CaLmInG MeLoDy
05-22-2014, 01:23 PM
Vehicle kharidnain waloon sey guzarish hai key sub sey pehley uski CPLC clearance lain aur phir baqi tamam kagzat thori si fees ada ker key CIVIC centre sey check karwa saktey hain!! In dono kamo k baad hi koi Vehicle ka lain dain karain.
اس تحریر کا مقصد ، پاکستان کی عوام کو آج کل کی کار کی خرید و فروخت اوراس میں ہونے والی جعل سازی سے آگاہ کرنا ہے، اور یہ بتانا ہے ، کہ کار کی خرید و فروخت میں قطعی جلد بازی یا کسی بھی کاغذ کی لا پرواہی نہ برتیں ، ورنہ آپ کو بھی اس قسم کی نا قابل ا برداشت پریشانی سے گزرنا پڑ سکتا ہے
لیجئے یہ حقیقی کہانی اس انسان کی زبانی کہ جو بذات خود اس کہانی کا حصہ نہیں، مگر اس کہانی کا جذباتی کردار ضرور ہے، صرف اور صرف قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے .
صبح سے ہی دل پریشان تھا، میں روزے کی حالت میں تھی، آج میں نے اللہ پاک کے آگے اتنی شدت سے ہاتھ پھیلائے تھے کہ شاید زندگی میں کبھی اتنی شدت سے کچھ نہ مانگا ہوگا. دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی جا رہی تھیں ، اور آنکھیں دروازے پر لگی ہوئی تھیں، آج اسکا چہرہ دیکھے پورے بارہ دن ہو گئے تھے.یہ زندگی کا پہلا موقع تھا کہ ہم نے اس کی خاطر ایسی پریشانی دیکھی کہ ابھی بھی اس پریشانی کا خیال آ جائے تو دل سے آہ اور ایسی پریشانی سے محفوظ رہنے کی دعا نکلتی ہے .
میں امی ، ابو اور گھر کے تمام افراد اس ہی پریشانی کا شکار تھے. گرمی بھی شدید تھی. نا امیدی اور انجانے سے خوف نے الگ پریشان کر رکھا تھا. کبھی خیال آتا کہ ہم اس کو خیریت سے دیکھ بھی سکیں گے یا نہیں، کبھی خیال آتا کہ نا جانے اسکو آزادی بھی نصیب ہوگی کہ نہیں.
مجھے یاد ہے ، آخری بار میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی، میں اور گھر کے باقی لوگ اس رات ایک عشائیے میں مدوع تھے، اور یہ دعوت تھی بھی اس کی ہی طرف سے .ہم سب بہت خوش تھے. ہم سب مل کر اکثر اس طرح گھر سے باہر کھانا کھانے جایا کرتے تھے. آج رات بھی ہم بہت دیر سے رات کا کھانا کھا کر گھر آئےتھے ، یہ ہی کوئی رات کا ایک بجا ہوگا .یا کچھ زیادہ . ہم لوگ گھر آ کر اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلے گئے . گھر دو منزلوں والا تھا. نیچے کی منزل میں امی ابو اور میں سوئے ہوۓ تھے، اور اوپر والی منزل میں بھائی اور بھابیاں .
کانوں میں شور شرابے کی آوازیں گونجنے لگیں ، ایسا لگا جیسے ہمارے گھر میں مار پیٹ ہو رہی ہے، دروازے توڑے جا رہے ہیں، پھر بھی رات کی تھکاوٹ کے مارے آنکھیں کھلنے کا نام نہیں لے رہی تھیں. یک دم کانوں میں کسی خاتون کے زور زور سے رونے کی آوازیں آنے لگیں . چھوڑو میرے بچے کو . میرے بچے نے تو کچھ بھی نہیں کیا. چھوڑو ظالمو میرے بچے کو کہاں لے جا رہے ہو. یہ آوازیں اتنی اونچی تھیں کہ جس عالم میں بستر پر تھی اسی عالم میں کمرے سے باہر نکل گئی. باہر کا نظارہ ہی عجیب تھا.جس خاتون کی آوازیں میرے کانوں میں آ رہی تھیں، وہ اور کوئی نہیں میری اپنی والدہ تھیں. مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کے ہوا آخر کیا ہے. گھر میں چاروں طرف پولیس تھی، چار پولیس والوں نے میرے بھائی کو دبوچا ہوا تھا. اور اس کو گھر سے باہر کی طرف کھینچ رہے تھے. امی زار و قطار رو رہی تھیں اور ابو پولیس والوں سے وجہ دریافت کر رہے تھے. کہ آخر ہوا کیا ہے، ہمارے بیٹے نے کیا کر دیا. رات ایک بجے تک تو یہ ہمارے ساتھ تھا. ابھی صبح کے چھ بجے ہیں ، اس نے راتوں رات ایسا کیا کر دیا. مگر ہمارے پوچھنے پر پولیس نے بس اتنا بتایا کے اس پر ٤٢٠ ،٤٧١ ، ٥٠٦ ، ٤٦٨ کا کیس فائل ہوا ہے اور بغیر وارنٹ گرفتاری دکھائے وہ بھائی کو اپنے ساتھ لے گئے. ہم ششدر تھے. کہ بند دروازوں میں یہ پولیس کیسے داخل ہوئی ، کہاں کا دروازہ کیسے کھولا ،اور کیا بھائی کوئی فرار مجرم ہے جو بغیر خبر کیے گھر پر ریڈ کر کے اس کو گرفتار کیا گیا ہے، یا کوئی قاتل ہے.ہمارے لئے اچانک پریشانی کے ساتھ یہ معاملہ ایک معمہ تھی.مگر ہمارا دھیان صرف بھائی کی گرفتار کی وجہ پے لگا ہوا تھا.
صبح کا وقت، تمام گھر والے گہری نیند کے عالم میں اپنے اپنے بستروں سے جیسے اور جس حالت میں تھے کمروں سے باہر تھے. اسی حال میں باقی دونوں بھائیوں نے والد صاحب کو انکی بیماری کی وجہ سے گھر پر چھوڑ کر پولیس کا پیچھا کرنا چاہا. اور اپنے علاقے کے تھانے میں جا موجود ہوۓ ، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کیس فائل تو ہمارے علاقے میں ہوا ہی نہیں ہے .بلکہ کسی مختلف علاقے کے تھانے میں یہ کیس فائل کیا گئے ہے ، ہمارے لئے یہ تمام قصہ اپنی نوعیت کا ایک عجیب قصہ . تھا، اور ہم نے دور دور تک ایسی کسی چیز کو دیکھا تک نہ تھا. میں نے والد صاحب ، والدہ صاحبہ کا بلڈ پریشر اور شوگر کی جانچ پڑتال شروع کر دی . میرے اپنے ہاتھ پاؤں اس پریشانی کے عالم میں کانپ رہے تھے. مگر مجھے خود سے زیادہ اپنے والدین کی فکر تھی، جو اس اچانک پریشانی کا شکار ہو کر اس نوبت پر آ گئے تھے کہ
بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ بھی ہو سکتا تھا. انکی زبانوں کے نیچے میں نے ڈسپرین رکھی، یہ میں جانتی ہوں یا میرا اللہ پاک کہ میں نے انکو کیسے سمبھالا .
کبھی یہاں کبھی وہاں ، جتنے گھوڑے ہم دوڑا سکتے تھے ہم نے دوڑا دیئے . دو گھنٹے ، پھر تین گھنٹے اور نا جانے کتنے گھنٹوں بعد دوسرے بھائیوں کی کال آئی کہ انہوں نے بھائی کو گرفتار کر کے سیدھے عدالت میں پیش کر دیا. اور عدالت نے اس کیس کی وجہ سے بھائی کو ایک ہفتہ کے جسمانی ریمانڈ کے لئے تھانے بھیج دیا . پاکستان اور پاکستان کے تھانوں کے جسمانی ریمانڈ سے کون واقف نہیں. یعنی یہ کیس فائل ہوا کب اور کیسے اور کس بنیاد پر اس کی نا تو ہمیں کوئی خبر تھی،، نہ ہی اندازہ تھا. ہمیں ثمن تک وصول نہیں ہوۓ کہ ہم ضمانت قبل از گرفتاری ہی کروا سکتے . بھائیوں سے وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ دو سال پہلے بھائی نے اپنے ذاتی استعمال کے لئے ایک کار خریدی تھی، اور کسی انسان کی زبردستی خواہش پر یہ کار اس کو فروخت کر دی تھی ، کہ اسکے بیٹے کو یہ کار بہت پسند آئی ہے ، وہ اس کار کو خریدنا چاہتا ہے، اچھی قیمت پر خرید لیا ، بھائی چونکہ کار کے نئے نئے ماڈل خریدنے کا شوقین تھا. اس نے بھی اس کار کو بیچ دیا. مگر اب اس ہی شخص نے بھائی پر کار ٹمپرنگ کا کیس فائل کر دیا ہے.
اب یہ پریشانی تو ہمارے سروں پر آ گری تھی. مرتے کیا نہ کرتے. روز کی تاریخیں، روز عدالتوں کے چکر ، ضمانت کروانے قابل بھی نہ رہے، کبھی وکیلوں کی ہڑتال تو کبھی جج آن لیو، کبھی مخالف پارٹی کے وکیل کا ماموں مر جاتا تو کبھی اس کو کوئی ضروری کام آ جاتا .ہم ضمانت تک کی نوبت کو نہ پہنچ پا رہے تھے. لاکھوں روپے الگ خرچ ہو رہے تھے، کسی ضروری کاغذ نکلوانے میں، تو کبھی کسی وکیل کو راضی کرنے میں، اور کبھی کسی پولیس والے سے کسی خاص سوال کا جواب طلب کرنے میں. آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا. ہر بندہ ایک لفظ بولنے کے بھی ہزاروں روپے لیتا .پریشانی وہ بھی پیسے کے بل بوتے پر کیا ہوتی ہے. وہ دیکھنے کو ملی
دل میں مستقل کوئی نہ کوئی دعا جاری تھی. کہ اللہ پاک ہمارے بے گناہ بھائی کے حق میں فیصلہ کر دے. تھوڑی دیر میں فون کی گھنٹی نے دل کی دھڑکنیں مزید بڑھا دین، معلوم ہوا کے بھائی کی ضمانت ہو گئی ہے، بس آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، مگرمیں نے اپنے احساسات کو چھپانا شروع کر دیا ، مگر جذبات آنکھوں سے بہے جا رہے تھے. ایسا لگا جیسے وہ مراد بر آئی ہو کہ جس کے لئے دل بے تاب کہیں سکون نہیں پا رہا تھا. دل میں خیال آیا کے بس اب ایک آدھ گھنٹے میں بھائی واپس آنے والے ہونگے. مگر بھائی نے فون پر بتایا کہ بھائی کو لانے میں ابھی مزید کچھ گھنٹے درکار ہیں، مگر دل سے صبر نہیں ہو رہا تھا. بہت بیتابی اور شدید انتظار کے بعد یہ گھنٹے ختم ہونے کو تھے. ہم سارے گھر والے ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں سے گھر میں داخل ہونے والا انسان ہمیں با آسانی نظر آ سکتا تھا. کیوں کے ہم سب ہی چاہتے تھے کے بھائی کو ہم گھر میں داخل ہوتے دیکھ لیں..ہمیں یہ خوشی نصیب ہو جائے. اس ہی شش و پنج میں گھر کا دروازہ کھلا اور بھائی کا تھکاوٹ سے چور چہرہ ، نظر آیا . مجھ سے صوفے اور دروازے تک کی دوری بھی اب برداشت نہیں ہوئی ، میں بھاگ کے بھائی کے پاس چلی گئی. آج میرے بھائی کا چہرہ بہت مرجھایا ہوا تھا. میں نے اپنی پوری زندگی میں آج تک کبھی بھی بھائی کو ایسے حال میں نہ دیکھا تھا. میرا بھائی ١٨ گریڈ کا سرکاری افسر ، اچھی بلکہ بہت خوبصورت اور جاذب نظر شخصیت کا مالک ، جو قریب سے گزرتا تو مہکیں پھوٹا کرتی تھیں، آج اس حال میں تھا کہ جس سے دور سے پسینے کی بو پھیل رہی تھی، اسکی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں، ایسے جیسے وہ حقیقت میں کوئی مجرم ہو ، ہم سب کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، ہم سب کا اس سے مل کر برا حال تھا. ہم نے کہا پہلے جا کر اپنا حلیہ درست کرو کہنے لگا کہ نہیں، پہلے مجھے دیکھنے تو دو تم سب کیسے ہو، ترس گیا تھا بستر کی نرمی کو، تم لوگوں کے چہروں کو، اور اس کھلی فضا کو.
میں جانتا ہوں میرے یہ بارہ دن وہاں کیسے گزرے .وہ بار بار اپنی آنکھوں سے عینک اتارتا اپنے آنسو صاف کرتا اور پھر بات کرنے لگ جاتا. ہم نے آج تک بھائی کو صرف اور صرف با عزت حال میں دیکھا تھا.، آج ہم سے بھائی کا یہ حال دیکھا نہیں جا رہا تھا. بھائی کہ منہ سے بس ایک بات نکل رہی تھی. اس قدر تذلیل . اس قدر تذلیل . ہم بھائی کو کہتے رہے کے چپ ہو جاؤ ، گھر آ گئے ہو، آرام کرو ، سو جاؤ ، باتیں بعد میں کر لینگے. کہنے لگا ، آرام کیا ہوتا ہے، میں بھول گیا. عزت کیا ہوتی ہے مجھے یاد نہیں . اس قدر تذلیل . ہم سب اس کی بے تابی دیکھ کر خاموش ہوگئے .سوچا اپنے دل کی بات که لینگے بھائی تو دل انکا بھی ہلکا ہوگا. ہم سب انکی باتیں سننے لگے.
میں نے بھابی سے چائے اور کچھ کھانے کا سامان لانے کو کہا، کیوں کے آج میرا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ میں اپنے بھائی کو آنکھوں سے دور کروں. وہیں بھائی کے پاس بیٹھ گئی. انکی حوصلہ افزائی کے لئے، میں نے کہا، فکر نہ کریں. عزت دینے والی ذات صرف اللہ پاک کی ہے، کوئی انسان کسی کی عزت سے نہیں کھیل سکتا. مگر بھائی تھوڑا روتا. پھر آنسو صاف کرتا. اپنی بیٹی کو گلے لگاتا. اور پھر بات کرنے لگ جاتا. میں نے اس دوران جائزہ لیا کے بھائی کا وزن بہت کم ہو گیا ہے. میں نے پوچھا . آپ نے اتنا غم کیا ہے کہ وزن کم ہو گیا.کہنے لگے. اس غم سے بڑھ کر اور کیا غم ہوگا ، اتنی بے عزتی ، اتنی تذلیل .بھائی کا یہ جملہ مجھے کھائے جا رہا تھا.
بھائی کہنے لگا. مجھے جب یہاں سے گرفتار کر کے لے جایا گیا. پورا محلہ دیکھ رہا تھا. مجھے پولیس والے سب کے سامنے بڑی بے ترتیبی کے عالم میں تقریباّ گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے ، ان پولیس والوں نے مجھے گرفتار کرنے کے لئے پولیس کی گاڑی بھی استعمال نہیں کی. بلکہ اس لڑکے کی کار میں بیٹھا کے مجھے لے گئے تھے کہ جس نے مجھ سے میری کار خریدی تھی. ہم سب کے منہ سے یک دم ایک ہی بات نکلی ؟ کیا ؟ اس نے کہا ، ہاں جس لڑکے نے مجھ سے کار خریدی تھی . در حقیقت اس لڑکے اور اس کے باپ ہی نے مجھے اس جعل سازی میں پھنسوایا ہے. ان ہوں نے مارگلہ پولیس کو بہت پیسہ کھلایا اور پولیس والوں کے ساتھ مل کر مجھ پر جھوٹا مقدمہ دائر کیا. اور باقاعدہ پلاننگ کے تحت مجھے گرفتار کروایا، تا کے کہ ضمانت اور کیس ختم کرنے کے نام پر میں انھیں لاکھوں روپے کھلا دوں. مجھ پر گاڑی کا جھوٹا کار ٹمپرنگ کا کیس چلایا . اور مجھ جیسا شریف تنخواہ دار انسان جو قوانین سے بھی واقف نہیں، ،اور نا اتنی ہمت رکھتا ہوں که پاکستان کے بے ایمان قانون اور جعل ساز پولیس والوں کے ہتھے چڑھ کر مقدمہ دائر کرنے والے کو لاکھوں روپے دے کر اس جھوٹے کیس سے خود کو آزاد کروا لوں .مجھے ظالموں نے جیل تک کی ہوا لگوا دی.
جب مجھے تین دن کے پولیس جسمانی ریمانڈ پر بھیجا گیا ، وہاں تھانے میں جس کمرے میں مجھے رکھا گیا ، اس خستہ حال کمرے میں مجھے کھانے پینے کو بھی نہیں دیا جاتا تھا. بلکہ یہ تو آپ لوگوں کی کوشش تھی کہ مجھ تک جیسے تیسے کھانا پہنچا دیتے تھے. ورنہ شاید ان تین دن میں بھوکا رہتا . کمرے میں ایک ہی اٹیچ باتھ تھا. جو کہ دروازے سے محروم تھا. میرے ساتھ کمرے میں دس لوگ اور تھے. وہ بھی کسی نہ کسی شک کی بنیاد پر کہ جن پر ابھی کیس ثابت نہیں ہوا تھا ، گرفتار تھے. جب ہمیں روزانہ کی حاجات اٹیچ باتھ تک لے جاتی تو باقی سارے قیدی کمرے کے دوسرے طرف رخ کر لیتے اور جس کو حاجت ہوتی وہ باتھ روم میں جاتا. وہیں حاجت پوری کرتا . اس قدر چھوٹا سا باتھ روم کہ جہاں سانس بھی نہیں لیا جا سکتا . نا جانے ہم اپنے آپ کو کیسے چھپاتے. پر یہ مجبوری ایسی ہے کہ گزارا کرنا ہی پڑتا.
وہاں کے تین دن کا ریمانڈ جب ختم ہوا . تو مجھے دوبارہ عدالت پیش کیا گیا. مگر وہاں کسی ہڑتال کی وجہ سے کیس کی سنوائی نہیں ہوئی ، میں سمجھا تھا. میرا کیس مضبوط ہے، آج ہی گھر چلا جاؤنگا. مگر دل خون کے آنسو رونے لگا، مجھے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا. تاریخوں کے انتظار میں مجھے وہاں مزید دن گزارنے تھے. جیسے تیسے مزید تین دن گزرے. ہڑتال ، مخالف وکیل کی لیو اور باقی مراحل سے گزرنے کے بعد ، میرے حق میں پھر فیصلہ نہ ہوا. مجھے پھر سے ایک ہفتہ کے عدالتی ریمانڈ پر قید رکھنے کا فیصلہ کیا گیا. جو پاکستان ، یہاں کی پولیس اور حکومت کا حال ہے،مجھے اپنی آزادی غیر یقینی نظر آنے لگی. تب میں نے سوچ لیا کہ اب مجھے بغیر جرم ثابت ہوئے یہاں زیادہ نہیں تو کم از کم سات یا پانچ سال تو گزارنے ہی پڑینگے. اس سوچ نے میرے ذہن کو ماؤف کر دیا. بے امیدی اور بے بسی نے مجھ پر گھیرے تنگ کر دے. روز مجھ بے گناہ پر بغیر کسی گناہ کے پولیس والوں کی گالیاں برستیں، ، روز میرے ضمیر کو مارا جاتا. روز مجھے ذہنی کوفت اور جسمانی ازیت سے گزرنا پڑتا. صبح ناشتے میں مجھے آدھی روٹی کے برابر سوکھی روٹی ایسی چائے کے ساتھ کھانے کو دی جاتی ، کہ جس کو دیکھ کر ہی پہلے دن میں بد ہضمی کا شکار ہو گیا. مگر مجھے لگ رہا تھا کہ ، اب مجھے یہاں بہت سال گزارنے ہیں. ان چیزوں کا عادی ہو جانا چاہئے ، یہ سوچ کر میں نے با مشکل تمام یہ سوکھی روٹی ناشتے میں کھولتےبد ذائقہ پانی، جس کو چائے کہا جاتا ہے ، اور دوپہر اور رات میں ، بس رنگ جس میں ملا دیا گیا ہو شوربے کا ، ایسے پتلے سالن کے ساتھ کھانے کو دی جاتی. یہاں بھی واش روم کا یہ ہی حال تھا.
میں اس کوٹھری میں قید تھا. کہ جہاں دن کی روشنی اور ہوا کا گزر با مشکل تمام ہی ہوتا ہوگا. اور وہاں تمام وہ قیدی تھے کہ جن پر ابھی انکا جرم ثابت نہیں ہوا تھا. اور ان پر جو مقدمے دائر کیے گئے تھے. ان میں قتل کا، چار سو بیسی اور چوری کے مقدمے دائر تھے. زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی. جو فیس بک پر ان لوگوں میں سے تھے کہ جن کے پروفائل سے ان کی تصوا یر چرا کر لوگوں نے فیک پروفائل بنا کر لوگوں کو بلیک میل کیا اور لڑکیوں کو بے وقوف بنایا ، مگر سزا گرفتاری ان کی ہوئی کہ جن کی تصاویراور ناموں کو استعمال کیا گیا. ایک رات تو مجھ پر بہت بھاری گزری . جب ایک ایسے مجرم نے کہ جس نے واقعی قتل کیا تھا مگر ابھی اس کا جرم ثابت ہونا باقی تھا. . اپنے ساتھی مجرم کو قتل کر دیا. صرف اس سوچ سے کہ پہلے مقدمے کے کیس میں اس کا جرم ثابت ہو جائے گا تو تھوڑا اور وقت مل جائے اگلے مقدمے کے فیصلے ہونے تک. اور اس کا پہلا مقدمہ چلتے یہ ہی کوئی تین سال گزار چکے ہونگے. وہ مزید سال یہیں گزار کر پھانسی یا عمر قید کی سزا سے محفوظ رہنا چاہتا تھا.
میرے بھائی سے جیل میں اس دوران جب میرے والدین اور باقی بھائی ملنے گئے تھے، تو وہ اپنی جان پہچان پر کچھ پیسے بھائی کو دے آئے تھے. جیل کا دستور ہے کہ کسی بھی قیدی کو پیسے سمیت اندر نہیں جانے دیا جاتا. کیوں کے یا تو اس کے پیسے کوئی پولیس والا ضبط لیتا ہے، یا پھر ساتھی قیدی کہ جو زیادہ اثر و رسوخ والا ہوتا ہے چھین لیتا ہے . بھائی کے ساتھ یہ ہی ہوا. اس سے آدھے پیسے پولیس نے ضبط کر لئے ، اپنے خرچے پانی کے لئے، اور آدھے پیسوں کا بھائی کو ٹوکن بنا کر دے دیا گیا. صبح چار بجے بھائی کو ٹھوکر مار کر اٹھا دیا جاتا. دو چار ماں بہن کی گالیاں دے کر کوٹھری سے باہر بھیج دیا جاتا. کوٹھری سے باہر کا یہ وقت پھر بھی قابل برداشت ہوتا یوں کے وہاں کم از کم تازہ ہوا ملتی. مگر یہ وقت صبح چار سے لے کر شام چار تک کا ہوتا. اور پھر شام چار سے صبح چار تک وہ ہی کال کوٹھری . فرشی بستر ، مچھروں سے بھری کوٹھری. جہاں ہیپاٹائی ٹس ، اور مزید وبائی امراض والے بہت سے قیدی تھے، ایک ہی کوٹھری میں قید تھے. نا جانے کیسے ے ان وبائی بیماریوں کا مقابلہ کر رہے تھے. ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزرنا ان کی مجبوری تھی
بھائی ہم سے ان باتوں میں مشغول ہی تھا کہ کچھ رشتہ داروں کی فون کالز آنے لگیں، بھائی نے شرمندگی کے مارے ان تمام کالز کو رد کیا. کہنے لگا. مجھے سب مجرم سمجھ رہے ہوگنے. سمجھ رہے ہونگے کے میں نے سچ میں کار ٹمپرنگ کی ہے.بھائی کا سارا اعتماد، اور خود مختاری کو جیل کا بٹہ لگ چکا تھا. میں نے بھائی سے پوچھا . بھائی یہ کار ٹیمپرنگ کیا بلا ہے. بتانے لگے. کے کسی ایک کار کے چیسسز نمبر کو کھرچ کر اس کے ایک دو لفظ مٹا دیئے جاتے ہیں اور پھر اس ہی نمبر کو چوری شدہ کار پر بطور چیسسز نمبر لگوا دیا جاتا ہے. اس طرح سے ایک ہی چیسسز نمبر والی دو کاریں مختلف شہروں میں لوگ استعمال کرتے ہیں، یا پھر کوئی جعل ساز کسی چوری شدہ کار کا چیسسز نمبر کھرچ کر کسی دوسری کار پے وہ نمبر کھدوا دیتا ہے، اور کسی دوسرے شہر میں یہ کار فروخت کر دیتا ہے، اس طرح اگر اس کار کی رپورٹ ہو چکی ہو، تو وہ جعلی
چیسسز نمبر والی کار کو پکڑ لیا جاتا ہے. اور جس شخص سے یہ کار بر آماد ہوئی ہو اگریمنٹ کے تحت وہ ذمہ دار ہوتا ہے
اس ٹیمپرنگ کا.
یہ کار چونکہ بھائی نے فروخت کی تھی. اورکیس کرنے والے خریدار نے کار خریدنے کے دوران بھائی کے کاغذات میں سے اصل چالان فارم اور ٹرانسفر لیٹر کہ جو گزشتہ کار کے مالک اور بنک نے بھائی کو دیا تھا. نا جانے کیسے چرا لیا تھا. یہ بھائی پر کیس کرنے والا ہی جانے اور صرف اس فارم کے نا ہونے کی وجہ سے بھائی کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ جو ثابت کر سکے کے یہ کار بھائی نے بھی کسی اور سے خریدی تھی.
مگر بھائی کی غیر موجودگی میں ہمارے گھر والوں نے بھائی سے پہلے کار کے مالک سے رابطہ کر کے بنک سے دوبارہ چالان فارم نکلوایا ، که جو ہمارے پاس واحد ثبوت تھا که یہ کار ہم نے بھی کسی سے خریدی ہے، ورنہ اگر گزشتہ مالک نے ہمارا ساتھ نہ دیا ہوتا، یا بنک نے ہمارا ساتھ نہ دیا ہوتا تو ہمارے پاس بے گناہی کا کوئی ثبوت نہیں تھا.
در حقیقت قصہ یوں ہے کہ . آج کل پاکستان میں کار ٹیمپرنگ کے باقاعدہ گروہ کام کر رہے ہیں، جو معصوم لوگوں کو پہلے کار فروخت کرتے ہیں، اور پھر اس گروہ ہی میں شامل مختلف افراد ان فروخت شدہ کاروں کو کسی نہ کسی طرح دوبارہ خرید لیتے ہیں، اور پھر معصوم لوگوں کو اپنی جعل سازی کا شکار کرتے ہیں،اور ان معصوم لوگوں پڑ کیس فائل کرتے ہیں، اور اس عمل میں بہت سے محکمے شامل ہیں ، جو اس گروہ کا بھر پور ساتھ دیتے ہیں، صرف اور صرف پیسے وصولنے کے لئے، اور پاکستان کی لا قانونیت اور لمبے مقدمہ بازی سے بچنے کے لئے یہ معصوم لوگ پیسوں کا دین لیں کر کے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں، اور یہ گروہ باقاعدہ تنظیم کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں، جن کا کام صرف اور صرف معصوم لوگوں کو پھنسا کر ان سے لاکھوں روپے اینٹھنا ہے. اور یہ لوگ پاکستان میں بہت کامیاب بھی ہیں.
ہم نے جیسے تیسے بھئی کی ضمانت کروا لی ، کیوں که مخالف پارٹی نے اس ہی کار کے حوالے سے اس ہی تھانے میں پہلے بھی کسی اور انسان پڑ کیس فائل کیا تھا، ہمارے پاس پیسے کھلانے کے بعد یہ ایک ٹھوس ثبوت تھا اس گروہ کی جعل سازی ثابت کرنے کو. مگر بھائی کا کیس ختم نہ ہو سکا کیوں کے مخالف پارٹی بہت اثر و رسوخ والی ہے، مگر بھائی کی ضمانت ضرور ہو گئی .مگر وہ لوگ بھائی پر مسلسل کیس فائل کر رہے ہیں ، من گھڑت کیس .
یہ مقدمہ ابھی بھی چل رہا ہے، اور اس گروپ نے بھائی پر مزید ایک اور کیس فائل کر دیا ہے اور وہ کیس یہ ہے کے بھائی انھیں قتل اور نا جانے کن کن باتوں کی دھمکیاں دے رہا ہے. اس لئے بھائی کی دوبارہ گرفتاری عمل میں آنی چاہئے. اب میں بھی. میرا بھائی بھی ، اور ہمارے تمام اہل خانہ شدید پریشانی کا شکار ہیں. میری آپ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ خود کو اس پریشانی سے محفوظ رکھنے کے لئے کسی بھی قسم کی خرید و فروخت میں شدید احتیاط کریں. ورنہ نا قابل برداشت پریشانی دیکھنی پڑے گی.
اور میرے بھائی کے حق میں دعا کریں
بہت شکریہ .
اس تحریر کا مقصد ، پاکستان کی عوام کو آج کل کی کار کی خرید و فروخت اوراس میں ہونے والی جعل سازی سے آگاہ کرنا ہے، اور یہ بتانا ہے ، کہ کار کی خرید و فروخت میں قطعی جلد بازی یا کسی بھی کاغذ کی لا پرواہی نہ برتیں ، ورنہ آپ کو بھی اس قسم کی نا قابل ا برداشت پریشانی سے گزرنا پڑ سکتا ہے
لیجئے یہ حقیقی کہانی اس انسان کی زبانی کہ جو بذات خود اس کہانی کا حصہ نہیں، مگر اس کہانی کا جذباتی کردار ضرور ہے، صرف اور صرف قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے .
صبح سے ہی دل پریشان تھا، میں روزے کی حالت میں تھی، آج میں نے اللہ پاک کے آگے اتنی شدت سے ہاتھ پھیلائے تھے کہ شاید زندگی میں کبھی اتنی شدت سے کچھ نہ مانگا ہوگا. دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی جا رہی تھیں ، اور آنکھیں دروازے پر لگی ہوئی تھیں، آج اسکا چہرہ دیکھے پورے بارہ دن ہو گئے تھے.یہ زندگی کا پہلا موقع تھا کہ ہم نے اس کی خاطر ایسی پریشانی دیکھی کہ ابھی بھی اس پریشانی کا خیال آ جائے تو دل سے آہ اور ایسی پریشانی سے محفوظ رہنے کی دعا نکلتی ہے .
میں امی ، ابو اور گھر کے تمام افراد اس ہی پریشانی کا شکار تھے. گرمی بھی شدید تھی. نا امیدی اور انجانے سے خوف نے الگ پریشان کر رکھا تھا. کبھی خیال آتا کہ ہم اس کو خیریت سے دیکھ بھی سکیں گے یا نہیں، کبھی خیال آتا کہ نا جانے اسکو آزادی بھی نصیب ہوگی کہ نہیں.
مجھے یاد ہے ، آخری بار میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی، میں اور گھر کے باقی لوگ اس رات ایک عشائیے میں مدوع تھے، اور یہ دعوت تھی بھی اس کی ہی طرف سے .ہم سب بہت خوش تھے. ہم سب مل کر اکثر اس طرح گھر سے باہر کھانا کھانے جایا کرتے تھے. آج رات بھی ہم بہت دیر سے رات کا کھانا کھا کر گھر آئےتھے ، یہ ہی کوئی رات کا ایک بجا ہوگا .یا کچھ زیادہ . ہم لوگ گھر آ کر اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلے گئے . گھر دو منزلوں والا تھا. نیچے کی منزل میں امی ابو اور میں سوئے ہوۓ تھے، اور اوپر والی منزل میں بھائی اور بھابیاں .
کانوں میں شور شرابے کی آوازیں گونجنے لگیں ، ایسا لگا جیسے ہمارے گھر میں مار پیٹ ہو رہی ہے، دروازے توڑے جا رہے ہیں، پھر بھی رات کی تھکاوٹ کے مارے آنکھیں کھلنے کا نام نہیں لے رہی تھیں. یک دم کانوں میں کسی خاتون کے زور زور سے رونے کی آوازیں آنے لگیں . چھوڑو میرے بچے کو . میرے بچے نے تو کچھ بھی نہیں کیا. چھوڑو ظالمو میرے بچے کو کہاں لے جا رہے ہو. یہ آوازیں اتنی اونچی تھیں کہ جس عالم میں بستر پر تھی اسی عالم میں کمرے سے باہر نکل گئی. باہر کا نظارہ ہی عجیب تھا.جس خاتون کی آوازیں میرے کانوں میں آ رہی تھیں، وہ اور کوئی نہیں میری اپنی والدہ تھیں. مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کے ہوا آخر کیا ہے. گھر میں چاروں طرف پولیس تھی، چار پولیس والوں نے میرے بھائی کو دبوچا ہوا تھا. اور اس کو گھر سے باہر کی طرف کھینچ رہے تھے. امی زار و قطار رو رہی تھیں اور ابو پولیس والوں سے وجہ دریافت کر رہے تھے. کہ آخر ہوا کیا ہے، ہمارے بیٹے نے کیا کر دیا. رات ایک بجے تک تو یہ ہمارے ساتھ تھا. ابھی صبح کے چھ بجے ہیں ، اس نے راتوں رات ایسا کیا کر دیا. مگر ہمارے پوچھنے پر پولیس نے بس اتنا بتایا کے اس پر ٤٢٠ ،٤٧١ ، ٥٠٦ ، ٤٦٨ کا کیس فائل ہوا ہے اور بغیر وارنٹ گرفتاری دکھائے وہ بھائی کو اپنے ساتھ لے گئے. ہم ششدر تھے. کہ بند دروازوں میں یہ پولیس کیسے داخل ہوئی ، کہاں کا دروازہ کیسے کھولا ،اور کیا بھائی کوئی فرار مجرم ہے جو بغیر خبر کیے گھر پر ریڈ کر کے اس کو گرفتار کیا گیا ہے، یا کوئی قاتل ہے.ہمارے لئے اچانک پریشانی کے ساتھ یہ معاملہ ایک معمہ تھی.مگر ہمارا دھیان صرف بھائی کی گرفتار کی وجہ پے لگا ہوا تھا.
صبح کا وقت، تمام گھر والے گہری نیند کے عالم میں اپنے اپنے بستروں سے جیسے اور جس حالت میں تھے کمروں سے باہر تھے. اسی حال میں باقی دونوں بھائیوں نے والد صاحب کو انکی بیماری کی وجہ سے گھر پر چھوڑ کر پولیس کا پیچھا کرنا چاہا. اور اپنے علاقے کے تھانے میں جا موجود ہوۓ ، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کیس فائل تو ہمارے علاقے میں ہوا ہی نہیں ہے .بلکہ کسی مختلف علاقے کے تھانے میں یہ کیس فائل کیا گئے ہے ، ہمارے لئے یہ تمام قصہ اپنی نوعیت کا ایک عجیب قصہ . تھا، اور ہم نے دور دور تک ایسی کسی چیز کو دیکھا تک نہ تھا. میں نے والد صاحب ، والدہ صاحبہ کا بلڈ پریشر اور شوگر کی جانچ پڑتال شروع کر دی . میرے اپنے ہاتھ پاؤں اس پریشانی کے عالم میں کانپ رہے تھے. مگر مجھے خود سے زیادہ اپنے والدین کی فکر تھی، جو اس اچانک پریشانی کا شکار ہو کر اس نوبت پر آ گئے تھے کہ
بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ بھی ہو سکتا تھا. انکی زبانوں کے نیچے میں نے ڈسپرین رکھی، یہ میں جانتی ہوں یا میرا اللہ پاک کہ میں نے انکو کیسے سمبھالا .
کبھی یہاں کبھی وہاں ، جتنے گھوڑے ہم دوڑا سکتے تھے ہم نے دوڑا دیئے . دو گھنٹے ، پھر تین گھنٹے اور نا جانے کتنے گھنٹوں بعد دوسرے بھائیوں کی کال آئی کہ انہوں نے بھائی کو گرفتار کر کے سیدھے عدالت میں پیش کر دیا. اور عدالت نے اس کیس کی وجہ سے بھائی کو ایک ہفتہ کے جسمانی ریمانڈ کے لئے تھانے بھیج دیا . پاکستان اور پاکستان کے تھانوں کے جسمانی ریمانڈ سے کون واقف نہیں. یعنی یہ کیس فائل ہوا کب اور کیسے اور کس بنیاد پر اس کی نا تو ہمیں کوئی خبر تھی،، نہ ہی اندازہ تھا. ہمیں ثمن تک وصول نہیں ہوۓ کہ ہم ضمانت قبل از گرفتاری ہی کروا سکتے . بھائیوں سے وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ دو سال پہلے بھائی نے اپنے ذاتی استعمال کے لئے ایک کار خریدی تھی، اور کسی انسان کی زبردستی خواہش پر یہ کار اس کو فروخت کر دی تھی ، کہ اسکے بیٹے کو یہ کار بہت پسند آئی ہے ، وہ اس کار کو خریدنا چاہتا ہے، اچھی قیمت پر خرید لیا ، بھائی چونکہ کار کے نئے نئے ماڈل خریدنے کا شوقین تھا. اس نے بھی اس کار کو بیچ دیا. مگر اب اس ہی شخص نے بھائی پر کار ٹمپرنگ کا کیس فائل کر دیا ہے.
اب یہ پریشانی تو ہمارے سروں پر آ گری تھی. مرتے کیا نہ کرتے. روز کی تاریخیں، روز عدالتوں کے چکر ، ضمانت کروانے قابل بھی نہ رہے، کبھی وکیلوں کی ہڑتال تو کبھی جج آن لیو، کبھی مخالف پارٹی کے وکیل کا ماموں مر جاتا تو کبھی اس کو کوئی ضروری کام آ جاتا .ہم ضمانت تک کی نوبت کو نہ پہنچ پا رہے تھے. لاکھوں روپے الگ خرچ ہو رہے تھے، کسی ضروری کاغذ نکلوانے میں، تو کبھی کسی وکیل کو راضی کرنے میں، اور کبھی کسی پولیس والے سے کسی خاص سوال کا جواب طلب کرنے میں. آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا. ہر بندہ ایک لفظ بولنے کے بھی ہزاروں روپے لیتا .پریشانی وہ بھی پیسے کے بل بوتے پر کیا ہوتی ہے. وہ دیکھنے کو ملی
دل میں مستقل کوئی نہ کوئی دعا جاری تھی. کہ اللہ پاک ہمارے بے گناہ بھائی کے حق میں فیصلہ کر دے. تھوڑی دیر میں فون کی گھنٹی نے دل کی دھڑکنیں مزید بڑھا دین، معلوم ہوا کے بھائی کی ضمانت ہو گئی ہے، بس آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، مگرمیں نے اپنے احساسات کو چھپانا شروع کر دیا ، مگر جذبات آنکھوں سے بہے جا رہے تھے. ایسا لگا جیسے وہ مراد بر آئی ہو کہ جس کے لئے دل بے تاب کہیں سکون نہیں پا رہا تھا. دل میں خیال آیا کے بس اب ایک آدھ گھنٹے میں بھائی واپس آنے والے ہونگے. مگر بھائی نے فون پر بتایا کہ بھائی کو لانے میں ابھی مزید کچھ گھنٹے درکار ہیں، مگر دل سے صبر نہیں ہو رہا تھا. بہت بیتابی اور شدید انتظار کے بعد یہ گھنٹے ختم ہونے کو تھے. ہم سارے گھر والے ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں سے گھر میں داخل ہونے والا انسان ہمیں با آسانی نظر آ سکتا تھا. کیوں کے ہم سب ہی چاہتے تھے کے بھائی کو ہم گھر میں داخل ہوتے دیکھ لیں..ہمیں یہ خوشی نصیب ہو جائے. اس ہی شش و پنج میں گھر کا دروازہ کھلا اور بھائی کا تھکاوٹ سے چور چہرہ ، نظر آیا . مجھ سے صوفے اور دروازے تک کی دوری بھی اب برداشت نہیں ہوئی ، میں بھاگ کے بھائی کے پاس چلی گئی. آج میرے بھائی کا چہرہ بہت مرجھایا ہوا تھا. میں نے اپنی پوری زندگی میں آج تک کبھی بھی بھائی کو ایسے حال میں نہ دیکھا تھا. میرا بھائی ١٨ گریڈ کا سرکاری افسر ، اچھی بلکہ بہت خوبصورت اور جاذب نظر شخصیت کا مالک ، جو قریب سے گزرتا تو مہکیں پھوٹا کرتی تھیں، آج اس حال میں تھا کہ جس سے دور سے پسینے کی بو پھیل رہی تھی، اسکی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں، ایسے جیسے وہ حقیقت میں کوئی مجرم ہو ، ہم سب کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، ہم سب کا اس سے مل کر برا حال تھا. ہم نے کہا پہلے جا کر اپنا حلیہ درست کرو کہنے لگا کہ نہیں، پہلے مجھے دیکھنے تو دو تم سب کیسے ہو، ترس گیا تھا بستر کی نرمی کو، تم لوگوں کے چہروں کو، اور اس کھلی فضا کو.
میں جانتا ہوں میرے یہ بارہ دن وہاں کیسے گزرے .وہ بار بار اپنی آنکھوں سے عینک اتارتا اپنے آنسو صاف کرتا اور پھر بات کرنے لگ جاتا. ہم نے آج تک بھائی کو صرف اور صرف با عزت حال میں دیکھا تھا.، آج ہم سے بھائی کا یہ حال دیکھا نہیں جا رہا تھا. بھائی کہ منہ سے بس ایک بات نکل رہی تھی. اس قدر تذلیل . اس قدر تذلیل . ہم بھائی کو کہتے رہے کے چپ ہو جاؤ ، گھر آ گئے ہو، آرام کرو ، سو جاؤ ، باتیں بعد میں کر لینگے. کہنے لگا ، آرام کیا ہوتا ہے، میں بھول گیا. عزت کیا ہوتی ہے مجھے یاد نہیں . اس قدر تذلیل . ہم سب اس کی بے تابی دیکھ کر خاموش ہوگئے .سوچا اپنے دل کی بات که لینگے بھائی تو دل انکا بھی ہلکا ہوگا. ہم سب انکی باتیں سننے لگے.
میں نے بھابی سے چائے اور کچھ کھانے کا سامان لانے کو کہا، کیوں کے آج میرا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ میں اپنے بھائی کو آنکھوں سے دور کروں. وہیں بھائی کے پاس بیٹھ گئی. انکی حوصلہ افزائی کے لئے، میں نے کہا، فکر نہ کریں. عزت دینے والی ذات صرف اللہ پاک کی ہے، کوئی انسان کسی کی عزت سے نہیں کھیل سکتا. مگر بھائی تھوڑا روتا. پھر آنسو صاف کرتا. اپنی بیٹی کو گلے لگاتا. اور پھر بات کرنے لگ جاتا. میں نے اس دوران جائزہ لیا کے بھائی کا وزن بہت کم ہو گیا ہے. میں نے پوچھا . آپ نے اتنا غم کیا ہے کہ وزن کم ہو گیا.کہنے لگے. اس غم سے بڑھ کر اور کیا غم ہوگا ، اتنی بے عزتی ، اتنی تذلیل .بھائی کا یہ جملہ مجھے کھائے جا رہا تھا.
بھائی کہنے لگا. مجھے جب یہاں سے گرفتار کر کے لے جایا گیا. پورا محلہ دیکھ رہا تھا. مجھے پولیس والے سب کے سامنے بڑی بے ترتیبی کے عالم میں تقریباّ گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے ، ان پولیس والوں نے مجھے گرفتار کرنے کے لئے پولیس کی گاڑی بھی استعمال نہیں کی. بلکہ اس لڑکے کی کار میں بیٹھا کے مجھے لے گئے تھے کہ جس نے مجھ سے میری کار خریدی تھی. ہم سب کے منہ سے یک دم ایک ہی بات نکلی ؟ کیا ؟ اس نے کہا ، ہاں جس لڑکے نے مجھ سے کار خریدی تھی . در حقیقت اس لڑکے اور اس کے باپ ہی نے مجھے اس جعل سازی میں پھنسوایا ہے. ان ہوں نے مارگلہ پولیس کو بہت پیسہ کھلایا اور پولیس والوں کے ساتھ مل کر مجھ پر جھوٹا مقدمہ دائر کیا. اور باقاعدہ پلاننگ کے تحت مجھے گرفتار کروایا، تا کے کہ ضمانت اور کیس ختم کرنے کے نام پر میں انھیں لاکھوں روپے کھلا دوں. مجھ پر گاڑی کا جھوٹا کار ٹمپرنگ کا کیس چلایا . اور مجھ جیسا شریف تنخواہ دار انسان جو قوانین سے بھی واقف نہیں، ،اور نا اتنی ہمت رکھتا ہوں که پاکستان کے بے ایمان قانون اور جعل ساز پولیس والوں کے ہتھے چڑھ کر مقدمہ دائر کرنے والے کو لاکھوں روپے دے کر اس جھوٹے کیس سے خود کو آزاد کروا لوں .مجھے ظالموں نے جیل تک کی ہوا لگوا دی.
جب مجھے تین دن کے پولیس جسمانی ریمانڈ پر بھیجا گیا ، وہاں تھانے میں جس کمرے میں مجھے رکھا گیا ، اس خستہ حال کمرے میں مجھے کھانے پینے کو بھی نہیں دیا جاتا تھا. بلکہ یہ تو آپ لوگوں کی کوشش تھی کہ مجھ تک جیسے تیسے کھانا پہنچا دیتے تھے. ورنہ شاید ان تین دن میں بھوکا رہتا . کمرے میں ایک ہی اٹیچ باتھ تھا. جو کہ دروازے سے محروم تھا. میرے ساتھ کمرے میں دس لوگ اور تھے. وہ بھی کسی نہ کسی شک کی بنیاد پر کہ جن پر ابھی کیس ثابت نہیں ہوا تھا ، گرفتار تھے. جب ہمیں روزانہ کی حاجات اٹیچ باتھ تک لے جاتی تو باقی سارے قیدی کمرے کے دوسرے طرف رخ کر لیتے اور جس کو حاجت ہوتی وہ باتھ روم میں جاتا. وہیں حاجت پوری کرتا . اس قدر چھوٹا سا باتھ روم کہ جہاں سانس بھی نہیں لیا جا سکتا . نا جانے ہم اپنے آپ کو کیسے چھپاتے. پر یہ مجبوری ایسی ہے کہ گزارا کرنا ہی پڑتا.
وہاں کے تین دن کا ریمانڈ جب ختم ہوا . تو مجھے دوبارہ عدالت پیش کیا گیا. مگر وہاں کسی ہڑتال کی وجہ سے کیس کی سنوائی نہیں ہوئی ، میں سمجھا تھا. میرا کیس مضبوط ہے، آج ہی گھر چلا جاؤنگا. مگر دل خون کے آنسو رونے لگا، مجھے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا. تاریخوں کے انتظار میں مجھے وہاں مزید دن گزارنے تھے. جیسے تیسے مزید تین دن گزرے. ہڑتال ، مخالف وکیل کی لیو اور باقی مراحل سے گزرنے کے بعد ، میرے حق میں پھر فیصلہ نہ ہوا. مجھے پھر سے ایک ہفتہ کے عدالتی ریمانڈ پر قید رکھنے کا فیصلہ کیا گیا. جو پاکستان ، یہاں کی پولیس اور حکومت کا حال ہے،مجھے اپنی آزادی غیر یقینی نظر آنے لگی. تب میں نے سوچ لیا کہ اب مجھے بغیر جرم ثابت ہوئے یہاں زیادہ نہیں تو کم از کم سات یا پانچ سال تو گزارنے ہی پڑینگے. اس سوچ نے میرے ذہن کو ماؤف کر دیا. بے امیدی اور بے بسی نے مجھ پر گھیرے تنگ کر دے. روز مجھ بے گناہ پر بغیر کسی گناہ کے پولیس والوں کی گالیاں برستیں، ، روز میرے ضمیر کو مارا جاتا. روز مجھے ذہنی کوفت اور جسمانی ازیت سے گزرنا پڑتا. صبح ناشتے میں مجھے آدھی روٹی کے برابر سوکھی روٹی ایسی چائے کے ساتھ کھانے کو دی جاتی ، کہ جس کو دیکھ کر ہی پہلے دن میں بد ہضمی کا شکار ہو گیا. مگر مجھے لگ رہا تھا کہ ، اب مجھے یہاں بہت سال گزارنے ہیں. ان چیزوں کا عادی ہو جانا چاہئے ، یہ سوچ کر میں نے با مشکل تمام یہ سوکھی روٹی ناشتے میں کھولتےبد ذائقہ پانی، جس کو چائے کہا جاتا ہے ، اور دوپہر اور رات میں ، بس رنگ جس میں ملا دیا گیا ہو شوربے کا ، ایسے پتلے سالن کے ساتھ کھانے کو دی جاتی. یہاں بھی واش روم کا یہ ہی حال تھا.
میں اس کوٹھری میں قید تھا. کہ جہاں دن کی روشنی اور ہوا کا گزر با مشکل تمام ہی ہوتا ہوگا. اور وہاں تمام وہ قیدی تھے کہ جن پر ابھی انکا جرم ثابت نہیں ہوا تھا. اور ان پر جو مقدمے دائر کیے گئے تھے. ان میں قتل کا، چار سو بیسی اور چوری کے مقدمے دائر تھے. زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی. جو فیس بک پر ان لوگوں میں سے تھے کہ جن کے پروفائل سے ان کی تصوا یر چرا کر لوگوں نے فیک پروفائل بنا کر لوگوں کو بلیک میل کیا اور لڑکیوں کو بے وقوف بنایا ، مگر سزا گرفتاری ان کی ہوئی کہ جن کی تصاویراور ناموں کو استعمال کیا گیا. ایک رات تو مجھ پر بہت بھاری گزری . جب ایک ایسے مجرم نے کہ جس نے واقعی قتل کیا تھا مگر ابھی اس کا جرم ثابت ہونا باقی تھا. . اپنے ساتھی مجرم کو قتل کر دیا. صرف اس سوچ سے کہ پہلے مقدمے کے کیس میں اس کا جرم ثابت ہو جائے گا تو تھوڑا اور وقت مل جائے اگلے مقدمے کے فیصلے ہونے تک. اور اس کا پہلا مقدمہ چلتے یہ ہی کوئی تین سال گزار چکے ہونگے. وہ مزید سال یہیں گزار کر پھانسی یا عمر قید کی سزا سے محفوظ رہنا چاہتا تھا.
میرے بھائی سے جیل میں اس دوران جب میرے والدین اور باقی بھائی ملنے گئے تھے، تو وہ اپنی جان پہچان پر کچھ پیسے بھائی کو دے آئے تھے. جیل کا دستور ہے کہ کسی بھی قیدی کو پیسے سمیت اندر نہیں جانے دیا جاتا. کیوں کے یا تو اس کے پیسے کوئی پولیس والا ضبط لیتا ہے، یا پھر ساتھی قیدی کہ جو زیادہ اثر و رسوخ والا ہوتا ہے چھین لیتا ہے . بھائی کے ساتھ یہ ہی ہوا. اس سے آدھے پیسے پولیس نے ضبط کر لئے ، اپنے خرچے پانی کے لئے، اور آدھے پیسوں کا بھائی کو ٹوکن بنا کر دے دیا گیا. صبح چار بجے بھائی کو ٹھوکر مار کر اٹھا دیا جاتا. دو چار ماں بہن کی گالیاں دے کر کوٹھری سے باہر بھیج دیا جاتا. کوٹھری سے باہر کا یہ وقت پھر بھی قابل برداشت ہوتا یوں کے وہاں کم از کم تازہ ہوا ملتی. مگر یہ وقت صبح چار سے لے کر شام چار تک کا ہوتا. اور پھر شام چار سے صبح چار تک وہ ہی کال کوٹھری . فرشی بستر ، مچھروں سے بھری کوٹھری. جہاں ہیپاٹائی ٹس ، اور مزید وبائی امراض والے بہت سے قیدی تھے، ایک ہی کوٹھری میں قید تھے. نا جانے کیسے ے ان وبائی بیماریوں کا مقابلہ کر رہے تھے. ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزرنا ان کی مجبوری تھی
بھائی ہم سے ان باتوں میں مشغول ہی تھا کہ کچھ رشتہ داروں کی فون کالز آنے لگیں، بھائی نے شرمندگی کے مارے ان تمام کالز کو رد کیا. کہنے لگا. مجھے سب مجرم سمجھ رہے ہوگنے. سمجھ رہے ہونگے کے میں نے سچ میں کار ٹمپرنگ کی ہے.بھائی کا سارا اعتماد، اور خود مختاری کو جیل کا بٹہ لگ چکا تھا. میں نے بھائی سے پوچھا . بھائی یہ کار ٹیمپرنگ کیا بلا ہے. بتانے لگے. کے کسی ایک کار کے چیسسز نمبر کو کھرچ کر اس کے ایک دو لفظ مٹا دیئے جاتے ہیں اور پھر اس ہی نمبر کو چوری شدہ کار پر بطور چیسسز نمبر لگوا دیا جاتا ہے. اس طرح سے ایک ہی چیسسز نمبر والی دو کاریں مختلف شہروں میں لوگ استعمال کرتے ہیں، یا پھر کوئی جعل ساز کسی چوری شدہ کار کا چیسسز نمبر کھرچ کر کسی دوسری کار پے وہ نمبر کھدوا دیتا ہے، اور کسی دوسرے شہر میں یہ کار فروخت کر دیتا ہے، اس طرح اگر اس کار کی رپورٹ ہو چکی ہو، تو وہ جعلی
چیسسز نمبر والی کار کو پکڑ لیا جاتا ہے. اور جس شخص سے یہ کار بر آماد ہوئی ہو اگریمنٹ کے تحت وہ ذمہ دار ہوتا ہے
اس ٹیمپرنگ کا.
یہ کار چونکہ بھائی نے فروخت کی تھی. اورکیس کرنے والے خریدار نے کار خریدنے کے دوران بھائی کے کاغذات میں سے اصل چالان فارم اور ٹرانسفر لیٹر کہ جو گزشتہ کار کے مالک اور بنک نے بھائی کو دیا تھا. نا جانے کیسے چرا لیا تھا. یہ بھائی پر کیس کرنے والا ہی جانے اور صرف اس فارم کے نا ہونے کی وجہ سے بھائی کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ جو ثابت کر سکے کے یہ کار بھائی نے بھی کسی اور سے خریدی تھی.
مگر بھائی کی غیر موجودگی میں ہمارے گھر والوں نے بھائی سے پہلے کار کے مالک سے رابطہ کر کے بنک سے دوبارہ چالان فارم نکلوایا ، که جو ہمارے پاس واحد ثبوت تھا که یہ کار ہم نے بھی کسی سے خریدی ہے، ورنہ اگر گزشتہ مالک نے ہمارا ساتھ نہ دیا ہوتا، یا بنک نے ہمارا ساتھ نہ دیا ہوتا تو ہمارے پاس بے گناہی کا کوئی ثبوت نہیں تھا.
در حقیقت قصہ یوں ہے کہ . آج کل پاکستان میں کار ٹیمپرنگ کے باقاعدہ گروہ کام کر رہے ہیں، جو معصوم لوگوں کو پہلے کار فروخت کرتے ہیں، اور پھر اس گروہ ہی میں شامل مختلف افراد ان فروخت شدہ کاروں کو کسی نہ کسی طرح دوبارہ خرید لیتے ہیں، اور پھر معصوم لوگوں کو اپنی جعل سازی کا شکار کرتے ہیں،اور ان معصوم لوگوں پڑ کیس فائل کرتے ہیں، اور اس عمل میں بہت سے محکمے شامل ہیں ، جو اس گروہ کا بھر پور ساتھ دیتے ہیں، صرف اور صرف پیسے وصولنے کے لئے، اور پاکستان کی لا قانونیت اور لمبے مقدمہ بازی سے بچنے کے لئے یہ معصوم لوگ پیسوں کا دین لیں کر کے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں، اور یہ گروہ باقاعدہ تنظیم کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں، جن کا کام صرف اور صرف معصوم لوگوں کو پھنسا کر ان سے لاکھوں روپے اینٹھنا ہے. اور یہ لوگ پاکستان میں بہت کامیاب بھی ہیں.
ہم نے جیسے تیسے بھئی کی ضمانت کروا لی ، کیوں که مخالف پارٹی نے اس ہی کار کے حوالے سے اس ہی تھانے میں پہلے بھی کسی اور انسان پڑ کیس فائل کیا تھا، ہمارے پاس پیسے کھلانے کے بعد یہ ایک ٹھوس ثبوت تھا اس گروہ کی جعل سازی ثابت کرنے کو. مگر بھائی کا کیس ختم نہ ہو سکا کیوں کے مخالف پارٹی بہت اثر و رسوخ والی ہے، مگر بھائی کی ضمانت ضرور ہو گئی .مگر وہ لوگ بھائی پر مسلسل کیس فائل کر رہے ہیں ، من گھڑت کیس .
یہ مقدمہ ابھی بھی چل رہا ہے، اور اس گروپ نے بھائی پر مزید ایک اور کیس فائل کر دیا ہے اور وہ کیس یہ ہے کے بھائی انھیں قتل اور نا جانے کن کن باتوں کی دھمکیاں دے رہا ہے. اس لئے بھائی کی دوبارہ گرفتاری عمل میں آنی چاہئے. اب میں بھی. میرا بھائی بھی ، اور ہمارے تمام اہل خانہ شدید پریشانی کا شکار ہیں. میری آپ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ خود کو اس پریشانی سے محفوظ رکھنے کے لئے کسی بھی قسم کی خرید و فروخت میں شدید احتیاط کریں. ورنہ نا قابل برداشت پریشانی دیکھنی پڑے گی.
اور میرے بھائی کے حق میں دعا کریں
بہت شکریہ .