intelligent086
03-15-2015, 10:30 AM
جب میراتھن ریس موت کا کھیل بنی
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12479_14074845.jpg.pagespeed.ic.uG6000eZUz .jpg
عبدالستار ہاشمی
میرے اردگرد جھلسا دینے والی قیامت کی گرمی اور آگ کے بگولے ہی بگولے تھے ۔سانس لینا محال تھا۔میں نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر چٹان کی اوڑھ میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن آگ کا دریا چاروں طرف سے گھیر رہا تھا اور مجھے اپنی موت یقینی نظر آ رہی تھی۔مجھے یہاں تک لانے والی میری اپنی فطرت تھی جسے جان جوکھوں میں ڈالنے کا بہت شوق تھا۔میری عمر 36 برس ہے اور میں نے سکاٹ لینڈ میں 50کلومیٹر کی سائیکل ریس میں حصہ لیا تھا اور کامیاب ٹھہری تھی۔اس کے بعد میری نظریں100کلو میٹر کی دوڑ پر جاٹکی جو آسٹریلیا میں ہونے جا رہی تھی۔ اس ریس کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس کا راستہ چٹیل میدانوں سے ہوتا ہوا سنگلاخ چٹانوں سے گزرتا تھا۔اس کے درمیان جنگل کا طویل راستہ بھی تھا۔جس دن یہ ریس شروع ہوئی‘ شہر کا درجہ حرارت 30ڈگری تھا۔اس گرم موسم میں میراتھن دوڑ میں حصہ لینا کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔جس ہال سے یہ ریس شروع ہوئی تھی اس کی کھڑکی کے باہر کا منظر بہت دلکش تھالیکن جیسے ہی ہم لوگ ٹریک پر آئے گرمی کی وجہ سے ہمیں نانی یاد آ گئیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس عالمی مقابلے میں حصہ لینے کی خوشی نے جذبہ بڑھا دیا۔پہلے 10 کلومیٹر کا فاصلہ حسین تھا لیکن اس کے بعد مصائب شروع ہوگئے۔پہلا پڑائو24کلومیٹر پرتھا،سانس لینے کے بعد ہم لوگ اپنی منزل کی طرف بڑھے۔ابھی چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ غیر معمولی گرمی کا احساس ہوا۔یوں محسوس ہوا جسے ہوا گرم ہو کر جسم سے چھو رہی ہو۔یہ موسم کی گرمی نہ تھی۔میں نے سائیکلنگ سے توجہ ہٹا کر ادھر ادھر دیکھا تو فضا میں کسی چیز کے جلنے کا احساس ہوا پھر اچانک دھوئیں کے بادل دکھائی دیئے۔اس وقت ہم چھ لوگ ساتھ ساتھ تھے۔میں نے پریشان ہو کر نعرہ بلند کیا: ’’ بھاگو،بھاگو! ہم لوگ آگ میں گھر چکے ہیں۔ہم نے پوری رفتار سے سائیکلیں بھگانا شروع کیں لیکن آگ کی رفتار ہم سے زیادہ تھی۔ہم جس سمت بھی جاتے آگ سے سامنا ہوتا۔گھوم پھر کر واپس اسی مقام پر آ جاتے جہاں سے آگ کا سامنا ہوا تھا۔ہم لوگ آگ میں بری طرح سے گھر چکے تھے اوردرجہ حرارت میں اضافہ ہو چکا تھا۔سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔میں نے پانی کی بوتل اپنے سرپر انڈیلی لیکن گرمی کی شدت میں کمی نہ آئی۔آگ بہت تیزی سے پھیل رہی تھی۔مجھے ایک ہی بات پریشان کر رہی تھی جیسا کہ دادا کہا کرتے تھے کہ آگ کی موت سب سے بھیانک ہوتی ہے۔میں اس آگ میں جھلس کر مرنانہیں چاہتی تھی۔ میں نے سائیکل کا رخ چٹان کی طرف کیا اور چڑھائی چڑھنا شروع کی۔اسی اثنا میں آگ میرے کپڑوں کو پکڑچکی تھی۔چلتی سائیکل پر میں نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔میری ٹانگوں کی جلد پگھلنے لگی اور بازو بھی اس کی زد میں آ چکے تھے۔میں چلتی سائیکل سے کود گئی اور لڑھکنے لگی۔مجھے ڈر محسوس ہوا کہ اب میری لاش کسی کھائی سے ہی ملے گی۔میرے کپڑے چیتھڑوں میں بدل چکے تھے اور میں لہو لہو تھی۔ کپڑوں پر لگی آگ تو بجھ گئی لیکن ایسے جیسے کسی نے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہو۔میں نیم بے ہوش تھی کہ اچانک اپنے ساتھیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ان میں سے لیرا سب سے زیادہ زخمی تھی۔ہم دونوں کا 60 فیصد جسم جھلس چکا تھا۔جیک نے میرے حلق میں پانی کے گھونٹ انڈیلے تو جان میں جان آئی۔ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں کہ اچانک ہیلی کاپٹر کی آوازسنائی دی۔جیک نے ہیلی کاپٹر کو سگنلزدیے۔15منٹ میں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔میں 19دن ہسپتال میںزیرِعلاج رہی ۔میرا پورا جسم پٹیوں میںلپٹا ہوا تھا۔جان تو بچ گئی لیکن ڈاکٹروں کو میرا آدھا پائوں کاٹنا پڑا۔سچ تو یہ ہے کہ جان بچ جانے کی خوشی میں پائوں کے کٹنے کا دُکھ بھول گئی۔آج میں آستینوں کے بغیر شرٹ نہیں پہن سکتی کیوں کہ میرا پورا جسم جھلسا ہوا ہے۔ایک برس بعد خدا نے مجھے اس قابل بنا دیا کہ میں مصنوعی پائوںکی مدد سے دن بھر میں 100میٹر سائیکلنگ کر لیتی تھی۔میرے لیے یہ الٹرامیراتھن ریس ہے جسے میں بہت انجوائے کرتی تھی۔پھر جنوری2013کا وہ مبارک دن آیا جب میں دوبارہ ریسنگ ٹریک پر کھڑی تھی اور وسل کے بجنے کا انتظار کر رہی تھی۔جی ہاں میں 100میٹر کی ریس میں حصہ لینے کے لیے کوالیفائی کر چکی تھی۔آج مجھے اپنے زخم اوردرد بھول چکا تھا۔مجھے آج سب کو ہرانا تھا۔خدا نے میرے من کی مرادپوری کی اور اسی شام کو میں وکٹری سٹینڈ پر کھڑی اپنا تمغہ وصول کر رہی تھی۔ یہ واقعہ معروف اتھلیٹ کیٹ سنڈرس کو اس وقت پیش آیا تھا جب وہ میرا تھن ریس میں حصہ لینے آسٹریلیا کے علاقے وکٹوریہ میں آئی تھیں اور بلیو مائونٹین کے جنگل میں لگی آگ میں پھنس گئی تھیں۔یہ جنگل گھاس پھوس اور جھاڑیوں پر مشتمل تھا۔کسی کی لاپرواہی کے نتیجے میں کھلاڑیوں کی جان کے لالے پڑ گئے۔کسی نے جلتا سگریٹ یہاں پھینک دیا تھا اور آگ بھڑک اٹھی۔2009ء میں بھی ایسی ہی لگنے والی آگ میں 173لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے اور دو ہزار سے زائد گھر جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x12479_14074845.jpg.pagespeed.ic.uG6000eZUz .jpg
عبدالستار ہاشمی
میرے اردگرد جھلسا دینے والی قیامت کی گرمی اور آگ کے بگولے ہی بگولے تھے ۔سانس لینا محال تھا۔میں نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر چٹان کی اوڑھ میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن آگ کا دریا چاروں طرف سے گھیر رہا تھا اور مجھے اپنی موت یقینی نظر آ رہی تھی۔مجھے یہاں تک لانے والی میری اپنی فطرت تھی جسے جان جوکھوں میں ڈالنے کا بہت شوق تھا۔میری عمر 36 برس ہے اور میں نے سکاٹ لینڈ میں 50کلومیٹر کی سائیکل ریس میں حصہ لیا تھا اور کامیاب ٹھہری تھی۔اس کے بعد میری نظریں100کلو میٹر کی دوڑ پر جاٹکی جو آسٹریلیا میں ہونے جا رہی تھی۔ اس ریس کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس کا راستہ چٹیل میدانوں سے ہوتا ہوا سنگلاخ چٹانوں سے گزرتا تھا۔اس کے درمیان جنگل کا طویل راستہ بھی تھا۔جس دن یہ ریس شروع ہوئی‘ شہر کا درجہ حرارت 30ڈگری تھا۔اس گرم موسم میں میراتھن دوڑ میں حصہ لینا کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔جس ہال سے یہ ریس شروع ہوئی تھی اس کی کھڑکی کے باہر کا منظر بہت دلکش تھالیکن جیسے ہی ہم لوگ ٹریک پر آئے گرمی کی وجہ سے ہمیں نانی یاد آ گئیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس عالمی مقابلے میں حصہ لینے کی خوشی نے جذبہ بڑھا دیا۔پہلے 10 کلومیٹر کا فاصلہ حسین تھا لیکن اس کے بعد مصائب شروع ہوگئے۔پہلا پڑائو24کلومیٹر پرتھا،سانس لینے کے بعد ہم لوگ اپنی منزل کی طرف بڑھے۔ابھی چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ غیر معمولی گرمی کا احساس ہوا۔یوں محسوس ہوا جسے ہوا گرم ہو کر جسم سے چھو رہی ہو۔یہ موسم کی گرمی نہ تھی۔میں نے سائیکلنگ سے توجہ ہٹا کر ادھر ادھر دیکھا تو فضا میں کسی چیز کے جلنے کا احساس ہوا پھر اچانک دھوئیں کے بادل دکھائی دیئے۔اس وقت ہم چھ لوگ ساتھ ساتھ تھے۔میں نے پریشان ہو کر نعرہ بلند کیا: ’’ بھاگو،بھاگو! ہم لوگ آگ میں گھر چکے ہیں۔ہم نے پوری رفتار سے سائیکلیں بھگانا شروع کیں لیکن آگ کی رفتار ہم سے زیادہ تھی۔ہم جس سمت بھی جاتے آگ سے سامنا ہوتا۔گھوم پھر کر واپس اسی مقام پر آ جاتے جہاں سے آگ کا سامنا ہوا تھا۔ہم لوگ آگ میں بری طرح سے گھر چکے تھے اوردرجہ حرارت میں اضافہ ہو چکا تھا۔سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔میں نے پانی کی بوتل اپنے سرپر انڈیلی لیکن گرمی کی شدت میں کمی نہ آئی۔آگ بہت تیزی سے پھیل رہی تھی۔مجھے ایک ہی بات پریشان کر رہی تھی جیسا کہ دادا کہا کرتے تھے کہ آگ کی موت سب سے بھیانک ہوتی ہے۔میں اس آگ میں جھلس کر مرنانہیں چاہتی تھی۔ میں نے سائیکل کا رخ چٹان کی طرف کیا اور چڑھائی چڑھنا شروع کی۔اسی اثنا میں آگ میرے کپڑوں کو پکڑچکی تھی۔چلتی سائیکل پر میں نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔میری ٹانگوں کی جلد پگھلنے لگی اور بازو بھی اس کی زد میں آ چکے تھے۔میں چلتی سائیکل سے کود گئی اور لڑھکنے لگی۔مجھے ڈر محسوس ہوا کہ اب میری لاش کسی کھائی سے ہی ملے گی۔میرے کپڑے چیتھڑوں میں بدل چکے تھے اور میں لہو لہو تھی۔ کپڑوں پر لگی آگ تو بجھ گئی لیکن ایسے جیسے کسی نے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہو۔میں نیم بے ہوش تھی کہ اچانک اپنے ساتھیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ان میں سے لیرا سب سے زیادہ زخمی تھی۔ہم دونوں کا 60 فیصد جسم جھلس چکا تھا۔جیک نے میرے حلق میں پانی کے گھونٹ انڈیلے تو جان میں جان آئی۔ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں کہ اچانک ہیلی کاپٹر کی آوازسنائی دی۔جیک نے ہیلی کاپٹر کو سگنلزدیے۔15منٹ میں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔میں 19دن ہسپتال میںزیرِعلاج رہی ۔میرا پورا جسم پٹیوں میںلپٹا ہوا تھا۔جان تو بچ گئی لیکن ڈاکٹروں کو میرا آدھا پائوں کاٹنا پڑا۔سچ تو یہ ہے کہ جان بچ جانے کی خوشی میں پائوں کے کٹنے کا دُکھ بھول گئی۔آج میں آستینوں کے بغیر شرٹ نہیں پہن سکتی کیوں کہ میرا پورا جسم جھلسا ہوا ہے۔ایک برس بعد خدا نے مجھے اس قابل بنا دیا کہ میں مصنوعی پائوںکی مدد سے دن بھر میں 100میٹر سائیکلنگ کر لیتی تھی۔میرے لیے یہ الٹرامیراتھن ریس ہے جسے میں بہت انجوائے کرتی تھی۔پھر جنوری2013کا وہ مبارک دن آیا جب میں دوبارہ ریسنگ ٹریک پر کھڑی تھی اور وسل کے بجنے کا انتظار کر رہی تھی۔جی ہاں میں 100میٹر کی ریس میں حصہ لینے کے لیے کوالیفائی کر چکی تھی۔آج مجھے اپنے زخم اوردرد بھول چکا تھا۔مجھے آج سب کو ہرانا تھا۔خدا نے میرے من کی مرادپوری کی اور اسی شام کو میں وکٹری سٹینڈ پر کھڑی اپنا تمغہ وصول کر رہی تھی۔ یہ واقعہ معروف اتھلیٹ کیٹ سنڈرس کو اس وقت پیش آیا تھا جب وہ میرا تھن ریس میں حصہ لینے آسٹریلیا کے علاقے وکٹوریہ میں آئی تھیں اور بلیو مائونٹین کے جنگل میں لگی آگ میں پھنس گئی تھیں۔یہ جنگل گھاس پھوس اور جھاڑیوں پر مشتمل تھا۔کسی کی لاپرواہی کے نتیجے میں کھلاڑیوں کی جان کے لالے پڑ گئے۔کسی نے جلتا سگریٹ یہاں پھینک دیا تھا اور آگ بھڑک اٹھی۔2009ء میں بھی ایسی ہی لگنے والی آگ میں 173لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے اور دو ہزار سے زائد گھر جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔