intelligent086
05-14-2015, 09:07 AM
کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر حملہ، 45 ہلاکhttp://ichef.bbci.co.uk/news/ws/950/amz/worldservice/live/assets/images/2015/05/13/150513074054_khi_ismaili_bus_attack_624x351_epa.jp g
حملے کا نشانہ بننے والی بس میں اسماعیلی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 60 سے زیادہ افراد سوار تھے
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بس پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 45 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔
ادھر پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کراچی کے واقعے کے بعد اپنا تین روزہ دورۂ سری لنکا منسوخ کرنے کے بعد کراچی پہنچ گئے ہیں۔پولیس کے مطابق یہ واقعہ بدھ کی صبح صفورا چورنگی کے قریب پیش آیا جب تین موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آوروں نے ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا۔اسماعیلی برادری دہشت گردی کا نشانہ: تصاویر (http://www.bbc.com/urdu/multimedia/2015/05/150513_khi_ismaili_bus_attack_pics_zs.shtml)آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے جائے وقوعہ کے دورے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ مختلف ہسپتالوں سے اب تک 43 افراد کی ہلاکت اور 13 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔حملے میں ہلاک ہونے والوں میں 27 مرد اور 16 خواتین شامل ہیں۔فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں بھی خواتین شامل ہیں جنھیں قریب واقع میمن ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔حملے کے بعد بس کا زخمی ڈرائیور خود بس چلا کر قریب واقع میمن ہسپتال لے کر پہنچا۔آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ حملہ اوروں کی تعداد چھ تھی جنھوں نے بس کو روکا، پہلے بس کے ڈرائیور کو گولی ماری اور پھر بس میں گھس کر بلاتفریق فائرنگ کی۔http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/834/amz/worldservice/live/assets/images/2015/05/13/150513062002_khi_aghakhani_bus_attack_624x351_bbc. jpg
فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جنھیں قریب واقع میمن ہسپتال منتقل کیا گیا ہے
غلام حیدر جمالی کے مطابق حملہ آوروں نے اس کارروائی میں نائن ایم ایم پستول استعمال کیے جبکہ اس معاملے کے تفتیش کے انچارج طارق جدون کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے متفرق ہتھیار استعمال کیے جن میں سب مشین گن اور پستول دونوں شامل ہیں۔
طارق جدون کے مطابق پولیس کو بس سے ایک مشتبہ ٹوپی ملی ہے جس پر سکیورٹی گارڈ تحریر ہے۔حملے کا نشانہ بننے والی مذکورہ بس میں اسماعیلی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 60 سے زیادہ افراد سوار تھے جو الاظہرگارڈن سے عائشہ منزل پر واقع اسماعیلی جماعت خانے کی جانب جا رہے تھے۔جس مقام پر واقعہ پیش آیا وہ ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک ہے جہاں آس پاس تعمیراتی کام جاری ہے۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور رینجرز کے جوان جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا تاہم حملہ آور فائرنگ کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/834/amz/worldservice/live/assets/images/2015/05/13/150513074342_relatives_ismaili_victims_624x351_epa .jpg
اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی لواحقین کی بڑی تعداد ہسپتال پہنچنے لگی
جائے وقوع سے تفتیشی اہلکاروں کو کچھ پمفلٹ بھی ملے ہیں جن میں براہِ راست اس حملے کا تو ذکر نہیں لیکن یہ ضرور کہا گیا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کا آغاز ہو چکا ہے اور’رافضی‘ سنگین نتائج کا انتظار کریں۔
الاظہر سوسائٹی کے ایک عہدیدار نے بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والی سوسائٹی کی بس دن میں پانچ مرتبہ شہر آتی جاتی تھی اور اسے مخصوص سٹاپس کے علاوہ نہیں روکا جاتا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زخمیوں کے مطابق حملہ آور پولیس کی وردی میں ملبوس تھے اور ان کی وردیوں کی وجہ سے ہی روکے جانے پر ڈرائیور نے بس روک دی تھی۔سندھ کے وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ نے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بظاہر یہ منصوبہ بندی سے کی گئی کارروائی لگتی ہے اور حملہ آور راستے میں گھات لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ریجن کے ڈی آئی جی سے تین دن میں رپورٹ طلب کی ہے جبکہ ہلاک شدگان کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے بطور زرِ تلافی دیے جائیں گے جبکہ زخمیوں کو دو دو لاکھ روپے دینے کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/834/amz/worldservice/live/assets/images/2015/05/13/150513084044_police_investigation_khi_attack_640x3 60_getty_nocredit.jpg
پولیس کو بس سے ایک مشتبہ ٹوپی بھی ملی ہے جس پر سکیورٹی گارڈ تحریر ہے
قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے علاقے کے ایس ایچ اور اور ڈی ایس پی کو معطل کرتے ہوئے ڈی آئی جی سے تین دن میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔
خیال رہے کہ کراچی میں اسماعیلی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی قابلِ ذکر تعداد آباد ہے اور ماضی میں بھی انھیں نشانہ بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔اگست 2013 می ں کریم آباد اور میٹروول کے علاقوں میں اسماعیلی جماعت خانوں پر دستی بموں سے حملے (http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/05/150513_khi_safoora_bus_attack_zs)کیے گئے تھے جن میں دو افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ہلاکتوں پر ہنزہ میں احتجاج اور ہڑتالhttp://ichef.bbci.co.uk/news/ws/834/amz/worldservice/live/assets/images/2015/05/13/150513162110_protest_pakistan_640x360_afp.jpg
اسلام آباد میں بھی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کیا گیا
پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ علی آباد میں کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور بازار بند رہے۔
صحافی انور شاہ کے مطابق منگل کو ہونے والے مظاہرے میں اسماعیلی برادری کے علاوہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہزارہ برادری سے لیکر گلگت بلتستان تک مخصوص برادری کی ٹارگٹ کلنگ حکومت کے لیے سوالیہ نشان ہے دہشت گردوں کی جانب سے ُپرامن مسلک کے خلاف دہشت گرد کارروائی ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔مظاہرین نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے اور اس واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اپیل کی۔
حملے کا نشانہ بننے والی بس میں اسماعیلی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 60 سے زیادہ افراد سوار تھے
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بس پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 45 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔
ادھر پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کراچی کے واقعے کے بعد اپنا تین روزہ دورۂ سری لنکا منسوخ کرنے کے بعد کراچی پہنچ گئے ہیں۔پولیس کے مطابق یہ واقعہ بدھ کی صبح صفورا چورنگی کے قریب پیش آیا جب تین موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آوروں نے ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا۔اسماعیلی برادری دہشت گردی کا نشانہ: تصاویر (http://www.bbc.com/urdu/multimedia/2015/05/150513_khi_ismaili_bus_attack_pics_zs.shtml)آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے جائے وقوعہ کے دورے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ مختلف ہسپتالوں سے اب تک 43 افراد کی ہلاکت اور 13 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔حملے میں ہلاک ہونے والوں میں 27 مرد اور 16 خواتین شامل ہیں۔فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں بھی خواتین شامل ہیں جنھیں قریب واقع میمن ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔حملے کے بعد بس کا زخمی ڈرائیور خود بس چلا کر قریب واقع میمن ہسپتال لے کر پہنچا۔آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ حملہ اوروں کی تعداد چھ تھی جنھوں نے بس کو روکا، پہلے بس کے ڈرائیور کو گولی ماری اور پھر بس میں گھس کر بلاتفریق فائرنگ کی۔http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/834/amz/worldservice/live/assets/images/2015/05/13/150513062002_khi_aghakhani_bus_attack_624x351_bbc. jpg
فائرنگ سے زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جنھیں قریب واقع میمن ہسپتال منتقل کیا گیا ہے
غلام حیدر جمالی کے مطابق حملہ آوروں نے اس کارروائی میں نائن ایم ایم پستول استعمال کیے جبکہ اس معاملے کے تفتیش کے انچارج طارق جدون کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے متفرق ہتھیار استعمال کیے جن میں سب مشین گن اور پستول دونوں شامل ہیں۔
طارق جدون کے مطابق پولیس کو بس سے ایک مشتبہ ٹوپی ملی ہے جس پر سکیورٹی گارڈ تحریر ہے۔حملے کا نشانہ بننے والی مذکورہ بس میں اسماعیلی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 60 سے زیادہ افراد سوار تھے جو الاظہرگارڈن سے عائشہ منزل پر واقع اسماعیلی جماعت خانے کی جانب جا رہے تھے۔جس مقام پر واقعہ پیش آیا وہ ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک ہے جہاں آس پاس تعمیراتی کام جاری ہے۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور رینجرز کے جوان جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا تاہم حملہ آور فائرنگ کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/834/amz/worldservice/live/assets/images/2015/05/13/150513074342_relatives_ismaili_victims_624x351_epa .jpg
اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی لواحقین کی بڑی تعداد ہسپتال پہنچنے لگی
جائے وقوع سے تفتیشی اہلکاروں کو کچھ پمفلٹ بھی ملے ہیں جن میں براہِ راست اس حملے کا تو ذکر نہیں لیکن یہ ضرور کہا گیا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کا آغاز ہو چکا ہے اور’رافضی‘ سنگین نتائج کا انتظار کریں۔
الاظہر سوسائٹی کے ایک عہدیدار نے بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والی سوسائٹی کی بس دن میں پانچ مرتبہ شہر آتی جاتی تھی اور اسے مخصوص سٹاپس کے علاوہ نہیں روکا جاتا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زخمیوں کے مطابق حملہ آور پولیس کی وردی میں ملبوس تھے اور ان کی وردیوں کی وجہ سے ہی روکے جانے پر ڈرائیور نے بس روک دی تھی۔سندھ کے وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ نے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بظاہر یہ منصوبہ بندی سے کی گئی کارروائی لگتی ہے اور حملہ آور راستے میں گھات لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ریجن کے ڈی آئی جی سے تین دن میں رپورٹ طلب کی ہے جبکہ ہلاک شدگان کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے بطور زرِ تلافی دیے جائیں گے جبکہ زخمیوں کو دو دو لاکھ روپے دینے کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔http://ichef.bbci.co.uk/news/ws/834/amz/worldservice/live/assets/images/2015/05/13/150513084044_police_investigation_khi_attack_640x3 60_getty_nocredit.jpg
پولیس کو بس سے ایک مشتبہ ٹوپی بھی ملی ہے جس پر سکیورٹی گارڈ تحریر ہے
قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے علاقے کے ایس ایچ اور اور ڈی ایس پی کو معطل کرتے ہوئے ڈی آئی جی سے تین دن میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔
خیال رہے کہ کراچی میں اسماعیلی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی قابلِ ذکر تعداد آباد ہے اور ماضی میں بھی انھیں نشانہ بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔اگست 2013 می ں کریم آباد اور میٹروول کے علاقوں میں اسماعیلی جماعت خانوں پر دستی بموں سے حملے (http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/05/150513_khi_safoora_bus_attack_zs)کیے گئے تھے جن میں دو افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ہلاکتوں پر ہنزہ میں احتجاج اور ہڑتالhttp://ichef.bbci.co.uk/news/ws/834/amz/worldservice/live/assets/images/2015/05/13/150513162110_protest_pakistan_640x360_afp.jpg
اسلام آباد میں بھی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کیا گیا
پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ علی آباد میں کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور بازار بند رہے۔
صحافی انور شاہ کے مطابق منگل کو ہونے والے مظاہرے میں اسماعیلی برادری کے علاوہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہزارہ برادری سے لیکر گلگت بلتستان تک مخصوص برادری کی ٹارگٹ کلنگ حکومت کے لیے سوالیہ نشان ہے دہشت گردوں کی جانب سے ُپرامن مسلک کے خلاف دہشت گرد کارروائی ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔مظاہرین نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے اور اس واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اپیل کی۔