intelligent086
04-29-2015, 08:23 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12843_82410840.jpg.pagespeed.ic.BFkCNz152X .jpg
یک نوجوان خاتون نے اپنی ماں سے گلہ کیا کہ اسے اپنی زندگی میں ہر وقت مصائب اور مشکلات کا سامنا ہے۔ اس بے چاری خاتون کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ ان مصائب و مشکلات کو کیسے برداشت کرے اور کس طرح ان سے نجات حاصل کرے۔ نوجوان خاتون اپنی ماں کہنے لگی:’’میں ان مشکلات و مصائب کو سہتے سہتے تھک ہار گئی ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ ایک نئی مشکل آن پڑتی ہے۔‘‘اپنی بیٹی کی یہ بات سن کر اس کی ماں، اسے باورچی خانے میں لے گئی اور تین برتنوں میں پانی بھر کر ہر ایک برتن کو علیحدہ علیحدہ چولہوں پر رکھ کر تیز آگ جلا دی۔ جلد ہی ان برتنوںکا پانی ابلنا شروع ہو گیا۔ماں نے پہلے برتن میں گاجریں، دوسرے میں انڈے اور تیسرے میں کافی کے پسے ہوئے بیج ڈال دیئے اور بغیر کچھ کہے وہ ان کے پاس بیٹھ گئی اور ابلنے کا انتظار کرنے لگی۔ تقریباً بیس منٹ بعد اس نے تینوں چولہے بچھا دیئے اور پھر پہلے برتن میں سے گاجریں نکالیں اور انہیں ایک پیالے میں ڈال دیا۔ پھر اس نے انڈے بھی نکالے اور انہیں بھی ایک پیالے میں ڈال دیا۔ اس کے بعد اس نے کافی بھی ایک اور پیالے میں ڈال دی۔ پھر وہ اپنی بیٹی کی طرف مڑی اور کہنے لگی:’’مجھے بتائو کہ تم کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ اس کی بیٹی نے جواب دیا: ’’گاجریں انڈے اور کافی۔‘‘ اس کی ماں اس کے قریب آ گئی اور کہا کہ وہ گاجروں کو دیکھے کہ وہ کیسی ہیں۔ بیٹی نے ان گاجروں کو ہاتھ لگایا اور محسوس کیا کہ گاجریں نرم ہو چکی ہیں۔ پھر ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ ایک انڈا اٹھائے اور اسے توڑ ڈالے۔ چھلکا اتارنے کے بعد بیٹی نے محسوس کیا کہ انڈہ ابل کر سخت ہو چکا ہے اورپھرآخر میں ماں نے بیٹی سے کہا کہ وہ کافی کی ایک چسکی لے کر تو دیکھیے۔بیٹی مسکرائی، اس نے کافی چکھی تو اسے بے حد خوش ذائقہ محسوس ہوئی۔ پھر بیٹی نے اپنی ماں سے پوچھا: ’’ماں، یہ سب کچھ کیا ہے؟‘‘اس کی ماں نے اسے بتایا کہ ان تین مختلف اشیاء نے ایک ہی جیسی مشکل صورتحال کا سامنا کیا، یعنی ان سب اشیاء کو ابلتے ہوئے پانی میں کچھ دیر رہنا پڑا، لیکن ہر ایک شے پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوئے۔ ابلتے ہوئے پانی میں ڈالنے سے پہلے گاجریں، بہت سخت اور غیرلچکدار تھیں لیکن پانی میں ابلنے کے باعث ان میں نرمی اور لچک پیدا ہو گئی۔ پانی میں ابالنے سے پہلے انڈا بہت ہی نازک تھا اور اس کا چھلکا نہایت سخت تھا جو اس کے اندر موجود مائع کی حفاظت پر مامور تھا لیکن پانی میں ابلنے کے بعد اس کا اندرونی حصہ سخت اور چھلکا نرم ہو گیا۔ لیکن پسی ہوئی کافی بہت ہی غیرمعمولی حیثیت کی حامل تھی، ابلتے ہوئے پانی میں اپنی ہیئت تبدیل کرنے کی بجائے اس نے پانی ہی کو تبدیل کر دیا۔ اس کہانی سے ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے اور کیاپیغام ملتا ہے؟ وہ سبق اور پیغام یہ ہے کہ اپنے وجود میں ولولہ انگیزی، جذبہ، ترنگ و امنگ کا عالم برقرار رکھیں اور مسائل و مشکلات کے عالم کو ایک نئے عظیم اور حیرت انگیز جہاں میں تبدیل کر دیں، بالکل کافی کی طرح جس نے اپنی غیرمعمولی توانائی اور خاصیت کے باعث پانی کو ایک خوش ذائقہ مشروب کا روپ دے دیا۔ (ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر کی تصنیف ’’جذبے کی طاقت‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭
یک نوجوان خاتون نے اپنی ماں سے گلہ کیا کہ اسے اپنی زندگی میں ہر وقت مصائب اور مشکلات کا سامنا ہے۔ اس بے چاری خاتون کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ ان مصائب و مشکلات کو کیسے برداشت کرے اور کس طرح ان سے نجات حاصل کرے۔ نوجوان خاتون اپنی ماں کہنے لگی:’’میں ان مشکلات و مصائب کو سہتے سہتے تھک ہار گئی ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ ایک نئی مشکل آن پڑتی ہے۔‘‘اپنی بیٹی کی یہ بات سن کر اس کی ماں، اسے باورچی خانے میں لے گئی اور تین برتنوں میں پانی بھر کر ہر ایک برتن کو علیحدہ علیحدہ چولہوں پر رکھ کر تیز آگ جلا دی۔ جلد ہی ان برتنوںکا پانی ابلنا شروع ہو گیا۔ماں نے پہلے برتن میں گاجریں، دوسرے میں انڈے اور تیسرے میں کافی کے پسے ہوئے بیج ڈال دیئے اور بغیر کچھ کہے وہ ان کے پاس بیٹھ گئی اور ابلنے کا انتظار کرنے لگی۔ تقریباً بیس منٹ بعد اس نے تینوں چولہے بچھا دیئے اور پھر پہلے برتن میں سے گاجریں نکالیں اور انہیں ایک پیالے میں ڈال دیا۔ پھر اس نے انڈے بھی نکالے اور انہیں بھی ایک پیالے میں ڈال دیا۔ اس کے بعد اس نے کافی بھی ایک اور پیالے میں ڈال دی۔ پھر وہ اپنی بیٹی کی طرف مڑی اور کہنے لگی:’’مجھے بتائو کہ تم کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ اس کی بیٹی نے جواب دیا: ’’گاجریں انڈے اور کافی۔‘‘ اس کی ماں اس کے قریب آ گئی اور کہا کہ وہ گاجروں کو دیکھے کہ وہ کیسی ہیں۔ بیٹی نے ان گاجروں کو ہاتھ لگایا اور محسوس کیا کہ گاجریں نرم ہو چکی ہیں۔ پھر ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ ایک انڈا اٹھائے اور اسے توڑ ڈالے۔ چھلکا اتارنے کے بعد بیٹی نے محسوس کیا کہ انڈہ ابل کر سخت ہو چکا ہے اورپھرآخر میں ماں نے بیٹی سے کہا کہ وہ کافی کی ایک چسکی لے کر تو دیکھیے۔بیٹی مسکرائی، اس نے کافی چکھی تو اسے بے حد خوش ذائقہ محسوس ہوئی۔ پھر بیٹی نے اپنی ماں سے پوچھا: ’’ماں، یہ سب کچھ کیا ہے؟‘‘اس کی ماں نے اسے بتایا کہ ان تین مختلف اشیاء نے ایک ہی جیسی مشکل صورتحال کا سامنا کیا، یعنی ان سب اشیاء کو ابلتے ہوئے پانی میں کچھ دیر رہنا پڑا، لیکن ہر ایک شے پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوئے۔ ابلتے ہوئے پانی میں ڈالنے سے پہلے گاجریں، بہت سخت اور غیرلچکدار تھیں لیکن پانی میں ابلنے کے باعث ان میں نرمی اور لچک پیدا ہو گئی۔ پانی میں ابالنے سے پہلے انڈا بہت ہی نازک تھا اور اس کا چھلکا نہایت سخت تھا جو اس کے اندر موجود مائع کی حفاظت پر مامور تھا لیکن پانی میں ابلنے کے بعد اس کا اندرونی حصہ سخت اور چھلکا نرم ہو گیا۔ لیکن پسی ہوئی کافی بہت ہی غیرمعمولی حیثیت کی حامل تھی، ابلتے ہوئے پانی میں اپنی ہیئت تبدیل کرنے کی بجائے اس نے پانی ہی کو تبدیل کر دیا۔ اس کہانی سے ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے اور کیاپیغام ملتا ہے؟ وہ سبق اور پیغام یہ ہے کہ اپنے وجود میں ولولہ انگیزی، جذبہ، ترنگ و امنگ کا عالم برقرار رکھیں اور مسائل و مشکلات کے عالم کو ایک نئے عظیم اور حیرت انگیز جہاں میں تبدیل کر دیں، بالکل کافی کی طرح جس نے اپنی غیرمعمولی توانائی اور خاصیت کے باعث پانی کو ایک خوش ذائقہ مشروب کا روپ دے دیا۔ (ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر کی تصنیف ’’جذبے کی طاقت‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭