PDA

View Full Version : پی کے کو کیا لے ڈوبا



zafar
03-31-2015, 11:53 PM
پی کے کو کیا لے ڈوبا



http://urdudigest.pk/wp-content/uploads/2015/03/pk-film-300x336.png

میں فلمیں بہت کم دیکھتا ہوں۔ لیکن پچھلے دنوں دوستوں نے با اصرار ’’پی کے‘‘ نامی فلم دکھا دی۔ ہر فلم کی طرح یہ بھی خامیاں اور خوبیاں رکھنے والی تخلیق ثابت ہوئی۔ گو اس نے کئی ریکارڈ قائم کیے۔ مثلاً یہ کہ سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بن گئی۔ یہ اب تک پوری دنیا میں ۱۰کروڑ ڈالر سے زائد رقم کما چکی۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم دس ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔

یہ فلم بظاہر مذہبی توہمات اور ان انسانوں کے خلاف ہے جو مذہب کے نام پر کاروبار کرتے ہیں۔ فلم کا پیغام یہ ہے کہ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق پیدا کرنا چاہیے۔ اللہ پاک تک پہنچنے کے لیے کسی انسان کا سہارا لینا بے فائدہ اور کارزیاں ہے۔ فلم کا بنیادی موضوع ہندو مت کی توہمات ہیں۔ ظاہر ہے، جس مذہب میں لاکھوں دیوی دیوتا ہوں، اس میں سیکڑوں رسوم و رواج رائج ہو جاتی ہیں۔ ان رسوم نے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی متاثر کیا۔ اسی لیے بعض اسلامی رسوم کی بھی اصل ہندوانہ ہے۔
مذہب کا اصل کردار انسان کو نیک و متقی بنانا ہے۔ اسی لیے اخلاقیات اور مذہب لازم و ملزوم حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام وہ دین ہے جس میں انسان کا اخلاقی کردار سنوارنے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اس سچائی کا اندازہ یوں لگائیے کہ تمام مسلمانوں میں متقی مسلمان ہی بلند ترین درجہ رکھتا ہے۔ بعض لوگ مذہب کو بنی نوع انسان کی تمام تکالیف کا منبع قرار دیتے ہیں۔ یہ بالکل غلط نظریہ ہے۔ یہی دیکھیے کہ جنگ اول اور جنگ دوم مذہب کی وجہ سے انجام نہیں پائیں جن میں کروڑوں انسان مارے گئے۔ سچا مذہب تو انسانوں کو خیروفلاح کی طرف بلاتا اور ظلم مٹانے کی سعی کرتا ہے۔
مذہب کی مخالفت نے مادہ پرستی کے بطن سے جنم لیاہے۔ مذہب زر، زمین اور زن کی ہوس کے آگے بند باندھتا اور پابندیاں لگاتا ہے۔ اسی لیے مادہ پرستی کے رسیا مذہب کو پسند نہیں کرتے۔ انھوںنے دنیائے مغرب میں تو مذہب کو بہت محدود کر دیا، اب وہ عالم اسلام میں بھی اس کا کردار کم سے کم بلکہ نعوذباللہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دراصل انسان کو نیم خودمختار بنایا ہے… وہ چاہے ،تو نیکی و محبت کی طرف راغب ہو جائے یا پھر شر اور نفرت کا فرستادہ بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انسان ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مذہب کا نام لے کر دہشت گردی کرتے اور دنگا فساد مچاتے ہیں۔ ایسے لوگوں ہی کا ٹھکانا جہنم بنتا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت میں مذہبی کاروبار بہت منافع بخش بن چکا۔اسی لیے آئے دن وہاں نت نئے ’’سوامی‘‘، ’’گرو‘‘، ’’مہاراج‘‘ وغیرہ سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ نام نہاد مذہبی راہنما خدا کے نام پہ عام ہندوئوں سے سالانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ انھوں نے بھارت میں جا بجا مندر، آشرم اور دیگر مذہبی عمارتیں کھول رکھی ہیں۔ وہاں ’’بھگوان‘‘ کے نام پر چندہ لیا جاتا اور رقم لے کر ’’پرشاد‘‘ بٹتے ہیں۔ ’’پی کے‘‘ فلم میں ہندو مذہب کی اسی تجارت کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ جوگی، سوامی اور گرو وغیرہ ہر قسم کی فحش حرکات اور مکروہ دھندوں میں بھی ملوث ہیں۔
لیکن جیسا کہ درج بالا لکھا گیا، پی کے فلم دیکھ کر مذہب ہی کومصیبت کی جڑ سمجھنا انتہائی غلط سوچ ہے۔ یہ مذہبی احکامات اور قوانین ہی ہیں جو معاشرے میں نظم و ضبط پیدا کرتے اور انسانی مزاج میں اعتدال لاتے ہیں۔ فرانسیسی مدبر، نپولین بونا پارٹ کا قول ہے: ’’اگر مذہب نہ ہوتا، تو امیر لوگ غریبوں کو کچا چبا جاتے۔‘‘ پی کے فلم کی ایک خرابی یہ ہے کہ اس میں بعض فحش مناظر نہ ہوتے، تو کہانی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان مناظر کو شاید اس لیے فلمایا گیا کہ عام لوگوں کو کچھ ’’مسالا‘‘مل جائے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ کم از کم پاکستان میں ایک شائستہ اور مذہبی گھرانے میں والدین ان فضول اور بے مہمل مناظر کی وجہ سے بچوں کے ساتھ یہ فلم نہیں دیکھ سکتے۔
دراصل اس فلم کے ڈائریکٹر، راج کمار ہیرانی اپنی فلموںمیں ناشائستہ مناظر ضرور ڈالتے اور یوں اچھی خاصی فلم کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔ منا بھائی ایم بی بی ایس، لگے رہو منا بھائی اور تھری ایڈیٹ جیسی فلمیں انہی کی ہدایت کاری میں بنیں۔ یہ سبھی معاشرتی و ا صلاحی فلمیں ہیں۔ مگر ہر فلم میں دو تین ایسے مناظر ضرور ملتے ہیں جو اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھے جا سکتے۔ ہمارے مذہب میں شرم و حیا ایمان کا ایک جزو ہے۔ مگر افسوس کہ ہندومت میں حیا کی عظیم روایات تابناک نظر نہیںآتیںبلکہ فحاشی کو آزادی رائے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پی کے فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر، دونوں کے اجداد کا تعلق بھارت سے نہیں۔ راج کمار ہیرانی کے والدین سندھی الاصل ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل وہ پاکستانی صوبہ سندھ کے شہر، محراب پور میں مقیم تھے۔ ۱۹۴۷ء میں سریش ہیرانی ناگ پور ہجرت کر گئے۔ وہاں انھوں نے ٹائپنگ سکھانے والا ادارہ کھولا اور روزی کمانے لگے۔ پروڈیوسر، ددھو ونود چوپڑا تو افغانستان کے دارالحکومت کابل میںپیدا ہوئے۔ پھر ان کے والد ڈی این چوپڑا سری نگر، کشمیر چلے گئے۔ ونود وہیں پلے بڑھے اور ہندی فلموں سے عشق کرنے کے باعث بالی وڈ آنکلے۔
راج کمار ہیرانی کی طرح فلم کا ہیرو عامر خان بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے والد طاہر حسین ناکام فلم ساز (پروڈیوسر) تھے۔ انھوں نے ۱۲فلمیں بنائیں اور کوئی بھی اچھی کمائی نہیں کر سکی۔ عامر خان بتاتا ہے: ’’میرے والد کی فلمیں طویل عرصہ بنتی رہتیں۔ اداکار اور اداکارائیں انھیں بہت تنگ کرتے۔ وہ وقت دے کر نہ آتے۔ ابو کو ان کے پیچھے جوتے چٹخانے پڑتے۔ ادھر فلم پر سرمایہ لگانے والے لوگ ان کے پیچھے پڑے ہوتے۔ یوں وہ دو پاٹوں کے درمیان پس کر رہ جاتے۔
’’مجھے یاد ہے لاکٹ فلم آٹھ سال میں مکمل ہوئی۔ اسی طرح ’’خون کی پکار‘‘ فلم نے مکمل ہونے میں تین سال لگا دیے۔ اس دوران ہم پیسے پیسے کے محتاج ہو جاتے۔ ایک بار چھے ماہ تک ابو اسکول کی فیس نہ دے سکے۔ ہم پر یہی تلوار لٹکتی رہی کہ کسی بھی وقت ہم بچوں کو اسکول سے نکالا جا سکتا ہے۔ ’’امی جب بھی ہم بچوںکے کپڑے خریدتی یا بنواتی، تو وہ ہمارے سائز سے تین گنا بڑے ہوتے۔ مدعا یہی ہوتا کہ وہ تین چار سال تک چل جائیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ انھوں نے بعدازاں عامر خان کو دنیاوی کامیابیوں سے سرفراز کیا اور آج وہ ارب پتی ہے۔ غربت کا مزا چکھنے والا عامر خان شاید اسی لیے انکسار پسند ہے اور اس میں امرا جیسی اکڑفوں نہیں پائی جاتی۔
چند دلچسپ حقائق
٭ فلم کے ہیرو کو پان پسند ہیں۔ اسی لیے ہر منظر میں عامر خان کے ہونٹ سرخ نظر آتے ہیں۔ لیکن عامر نے ہونٹ لال رنگ سے نہیں رنگے، بلکہ وہ فلم بندی کے دوران مسلسل پان کھاتا رہا تاکہ مناظر میں حقیقت کا رنگ بھرا جا سکے۔ ایک اندازے کے مطابق فلم فلماتے ہوئے عامر تقریباً ایک ہزار پان چٹ کر گیا۔ بعض دنوںمیں تو اسے روزانہ ایک سو پان کھانے پڑتے۔
٭ عامر خان فلم میں بھوج پوری زبان بولتا ہے۔ بھوج پور ہندوستان کا قدیم علاقہ ہے۔ یہ علاقہ اب بھارتی ریاستوں بہا ر، اترپردیش اور نیپال کے بعض اضلاع میں تقسیم ہو چکا۔ بھارت اور پاکستان کی دیگر زبانوں کے مانند بھوج پوری بھی ہند آریائی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ پورے دو سال لگا کر عامر نے بھوج پوری زبان سیکھی۔ اس ضمن میں اسے بھوج پوری ادیب، شنانتی بھوشن کی مدد حاصل رہی۔
٭ خلائی مخلوق کے کردار کا تقاضا تھا کہ وہ فلم میں پرانے کپڑے زیب تن کرے۔ چناںچہ راج کمار ہیرانی نے فیصلہ کیا کہ جس علاقے میں بھی شوٹنگ ہو، وہاں گلیوں اور سڑکوں پر چلتے پھرتے لوگوں سے کپڑے مستعار لیں یا خرید لیے جائیں۔
چناںچہ دوران شوٹنگ عامر خان کے لیے کوئی بھی لباس نہیں خریدا گیا۔ عامر نے راہ چلتے لوگوں سے کپڑے لے کر زیب تن کیے۔ راج کمار ہیرانی کا کہنا ہے کہ ہر جگہ لوگوں نے بہت تعاون کیا اور اپنے لباس ہنسی خوشی دے دیے۔

KhUsHi
04-19-2015, 11:40 PM
Thanks for great sharing