intelligent086
12-13-2014, 08:36 AM
موٹاپا زندگی کو کم کر سکتا ہے:رپورٹ
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x11466_94247380.jpg.pagespeed.ic.Uf-R9wpjuk.jpg
ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بہت زیادہ موٹاپا انسان کی زندگی کو آٹھ سال تک کم کر کے کئی دہائیوں پر محیط بیماریوں کا باعث بھی بن سکتا ہے۔رپورٹ کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ نو عمری میں موٹاپا صحت اور درازی عمر کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے۔کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی میں تحقیق پر کام کرنے والی ٹیم نے کہا کہ دل کی بیماریاں اور ٹائپ ٹو ذیابیطس معذوری اور موت کا باعث بنتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ اکثر موٹاپے کے نتائج سے ’بے خبر‘ ہوتے ہیں۔لانسٹ ڈائبیٹیز اینڈ اینڈوکرآنولوجی میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ایک کمپوٹر ماڈل کے ذریعے صحت کے خطرات کو چیک کیا گیا اور زندگی بھر درازی عمر پر وزن کے اثرات کا حساب لگایا گیا۔یہ واضح ر ہے کہ جتنا بندے کی عمر کم اور وزن زیادہ ہوگا اتنا اس کی صحت پر اس کا برا اثر ہوگا۔ اس کی باقی ماندہ زندگی صحت کے حوا ے سے خطرات کا شکار رہے گی ۔ اس پر موٹاپے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے حملے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ پروفیسر سٹیون گرور کی تحقیق کے مطابق 50 اور 60 کی دہائی میں موٹاپے کی وجہ سے مردوں کی زندگی 3.7 سال جبکہ عورتوں کی زندگی 5.3 سال کم ہوئی۔ستر کی دہائی میں موٹے مرد اور خواتین کی زندگیوں میں ایک ایک سال کمی واقع ہوئی جبکہ انھیں ایک سال بیماری میں بھی گزارنا پڑا۔پروفیسر سٹیون گرور کہتے ہیں کہ’ہمارا کمپیوٹر ماڈل یہ دکھاتا ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے دل کا عارضہ، سٹروک اور ذیابیطس ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس کے باعث درازی عمر کم ہو جاتی ہے۔‘ ’یہ واضح ہے کہ جتنا بندے کی عمر کم اور وزن زیادہ ہوگا اتنی ہی تیزی سے اس پر بیماریا ں حملہ آور ہوں گی۔ دنیا کے ہر تیسرے بالغ اور ہر چوتھے بچے کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہے جس سے صحت عامہ کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ’لانسیٹ‘ نامی طبی جریدے میں واشنگٹن یونیورسٹی کے ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالوئیشن ادارے کے محققوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ کہ دو ارب سے زیادہ افراد مجموعی طور پر موٹے ہیں یا پھر معمول کے وزن سے زیادہ ہیں۔اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1980ء کے بعد سے کوئی بھی ملک اس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوپایا ۔ٹیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے عصر حاضر میں عوامی صحت کو درپیش مسائل کا اب تک کا جامع مطالعہ کیا ہے جو 1980ء اور 2013ء کے درمیان 188 ممالک سے حاصل کیے جانے والے اعدادو شمار پر محیط ہے۔ عام طور پر اب تک اس کا تعلق کھاتے پیتے خوش حال گھرانوں سے سمجھا جاتا تھا لیکن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے موٹے لوگوں میں سے 62 فیصد لوگ ترقی پذیر ممالک میں سے ہیں۔چین دوسرے نمبر پر ہے تو بھارت تیسرے نمبر پر۔ موٹاپے سے متاثر ملکوں میں پاکستان نویں نمبر پر جبکہ امریکہ نمبر ایک پر ہے۔ روس چوتھے، برازیل پانچویں، میکسیکو چھٹے، مصر ساتویں، جرمنی آٹھویں، اور انڈونیشیا دسویں نمبر پر ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کویت، لیبیا، قطر اور سماؤ میں 50 فی صد سے زیادہ خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ موٹاپا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو سستے، چربی دار، میٹھے، نمکین اور زیادہ کیلویریز والے جنک فوڈکھانوں اور آرام طلب طرز زندگی سے بڑھتا ہے۔یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالوئیشن کے ڈائریکٹر کرسٹوفر مرے کا کہنا ہے کہ ’موٹاپا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر عمر اور آمدنی کے لوگوں کو دنیا بھر میں متاثر کر رہا ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں میں ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جس نے موٹاپے کی شرح کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو۔‘انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر عوامی صحت کے اس بحران کے تدارک کے لیے فوری طور پر اقدام نہیں کیے گئے تو کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں آمدنی میں اضافے کے ساتھ اس میں متواتر اضافہ ہوگا۔‘سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ وزن والے لوگوں کو ہمیشہ دل کی بیماریوں، کینسر، ذیابیطس، گٹھیا اور گردے کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔موٹاپے میں اضافے سے ان عارضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے ہیلتھ کیئر نظام بڑے دباؤ میں ہے۔ اس تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک چوتھائی اور ترقی پذیر ملکوں میں 13 فی صد بچے زیادہ وزن یا موٹوں کی قطار میں کھڑے ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بچوں میں یہ رجحان مشرق وسطیٰ کے ممالک اور شمالی افریقی ممالک میں نظر آتا ہے اور بطور خاص لڑکیوں میں زیادہ ہے۔امریکہ میں 13 فی صد بچے موٹے ہیں اور اگر معمول سے زیادہ وزنی بچوں کا شمار کیا جائے تو یہ شرح 30 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔موٹاپے کی جانب مائل خواتین کی شرح سب سے زیادہ مصر، سعودی عرب، عمان، ہونڈوراز اور بحرین میں ہے تو مردوں میں یہ رجحان سب سے زیادہ نیوزی لینڈ، بحرین، کویت، سعودی عرب اور امریکہ میں ہے۔صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او نے 2025ء تک موٹاپے کی جانب مائل اس رجحان پر پابندی لگانے کا ہدف مقررکر رکھا ہے جس کے بارے میں اس نئی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ ہدف انتہائی حوصلہ مندانہ ہے اور بغیر مجموعی کوششوں اور مزید تحقیق کے اس کا حصول ناممکن ہے۔‘ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک مقابلے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، وسطی امریکہ، بحرالکاہل کے ممالک اور کریبیائی جزائر میں موٹاپے کی جانب تیز میلان جاری ہے۔ ٭٭٭
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x11466_94247380.jpg.pagespeed.ic.Uf-R9wpjuk.jpg
ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بہت زیادہ موٹاپا انسان کی زندگی کو آٹھ سال تک کم کر کے کئی دہائیوں پر محیط بیماریوں کا باعث بھی بن سکتا ہے۔رپورٹ کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ نو عمری میں موٹاپا صحت اور درازی عمر کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے۔کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی میں تحقیق پر کام کرنے والی ٹیم نے کہا کہ دل کی بیماریاں اور ٹائپ ٹو ذیابیطس معذوری اور موت کا باعث بنتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ اکثر موٹاپے کے نتائج سے ’بے خبر‘ ہوتے ہیں۔لانسٹ ڈائبیٹیز اینڈ اینڈوکرآنولوجی میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ایک کمپوٹر ماڈل کے ذریعے صحت کے خطرات کو چیک کیا گیا اور زندگی بھر درازی عمر پر وزن کے اثرات کا حساب لگایا گیا۔یہ واضح ر ہے کہ جتنا بندے کی عمر کم اور وزن زیادہ ہوگا اتنا اس کی صحت پر اس کا برا اثر ہوگا۔ اس کی باقی ماندہ زندگی صحت کے حوا ے سے خطرات کا شکار رہے گی ۔ اس پر موٹاپے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے حملے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ پروفیسر سٹیون گرور کی تحقیق کے مطابق 50 اور 60 کی دہائی میں موٹاپے کی وجہ سے مردوں کی زندگی 3.7 سال جبکہ عورتوں کی زندگی 5.3 سال کم ہوئی۔ستر کی دہائی میں موٹے مرد اور خواتین کی زندگیوں میں ایک ایک سال کمی واقع ہوئی جبکہ انھیں ایک سال بیماری میں بھی گزارنا پڑا۔پروفیسر سٹیون گرور کہتے ہیں کہ’ہمارا کمپیوٹر ماڈل یہ دکھاتا ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے دل کا عارضہ، سٹروک اور ذیابیطس ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس کے باعث درازی عمر کم ہو جاتی ہے۔‘ ’یہ واضح ہے کہ جتنا بندے کی عمر کم اور وزن زیادہ ہوگا اتنی ہی تیزی سے اس پر بیماریا ں حملہ آور ہوں گی۔ دنیا کے ہر تیسرے بالغ اور ہر چوتھے بچے کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہے جس سے صحت عامہ کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ’لانسیٹ‘ نامی طبی جریدے میں واشنگٹن یونیورسٹی کے ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالوئیشن ادارے کے محققوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ کہ دو ارب سے زیادہ افراد مجموعی طور پر موٹے ہیں یا پھر معمول کے وزن سے زیادہ ہیں۔اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1980ء کے بعد سے کوئی بھی ملک اس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوپایا ۔ٹیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے عصر حاضر میں عوامی صحت کو درپیش مسائل کا اب تک کا جامع مطالعہ کیا ہے جو 1980ء اور 2013ء کے درمیان 188 ممالک سے حاصل کیے جانے والے اعدادو شمار پر محیط ہے۔ عام طور پر اب تک اس کا تعلق کھاتے پیتے خوش حال گھرانوں سے سمجھا جاتا تھا لیکن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے موٹے لوگوں میں سے 62 فیصد لوگ ترقی پذیر ممالک میں سے ہیں۔چین دوسرے نمبر پر ہے تو بھارت تیسرے نمبر پر۔ موٹاپے سے متاثر ملکوں میں پاکستان نویں نمبر پر جبکہ امریکہ نمبر ایک پر ہے۔ روس چوتھے، برازیل پانچویں، میکسیکو چھٹے، مصر ساتویں، جرمنی آٹھویں، اور انڈونیشیا دسویں نمبر پر ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کویت، لیبیا، قطر اور سماؤ میں 50 فی صد سے زیادہ خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ موٹاپا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو سستے، چربی دار، میٹھے، نمکین اور زیادہ کیلویریز والے جنک فوڈکھانوں اور آرام طلب طرز زندگی سے بڑھتا ہے۔یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالوئیشن کے ڈائریکٹر کرسٹوفر مرے کا کہنا ہے کہ ’موٹاپا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر عمر اور آمدنی کے لوگوں کو دنیا بھر میں متاثر کر رہا ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں میں ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جس نے موٹاپے کی شرح کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو۔‘انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر عوامی صحت کے اس بحران کے تدارک کے لیے فوری طور پر اقدام نہیں کیے گئے تو کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں آمدنی میں اضافے کے ساتھ اس میں متواتر اضافہ ہوگا۔‘سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ وزن والے لوگوں کو ہمیشہ دل کی بیماریوں، کینسر، ذیابیطس، گٹھیا اور گردے کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔موٹاپے میں اضافے سے ان عارضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے ہیلتھ کیئر نظام بڑے دباؤ میں ہے۔ اس تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک چوتھائی اور ترقی پذیر ملکوں میں 13 فی صد بچے زیادہ وزن یا موٹوں کی قطار میں کھڑے ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بچوں میں یہ رجحان مشرق وسطیٰ کے ممالک اور شمالی افریقی ممالک میں نظر آتا ہے اور بطور خاص لڑکیوں میں زیادہ ہے۔امریکہ میں 13 فی صد بچے موٹے ہیں اور اگر معمول سے زیادہ وزنی بچوں کا شمار کیا جائے تو یہ شرح 30 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔موٹاپے کی جانب مائل خواتین کی شرح سب سے زیادہ مصر، سعودی عرب، عمان، ہونڈوراز اور بحرین میں ہے تو مردوں میں یہ رجحان سب سے زیادہ نیوزی لینڈ، بحرین، کویت، سعودی عرب اور امریکہ میں ہے۔صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او نے 2025ء تک موٹاپے کی جانب مائل اس رجحان پر پابندی لگانے کا ہدف مقررکر رکھا ہے جس کے بارے میں اس نئی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ ہدف انتہائی حوصلہ مندانہ ہے اور بغیر مجموعی کوششوں اور مزید تحقیق کے اس کا حصول ناممکن ہے۔‘ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک مقابلے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، وسطی امریکہ، بحرالکاہل کے ممالک اور کریبیائی جزائر میں موٹاپے کی جانب تیز میلان جاری ہے۔ ٭٭٭