intelligent086
03-28-2015, 10:25 AM
خانِ اعظم : مرزا عبدالعزیز کوکلتاش . . . ملتِ اسلامیہ کا غمگسار، دربار اکبری کا وفادار
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12595_86977533.jpg.pagespeed.ic.791EVoYDEn .jpg
مرزا محمد اکرم
خان اعظم مرزا عزیز کوکلتاش شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر کا رضاعی بھائی تھا۔ اکبر ابھی پیدا نہیں ہوا تھا کہ بادشاہ بیگم حمیدہ بانو نے مرزا عزیز کی والدہ سے کہہ رکھا تھا کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو تم اسے دودھ پلانا چنانچہ اکبر کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد عبدالعزیز پیدا ہوا تو انہوں نے اکبر کو دودھ پلانا شروع کردیا۔ اس طرح مرزا عزیز کی والدہ جنہیں پیار سے اکبر بی جی کہتا تھا اور مرزا شمس الدین مرزا عزیز کے والد اکبر کے رضاعی ماں باپ بن گئے۔ شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کر ہمایوں اور حمیدہ بانو ایران چلے گئے۔ ایران جانے سے پہلے بھی اکبر بی جی کے زیر تربیت رہا اور ایران جاتے ہوئے بھی اکبر کو بی بی کے سپرد کرگئے ،ہمایوں اور بادشاہ بیگم حمیدہ بانو کی ایران روانگی کے بعد مرزا عزیز کے والدین اکبر کو لے کر ہمایوں کے بھائی مرزا عسکری کے پاس چلے گئے اور دونوں بچوں کی خبر گیری کرتے رہے۔ دو ڈھائی سال بعد ہمایوں ایران سے افغانستان آیا اور کابل فتح کرلیا۔ اس وقت اکبر اپنے حقیقی ماں باپ سے ملا مگر اس کی تربیت اب بھی مرزا عزیز کی والدہ کے سپرد رہی۔ اکبر کی عمر تقریباً پانچ سال تھی، جب ہمایوں کے خلاف اس کے دوسرے بھائی کامران نے بغاوت کردی۔ کامران اس وقت کابل کے اندر تھا اور ہمایوں باہر گھیرا ڈالے ہوئے تھا۔ بے درد چچا نے سنگ دلی کی انتہا کردی جس مورچے سے گولوں کا زور تھا اس کے سامنے معصوم بھتیجے اکبر کو دیوار پر بٹھادیا۔ مرزا عزیز کی والدہ نے اس وقت قربانی‘ خلوص اور وفاداری کی لازوال مثال قائم کردی۔ اکبر کو گود میں لے کر گولوں کی بوچھاڑ کی طرف پشت کرکے بیٹھ گئی تاکہ اگر گولہ لگے تو پہلے اسے لگے اور اکبر محفوظ رہے ،خوش قسمتی سے اکبر کے سر سے یہ مرحلہ بھی گزرگیا۔ اسی لئے اکبر بی بی کی خدمت حقیقی ماں سے بھی زیادہ کرتا تھا۔اکبر تیرہ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا تو اپنی والدہ اور دوسری مغلیہ بیگمات کو کابل سے لانے کے لئے مرزا شمس الدین کو بھیجا اور عزت افزائی کی خاطر انہیں خانِ اعظم اور رضاعی باپ کا خطاب دیا اور پنجاب کا صوبیدار مقرر کیا۔ اکبر کے اتالیق بیرم خاں نے جب بغاوت کی تو اسے بھی مرزا شمس الدین نے ہی شکست دی۔ جب 1562 میں مرزا شمس الدین اودھم خاں کے ہاتھوں قتل ہوا تو اکبر نے مرزا عزیز کی بہت دلداری کی۔ چند روز بعد خان اعظم کا خطاب عطا کیا۔ خان اعظم مرزا عزیز کی تعلیم و تربیت بڑی توجہ سے ہوئی وہ نہ صرف فنون سپہ گری سے پوری طرح واقف تھا بلکہ مورخین اس کی انشا پردازی اور بذلہ سنجی کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ علم سیر اور تاریخ میں بھی اسے پورا دخل تھا لیکن اس کا اصل مرتبہ بطور ایک سپہ سالار اور رکن سلطنت کا تھا اس نے کئی لڑائیوں میں حصہ لیا اور کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ گجرات کی فتح میں اس کا ہاتھ تھا اور جب ایک زمانہ میں وہ تھوڑ ی فو ج کے ساتھ غنیم کی بے شمار فوج کے ساتھ گتھم گتھا ہوگیا اور اسے پٹن میں محصور ہونا پڑا تو اکبر فتح پور سیکری سے مارا مار کرتا ہوا شتر سوار فوج لے کر اس کی کمک کو پہنچا اور ستائیس دن کی منزلیں صرف نو دن میں طے کرکے عوام کو حیران کردیا۔خوشامدی درباریوں کو خان اعظم کی حق گوئی کی روش سخت ناپسند تھی چنانچہ انہوں نے اپنی مسلسل سازشوںاور چالبازیوں سے خان اعظم کو اکبر سے جدا کرکے گجرات بھجوادیا تو وہ چھ سال تک دارالسلطنت میں نہ آیا اس کی طلب میں کئی فرمان لکھے گئے لیکن وہ پھر بھی نہ آیا اسی دوران خان اعظم نے ہندو راجائوں کو شکست دے کر ساتھ ہی جونا گڑھ کو فتح کرکے بڑا زر و مال جمع کیا اور تمام اہل و عیال کو ساتھ لے کر دیوئی بندرگاہ سے مکہ معظمہ روانہ ہوگیا۔ خانِ اعظم کے مکہ چلے جانے کا اکبر کو بڑا رنج پہنچا۔ خان اعظم کی سگی ماں اور اکبر کی بی بی (رضاعی ماں) نیم جاں ہوگئی، اکبر کو اس وجہ سے بڑی تشویش تھی لیکن ان حالات میں اکبر نے بڑے حوصلے سے کام لیا۔ خان اعظم کا بغیر اجازت ملک چھوڑ جانا بھی کسی خفتی کا سبب نہ بنا اس کے برعکس اکبر نے خان اعظم کے وہ عزیز جو دارالسلطنت میں رہ گئے تھے ان کے منصب بڑھادیئے۔خان اعظم نے حجاز میں کار خیر کا ایک وسیع سلسلہ قائم کیا۔ تاریخوں میں آتا ہے کہ اس نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بڑا خرچ کیا اور نام چھوڑا۔ روضہ نبویؐ کے متعلق اخراجات کا حساب بنوایا اور پچاس سال کا خرچ نذر کیا۔خان اعظم کی حجاز سے واپسی کے بعد کا واقعہ ہے کہ پرتگالی پادریوں نے لمبی تگ و دو اور حیلے بہانے سے اکبر سے ایسا فرمان حاصل کرلیا کہ کوئی شخص عیسائی ہونا چاہے تو اس کی مزاحمت نہ کی جائے یعنی وہ عیسائی مذہب قبول کرنے میں آزاد ہوگا۔ خان اعظم نے اس فرمان کی شدید مخالفت کی کیونکہ ایک مسلمان کا عیسائی بن جانا اور اس پر کوئی گرفت نہ ہونا شرع محمدیؐ کے صریحا ًخلاف تھا۔ چنانچہ خان اعظم نے حاکم پنجاب سے مل کر اس فرمان کو تقریبا ًمعطل کردیا۔ خان اعظم کا زمانہ اقتدار اکبر کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ اس موقع پر اس سے ایک سخت غلطی یہ ہوئی کہ اس نے اکبر کا جانشین جہانگیر کے بیٹے خرو کو بنانا چاہا جس سے اس کی بیٹی بیاہی گئی تھی یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی اور جہانگیر نے اپنے بیٹے اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ اکبر کے اہم ساتھی شیخ فرید کے کہنے پر نرمی کا سلوک کیا۔ اس کے باوجود جب خرو نے بغاوت کردی تو ایرانی امرا جو جہانگیر کے دربار میں بڑے با اثر تھے کے کہنے پر خان اعظم کو جہانگیر نے گوالیار کے قلعے میں قید کردیا۔ وہاں سے رہائی بڑے دلچسپ طریقے سے ہوئی۔ جہانگیر اپنی تزک میں لکھتا ہے کہ اکبر بادشاہ مجھے خواب میں ملے اور کہا کہ خان اعظم کا گناہ میری خاطر بخش دے۔ جہانگیر نے اس خواب کے بعد اسے قلعہ سے بلا کر آزاد کردیا اور تھوڑے عرصے کے بعد اس کا منصب بحال کردیا۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12595_86977533.jpg.pagespeed.ic.791EVoYDEn .jpg
مرزا محمد اکرم
خان اعظم مرزا عزیز کوکلتاش شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر کا رضاعی بھائی تھا۔ اکبر ابھی پیدا نہیں ہوا تھا کہ بادشاہ بیگم حمیدہ بانو نے مرزا عزیز کی والدہ سے کہہ رکھا تھا کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو تم اسے دودھ پلانا چنانچہ اکبر کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد عبدالعزیز پیدا ہوا تو انہوں نے اکبر کو دودھ پلانا شروع کردیا۔ اس طرح مرزا عزیز کی والدہ جنہیں پیار سے اکبر بی جی کہتا تھا اور مرزا شمس الدین مرزا عزیز کے والد اکبر کے رضاعی ماں باپ بن گئے۔ شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کر ہمایوں اور حمیدہ بانو ایران چلے گئے۔ ایران جانے سے پہلے بھی اکبر بی جی کے زیر تربیت رہا اور ایران جاتے ہوئے بھی اکبر کو بی بی کے سپرد کرگئے ،ہمایوں اور بادشاہ بیگم حمیدہ بانو کی ایران روانگی کے بعد مرزا عزیز کے والدین اکبر کو لے کر ہمایوں کے بھائی مرزا عسکری کے پاس چلے گئے اور دونوں بچوں کی خبر گیری کرتے رہے۔ دو ڈھائی سال بعد ہمایوں ایران سے افغانستان آیا اور کابل فتح کرلیا۔ اس وقت اکبر اپنے حقیقی ماں باپ سے ملا مگر اس کی تربیت اب بھی مرزا عزیز کی والدہ کے سپرد رہی۔ اکبر کی عمر تقریباً پانچ سال تھی، جب ہمایوں کے خلاف اس کے دوسرے بھائی کامران نے بغاوت کردی۔ کامران اس وقت کابل کے اندر تھا اور ہمایوں باہر گھیرا ڈالے ہوئے تھا۔ بے درد چچا نے سنگ دلی کی انتہا کردی جس مورچے سے گولوں کا زور تھا اس کے سامنے معصوم بھتیجے اکبر کو دیوار پر بٹھادیا۔ مرزا عزیز کی والدہ نے اس وقت قربانی‘ خلوص اور وفاداری کی لازوال مثال قائم کردی۔ اکبر کو گود میں لے کر گولوں کی بوچھاڑ کی طرف پشت کرکے بیٹھ گئی تاکہ اگر گولہ لگے تو پہلے اسے لگے اور اکبر محفوظ رہے ،خوش قسمتی سے اکبر کے سر سے یہ مرحلہ بھی گزرگیا۔ اسی لئے اکبر بی بی کی خدمت حقیقی ماں سے بھی زیادہ کرتا تھا۔اکبر تیرہ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا تو اپنی والدہ اور دوسری مغلیہ بیگمات کو کابل سے لانے کے لئے مرزا شمس الدین کو بھیجا اور عزت افزائی کی خاطر انہیں خانِ اعظم اور رضاعی باپ کا خطاب دیا اور پنجاب کا صوبیدار مقرر کیا۔ اکبر کے اتالیق بیرم خاں نے جب بغاوت کی تو اسے بھی مرزا شمس الدین نے ہی شکست دی۔ جب 1562 میں مرزا شمس الدین اودھم خاں کے ہاتھوں قتل ہوا تو اکبر نے مرزا عزیز کی بہت دلداری کی۔ چند روز بعد خان اعظم کا خطاب عطا کیا۔ خان اعظم مرزا عزیز کی تعلیم و تربیت بڑی توجہ سے ہوئی وہ نہ صرف فنون سپہ گری سے پوری طرح واقف تھا بلکہ مورخین اس کی انشا پردازی اور بذلہ سنجی کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ علم سیر اور تاریخ میں بھی اسے پورا دخل تھا لیکن اس کا اصل مرتبہ بطور ایک سپہ سالار اور رکن سلطنت کا تھا اس نے کئی لڑائیوں میں حصہ لیا اور کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ گجرات کی فتح میں اس کا ہاتھ تھا اور جب ایک زمانہ میں وہ تھوڑ ی فو ج کے ساتھ غنیم کی بے شمار فوج کے ساتھ گتھم گتھا ہوگیا اور اسے پٹن میں محصور ہونا پڑا تو اکبر فتح پور سیکری سے مارا مار کرتا ہوا شتر سوار فوج لے کر اس کی کمک کو پہنچا اور ستائیس دن کی منزلیں صرف نو دن میں طے کرکے عوام کو حیران کردیا۔خوشامدی درباریوں کو خان اعظم کی حق گوئی کی روش سخت ناپسند تھی چنانچہ انہوں نے اپنی مسلسل سازشوںاور چالبازیوں سے خان اعظم کو اکبر سے جدا کرکے گجرات بھجوادیا تو وہ چھ سال تک دارالسلطنت میں نہ آیا اس کی طلب میں کئی فرمان لکھے گئے لیکن وہ پھر بھی نہ آیا اسی دوران خان اعظم نے ہندو راجائوں کو شکست دے کر ساتھ ہی جونا گڑھ کو فتح کرکے بڑا زر و مال جمع کیا اور تمام اہل و عیال کو ساتھ لے کر دیوئی بندرگاہ سے مکہ معظمہ روانہ ہوگیا۔ خانِ اعظم کے مکہ چلے جانے کا اکبر کو بڑا رنج پہنچا۔ خان اعظم کی سگی ماں اور اکبر کی بی بی (رضاعی ماں) نیم جاں ہوگئی، اکبر کو اس وجہ سے بڑی تشویش تھی لیکن ان حالات میں اکبر نے بڑے حوصلے سے کام لیا۔ خان اعظم کا بغیر اجازت ملک چھوڑ جانا بھی کسی خفتی کا سبب نہ بنا اس کے برعکس اکبر نے خان اعظم کے وہ عزیز جو دارالسلطنت میں رہ گئے تھے ان کے منصب بڑھادیئے۔خان اعظم نے حجاز میں کار خیر کا ایک وسیع سلسلہ قائم کیا۔ تاریخوں میں آتا ہے کہ اس نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بڑا خرچ کیا اور نام چھوڑا۔ روضہ نبویؐ کے متعلق اخراجات کا حساب بنوایا اور پچاس سال کا خرچ نذر کیا۔خان اعظم کی حجاز سے واپسی کے بعد کا واقعہ ہے کہ پرتگالی پادریوں نے لمبی تگ و دو اور حیلے بہانے سے اکبر سے ایسا فرمان حاصل کرلیا کہ کوئی شخص عیسائی ہونا چاہے تو اس کی مزاحمت نہ کی جائے یعنی وہ عیسائی مذہب قبول کرنے میں آزاد ہوگا۔ خان اعظم نے اس فرمان کی شدید مخالفت کی کیونکہ ایک مسلمان کا عیسائی بن جانا اور اس پر کوئی گرفت نہ ہونا شرع محمدیؐ کے صریحا ًخلاف تھا۔ چنانچہ خان اعظم نے حاکم پنجاب سے مل کر اس فرمان کو تقریبا ًمعطل کردیا۔ خان اعظم کا زمانہ اقتدار اکبر کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ اس موقع پر اس سے ایک سخت غلطی یہ ہوئی کہ اس نے اکبر کا جانشین جہانگیر کے بیٹے خرو کو بنانا چاہا جس سے اس کی بیٹی بیاہی گئی تھی یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی اور جہانگیر نے اپنے بیٹے اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ اکبر کے اہم ساتھی شیخ فرید کے کہنے پر نرمی کا سلوک کیا۔ اس کے باوجود جب خرو نے بغاوت کردی تو ایرانی امرا جو جہانگیر کے دربار میں بڑے با اثر تھے کے کہنے پر خان اعظم کو جہانگیر نے گوالیار کے قلعے میں قید کردیا۔ وہاں سے رہائی بڑے دلچسپ طریقے سے ہوئی۔ جہانگیر اپنی تزک میں لکھتا ہے کہ اکبر بادشاہ مجھے خواب میں ملے اور کہا کہ خان اعظم کا گناہ میری خاطر بخش دے۔ جہانگیر نے اس خواب کے بعد اسے قلعہ سے بلا کر آزاد کردیا اور تھوڑے عرصے کے بعد اس کا منصب بحال کردیا۔ ٭…٭…٭