حالت میں ہوتا ہے.

یہ اندازہ تو مجھے پہلے بھی ہوتا رہا ہے. مگر اپنی ہڈ دھرمی اور ضد میں آج تک میں یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ گھر پر بیٹھ کر ایک عورت جیسے زندگی گزار رہی ہوتی ہے،وہ کسی بھی ملکہ سے کم نہیں ہوتی ہے چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ .. بے شک تھکاوٹ، کام سے چور چور ہو جاتی ہے عورت. مگر اسکی عزت نفس پامال نہیں ہوتی. اسے اپنے گھر کی چار دیواری کا پردہ ہمیشہ ڈھانپے رہتا ہے. پھر گھر کا کام ایسا نہیں کہ عورت کو ذہنی تھکاوٹ دے. بلکہ ایک عورت اپنے گھر کو کامیابی سے چلا کر تھکتی نہیں بلکہ اسکو ذہنی سکون ملتا ہے یہ دیکھ کر کہ اسکا شوہر ، اسکے بچے، اسکے ماں باپ ، سب اسکے کام سے محظوظ ہو رہے ہیں. اسے سارا سارا دن انتظار ہوتا ہے اپنے بچوں کا، اپنے شوہر کا یا اپنے باپ بھائیوں کے گھر واپس آنے کا. اسی انتظار میں ایک عورت چاہے ماں ہو، بیٹی ہو، بہن ہو، یا بیوی ہو، ساری دنیا کے جھمیلوں سے بے فکر ہو کر ان لوگوں کے لئے کھانے پینے کا، گھر کی صفائی کا اور خود کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتی ہے. اس میں اسے جو مسرت حاصل ہوتی ہے ، اس خوشی کا کوئی خوشی مقابلہ نہیں کر سکتی . پر میں نے تو اپنا بہت کچھ کھو دیا. صرف اس ضد میں کہ میں بھی خود مختار ہونا چاہتی ہوں. ایسی خود مختار ہوئی کہ آج تک اس شہر کے کوچے کوچے میں جا کر اپنے کام کاج مجھے خود کرنے پڑتے ہیں، بیمار ہوں یا تھکی ہوئی ، جو کرنا ہے مجھے خود کرنا ہے. پر آج تک میں اپنی انا میں الجھی ہوئی اس حقیقت کو ماننے سے انکار کرتی ہوں کہ ایک عورت کا مرد کے بغیر گزارا آسان نہیں . بلکہ ٹھیک ٹھاک مشکل ہے. کہیں میری بیٹی بھی میرے جیسی سوچ کی مالک نہ ہو جائے . میں پھر بھی اسکی پرورش ایسے کر رہی ہوں کے وہ کسی کی محتاج نہ رہے. ایک عورت جب تک مرد کی محتاج رہتی ہے، اپنے گھر کی ملکہ بنی رہتی ہے. اور جب یہ تاج اپنے سر سے اتارتی ہے. تو ایک عام عورت بن جاتی ہے. میں نے خود ایک ملکہ کو کھو کر اپنے لئے عام عورت کا روپ چنا ہے . میں اپنے آج کی خود زمیدار ہوں.

ہائے . ابھی میرا گھر بار ہوتا. میرے اپنے میرے ساتھ ہوتے. تو شاید میرے لئے کوئی کھانا گرم کر لاتا. شاید کوئی میری تھکاوٹ کا علاج کرتا. کندھوں اور گردن کی تھکاوٹ سے چور نیلم نے کروٹ لے ہی لی . ورنہ اسے لگ رہا تھا کے وہیں ڈھیر رہے . میں نے تو خود اپنے لئے یہ زندگی منتخب کی ہے. ورنہ کم عمری میں تو ہر لڑکی کو اپنے آپ پر بڑا ماں ہوتا ہے.

آج نیلم کو یاد آ رہا تھا ، وہ وقت جب وہ اپنے سسرال کو چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس چلی گئی تھی. بڑے پیارے ہوتے ہیں ماں باپ . بیٹی کے ناز نخرے اٹھانے والے. پر کبھی کبھی یہ ہی ماں باپ بھول جاتے ہیں. کہ اس بیٹی نے کسی دوسرے کے گھر کی زینت بننا ہے. کہ جہاں اسکی بگڑی عادتوں پر اسکے ناز نخرے نہیں اٹھائے جایئں گے. بلکہ یہ ہی عادتیں اسکی دشمن بن جایئں گی. میری عادتیں ہی میری دشمن تھیں. میری عادتوں نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا . کہیں میری بیٹی بھی میری جیسی عادتوں کی مالک تو نہیں ہو گئی. اسکی پرورش میں نے ہی کی ہے. اور اسکی اکیس سالہ زندگی میں مجھے آج پہلی بار احساس ہو رہا ہے کہ میری عادتیں اچھی نہیں تھیں. میں نے تو اس میں بھی اپنی ہی عادتیں منتقل کی ہے. کہیں میری بیٹی کا نصیب میرے جیسا نہ ہو. الله نہ کرے.


پر نہیں ، میری بربادی کی خالی میں زمیدار نہیں ہوں ، مجھ پر میری بیٹی پر تہمتیں لگائی گئی ہیں، اگر میں نے یوں اپنی زندگی کو سمیٹا نا ہوتا تو آج بھی میری بیٹی داغدار ہوتی ، بیگناہ بیٹی میری اور میں داغدار ہوتے .

آج نیلم کی آنکھوں میں اپنی زندگی ایک کہانی کی طرح چلنے لگی