intelligent086
04-18-2015, 10:01 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12759_59967313.jpg.pagespeed.ic.QO99mXvCO_ .jpg
انعم اقبال
آج ہمارے معاشرے میں اپنی ثقافت کی پیروی کم اور غیر ملکی ثقافتی یلغار زیادہ ہے۔ ہماری آج کی نوجوان نسل اور ہمارا کل کا مستقبل بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے ان کی بے راہ روی کی مختلف وجوہات ہیں سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ بعض والدین اپنی ثقافت کی پہچان بننے کی بجائے ثقافت کا داغ بن رہے ہیں کیونکہ جس طرح بچے کے لیے پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے بالکل اسی طرح بچے کو اچھا یا برا بنانے کے لیے اس کے والدین کا سب سے پہلا اور بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح ماں اپنے بچے کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے بالکل اسی طرح ماں اپنے بچے کو اسلام کی پہچان اور زندگی کی رعنائیوں سے واقف کرواتی ہے۔ آج کل کی ماں بچے کو اسلام علیکم نہیں بلکہ ہیلو کرنا سکھاتی ہے۔ ایک سال کے بچے کو اسلام علیکم کی جگہ ہیلو بابا کرنا سکھاتی ہے۔ آج کی لڑکی کو یہ نہیں پتہ کہ بڑوں کے آگے پیار لینے کے لیے سر جھکانا پڑتا ہے۔ فیشن کرنااس کا حق ہے مگر اپنی اقدار سے بھی تو اُسے واقفیت ہونی چاہیے ۔اگر آج کی لڑکیا ں اور مائیں اپنی روایت اور اقدار کاخیال نہیں رکھیںگی تو سماجی مسائل پیدا ہو جائیں گے ۔مائیں اپنی بچیوں کو فیشن کا تو بتاتی ہیں مگر اُن کو یہ نہیں بتاتی کہ اسلامی فرائض کو پورا کیسے کرنا ہے ۔آج کی مائوں کے منہ سے یہ سننے کو نہیں ملتا کہ بیٹی!نماز پڑھو البتہ یہ سننے کو ضرور ملتا ہے کہ ہماری بیٹی بہت خوبصورت ہے یہ فلاں رنگ کا کپڑا پہنے تو پری لگتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فضول خرچی بڑھ گئی ہے کیونکہ ہر موقع پر سکول اور کالج کے ہر فنکشن پر نئے ملبوسات کا ہونا ضروری ہے ۔پہلے مائیں نئے کپڑے شوق سے بنا کر دیتی ہیں اور بعد میں مجبوری ان کے دامن سے وابستہ ہو جاتی ہے ۔ میںنے تقریباً10 مائوں کے انٹرویو کئے ان سے پوچھا کہ آپ اپنی بیٹی کو اتنا فیشن کیوں کرواتی ہیں یہ چمک دمک والے کپڑے یہ پینٹ شرٹ میک اپ کا استعمال کیوں؟ تو انہوں نے ایک ہی جواب دیا کہ آج کل سب ہی لڑکیاں کرتی ہیں اگر انہوں نے کر لیا تو کیا ہوا۔ اس سے اب کیا اندازہ لگایا جائے کہ ماں باپ اپنی مرضی سے اپنی ثقافت سے بچوں کو دور لیے جا رہے ہیں۔ اکثر لوگ یہ کہہ کر اپنی جان بچا لیتے ہیں کہ نیکوں کے بد اوربدوں کی اولاد نیک ہوتی ہے۔ لیکن میں نے حقیقت میں ایک بھی کیس ایسا نہیں دیکھا ،یہ کیا بات ہوئی کہ اپنے مَن میں ہو تو فرض کو پورا کر لیا اور جب دل میں آیا فرض کو چھوڑ دیا۔ فرض وہ نہیں ہے جو ہم نے اپنی مرضی سے پورا کر دیا اور بس ۔فرض وہ ہے جو خداوند قدوس نے ہم پر فرض کیا اگر ہم اسے سچے دل سے پورا کرتے ہیں تو ہم مومن ہیں۔ آج کے دور میں اسلامی تعلیمات حاصل کرنے والے کو وہ اہمیت کیوں نہیں ملتی جو انگریزی علم حاصل کرنے والے کو ملتی ہے؟ آپ کسی بھی کالج کو دیکھیے آپ کو وہاں پر جو رتبہ ایم اے انگلش والوں کا نظر آئے گا وہ کسی اور ایم اے کا نہیں۔ چاہے وہ اساتذہ کو دیا جا رہا ہو یا پھر طالب علموں کو۔ آج سے کئی سالوں پہلے عربی کی تعلیم قرآن کا درس اورفارسی کے علم کو فوقیت دی جاتی تھی۔ لیکن آج جس کو انگلش آتی ہے وہ فنکارہے اور جس کو نہیں آتی وہ بے کار ہے۔ آج کل کے لوگ ڈھائی سال کے بچے کو انگلش میڈیم سکول میں فخر سے داخل کرواتے ہیں ۔ماں باپ شاید یہ بھول چکے ہیں کہ چار سال چار ماہ اور چار دن کے بچے کو قرآنی تعلیم دلوانا سنت رسول مقبولؐ ہے ۔ اگر گھر میں کوئی مہمان آئے تو اس کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جس نے اپنے ایک یا دوسال کے بچے کو ون ٹو سکھائی ہو۔ مہمان یہ فخر سے پوچھتا ہے بیٹا ون ٹو آتی ہےABCسنائو گے۔ کتنا ذہین بچہ ہے بڑا ہوکر ضرور کچھ بنے گا لیکن اسے یہ نہیں پوچھتے بیٹا پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ تو پھر کس کام کی پڑھائی اور کس کام کی تربیت؟ ماں باپ خود یہ بھول چکے ہیں کہ ہم نے اپنا پیارا وطن اتنی قربانیاں دے کر صرف اسلام کا پرچم لہرانے کے لیے حاصل کیا تھا۔ ماں باپ یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ آج کل کی نسل نہیں مانتی۔ اگر ماں باپ خودہی بچے کے لیے مشعل راہ نہیں بنیں گے تو پھر کس طرح وہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ بچہ خود بہ خود صحیح راہ تلاش کرے گا۔مثلاً اگر ایک باپ خود گھر میں بیٹھا ہے اور بچے کو یہ تربیت دے رہا ہے کہ جا بیٹا باہر جا کر کہہ دو کہ ابو گھر نہیں۔ یہ باتیں آج باپ نے خود سکھائی اورکل بیٹا خود اس پر عمل پیرا ہو گا۔اگر یہ سب کچھ ہمارے اردگرد ہے تو پھر ہمیں اپنی ثقافت کو ڈھونڈنا پڑے گا ۔ کیا والدین کا فرض پیدائش کے بعد ختم ہو گیا؟ ان کا فرض تو اس وقت پورا ہوتا ہے جب وہ اپنے بچوں کو اسلام کے بتائے اصولوں کے مطابق ان کی تربیت کریں گے۔ ٭…٭…٭
انعم اقبال
آج ہمارے معاشرے میں اپنی ثقافت کی پیروی کم اور غیر ملکی ثقافتی یلغار زیادہ ہے۔ ہماری آج کی نوجوان نسل اور ہمارا کل کا مستقبل بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے ان کی بے راہ روی کی مختلف وجوہات ہیں سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ بعض والدین اپنی ثقافت کی پہچان بننے کی بجائے ثقافت کا داغ بن رہے ہیں کیونکہ جس طرح بچے کے لیے پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے بالکل اسی طرح بچے کو اچھا یا برا بنانے کے لیے اس کے والدین کا سب سے پہلا اور بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح ماں اپنے بچے کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے بالکل اسی طرح ماں اپنے بچے کو اسلام کی پہچان اور زندگی کی رعنائیوں سے واقف کرواتی ہے۔ آج کل کی ماں بچے کو اسلام علیکم نہیں بلکہ ہیلو کرنا سکھاتی ہے۔ ایک سال کے بچے کو اسلام علیکم کی جگہ ہیلو بابا کرنا سکھاتی ہے۔ آج کی لڑکی کو یہ نہیں پتہ کہ بڑوں کے آگے پیار لینے کے لیے سر جھکانا پڑتا ہے۔ فیشن کرنااس کا حق ہے مگر اپنی اقدار سے بھی تو اُسے واقفیت ہونی چاہیے ۔اگر آج کی لڑکیا ں اور مائیں اپنی روایت اور اقدار کاخیال نہیں رکھیںگی تو سماجی مسائل پیدا ہو جائیں گے ۔مائیں اپنی بچیوں کو فیشن کا تو بتاتی ہیں مگر اُن کو یہ نہیں بتاتی کہ اسلامی فرائض کو پورا کیسے کرنا ہے ۔آج کی مائوں کے منہ سے یہ سننے کو نہیں ملتا کہ بیٹی!نماز پڑھو البتہ یہ سننے کو ضرور ملتا ہے کہ ہماری بیٹی بہت خوبصورت ہے یہ فلاں رنگ کا کپڑا پہنے تو پری لگتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فضول خرچی بڑھ گئی ہے کیونکہ ہر موقع پر سکول اور کالج کے ہر فنکشن پر نئے ملبوسات کا ہونا ضروری ہے ۔پہلے مائیں نئے کپڑے شوق سے بنا کر دیتی ہیں اور بعد میں مجبوری ان کے دامن سے وابستہ ہو جاتی ہے ۔ میںنے تقریباً10 مائوں کے انٹرویو کئے ان سے پوچھا کہ آپ اپنی بیٹی کو اتنا فیشن کیوں کرواتی ہیں یہ چمک دمک والے کپڑے یہ پینٹ شرٹ میک اپ کا استعمال کیوں؟ تو انہوں نے ایک ہی جواب دیا کہ آج کل سب ہی لڑکیاں کرتی ہیں اگر انہوں نے کر لیا تو کیا ہوا۔ اس سے اب کیا اندازہ لگایا جائے کہ ماں باپ اپنی مرضی سے اپنی ثقافت سے بچوں کو دور لیے جا رہے ہیں۔ اکثر لوگ یہ کہہ کر اپنی جان بچا لیتے ہیں کہ نیکوں کے بد اوربدوں کی اولاد نیک ہوتی ہے۔ لیکن میں نے حقیقت میں ایک بھی کیس ایسا نہیں دیکھا ،یہ کیا بات ہوئی کہ اپنے مَن میں ہو تو فرض کو پورا کر لیا اور جب دل میں آیا فرض کو چھوڑ دیا۔ فرض وہ نہیں ہے جو ہم نے اپنی مرضی سے پورا کر دیا اور بس ۔فرض وہ ہے جو خداوند قدوس نے ہم پر فرض کیا اگر ہم اسے سچے دل سے پورا کرتے ہیں تو ہم مومن ہیں۔ آج کے دور میں اسلامی تعلیمات حاصل کرنے والے کو وہ اہمیت کیوں نہیں ملتی جو انگریزی علم حاصل کرنے والے کو ملتی ہے؟ آپ کسی بھی کالج کو دیکھیے آپ کو وہاں پر جو رتبہ ایم اے انگلش والوں کا نظر آئے گا وہ کسی اور ایم اے کا نہیں۔ چاہے وہ اساتذہ کو دیا جا رہا ہو یا پھر طالب علموں کو۔ آج سے کئی سالوں پہلے عربی کی تعلیم قرآن کا درس اورفارسی کے علم کو فوقیت دی جاتی تھی۔ لیکن آج جس کو انگلش آتی ہے وہ فنکارہے اور جس کو نہیں آتی وہ بے کار ہے۔ آج کل کے لوگ ڈھائی سال کے بچے کو انگلش میڈیم سکول میں فخر سے داخل کرواتے ہیں ۔ماں باپ شاید یہ بھول چکے ہیں کہ چار سال چار ماہ اور چار دن کے بچے کو قرآنی تعلیم دلوانا سنت رسول مقبولؐ ہے ۔ اگر گھر میں کوئی مہمان آئے تو اس کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جس نے اپنے ایک یا دوسال کے بچے کو ون ٹو سکھائی ہو۔ مہمان یہ فخر سے پوچھتا ہے بیٹا ون ٹو آتی ہےABCسنائو گے۔ کتنا ذہین بچہ ہے بڑا ہوکر ضرور کچھ بنے گا لیکن اسے یہ نہیں پوچھتے بیٹا پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ تو پھر کس کام کی پڑھائی اور کس کام کی تربیت؟ ماں باپ خود یہ بھول چکے ہیں کہ ہم نے اپنا پیارا وطن اتنی قربانیاں دے کر صرف اسلام کا پرچم لہرانے کے لیے حاصل کیا تھا۔ ماں باپ یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ آج کل کی نسل نہیں مانتی۔ اگر ماں باپ خودہی بچے کے لیے مشعل راہ نہیں بنیں گے تو پھر کس طرح وہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ بچہ خود بہ خود صحیح راہ تلاش کرے گا۔مثلاً اگر ایک باپ خود گھر میں بیٹھا ہے اور بچے کو یہ تربیت دے رہا ہے کہ جا بیٹا باہر جا کر کہہ دو کہ ابو گھر نہیں۔ یہ باتیں آج باپ نے خود سکھائی اورکل بیٹا خود اس پر عمل پیرا ہو گا۔اگر یہ سب کچھ ہمارے اردگرد ہے تو پھر ہمیں اپنی ثقافت کو ڈھونڈنا پڑے گا ۔ کیا والدین کا فرض پیدائش کے بعد ختم ہو گیا؟ ان کا فرض تو اس وقت پورا ہوتا ہے جب وہ اپنے بچوں کو اسلام کے بتائے اصولوں کے مطابق ان کی تربیت کریں گے۔ ٭…٭…٭