Dr Maqsood Hasni
12-04-2014, 02:32 PM
سپنے اگلے پہر کے
مقصود حسنی
قصور
١٩٨٦
ہائیکو
زیست کس قیامت سے دوچار ہے
پلکوں کی اوٹ میں
تم نے جھانکا نہیں ابھی
یاد میں ان کی شب بھر تڑپا
محبت کو وہ
دماغ کا بخار کہتے رہے
گلا نہیں وضاحت چاہتا ہوں
نفرت بغض اور فاقہ
کیا یہ سب میرے لیے تھے
نیند روٹھ گئ ہے
آنکھوں میں شاید
بس گیا ہے کوئی
انسان ہوں مت ٹھکراؤ
چونٹی بھی اپنے وجود میں
بےکار محض نہیں
بھیک کےٹکڑے پیٹ میں اتار کر
میرا باپ غیرت ایمانی
تلاش رہا تھا مجھ میں
مری جوانی لوٹا دو ورنہ
لٹیروں کی صف میں
تمہارا نام بھی ہو گا
جن آنکھون کو
تم سمندر کہتے ہو
ان آنکھوں کا پانی مر گیا ہے
میں نے رسوا کیا ہے تم کو؟
میں تو چپ کے حصار میں تھا
یہ شرارت تو آنکھوں کی ہے
اسیری زلف آفات جان سہی
میکدے سے آئی صدا
دین دیتا نہیں اس سے نجات
درد کے سمندر میں
تلاش لیتے ہیں لوگ
تنکے نجات کے
کشکول گدائی تھامنے سے پہلے
وہ زندگی کی بانہوں میں تھا
اب چلتا پھرتا ویرانہ ہے
پتھر سینے میں
لعل و گوہر
محبوب پتھر کا پتھر
خوشبو بانٹ دیتا
گلشن میں دفن ہوتا
چھلکتے ساغر سلامت نہیں رہتے
شام سے کچھ پہلے
آنکھ میں افق کے
پھیل گیا کاجل
عجیب چور تھا وہ بھی
جاگتے میں لے گیا
چرا کر دل میرا
ہم تو آزاد منش ہیں ناصح
نبھا ان سے ممکن نہیں اپنا
دو دو جو چار مانتے ہیں
تنہا کب چلتا ہوں میں
میرے ساتھ ہوتا ہے
ہمزاد میری سوجوں کا
سورج بن کر ابھر
اجالا کب لکھا ہے
ترے ہاتھوں کی لکیروں میں
پیمانے توڑتا کیوں ہے
ساقی سے پوچھ کہ اس نے
مے یثربی چھپا دی ہے کہاں
انسان قطرے میں سمندر
خدا کا ادنی کمال ہے
تم اپنا ہنر کہو
تقلید حسین میں
زندگی آج بھی
جبر سے برسرپیکار ہے
درد کا جھونکا
آنکھ کے ساحل پر
یادوں کے سیپ چھوڑ گیا
مجھ میں سکت نہیں
تم کو گوارا نہیں
پھر ملاقات کیسے ہو گی
حالات کی سخت دھوپ میں
اک تنکے کا سایہ مل جائے تو
انسان اپنی اوقات میں نہیں رہتا
اک لقمہ ہو جس کی قیمت
تم ہی کہو وہ سستا انسان
سوچوں پر جھنڈے گاڑے گا؟
آئنہ بھی اپنی پہچان کھو بیٹھا ہے
میک اپ کا کیا کمال ہے
نقلی چہرے‘ نقلی نہیں لگتے
فرات جبر
جوش میں ہے آج
آؤ عمر کا خط تلاش کریں
مائیاں بیٹھی وہ لڑکی
جہیز کے اوراق پر
اندراج ہو رہی تھی
دریا تو اک نقاب تھا ورنہ
ہر اجلے چہرے میں
فرعون کا چہرہ ہو گا
درستی پیمانے کی محتاج ہے
آزادی کے نام پرانسان
پیمانے توڑتا رہا
عصر حاضر کا دعوی ہے
فکروفن میں اب
بیٹا باپ سے پہلے پیدا ہو گا
اپنے لہو سے
بھکاری
آزادی کا دیپ روشن کریں گے؟
زمینی خدا کا دعوی ہے
روٹی کپڑا دوں گا
آؤ امریکہ چلیں
یہی مری تم سے التجا ہے
امریکی گرین کارڑ
ہمراہ میت مرے دفن کرنا
قطرہ ندامت تریاق عصیاں
شعلہء نخوت عذاب حشر
دونوں ہم سفر ہوئے ہیں مرے
یقین اس آنکھ کا کیا
سر محفل جو بے خوف و خطر
سورج کو سورج نہ کہہ سکے
افلاس کی دھوپ میں
کنک کا اک پودا
سایہ اپنا ڈھونڈ رہا تھا
رشوت صاحب کا استحقاق ہے
وسکی اور کوٹھا
سورج کی طرح بے دام نہیں ہیں
امیر سفر کی ابھی بھوک باقی ہے
ماں کے سہگ کا کنگن
ہیرون کی صلیب پر مصلوب کر دو
مر کر جینے والے
کیسے ہوں گے
آؤ جاپان جا کر دیکھیں
مرے شہر کا یہ دستور ہے
خودی بیچنے والے
بڑا نام پاتے ہیں
ہم ناکام رہے ہیں لیکن
ہماری نسل
ارضی خداوں کی قبریں کھودے گی
ٹھنڈک کا شاید میں سزاوار نہ تھا
ان دنوں وہ
رنگین چشمہ لگاتے ہیں
ابن آدم اپنے کمال میں
خدا کی طرح
لازوال ہے
ابھر کر ڈوب رہے ہو
ابھر کر ڈوب جانا
ابن آدم کا شیوا نہیں
کھوج میں تیری کوئ کیوں نکلے
آنکھ بینائی سے محروم
نافہ مشک سے خالی ہے
اکثر شب کو
دل کا جلنا
کام آتا ہے
وہ بولتی تھی
آج تصویر بن کے بیٹھی ہے
سامنے مرے بے بسی مری
شہر میں یہ دھوم ہے
سنتا ہے تو سب کے دکھ
میں زخم زخم ہوں گونگا
مولوی قبر سے ڈراتا ہے
سوچتا ہوں
کیا زندگی عذاب نہیں
لفظوں کو بے آزار نہ جانو
پانی کے اک قطرے سے
شعلے لرز جاتے ہیں
چھین لو گر چھین سکو
منت
استحقاق کی قاتل ہے
جیون کے پچھلے پہر
اگلے پہر کے سپنے
سونے نہیں دیتے اکثر
ملنا ترا راس نہ آیا مجھ کو
مٹی کی عیش ہو گئی
اشکوں سے کھیت سیراب ہوتے ہیں
آنکھ کھلی دیکھا
سائے بڑھ گئے تھے
کوا منڈیر پر بول رہا تھا
میں نے جس شخص کی خاطر
دشت تنہائی میں عمر گزار دی
وہ میرا ہی سر کاٹنے کی فکر میں تھا
جب سے آنکھوں میں بسے ہیں
فضا میں لکھی تحریریں
کب نظر آتی ہیں مجھ کو
کہے پر کب اعتبار رہا ہے
آنکھیں مل جائیں تو
ترے چہرے کی تحریر پڑھوں
آج کھل کے برس پڑو
آئے روز کا برسنا
مار ڈالے گا اک دن مجھ کو
غازہ اتار کر روبرو آؤ
دل کا کوئی تعلق بنے
اصلی چہرے مکار نہیں ہوتے
اپنی حد میں رہو
بڑا بول نہ بولو
بڑے کا حساب بڑا ہوتا ہے
روشنی سورج سے نہ مانگو
اخلاص کے دیپ
من کی قندیل میں رکھ دو
گردش فلک پر صدا گلا رہا
مرگ زندگی
گلا کرتی رہی مجھ سے
حکیم عصر کا کمال ہے
حیات سے گریزا ں ہو کر
قبروں کو لوگ سدھارے
ملنا آسان نہیں‘ ناسہی
کبھی کبھی
اجڑے خواب بسا جایا کرو
جاؤ تمہیں بھی معاف کیا
درماندہ لوگوں سے
کون نبھا کرتا ہے
انتظار کرو
جب بھیک ملے گی
زیست کی مانگ سنواریں گے
اور بڑھا دو
میت کے ساتھ
بیوہ حسراتیں سما نہ سکیں گی
انسان کی ساری شکتی
اب بھوک کا تاج محل
تعمیر کرے گی
شیر درندوں کا شاہ سہی
خونخواری میں
بازی لے گیا انسان
آنکھ جادو شکن تری
مگر مجھ پر اثر نہیں ہو گا
میں کھلونا نہیں چابی کا
شعور جب بیدار ہوا
غلامی کی تابکاری پھیل گئی تھی
آزادی کا آخری موسم تھا
قرض کی راکھ سے
کل بھی
غیرت کا دھواں اٹھ رہا تھا
شکم کی دہلیز کے اس پار
شک کے سائے
دور افق کو چھو رہے تھے
شب ہجر
شمع مرے ساتھ
بہت روئی
سورج کی آخری ہچکی میں
آج بھی اس کا چہرا
لرز رہا تھا
افلاس کی جھونپڑی میں
سر شام
آس کا دیپ ٹمٹما رہا تھا
لب گور شیخ دربار
حسب طیعنت
زہر کو زہر نہ کہہ سکا
زمین اور آسمان جب گلے مل لیتے ہیں
بھوک اور سیری
آپس کے کیوں بیری ہیں
سبد انتظار میں سجا کر
رات میرے لیے
تنہائی کا تحفہ لائ ہے
سہاگ رات
غرض کی میت
سیج پر پڑی کراہ رہی تھی
مری دنیا کے گلاب و کنول
جنم جنم سے
مقروض پیدا ہوتے ہیں
اس کو پا کر
جمود مقدر کر لیا
کنواں ہی سمندر ہو جیسے
صبح کالر پر
راتیں دروازے پر بسر ہوتی ہیں
اب تمیز روز وشب نہیں رہی
مقصود حسنی
قصور
١٩٨٦
ہائیکو
زیست کس قیامت سے دوچار ہے
پلکوں کی اوٹ میں
تم نے جھانکا نہیں ابھی
یاد میں ان کی شب بھر تڑپا
محبت کو وہ
دماغ کا بخار کہتے رہے
گلا نہیں وضاحت چاہتا ہوں
نفرت بغض اور فاقہ
کیا یہ سب میرے لیے تھے
نیند روٹھ گئ ہے
آنکھوں میں شاید
بس گیا ہے کوئی
انسان ہوں مت ٹھکراؤ
چونٹی بھی اپنے وجود میں
بےکار محض نہیں
بھیک کےٹکڑے پیٹ میں اتار کر
میرا باپ غیرت ایمانی
تلاش رہا تھا مجھ میں
مری جوانی لوٹا دو ورنہ
لٹیروں کی صف میں
تمہارا نام بھی ہو گا
جن آنکھون کو
تم سمندر کہتے ہو
ان آنکھوں کا پانی مر گیا ہے
میں نے رسوا کیا ہے تم کو؟
میں تو چپ کے حصار میں تھا
یہ شرارت تو آنکھوں کی ہے
اسیری زلف آفات جان سہی
میکدے سے آئی صدا
دین دیتا نہیں اس سے نجات
درد کے سمندر میں
تلاش لیتے ہیں لوگ
تنکے نجات کے
کشکول گدائی تھامنے سے پہلے
وہ زندگی کی بانہوں میں تھا
اب چلتا پھرتا ویرانہ ہے
پتھر سینے میں
لعل و گوہر
محبوب پتھر کا پتھر
خوشبو بانٹ دیتا
گلشن میں دفن ہوتا
چھلکتے ساغر سلامت نہیں رہتے
شام سے کچھ پہلے
آنکھ میں افق کے
پھیل گیا کاجل
عجیب چور تھا وہ بھی
جاگتے میں لے گیا
چرا کر دل میرا
ہم تو آزاد منش ہیں ناصح
نبھا ان سے ممکن نہیں اپنا
دو دو جو چار مانتے ہیں
تنہا کب چلتا ہوں میں
میرے ساتھ ہوتا ہے
ہمزاد میری سوجوں کا
سورج بن کر ابھر
اجالا کب لکھا ہے
ترے ہاتھوں کی لکیروں میں
پیمانے توڑتا کیوں ہے
ساقی سے پوچھ کہ اس نے
مے یثربی چھپا دی ہے کہاں
انسان قطرے میں سمندر
خدا کا ادنی کمال ہے
تم اپنا ہنر کہو
تقلید حسین میں
زندگی آج بھی
جبر سے برسرپیکار ہے
درد کا جھونکا
آنکھ کے ساحل پر
یادوں کے سیپ چھوڑ گیا
مجھ میں سکت نہیں
تم کو گوارا نہیں
پھر ملاقات کیسے ہو گی
حالات کی سخت دھوپ میں
اک تنکے کا سایہ مل جائے تو
انسان اپنی اوقات میں نہیں رہتا
اک لقمہ ہو جس کی قیمت
تم ہی کہو وہ سستا انسان
سوچوں پر جھنڈے گاڑے گا؟
آئنہ بھی اپنی پہچان کھو بیٹھا ہے
میک اپ کا کیا کمال ہے
نقلی چہرے‘ نقلی نہیں لگتے
فرات جبر
جوش میں ہے آج
آؤ عمر کا خط تلاش کریں
مائیاں بیٹھی وہ لڑکی
جہیز کے اوراق پر
اندراج ہو رہی تھی
دریا تو اک نقاب تھا ورنہ
ہر اجلے چہرے میں
فرعون کا چہرہ ہو گا
درستی پیمانے کی محتاج ہے
آزادی کے نام پرانسان
پیمانے توڑتا رہا
عصر حاضر کا دعوی ہے
فکروفن میں اب
بیٹا باپ سے پہلے پیدا ہو گا
اپنے لہو سے
بھکاری
آزادی کا دیپ روشن کریں گے؟
زمینی خدا کا دعوی ہے
روٹی کپڑا دوں گا
آؤ امریکہ چلیں
یہی مری تم سے التجا ہے
امریکی گرین کارڑ
ہمراہ میت مرے دفن کرنا
قطرہ ندامت تریاق عصیاں
شعلہء نخوت عذاب حشر
دونوں ہم سفر ہوئے ہیں مرے
یقین اس آنکھ کا کیا
سر محفل جو بے خوف و خطر
سورج کو سورج نہ کہہ سکے
افلاس کی دھوپ میں
کنک کا اک پودا
سایہ اپنا ڈھونڈ رہا تھا
رشوت صاحب کا استحقاق ہے
وسکی اور کوٹھا
سورج کی طرح بے دام نہیں ہیں
امیر سفر کی ابھی بھوک باقی ہے
ماں کے سہگ کا کنگن
ہیرون کی صلیب پر مصلوب کر دو
مر کر جینے والے
کیسے ہوں گے
آؤ جاپان جا کر دیکھیں
مرے شہر کا یہ دستور ہے
خودی بیچنے والے
بڑا نام پاتے ہیں
ہم ناکام رہے ہیں لیکن
ہماری نسل
ارضی خداوں کی قبریں کھودے گی
ٹھنڈک کا شاید میں سزاوار نہ تھا
ان دنوں وہ
رنگین چشمہ لگاتے ہیں
ابن آدم اپنے کمال میں
خدا کی طرح
لازوال ہے
ابھر کر ڈوب رہے ہو
ابھر کر ڈوب جانا
ابن آدم کا شیوا نہیں
کھوج میں تیری کوئ کیوں نکلے
آنکھ بینائی سے محروم
نافہ مشک سے خالی ہے
اکثر شب کو
دل کا جلنا
کام آتا ہے
وہ بولتی تھی
آج تصویر بن کے بیٹھی ہے
سامنے مرے بے بسی مری
شہر میں یہ دھوم ہے
سنتا ہے تو سب کے دکھ
میں زخم زخم ہوں گونگا
مولوی قبر سے ڈراتا ہے
سوچتا ہوں
کیا زندگی عذاب نہیں
لفظوں کو بے آزار نہ جانو
پانی کے اک قطرے سے
شعلے لرز جاتے ہیں
چھین لو گر چھین سکو
منت
استحقاق کی قاتل ہے
جیون کے پچھلے پہر
اگلے پہر کے سپنے
سونے نہیں دیتے اکثر
ملنا ترا راس نہ آیا مجھ کو
مٹی کی عیش ہو گئی
اشکوں سے کھیت سیراب ہوتے ہیں
آنکھ کھلی دیکھا
سائے بڑھ گئے تھے
کوا منڈیر پر بول رہا تھا
میں نے جس شخص کی خاطر
دشت تنہائی میں عمر گزار دی
وہ میرا ہی سر کاٹنے کی فکر میں تھا
جب سے آنکھوں میں بسے ہیں
فضا میں لکھی تحریریں
کب نظر آتی ہیں مجھ کو
کہے پر کب اعتبار رہا ہے
آنکھیں مل جائیں تو
ترے چہرے کی تحریر پڑھوں
آج کھل کے برس پڑو
آئے روز کا برسنا
مار ڈالے گا اک دن مجھ کو
غازہ اتار کر روبرو آؤ
دل کا کوئی تعلق بنے
اصلی چہرے مکار نہیں ہوتے
اپنی حد میں رہو
بڑا بول نہ بولو
بڑے کا حساب بڑا ہوتا ہے
روشنی سورج سے نہ مانگو
اخلاص کے دیپ
من کی قندیل میں رکھ دو
گردش فلک پر صدا گلا رہا
مرگ زندگی
گلا کرتی رہی مجھ سے
حکیم عصر کا کمال ہے
حیات سے گریزا ں ہو کر
قبروں کو لوگ سدھارے
ملنا آسان نہیں‘ ناسہی
کبھی کبھی
اجڑے خواب بسا جایا کرو
جاؤ تمہیں بھی معاف کیا
درماندہ لوگوں سے
کون نبھا کرتا ہے
انتظار کرو
جب بھیک ملے گی
زیست کی مانگ سنواریں گے
اور بڑھا دو
میت کے ساتھ
بیوہ حسراتیں سما نہ سکیں گی
انسان کی ساری شکتی
اب بھوک کا تاج محل
تعمیر کرے گی
شیر درندوں کا شاہ سہی
خونخواری میں
بازی لے گیا انسان
آنکھ جادو شکن تری
مگر مجھ پر اثر نہیں ہو گا
میں کھلونا نہیں چابی کا
شعور جب بیدار ہوا
غلامی کی تابکاری پھیل گئی تھی
آزادی کا آخری موسم تھا
قرض کی راکھ سے
کل بھی
غیرت کا دھواں اٹھ رہا تھا
شکم کی دہلیز کے اس پار
شک کے سائے
دور افق کو چھو رہے تھے
شب ہجر
شمع مرے ساتھ
بہت روئی
سورج کی آخری ہچکی میں
آج بھی اس کا چہرا
لرز رہا تھا
افلاس کی جھونپڑی میں
سر شام
آس کا دیپ ٹمٹما رہا تھا
لب گور شیخ دربار
حسب طیعنت
زہر کو زہر نہ کہہ سکا
زمین اور آسمان جب گلے مل لیتے ہیں
بھوک اور سیری
آپس کے کیوں بیری ہیں
سبد انتظار میں سجا کر
رات میرے لیے
تنہائی کا تحفہ لائ ہے
سہاگ رات
غرض کی میت
سیج پر پڑی کراہ رہی تھی
مری دنیا کے گلاب و کنول
جنم جنم سے
مقروض پیدا ہوتے ہیں
اس کو پا کر
جمود مقدر کر لیا
کنواں ہی سمندر ہو جیسے
صبح کالر پر
راتیں دروازے پر بسر ہوتی ہیں
اب تمیز روز وشب نہیں رہی