Faryad
05-25-2015, 09:25 AM
کوئی پڑھ لے۔ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی جوائن کر کے۔
میری شادی کو کل ملا کر بیس سال ہونے والے ہونگے۔پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھنے والی میں۔ بھائیوں کی اکلوتی بہن۔ جھکڑا ، سیاست، یا گھریلو حالات سے مقابلہ کیا ہوتا ہے اس سے نا بلد۔ ہمیشہ سسرال والوں کو خوش رکھوں گی، شوہر کی فرمابردار رہوں گی، کام کاج میں نخرے یا اپنے اکلوتے پن اور لاڈلے پن کو کبھی خود پہ حاوی نہیں ہونے دونگی، یہ سوج کر سسرال میںمیں نے اپنے قدم رکھے۔ بڑوں کا احترام ، چھوڑوں سے پیار، یہ سیکھ کر آئی تھی، سو اسی پر عمل پیرا رہی۔
مگر سسرال تو سسرال ہوتا ہے۔ سسرال میںکمبائن فیملی میں رہنے والے تمام مسائل کا سامنہ کیا۔ مگر احسن تریقے سے رشتے نبھائے۔ نندوں کو اس گھر کی بیٹی سمجھ کر ان کو ان کے حق کے پیار سے کبھی محتاج نہیں ہونے دیا۔ والدین کا حق بیوی سے ذیادہ ہے ۔ یہ سوج کر اپنے شوہر کی ہر بار مانی۔ ساس سسر کی فرمانبرداری کی، ذیادتیاں اور اپنے حصے میں آنے والے سچے جھوٹے الزامات بھی سہے۔ شایا اسلئیے کہ بی اولادی کا دبائو تھا مجھ پر۔ یا شاید تربیت ہی ایسی تھی کہ کسی کے ساتھ جواباٗ بھی زیادتی نہیں کر سکتی تھی۔ لہٰذا جیسے تیسے اپنے شوہر کی فرمانبردار رہی۔ میرے شوہر کے والدین میری شادی کے بعد اٹھارہ سال ہمارے ساتھ حیات رہے۔ دونوں نے بزرگی کے آخری دو دو سال بستر پر گزارے۔ میں نے بھی دلی ہمدردی، محبت، اور خدمت میں کوئی کمی نہیں رکھی، کیوں کہ اس وقت انکو میری ضرورت تھی۔ میرے ساتھ میری دیورانی بھی انکی خدمت کرتی۔ مگر انکو اس حال پر پہنچانے والی تھی بھی وہ ہی۔ اور پھر انکی محتاجی پر انکے پیسے پر بھی مکمل قبضہ کیئے رہی۔ خیر ۔ مجھے اس پیسے کا کوئی لالج نہیں تھا۔ میرے پاس کمی نا تھی
روپے پیسے کی۔ ضروریات بھی پوری ہوتی تھیں۔
مگر جب اس گھر میں اچھے حالات تھے ۔ اور میرے ساتھ کھلی زیادتی ہوتی تھی۔ تب میں یہ سوج کر صبر کر لیتی تھی۔ کہ کوئی بات نہیں۔ میرا رب دیکھ رہا ہے۔ جب تک ساس سسر ہیں ۔ میرے شوہر پر انکا پورا حق ہے۔ میں نے اپنے شوہر کو کبھی الگ گھر لے کر دینے پر نہیں اکسایا۔ حالنکہ میرے ساتھ بھر پور بدسلوکی کی جاتی۔ صبر میں شکر میں وقت گزرتا رہا۔ ہمارے ساتھ دیور دیورانی بھی رہتے رہے۔ انکے بچوں کو ہم اپنی بے اولادی کی کمی کی وجہ سے جان چھڑکنے کی حد تک چاہتے رہے۔ ساس سسر کے بعد دیورانی کی جان لیوا بیماری میں اسکا پورا ساتھ دیتی رہی۔ اسکا اسکے بچوں کا خیال کیا۔ پھر دل میں یہ خیال بھی آتا کہ یا رب ۔ میرے ہی حصے میں یہ فرائض کیوں۔میں بھی تھک جاتی ہوں۔ پر یہ سوچ کر سب اچھا کرتی رہی۔ کہ میرا رب راضی۔
مگر ان لوگوں نے آنکھیں پھیرنے میں سال بھی نہیں لگایا۔ اب میرے کمرے میں نا ان بچوں کو آنے کی اجازت ہے۔ نا مجھ سے بات کرنے کی۔ ہاں جب کبھی ان بچووں کی سالگرہ ہو۔ عید ہو۔ یا خاندان کا کوئی اور بچہ ہمارے کمرے میں آئے۔ تو یہ بچے ہمارے کمرے میں ایسے دھمکتے ہیںجیسے میرے سارے دن کی تنہائی یہ ہی ختم کرتے ہوںسارے دن۔ یا جیسے میرا بستر چھوڑنے کو دل نا چاہتا ہو تو میری آواز پر بھاگ کر مجھے پانی پلا جاتے ہوں۔ نا۔ان کو اجازت نہیں۔ میں بھی اپنے رب سے دعا کرتی ہوں۔ میرے مولا مجھے اپنا محتاج رکھنا۔ انکی محتاجی سے محففوظ رکھنا۔ کیوںکہ انکی ماں مجھے کہ چکی ہے۔ کہ آپ کے نصیب میں تو اکیلا پن لکھا ہے۔ آپ اسی کمرے میںجل جل کے مر جائیںگی۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے جملے بولنا اسکا شیوہ ہے۔ مگر میرے سوال کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا۔ آخر میرا قصور کیا
ہے۔
کیا میرے شوہر زندگی بھر کی خدمت کے بدلے میں ۔ مجھے عزت بھی نہیںدلوا سکتے۔ اپنے گھر والوں پر غصہ کرنا انکو گوارا نہیں ۔ پر کیا مجھے میرا الگ گھر بھی لے کر نہیںدے سکتے۔ کرتے رہیں تمام عمر اپنے بھائی بھابی کی مالی امداد۔ اس گھر پر بھی اپنا دینی حق نا سمجھیں۔ دے دیں اپنے بھائی کو یہ گھر۔ اتنی گنجائش ہے کہ۔ مجھے سکون کا گھر لے دیں۔
مگر نہیں۔ اب میرے شوہر کو نا تو میری کوئی بات سچی لگتی ہے۔ نا ہی مجھ پر اعتبار ہے انکو۔ انکو لگتا ہے۔ میرا غصہ صرف اور صرف دکھاوا ہے۔ انکو انکے بھائی بھابی سے علیحدہ کرنے کے لیئے۔ آج بھی اپنی بے بسی پر بہت روئی میں۔ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ نا گھر کا خرچہ ، ہان یہ بھی سج ہے کہ میرے شوہر میری فرمائشیں پوری کرتے ہیں۔ کمی نہیں چھوڑتےکسی چیز کی۔ مگر عزت نہیں دلا سکے۔ اپنے چھوٹے بھائی ، بھابی انکے سامنے مجھ سے زیادتی کر جاتے ہیں۔ مگر وہ پھر بھی روپیہ پیسہ ان پر لٹاتے ہیں۔ ہزار ہزار کے نوٹ ایسے خرج کرتے ہیں۔ جیسے درختوں پر لگے ہوں۔ پر اپنے مستقبل کے لیئے کچھ نہیں۔ ہاتھ خالی ہیں۔
اب میرا دل جلتا ہے۔ اپنا آپ بے بس لگتا ہے۔ بے اولاد عورت کتنی بھی نیک کیوں نا ہو ۔ اسکو اسکی اچھائی کا صلہ کبھی نہیں دیا جاتا۔ اب میرے شوہر کہتے ہیں مجھ سے ۔ کہ مجھ سے ان کی برائی بھی نا کر۔ بلکہ اعتبار ہی نہیںکرتے مجھ پر۔ میں سوچتی ہوں۔ کہ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائوں ۔ کیونکہ مجھے لگنے لگا ہے ۔ کہ اب کسی بھی روز میرا میرے شوہر سے اتنا جھگڑا ہوکا کہ، یا تو میں انکو چھوڑ دونگی ، یا وہ
مجھے۔
میری سننے والا کون ہے۔ اس فورم پر آتی ہوں۔ یہاں دل بہلاتی ہوں۔ سارا سارا دن دل بہلانے کو یہاں وہاں نیٹ پر جھک مارتی ہوں۔ آج دل کیا اپنے دل کا حال آپ لوگوں سے کہوں۔ کیا پتا کوئی اچھا مشورہ ہی مل جائے مجھے۔
میری شادی کو کل ملا کر بیس سال ہونے والے ہونگے۔پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھنے والی میں۔ بھائیوں کی اکلوتی بہن۔ جھکڑا ، سیاست، یا گھریلو حالات سے مقابلہ کیا ہوتا ہے اس سے نا بلد۔ ہمیشہ سسرال والوں کو خوش رکھوں گی، شوہر کی فرمابردار رہوں گی، کام کاج میں نخرے یا اپنے اکلوتے پن اور لاڈلے پن کو کبھی خود پہ حاوی نہیں ہونے دونگی، یہ سوج کر سسرال میںمیں نے اپنے قدم رکھے۔ بڑوں کا احترام ، چھوڑوں سے پیار، یہ سیکھ کر آئی تھی، سو اسی پر عمل پیرا رہی۔
مگر سسرال تو سسرال ہوتا ہے۔ سسرال میںکمبائن فیملی میں رہنے والے تمام مسائل کا سامنہ کیا۔ مگر احسن تریقے سے رشتے نبھائے۔ نندوں کو اس گھر کی بیٹی سمجھ کر ان کو ان کے حق کے پیار سے کبھی محتاج نہیں ہونے دیا۔ والدین کا حق بیوی سے ذیادہ ہے ۔ یہ سوج کر اپنے شوہر کی ہر بار مانی۔ ساس سسر کی فرمانبرداری کی، ذیادتیاں اور اپنے حصے میں آنے والے سچے جھوٹے الزامات بھی سہے۔ شایا اسلئیے کہ بی اولادی کا دبائو تھا مجھ پر۔ یا شاید تربیت ہی ایسی تھی کہ کسی کے ساتھ جواباٗ بھی زیادتی نہیں کر سکتی تھی۔ لہٰذا جیسے تیسے اپنے شوہر کی فرمانبردار رہی۔ میرے شوہر کے والدین میری شادی کے بعد اٹھارہ سال ہمارے ساتھ حیات رہے۔ دونوں نے بزرگی کے آخری دو دو سال بستر پر گزارے۔ میں نے بھی دلی ہمدردی، محبت، اور خدمت میں کوئی کمی نہیں رکھی، کیوں کہ اس وقت انکو میری ضرورت تھی۔ میرے ساتھ میری دیورانی بھی انکی خدمت کرتی۔ مگر انکو اس حال پر پہنچانے والی تھی بھی وہ ہی۔ اور پھر انکی محتاجی پر انکے پیسے پر بھی مکمل قبضہ کیئے رہی۔ خیر ۔ مجھے اس پیسے کا کوئی لالج نہیں تھا۔ میرے پاس کمی نا تھی
روپے پیسے کی۔ ضروریات بھی پوری ہوتی تھیں۔
مگر جب اس گھر میں اچھے حالات تھے ۔ اور میرے ساتھ کھلی زیادتی ہوتی تھی۔ تب میں یہ سوج کر صبر کر لیتی تھی۔ کہ کوئی بات نہیں۔ میرا رب دیکھ رہا ہے۔ جب تک ساس سسر ہیں ۔ میرے شوہر پر انکا پورا حق ہے۔ میں نے اپنے شوہر کو کبھی الگ گھر لے کر دینے پر نہیں اکسایا۔ حالنکہ میرے ساتھ بھر پور بدسلوکی کی جاتی۔ صبر میں شکر میں وقت گزرتا رہا۔ ہمارے ساتھ دیور دیورانی بھی رہتے رہے۔ انکے بچوں کو ہم اپنی بے اولادی کی کمی کی وجہ سے جان چھڑکنے کی حد تک چاہتے رہے۔ ساس سسر کے بعد دیورانی کی جان لیوا بیماری میں اسکا پورا ساتھ دیتی رہی۔ اسکا اسکے بچوں کا خیال کیا۔ پھر دل میں یہ خیال بھی آتا کہ یا رب ۔ میرے ہی حصے میں یہ فرائض کیوں۔میں بھی تھک جاتی ہوں۔ پر یہ سوچ کر سب اچھا کرتی رہی۔ کہ میرا رب راضی۔
مگر ان لوگوں نے آنکھیں پھیرنے میں سال بھی نہیں لگایا۔ اب میرے کمرے میں نا ان بچوں کو آنے کی اجازت ہے۔ نا مجھ سے بات کرنے کی۔ ہاں جب کبھی ان بچووں کی سالگرہ ہو۔ عید ہو۔ یا خاندان کا کوئی اور بچہ ہمارے کمرے میں آئے۔ تو یہ بچے ہمارے کمرے میں ایسے دھمکتے ہیںجیسے میرے سارے دن کی تنہائی یہ ہی ختم کرتے ہوںسارے دن۔ یا جیسے میرا بستر چھوڑنے کو دل نا چاہتا ہو تو میری آواز پر بھاگ کر مجھے پانی پلا جاتے ہوں۔ نا۔ان کو اجازت نہیں۔ میں بھی اپنے رب سے دعا کرتی ہوں۔ میرے مولا مجھے اپنا محتاج رکھنا۔ انکی محتاجی سے محففوظ رکھنا۔ کیوںکہ انکی ماں مجھے کہ چکی ہے۔ کہ آپ کے نصیب میں تو اکیلا پن لکھا ہے۔ آپ اسی کمرے میںجل جل کے مر جائیںگی۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے جملے بولنا اسکا شیوہ ہے۔ مگر میرے سوال کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا۔ آخر میرا قصور کیا
ہے۔
کیا میرے شوہر زندگی بھر کی خدمت کے بدلے میں ۔ مجھے عزت بھی نہیںدلوا سکتے۔ اپنے گھر والوں پر غصہ کرنا انکو گوارا نہیں ۔ پر کیا مجھے میرا الگ گھر بھی لے کر نہیںدے سکتے۔ کرتے رہیں تمام عمر اپنے بھائی بھابی کی مالی امداد۔ اس گھر پر بھی اپنا دینی حق نا سمجھیں۔ دے دیں اپنے بھائی کو یہ گھر۔ اتنی گنجائش ہے کہ۔ مجھے سکون کا گھر لے دیں۔
مگر نہیں۔ اب میرے شوہر کو نا تو میری کوئی بات سچی لگتی ہے۔ نا ہی مجھ پر اعتبار ہے انکو۔ انکو لگتا ہے۔ میرا غصہ صرف اور صرف دکھاوا ہے۔ انکو انکے بھائی بھابی سے علیحدہ کرنے کے لیئے۔ آج بھی اپنی بے بسی پر بہت روئی میں۔ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ نا گھر کا خرچہ ، ہان یہ بھی سج ہے کہ میرے شوہر میری فرمائشیں پوری کرتے ہیں۔ کمی نہیں چھوڑتےکسی چیز کی۔ مگر عزت نہیں دلا سکے۔ اپنے چھوٹے بھائی ، بھابی انکے سامنے مجھ سے زیادتی کر جاتے ہیں۔ مگر وہ پھر بھی روپیہ پیسہ ان پر لٹاتے ہیں۔ ہزار ہزار کے نوٹ ایسے خرج کرتے ہیں۔ جیسے درختوں پر لگے ہوں۔ پر اپنے مستقبل کے لیئے کچھ نہیں۔ ہاتھ خالی ہیں۔
اب میرا دل جلتا ہے۔ اپنا آپ بے بس لگتا ہے۔ بے اولاد عورت کتنی بھی نیک کیوں نا ہو ۔ اسکو اسکی اچھائی کا صلہ کبھی نہیں دیا جاتا۔ اب میرے شوہر کہتے ہیں مجھ سے ۔ کہ مجھ سے ان کی برائی بھی نا کر۔ بلکہ اعتبار ہی نہیںکرتے مجھ پر۔ میں سوچتی ہوں۔ کہ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائوں ۔ کیونکہ مجھے لگنے لگا ہے ۔ کہ اب کسی بھی روز میرا میرے شوہر سے اتنا جھگڑا ہوکا کہ، یا تو میں انکو چھوڑ دونگی ، یا وہ
مجھے۔
میری سننے والا کون ہے۔ اس فورم پر آتی ہوں۔ یہاں دل بہلاتی ہوں۔ سارا سارا دن دل بہلانے کو یہاں وہاں نیٹ پر جھک مارتی ہوں۔ آج دل کیا اپنے دل کا حال آپ لوگوں سے کہوں۔ کیا پتا کوئی اچھا مشورہ ہی مل جائے مجھے۔