View Full Version : Urdu Adab Competition March 2015
Arosa Hya
03-05-2015, 03:02 PM
http://cur.glitter-graphics.net/pub/2422/2422939git2allk04.gif
اس ماہ آپ سب نے جو اقتباس شئیر کرنا ہے وہ "عشق" سے متعلق ہو
Rules
Urdu and Roman Urdu both are allowed
One member ___ one sharing only
Same or Edit share are not acceptable.
Submit before 22. مارچ, 2015
$low Poision
03-05-2015, 04:17 PM
عشق کا عین سے اقتباس
ہر وقت خدا کے احسانات یاد کیا کر۔۔۔غور کیا کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے۔۔یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی۔۔۔۔پھر تو بے بسی محسوس کرئے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے۔۔وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرئے گی۔۔تو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے اتنا نوازا ، تجھ سے محبت کی۔۔۔۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں کروڑوں انسانوں کے بیچ میں تو کتنا حقیر ہے۔۔سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری پہچان نہیں۔۔۔۔۔کوئی تجھ پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالے گا۔۔۔۔۔۔۔کسی کو پروا نہیں ہوگی کہ الہٰی بخش بھی ہے لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے، تیری ضرورت پوری کرتا ہے، تیری بہتری سوچتا ہے اور تجھے اہمیت دیتا ہے۔۔۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوگی اور پھر تجھے خدا سے
عشق
ہوجائے گا..
خدا تک پہنچنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وه محبت ہے. وه محبت جو فرد واحد سے
نہیں، جو انسان سے نہیں بلکہ انسانوں سے کی جاتی ہے. خدا صرف انسانیت سے محبت کرنے سے
ملتا ہے. محبت جذبہ ہے! عشق تو اس جزبے کو بدنام کرکے دیا جانے والا نام ہے، شاعروں اور ادیبوں کی اصطلاح ہے انہوں نے محبت کو بگاڑ بگاڑ کر عشق بنادیا ہے آپ یوں سمجھ لیں کہ
محبت سِرکہ ہے اور عشق شراب ہے ان دونوں کے درمیان واضح فرق ہے یعنی
....سِرکہ حلال ہے، شراب حرام ہے.
محبت میں جب وه مقام آجائے کہ محبوب خدا لگنے لگے اور آپ اسے اپنے لیے ضروری سمجھنے لگیں
تو وہیں رک جانا چاہیے، محبت کو عشق میں گم نہیں ہونےدینا چاہیے. عشق انسان کو کم ظرف بنا دیتا
ہے، اس کی سوچ کو محدود کر دیتا ہے وه معشوق کے گرد طواف کرنے کو جائز قرار دینے لگتا ہے. عشق
میں گم انسان پھر انسان نہیں رہتا. وه انسانیت کے لیے ناکارہ ہونے لگتا ہے میں نے کہا ناں ! ہر وہ چیز جو
آپ کو انسانیت کے مقام سے گِرا دے وہ حرام ہے، تو عشق میں بھی یہی ہوتا ہے۔ انسان ہوش و خرد سے
بیگانہ ہو جاتا ہے اسے اپنے جیسے مٹی گارے سے بنے انسان کی ایسی لگن لگ جاتی ہے کہ اسے کچھ اور سجھائی نہیں دیتا. اس سے بڑی بت پرستی کیا ہوگی کہ مٹی کا باوا مٹی کے باوے کے لیے مجنوں ہو جائے. عشق مجنوں کر دیتا ہے. مجنوں پاگل کو کہتے ہیں اور پاگل پن سے خوف کهانا چاہیے کیونکہ اللہ مجنوں سے اتنا لاپروا ہوتا ہے
کہ وہ پانچ نمازیں جو کسی حال میں معاف نہیں ہوتیں. مجنوں کو وہ بھی معاف ہوجاتی ہیں. عشق تو سرطان
سے بھی بڑا مرض ہے. یہ عشق... عشقِ حقیقی، عشقِ مجازی یہ صرف الفاظ کا ردوبدل ہے. یہ انسان کو مجنوں بنادینے کی چیزیں ہیں. اصل جذبہ "محبت" ہے اور محبت کبھی آپ کو آپ کے مقام سے نہیں گراتی. وہ آپ کو کبھی پاگل پن تک نہیں لاتی۔
اس لیے محبت اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے. میرا اللہ ننانوے ناموں سے مخاطب کیا جا سکتا ہے اور ان ننانوے ناموں میں ...کوئی ایک بھی "عاشق" نہیں ہے. ننانوے نام کھنگال کر دیکھ لیں وہ "محبت" ہے وہ "عاشق" نہیں ہے.
عہدِ الست از تنزیلہ ریاض کی ساتویں قسط سے اقتباس
Arosa Hya
03-14-2015, 01:15 PM
”میرے آقا ۔ میں خام ہوں۔ ناکام ہوں۔ مجھےوہ دیجئے۔ وہ عطا کیجئےجو مجھےکامیاب کر دے۔“
ان الفاظ کےادا ہوتےہی جیسےاس کی زبان پر تالا لگ گیا۔ اس کا سارا جسم ہلکا ہو گیا۔ ہوا سےبھی ہلکا۔ وہ بےوزن ہو گیا۔ اس نےبات ان کی مرضی پہ چھوڑ دی تھی جنہیں اللہ نےاپنا حبیب بنایا اور لوح و قلم پر تصرف عطا کر دیا۔مانگےسےلوگ من کی مرادیں پاتےہیں۔ بِن مانگے‘ اپنی مرضی سےوہ کیا عطا کر دیں‘ کون جان سکتا ہے؟سرمد نےنفع کا سودا کر لیا تھا۔ ایسےنفع کا سودا‘ جس کےلئےاس کےپلےصرف اور صرف عشق کا زر تھا۔ عشق۔۔۔ جس سےاس کا ازلی و ابدی تعلق ظاہر ہو چکا تھا۔ عشق ۔۔۔ جس نےاسےہجر و فراق کی بھٹی میں تپا کر کندن بنانےکی ٹھان لی تھی۔
سرفراز احمد راہی : عشق کا قاف سے اقتباس
Youthful
03-14-2015, 06:30 PM
عشق انسان کو کائنات کے کسی دوسرے حصے میں لے جاتا یے, زمین پر رہنے نہیں دتیا اور عشق لاحاصل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لوگ کہتے ہیں انسان عشق مجازی سے عشق حقیقی تک تب سفر کرتا یے جب عشق لاحاصل رہتا ھے۔ جب انسان جھولی بھر بھر محبت کرے اور خالی دل اور ہاتھ لے کر پھرے۔ ہوتا ہوگا لوگوں کے ساتھ ایسا۔ گزرے ہوں گے لوگ عشق لاحاصل کی منزل سے اور طے کرتے ہوں گے مجازی سے حقیقی تک کے فاصلے.
مگر میری سمت الٹی ہو گئی تھی۔ میں نے عشق حقیقی سے عشق مجازی کا فاصلہ طے کیا تھا۔ مجازی کو نہ پاکر حقیقی تک نہیں گئی تھی حقیقی کو پاکر بھی مجازی تک آگئی تھی اور اب در بہ در پھر رہی تھی۔
اقتباس: عُمیرہ احمد کے ناول "دربار دل" سے
ayesha
03-17-2015, 08:58 PM
http://www.friendskorner.com/forum/photopost/data/567/v60tu0.gif
intelligent086
03-20-2015, 01:23 AM
حکایت
زہرالریاض میں ہے، حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں ایک دن میں خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا، میں نے وہاں ستون کے قریب ایک برہنہ نوجوان مریض کو پڑے دیکھا جس کے دل سے رونے کی آوازیں نکل رہی تھیں، میں نے اس کے قریب جاکر اسے سلام کیا اور پوچھا، تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں ایک غریب الوطن عاشق ہوں۔ میں اس کی بات سمجھ گیا اور میں نے کہا میں بھی تیری طرح ہوں، وہ رو پڑا، اس کا رونا دیکھ کر مجھے بھی رونا آ گیا۔ اس نے مجھے دیکھ کر کہا تم کیوں رو رہو ؟ میں نے کہا، اس لئے کہ تیرا اور میرا مرض ایک ہے۔ اس نے چیخ ماری اور اس کی روح پرواز کر گئی۔ میں نے اس پر اپنا کپڑا ڈالا اور کفن لینے چلا آیا۔ جب میں کفن لیکر واپس پہنچا تو وہ جوان وہاں نہیں تھا۔ میرے منہ سے بیساختہ سبحان اللہ نکلا۔ تب میں نے ہاتفِ غیبی کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا، اے ذوالنون! اس کی زندگی میں شیطان اسے ڈھونڈتا تھا مگر نہ پا سکا، مالکِ دوزخ نے اسے ڈھونڈا مگر نہ پا سکا، رضوانِ جنت نے اسے تلاش کے باوجود نہ پا سکا، میں نے پوچھا وہ پھر کہاں گیا ؟ جواب آیا:۔
ھو فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر۔
اپنے عشق، کثرتِ عبادت اور تعجیلِ توبہ کی وجہ سے وہ اپنے قادر، رب العزت کے حضور پہنچ گیا ہے۔
Powered by Raja Imran® Version 4.2.2 Copyright © 2025 vBulletin Solutions, Inc. All rights reserved.