Aseer e Wafa
11-29-2014, 11:34 AM
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا صرف 12 فیصد روایتی بینکاری کی سہولیات سے استفادہ کررہا ہے جبکہ موبائل فونز ٹیکنالوجی سے رقوم کی ترسیل اور وصول کرنے والے افراد کی شرح 80 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ برانچ لیس بینکنگ کے ذریعہ لوگوں کو موبائل فونز اورعام دکانوں کے ذریعہ بینکنگ کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ڈیجیٹل ادائیگیوں کے شعبہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان برانچ لیس بینکنگ کے حوالے سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی بڑی مارکیٹ کا مقام رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت ایک لاکھ افراد کیلئے بینکوں کی پانچ برانچیں دستیاب ہیں جبکہ عالمی سطح پر اس وقت ایک لاکھ صارفین کیلئے 8.4 بینک برانچز سہولیات فراہم کررہی ہیں۔ حبیب قریشی نے کہا ہے کہ بینک برانچ کے قیام کیلئے زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت ملک کے دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں روایتی بینکنگ کی سہولیات کی فراہمی خاصا مشکل کام ہے کیونکہ ایسے علاقوں میں شرح تعلیم کی کمی ، بہت چھوٹی چھوٹی مالیاتی ضروریات اور بینکنگ کے شعبہ کے حوالے سے عوام میں پائے جانے والے روایتی خدشات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کام کرنے والے تقریباً چالیس بینکوں نے اپنی برانچوں کے نیٹ ورک کو ایک لاکھ سے زیادہ تک توسیع دی ہے تاہم اس کے باوجود ملک کی بڑی آبادی کی رقوم جمع و وصول کرنے ، فنڈز کی منتقلی اور قرضوں کیلئے روایتی بینکاری کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی بینکاری سے محروم افراد سیلولر کمپنیوں کی سروسز سے استفادہ کرتے ہیں۔
اس وقت ملک میں 8 کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد کو بینکاری کی روایتی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں برانچ لیس بینکنگ کے شعبہ کی ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
اس وقت ملک میں 8 کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد کو بینکاری کی روایتی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں برانچ لیس بینکنگ کے شعبہ کی ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں۔