intelligent086
03-20-2015, 09:42 AM
دنیائے طب کے نئے اُفق!
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12518_66896999.jpg.pagespeed.ic.7YH3Pq-WlG.jpg
طاہرہ اعجاز
شوگر کے مریضوں میں درد محسوس کرنے کی حساسیت بڑھ جاتی ہے اور اس طرح وہ گرمی اور سردی کو بھی زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ طبی ماہرین اب اس کا مؤثر علاج ڈھونڈنے کے قریب تر ہیں۔ جرنل نیچر میڈیسن میں ایک ملٹی نیشنل ریسرچ شائع ہوئی ہے، جس کے مطابق واروِک سکول نے برطانیہ، جرمنی، نیویارک، آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں کے اشتراک سے طبی ماہرین نے شوگر کی وجہ سے بڑھ جانے والی درد کی حساسیت کے بارے میں اہم تحقیق کی ہے۔ Neuropathy Diabetic Painful (PDN) ایک ابنارمل اور شدید درد کی حالت ہے، جس کو تقریباً ۵۰فیصد شوگر کے مریض محسوس کرتے ہیں۔ یہ ان کی زندگیوں پر اور ان کے روزمرّہ کام کرنے کی صلاحیت پر بہت بُرا اثر ڈالتی ہے۔ ابھی تک یہ واضح طور پر معلوم نہیں تھا کہ شوگر کے مریضوں میں ابنارمل گلوکوز میٹابولزم کیسے زیادہ درد پیدا کرتا ہے۔ تحقیق میں اسی کے بارے میں کافی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ واروِک ٹیم کے طبی ماہرین ڈاکٹر نائلہ ربانی اور پروفیسر پال تھورینلی جو ۳۰ سال سے ایک کمپائونڈ میتھائل گلائیکسول (MethylGlyoxal) پر کام کر رہے تھے،جو شوگر کے مریضوں میں گلوکوز کی وجہ سے بہت زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ان کی تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ یہ کمپائونڈ شوگر کے مریضوں میں درد اور درجہ حرارت محسوس کرنے کی حساسیت کو بڑھاتا ہے۔پروفیسر پال کا کہنا ہے کہ MG کمپائونڈ نسوں کے آخر میں موجود پروٹین پر حملہ کرتا ہے اور اس میں تبدیلیاں پیدا کرکے نسوں کو درد اور درجہ حرارت کے لیے شدید حساس کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے شوگر کے مریض درد کو زیادہ محسوس کرتے ہیں اور انھیں گرمی یا سردی بھی زیادہ لگتی ہے۔ طبی ماہرین اب اس کمپائونڈ پر اٹیک کرکے ایسی ادویات بنا رہے ہیں، جو اس کمپائونڈ کی کارکردگی کو کم کرکے درد کی حساسیت میں کمی لائیں گی۔ طبی ماہرین جسم میں موجود ایک انزائم (Enzyme) جس کا نام گلیکسولیز (1 Glyoxalase یا 1 Glo ) ہے ، کی مقدار کو زیادہ کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں ، جو MG کمپائونڈ کی مقدار کو جسم میں خودبخود کم کر دیتا ہے۔ سگریٹ کا دھواں اور نظام تنفس: تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے طبی ماہرین ماحول میں موجود تمباکو کے دھوئیں (Environmental Tobbaco Smoke) کے صحت پر پڑنے والے مضر اثرات سے خبردار کر رہے ہیں اور یہ مضر اثرات ان بچوں میں زیادہ خطرات پیدا کرتے ہیں جن کے والدین سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ایریزونا یونائیٹڈ سٹیٹ کے طبی ماہرین کی حالیہ تحقیق میں یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ مضر اثرات ان بچوں میں صرف بچپن میں نہیں رہتے بلکہ جوانی تک ان کے جسموں میں موجود رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے نظام تنفس کو بگاڑ سکتے ہیں اور ان میں دمہ اور دوسری ریسپائریٹری بیماریوں کے خطرات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ Illness Respiratory Persistent نامی بیماری بچپن اور جوانی میں اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ایسے بچے آئندہ زندگی میں کرونک ریسپائیریٹری بیماریوں، دمہ یا پھیپھڑوں کے عمل میں خرابیوں کے خطرات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ پوری دنیا کے بچوں کی بڑی تعداد اپنے والدین کی سگریٹ نوشی کی وجہ سے مضر اثرات کا شکار ہو رہی ہے، لیکن اس کے لمبے عرصہ تک رہنے ولے بُرے اثرات کا ابھی تک لوگوں کو زیادہ علم نہیں۔ اس تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ سگریٹ کے دھوئیں سے ہونے والے مضر اثرات بچوں میں جوانی تک رہتے ہیں۔ طبی ماہرین نے دمہ اور دوسری ریسپائیریٹری بیماریوں کا مشاہدہ کیا تو پتا چلا ایسے بچوں میں یہ بیماریاں زیادہ ہیں جن کے والدین سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔لہٰذا سگریٹ نوشی سے نہ صرف آپ اپنی زندگی خراب کرتے ہیں بلکہ آپ کے بچوں پر بھی اس کے برے اثرات پڑتے ہیں۔ لہٰذا اپنی اور اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی کے بُرے اثرات سے بچانے کے لیے سگریٹ نوشی ترک کریں اور صحت مند زندگی گزاریں۔ ایک عام مقولہ ہے کہ جتنی اچھی خوراک ہو گی صحت بھی اتنی ہی اچھی ہوگی، لیکن اب سائنسدانوں نے یہ تحقیق کی ہے کہ ہماری صحت پر اس بات سے بھی اثر پڑتا ہے کہ ہم خوراک باضابطہ طریقے سے کھاتے ہیں یا نہیں۔ وہ افراد جو دن میں غیر مقررہ اوقات میں کھاتے رہتے ہیں، ان میں میٹابولک سنڈروم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ تحقیق کیورنسکا انسٹی ٹیوٹ سویڈن کے طبی ماہرین نے کی ہے۔ میٹابولک سنڈروم وہ کیفیت ہے جس میں ایک انسان میں کارڈیو ویسکولر بیماریوں اور شوگر کے لیے مختلف رسک فیکٹرز اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ موٹاپا، بلڈپریشر، انسولین کے لیے مزاحمت اور کولیسٹرول کا ہائی ہونا اور خوراک ان رسک فیکٹرز کی سب سے بڑی وجہ مانی جاتی ہے۔کیرونسکا انسٹی ٹیوٹ کے طبی ماہرین نے پہلی دفعہ یہ ثابت کیا ہے کہ خوراک کی مقدار کے بجائے بار بار کھانا بھی میٹابولک سنڈروم پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ تحقیق جو ۶۰ہزار بوڑھے مردوں اور عورتوں پر سروے اور ان کے میڈیکل چیک اپ کے بعد کی گئی۔ اس سے ثابت ہوا ہے کہ بے ضابطہ طریقے سے کھانا میٹابولک سنڈروم کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ اس تحقیق میں شامل وہ افراد جو بے ضابطہ طریقے سے ناشتا، دوپہر اور رات کا کھانا کھاتے تھے، ان میں میٹابولک سنڈروم کا خطرہ زیادہ دیکھا گیا۔ طبی ماہرین خیال کرتے ہیں کہ ان نتائج کے مطابق صحت ٹھیک رکھنے کے لیے خوراک کے بارے میں ہدایات دینے کے دوران یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ کھانے کا باضابطہ طریقہ صحت برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔ اینٹی ڈپریشن دوائیوں کا فائدہ کم، نقصان زیادہ ماہرین طب نے پورے جسم پر دوائیوں کے اثرات چیک کرنے کے بعد تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ عام طور پر استعمال ہونے والی اینٹی ڈیپریشن دوائیاں فائدے سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ McMaster (میک ماسٹر) یونیورسٹی کینیڈا کے بائیولوجسٹ ہال اینڈریو کا کہنا ہے کہ ہمیں ان دوائیوں کے بہت زیادہ استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ لاکھوں افراد کوسالانہ اینٹی ڈیپریشن دوائیاں تجویز کی جاتی ہیں اور روایتی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دوائیاں بہت مؤثر اور بے ضرر ہیں۔ اینڈریو اور اس کے ساتھیوں نے ان مریضوں کا چیک اپ کیا جو بہت عرصے سے ان دوائیوں کا استعمال کر رہے تھے۔ نتائج میں دیکھا گیا کہ ان دوائیوں کے اثر سے جسم کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ اینٹی ڈیپریشن دوائیاں اس طرح ڈیزائن کی جاتی ہیں کہ وہ دماغ میں موجود ایک کیمیکل، Serotonin کی مقدار کو بڑھا کر ڈپریشن کم کریں۔ Serotoninکی مقدار جو جسم قدرتی طور پر پیدا کرتا ہے وہ بہت سے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسا کہ ہاضمے، زخموں پر خون جمانے، عمل پیدائش اور نشوونما میں۔ طبی ماہرین کی تحقیق کے مطابق اینٹی ڈیپریشن دوائیاں ان تمام قدرتی عوامل پر بُرے اثرات ڈالتی ہیں، جو Serotoninکو استعمال کرتے ہیں۔ ان بُرے اثرات میں مندرجہ ذیل شامل ہیں: ٭ شیرخوار بچوں میں نشوونما کے مسائل ۔ نظام انہضام میں مسائل جیسا کہ دست، قبض اور بدہضمی وغیرہ۔ ٭ بوڑھے افراد میں سٹروک کا خطرہ :طبی ماہرین نے تحقیق کے دوران دیکھا کہ اینٹی ڈیپریشن دوائیاں استعمال کرنے والے افراد میں موت کی شرح زیادہ ہے بہ نسبت ان کے جو ان دوائیوں کا استعمال نہیں کرتے۔ چنانچہ مجموعی اثرات دیکھنے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ یہ دوائیاں فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ لہٰذا یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ان ادویہ کے فوائد اور نقصانات کا مکمل تجزیہ کیا جائے کیونکہ ان کا استعمال بہت بڑھ چکا ہے۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12518_66896999.jpg.pagespeed.ic.7YH3Pq-WlG.jpg
طاہرہ اعجاز
شوگر کے مریضوں میں درد محسوس کرنے کی حساسیت بڑھ جاتی ہے اور اس طرح وہ گرمی اور سردی کو بھی زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ طبی ماہرین اب اس کا مؤثر علاج ڈھونڈنے کے قریب تر ہیں۔ جرنل نیچر میڈیسن میں ایک ملٹی نیشنل ریسرچ شائع ہوئی ہے، جس کے مطابق واروِک سکول نے برطانیہ، جرمنی، نیویارک، آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں کے اشتراک سے طبی ماہرین نے شوگر کی وجہ سے بڑھ جانے والی درد کی حساسیت کے بارے میں اہم تحقیق کی ہے۔ Neuropathy Diabetic Painful (PDN) ایک ابنارمل اور شدید درد کی حالت ہے، جس کو تقریباً ۵۰فیصد شوگر کے مریض محسوس کرتے ہیں۔ یہ ان کی زندگیوں پر اور ان کے روزمرّہ کام کرنے کی صلاحیت پر بہت بُرا اثر ڈالتی ہے۔ ابھی تک یہ واضح طور پر معلوم نہیں تھا کہ شوگر کے مریضوں میں ابنارمل گلوکوز میٹابولزم کیسے زیادہ درد پیدا کرتا ہے۔ تحقیق میں اسی کے بارے میں کافی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ واروِک ٹیم کے طبی ماہرین ڈاکٹر نائلہ ربانی اور پروفیسر پال تھورینلی جو ۳۰ سال سے ایک کمپائونڈ میتھائل گلائیکسول (MethylGlyoxal) پر کام کر رہے تھے،جو شوگر کے مریضوں میں گلوکوز کی وجہ سے بہت زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ان کی تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ یہ کمپائونڈ شوگر کے مریضوں میں درد اور درجہ حرارت محسوس کرنے کی حساسیت کو بڑھاتا ہے۔پروفیسر پال کا کہنا ہے کہ MG کمپائونڈ نسوں کے آخر میں موجود پروٹین پر حملہ کرتا ہے اور اس میں تبدیلیاں پیدا کرکے نسوں کو درد اور درجہ حرارت کے لیے شدید حساس کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے شوگر کے مریض درد کو زیادہ محسوس کرتے ہیں اور انھیں گرمی یا سردی بھی زیادہ لگتی ہے۔ طبی ماہرین اب اس کمپائونڈ پر اٹیک کرکے ایسی ادویات بنا رہے ہیں، جو اس کمپائونڈ کی کارکردگی کو کم کرکے درد کی حساسیت میں کمی لائیں گی۔ طبی ماہرین جسم میں موجود ایک انزائم (Enzyme) جس کا نام گلیکسولیز (1 Glyoxalase یا 1 Glo ) ہے ، کی مقدار کو زیادہ کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں ، جو MG کمپائونڈ کی مقدار کو جسم میں خودبخود کم کر دیتا ہے۔ سگریٹ کا دھواں اور نظام تنفس: تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے طبی ماہرین ماحول میں موجود تمباکو کے دھوئیں (Environmental Tobbaco Smoke) کے صحت پر پڑنے والے مضر اثرات سے خبردار کر رہے ہیں اور یہ مضر اثرات ان بچوں میں زیادہ خطرات پیدا کرتے ہیں جن کے والدین سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ایریزونا یونائیٹڈ سٹیٹ کے طبی ماہرین کی حالیہ تحقیق میں یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ مضر اثرات ان بچوں میں صرف بچپن میں نہیں رہتے بلکہ جوانی تک ان کے جسموں میں موجود رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے نظام تنفس کو بگاڑ سکتے ہیں اور ان میں دمہ اور دوسری ریسپائریٹری بیماریوں کے خطرات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ Illness Respiratory Persistent نامی بیماری بچپن اور جوانی میں اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ایسے بچے آئندہ زندگی میں کرونک ریسپائیریٹری بیماریوں، دمہ یا پھیپھڑوں کے عمل میں خرابیوں کے خطرات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ پوری دنیا کے بچوں کی بڑی تعداد اپنے والدین کی سگریٹ نوشی کی وجہ سے مضر اثرات کا شکار ہو رہی ہے، لیکن اس کے لمبے عرصہ تک رہنے ولے بُرے اثرات کا ابھی تک لوگوں کو زیادہ علم نہیں۔ اس تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ سگریٹ کے دھوئیں سے ہونے والے مضر اثرات بچوں میں جوانی تک رہتے ہیں۔ طبی ماہرین نے دمہ اور دوسری ریسپائیریٹری بیماریوں کا مشاہدہ کیا تو پتا چلا ایسے بچوں میں یہ بیماریاں زیادہ ہیں جن کے والدین سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔لہٰذا سگریٹ نوشی سے نہ صرف آپ اپنی زندگی خراب کرتے ہیں بلکہ آپ کے بچوں پر بھی اس کے برے اثرات پڑتے ہیں۔ لہٰذا اپنی اور اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی کے بُرے اثرات سے بچانے کے لیے سگریٹ نوشی ترک کریں اور صحت مند زندگی گزاریں۔ ایک عام مقولہ ہے کہ جتنی اچھی خوراک ہو گی صحت بھی اتنی ہی اچھی ہوگی، لیکن اب سائنسدانوں نے یہ تحقیق کی ہے کہ ہماری صحت پر اس بات سے بھی اثر پڑتا ہے کہ ہم خوراک باضابطہ طریقے سے کھاتے ہیں یا نہیں۔ وہ افراد جو دن میں غیر مقررہ اوقات میں کھاتے رہتے ہیں، ان میں میٹابولک سنڈروم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ تحقیق کیورنسکا انسٹی ٹیوٹ سویڈن کے طبی ماہرین نے کی ہے۔ میٹابولک سنڈروم وہ کیفیت ہے جس میں ایک انسان میں کارڈیو ویسکولر بیماریوں اور شوگر کے لیے مختلف رسک فیکٹرز اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ موٹاپا، بلڈپریشر، انسولین کے لیے مزاحمت اور کولیسٹرول کا ہائی ہونا اور خوراک ان رسک فیکٹرز کی سب سے بڑی وجہ مانی جاتی ہے۔کیرونسکا انسٹی ٹیوٹ کے طبی ماہرین نے پہلی دفعہ یہ ثابت کیا ہے کہ خوراک کی مقدار کے بجائے بار بار کھانا بھی میٹابولک سنڈروم پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ تحقیق جو ۶۰ہزار بوڑھے مردوں اور عورتوں پر سروے اور ان کے میڈیکل چیک اپ کے بعد کی گئی۔ اس سے ثابت ہوا ہے کہ بے ضابطہ طریقے سے کھانا میٹابولک سنڈروم کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ اس تحقیق میں شامل وہ افراد جو بے ضابطہ طریقے سے ناشتا، دوپہر اور رات کا کھانا کھاتے تھے، ان میں میٹابولک سنڈروم کا خطرہ زیادہ دیکھا گیا۔ طبی ماہرین خیال کرتے ہیں کہ ان نتائج کے مطابق صحت ٹھیک رکھنے کے لیے خوراک کے بارے میں ہدایات دینے کے دوران یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ کھانے کا باضابطہ طریقہ صحت برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے۔ اینٹی ڈپریشن دوائیوں کا فائدہ کم، نقصان زیادہ ماہرین طب نے پورے جسم پر دوائیوں کے اثرات چیک کرنے کے بعد تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ عام طور پر استعمال ہونے والی اینٹی ڈیپریشن دوائیاں فائدے سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ McMaster (میک ماسٹر) یونیورسٹی کینیڈا کے بائیولوجسٹ ہال اینڈریو کا کہنا ہے کہ ہمیں ان دوائیوں کے بہت زیادہ استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ لاکھوں افراد کوسالانہ اینٹی ڈیپریشن دوائیاں تجویز کی جاتی ہیں اور روایتی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دوائیاں بہت مؤثر اور بے ضرر ہیں۔ اینڈریو اور اس کے ساتھیوں نے ان مریضوں کا چیک اپ کیا جو بہت عرصے سے ان دوائیوں کا استعمال کر رہے تھے۔ نتائج میں دیکھا گیا کہ ان دوائیوں کے اثر سے جسم کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ اینٹی ڈیپریشن دوائیاں اس طرح ڈیزائن کی جاتی ہیں کہ وہ دماغ میں موجود ایک کیمیکل، Serotonin کی مقدار کو بڑھا کر ڈپریشن کم کریں۔ Serotoninکی مقدار جو جسم قدرتی طور پر پیدا کرتا ہے وہ بہت سے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسا کہ ہاضمے، زخموں پر خون جمانے، عمل پیدائش اور نشوونما میں۔ طبی ماہرین کی تحقیق کے مطابق اینٹی ڈیپریشن دوائیاں ان تمام قدرتی عوامل پر بُرے اثرات ڈالتی ہیں، جو Serotoninکو استعمال کرتے ہیں۔ ان بُرے اثرات میں مندرجہ ذیل شامل ہیں: ٭ شیرخوار بچوں میں نشوونما کے مسائل ۔ نظام انہضام میں مسائل جیسا کہ دست، قبض اور بدہضمی وغیرہ۔ ٭ بوڑھے افراد میں سٹروک کا خطرہ :طبی ماہرین نے تحقیق کے دوران دیکھا کہ اینٹی ڈیپریشن دوائیاں استعمال کرنے والے افراد میں موت کی شرح زیادہ ہے بہ نسبت ان کے جو ان دوائیوں کا استعمال نہیں کرتے۔ چنانچہ مجموعی اثرات دیکھنے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ یہ دوائیاں فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ لہٰذا یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ان ادویہ کے فوائد اور نقصانات کا مکمل تجزیہ کیا جائے کیونکہ ان کا استعمال بہت بڑھ چکا ہے۔ ٭…٭…٭