KhUsHi
11-27-2014, 06:40 AM
مجھے آنکھوں دیکھے پر یقین نہیں آرہا تھا
یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے ،لیکن یاد آنے پر اکثر بے چین کردیتا ہے۔میری ایک دوست ندااچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔اس کے پاپا کالکڑی کے فرنیچر
بنانےکاکاروبار تھا،جو خوب پھل پھول رہا تھا۔وہ ہمارے محلے ہی میں رہتی تھی۔ بچپن میں ہم ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے ۔اْس زمانے میں اس کے پاپا کہیں ملازمت کرتے
تھےاور ان کا گھر کسی اور جگہ غالباً فیڈرل بی ایریا میں تھا ۔ آٹھویں جماعت کے بعد اس نے اسکول چھوڑ دیاتھا، کئی برس گزرنے کے بعد اچانک ایک دن اسے اپنے محلے میں دیکھ
کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی ، اس نے بتایاکہ ان لوگوں نےدوبارہ ہمارے علاقے میں بنگلہ خرید لیا ہے،وہ اس وقت فورتھ ایئر میں پڑھ رہی تھی، میں اس سے مل کربے حدپْر جوش
ہو گئی اوراس نےبھی بڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔لیکن ابھی گھروں میں آنا جانا شروع نہیں ہواتھا۔ایک دن وہ اپنی والدہ کے ساتھ ہمارے گھر آئی۔میں نے پہلی بار اس کی امی
کو دیکھا تھا۔وہ بے حد خوش اخلاق اور پْر خلوص خاتون تھیں۔ وہ اپنے ساتھ مٹھائی کا ڈبا لے کر آئی تھی۔انہوں نے ہم لوگوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ امی تو مصروفیت کی
وجہ سے نہیں جاسکی، البتہ میں چلی گئی ۔ ماشاءاللہ بہت شاندار بنگلہ تھااور اسے بڑی نفاست سے سجایا گیا تھا ۔ ندا نے تب بتایا کہ اس کے پاپا نے ملازمت کے ساتھ ساتھ فر نیچر
سازی کا کام بھی شروع کیا تھا، جس میں اللہ نےبرکت دی تو اس کے پاپا نے ملازمت چھوڑ کراپنا پورا وقت اپنے کاروبار کو دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے چندسال ہی میں ان کے
گھر خوش حالی نے ڈیرے ڈال دیے۔ اس روز ان کے گھر حلیم کی دعوت تھی ، جس میں اپنےعزیزوں کے ساتھ ہمیں بھی مدعو کیا تھا۔ گھر میں خا صی چہل پہل تھی
ندا مجھے لے کر اپنے کمرے میں آگئی اور مجھے اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں تفصیل سے بتانے لگی۔اس نے بتایا کہ میری والدہ بہت عبادت گزار ،سخی اور نیک دل خاتون
ہیں ، پاپا کہتے ہیں کہ ان کے کاروبار میں ترقی امی ہی کی دعاؤں کاثمر ہے ۔مجھے ندا کی باتیں سن کر خوشی ہورہی تھی ، حلیم کی دعوت میں اس کے رشتے داروں کے علاوہ محلے کے بھی
کافی لوگ شریک تھے ۔ ندا نے اس مو قعے پر پہننے کیلئے اپنے کپڑے بھی مجھ ہی سے منتخب کروائے ، ماشاءاللہ اس کی وارڈ روب نئے نئے ڈیزائن کے ملبوسات سے بھری ہوئی تھی
وہ بڑے اچھے طریقے سے تیار ہوئی اور مہمانوں نے اسے شائشی جملوں سے نوازا۔اس نے فرداً فرداً اپنی تقر یباً سب ہی رشتے دارخواتین سے میرا تعارف کرایا ، مردوں کیلئے علیحدہ
انتظام کیا گیا تھا ۔نداکے ددھیالی رشتے دار کافی مال دار دکھائی دے رہے تھے ،ان کی خوش حالی ان کے چہروں اور ملبوسات سے عیاں تھی۔ خاص طور پر جب اس نے اپنی چھوٹی
خالہ کاملوایا تو مجھے ان کی خستہ حالی واضح نظر آئی۔ ان کے کپڑے معمولی تھے اور وہ سب سے الگ تھلگ،بے چین سی بیٹھی تھی۔دیگر رشتے دار ان کی طرف متوجہ بھی نہیں تھے
میں نے ندا سے بعد میں پو چھاکہ ان کی یہ خالہ بڑی سنجیدہ مزاج لگ رہی ہیں،کیا ان لوگوں سے تمہاری امی کاکوئی مسئلہ ہے ؟ ندا کہنےلگی ۔ہماری یہ رشیدہ خالہ بہت دْکھی خاتون ہیں
دو سال پہلے ان کے شوہر کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا ۔ میرا ننھیال معاشی طور پر پہلے زیادہ مستحکم نہیں تھا،رشیدہ خالہ پڑھی لکھی نہیں ہیں۔خالو کے انتقال کے بعد انہیں
کوئی کام تو مل نہیں سکتا تھا ،لہٰذا انہوں نے گھر میں پا پڑ بنا کر بیچنے کا کام شروع کردیا۔بڑی مشکل سے ان کی گزر بسرہورہی ہے،بچے بھی زیادہ بڑے نہیں ،دو اسکول میں پڑھ
رہے ہیں اور دو چھو ٹے بچے، اخرا جات پورے نہ ہونے کی وجہ سےپڑھ نہیں جاتے ۔مجھے ندا کی خالہ پر خا صاترس آیا۔ دعوت ختم ہونے کے بعد ندا نے مجھے روک لیا
سب مہمان ایک ایک کرکے چلےگئے تھے ۔گھر کی ماسی بر تن دھو کر فارغ ہوکر ندا کی والدہ کے پاس آکر بیٹھی تھی ۔مجھے خاصی دیر ہو گئی تھی ،میں ان سے اجازت لینے جب
ان کے پاس گئی تو وہ ندا سے بو لی ، ندا ذرا بھاگ کر الماری کا تالا کھول کر میراپرس تو نکال کرلے آؤ۔ندانے مجھے رْکنے کا اشارہ کیا اور پرس لینے ان کے کمرے میں چلی گئی
اس دوران میں ندا کی امی اور ماسی کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتی رہی۔ماسی کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی
ندا کی امی نے اس کی مدد کیلئے برتن اور کپڑوں وغیرہ کا انتظام کیا تھااور وہ کارٹن اس کے گھر بھجوانےکی با تیں کررہی تھی۔ماسی کہہ رہی تھی کہ وہ یہ سامان شام کو اپنے
بیٹے کو بھیج کر ان کے گھر سے منگوالے گی ۔وہ خود آٹھ روز کی رخصت پر جارہی تھی ، اس لیے کام کے بارے میں بتارہی تھی کہ اگلے روز سے وہ اپنی کسی جاننے والی کو
کام پر بھیجے گی ۔ نداکی امی اسے یہ بھی بتا رہی تھی کہ اس کارٹن میں انہوں نے کیا کیا چیزیں رکھوائی ہیں ۔ان کی تفصیل سن کر ایسا لگا کے سارا جہیز ندا کی والدہ ہی نےدیا
ہے۔ بہر حال یہ بات بڑی خوشی کی تھی کہ وہ غریبوں کا کتنا خیال رکھتی تھی ۔ندا پرس لے کر آئی تو اس میں سے ہزار ہزار کے کئی نوٹ نکال کر اپنی ماسی کے حوالے
کر دیے۔ وہ واقعی ضرورت مندوں کا خیال رکھنے والی ہمدردطبیعت خاتون تھی ۔ندا نے بتا یا کہ اس کی امی کبھی بھی زکوٰ ۃ ،صدقہ وخیرات وغیرہ کرنے میں کنجوسی نہیں
کرتی ، شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں برکت بھی دی ہوئی تھی۔میں نے گھر آکر اپنی امی کو بتایا ،وہ بھی بہت متاثر ہوئی۔ندا سے میری ملاقات ہفتے میں
ایک دو بارہو نے لگی تھی ۔اس کا کالج پی ای سی ایچ ایس میں تھااور میں ناظم آباد میں واقع کالج کی طالبہ تھی۔ہمارے فائنل کے امتحانات ہونے والے تھے ،اس لیے
ملاقا توں میں وقفہ آگیا ۔ ایک روز میں کا لج سے نکل رہی تھی کہ ایک عورت کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی ۔ صورت کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔ اس عورت نے بر قع
پہنا ہواتھا ۔اس کے ساتھ چار سال کا بچہ تھا ۔وہ بھکارن تھی اور آتے جاتے لو گوں سے بھیک مانگ رہی تھی۔دہن پر ذرا سا زور دیا ، تو یاد آگیا کہ اسے میں نے ندا کے
گھر حلیم کی دعوت کے روز دیکھا تھا ،وہ خالہ رشیدہ تھی ۔ندا کی سب سے چھوٹی خالہ کو بھکارن کے روپ میں دیکھ میں حیران کھڑی رہی اور ہمت نہیں پڑی کہ ان کے
پھیلے ہوئے ہاتھ پر چند سِکے رکھ سکوں ۔ میں نے اپنے گیٹ کے چو کیدار سے پو چھا ، یہ عورت کیا روزانہ یہاں بھیک مانگنے آتی ہے ؟ چو کیدار نے بتایا کہ ہفتے میں ایک
دو بار آتی ہے ،وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیا آپ اسے جا نتی ہیں ؟ میں نے اسے گول مول جواب دے کر ٹال دیا ، مگر جی یہ چاہا کہ کسی دن ندا کو اپنے ساتھ لے کر آؤں
اور اسے یہ منظر دکھا کر پوچھوں کہ تمہاری والدہ اتنی سخی اور خیرات کے نام پر بے تحا شا خرچ کر نے والی خاتو ن ہیں، تو انہیں اپنی بہن نظر کیوں نہیں آتی ،جو غربت
کے ہاتھوں تنگ آکر دْور کے علاقوں میں بھیک ما نگنے پر مجبور ہو گئی تھی ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ معاشرے میں اپنی نمودو نمائش کے لیے ہم اسلام کی اصل روح کو
نظر انداز کر دیتے ہیں۔ صدقہ ، خیرات اور زکوٰۃ ادا کرنے کا احسن طریقہ اسلام نے یہ بتایا کہ ان پر سب سے پہلا حق اپنے قر یبی رشتے داروں کا ہے ،جو عسرت کی
زندگی بسر کر ہے ہوں ۔ہم ان کی مدد کرنے کے بجائے اپنی زکوٰۃ ایسے لو گوں میں دینا پسند کرتے ہیں ،جن سے معاشرے میں ہماری سخاوت کے خر چے ہوں ۔یہ
کبھی لا علمی میں اور کبھی کج فہمی میں کیا جاتاہے یا پھر اپنی سخاوت کی شہرت کے لیے ۔ نداکی والدہ کا شمار بھی ان میں سے کسی کیٹیگر ی میں ہوتا ہے ۔میں نے کئی بار
سوچاکہ نداکو اس حقیقت سے آشناکراؤں کہ اس کی خالہ کس حال میں پہنچ چکی ہے ، چراغ تلے اندھیرا کے مصداق ، ہزاروں روپے غریب غربا کے نام پر تقسیم
کر تے ہوئے وہ انہیں بھی ایک نظر دیکھ لیں ، جو اپنا حلیہ چھپا کر بھیک مانگ رہی ہیں، تو کیا حرج ہے۔ اگر چہ مجھ میں اب تک یہ اخلا قی جرات پیدا نہیں ہوئی
کہ ندااور اس کی والدہ سے بات کہہ سکوں، لیکن اس واقعے نے میری روح تک کو بے چین کردیا ہے۔
یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے ،لیکن یاد آنے پر اکثر بے چین کردیتا ہے۔میری ایک دوست ندااچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔اس کے پاپا کالکڑی کے فرنیچر
بنانےکاکاروبار تھا،جو خوب پھل پھول رہا تھا۔وہ ہمارے محلے ہی میں رہتی تھی۔ بچپن میں ہم ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے ۔اْس زمانے میں اس کے پاپا کہیں ملازمت کرتے
تھےاور ان کا گھر کسی اور جگہ غالباً فیڈرل بی ایریا میں تھا ۔ آٹھویں جماعت کے بعد اس نے اسکول چھوڑ دیاتھا، کئی برس گزرنے کے بعد اچانک ایک دن اسے اپنے محلے میں دیکھ
کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی ، اس نے بتایاکہ ان لوگوں نےدوبارہ ہمارے علاقے میں بنگلہ خرید لیا ہے،وہ اس وقت فورتھ ایئر میں پڑھ رہی تھی، میں اس سے مل کربے حدپْر جوش
ہو گئی اوراس نےبھی بڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔لیکن ابھی گھروں میں آنا جانا شروع نہیں ہواتھا۔ایک دن وہ اپنی والدہ کے ساتھ ہمارے گھر آئی۔میں نے پہلی بار اس کی امی
کو دیکھا تھا۔وہ بے حد خوش اخلاق اور پْر خلوص خاتون تھیں۔ وہ اپنے ساتھ مٹھائی کا ڈبا لے کر آئی تھی۔انہوں نے ہم لوگوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ امی تو مصروفیت کی
وجہ سے نہیں جاسکی، البتہ میں چلی گئی ۔ ماشاءاللہ بہت شاندار بنگلہ تھااور اسے بڑی نفاست سے سجایا گیا تھا ۔ ندا نے تب بتایا کہ اس کے پاپا نے ملازمت کے ساتھ ساتھ فر نیچر
سازی کا کام بھی شروع کیا تھا، جس میں اللہ نےبرکت دی تو اس کے پاپا نے ملازمت چھوڑ کراپنا پورا وقت اپنے کاروبار کو دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے چندسال ہی میں ان کے
گھر خوش حالی نے ڈیرے ڈال دیے۔ اس روز ان کے گھر حلیم کی دعوت تھی ، جس میں اپنےعزیزوں کے ساتھ ہمیں بھی مدعو کیا تھا۔ گھر میں خا صی چہل پہل تھی
ندا مجھے لے کر اپنے کمرے میں آگئی اور مجھے اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں تفصیل سے بتانے لگی۔اس نے بتایا کہ میری والدہ بہت عبادت گزار ،سخی اور نیک دل خاتون
ہیں ، پاپا کہتے ہیں کہ ان کے کاروبار میں ترقی امی ہی کی دعاؤں کاثمر ہے ۔مجھے ندا کی باتیں سن کر خوشی ہورہی تھی ، حلیم کی دعوت میں اس کے رشتے داروں کے علاوہ محلے کے بھی
کافی لوگ شریک تھے ۔ ندا نے اس مو قعے پر پہننے کیلئے اپنے کپڑے بھی مجھ ہی سے منتخب کروائے ، ماشاءاللہ اس کی وارڈ روب نئے نئے ڈیزائن کے ملبوسات سے بھری ہوئی تھی
وہ بڑے اچھے طریقے سے تیار ہوئی اور مہمانوں نے اسے شائشی جملوں سے نوازا۔اس نے فرداً فرداً اپنی تقر یباً سب ہی رشتے دارخواتین سے میرا تعارف کرایا ، مردوں کیلئے علیحدہ
انتظام کیا گیا تھا ۔نداکے ددھیالی رشتے دار کافی مال دار دکھائی دے رہے تھے ،ان کی خوش حالی ان کے چہروں اور ملبوسات سے عیاں تھی۔ خاص طور پر جب اس نے اپنی چھوٹی
خالہ کاملوایا تو مجھے ان کی خستہ حالی واضح نظر آئی۔ ان کے کپڑے معمولی تھے اور وہ سب سے الگ تھلگ،بے چین سی بیٹھی تھی۔دیگر رشتے دار ان کی طرف متوجہ بھی نہیں تھے
میں نے ندا سے بعد میں پو چھاکہ ان کی یہ خالہ بڑی سنجیدہ مزاج لگ رہی ہیں،کیا ان لوگوں سے تمہاری امی کاکوئی مسئلہ ہے ؟ ندا کہنےلگی ۔ہماری یہ رشیدہ خالہ بہت دْکھی خاتون ہیں
دو سال پہلے ان کے شوہر کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا ۔ میرا ننھیال معاشی طور پر پہلے زیادہ مستحکم نہیں تھا،رشیدہ خالہ پڑھی لکھی نہیں ہیں۔خالو کے انتقال کے بعد انہیں
کوئی کام تو مل نہیں سکتا تھا ،لہٰذا انہوں نے گھر میں پا پڑ بنا کر بیچنے کا کام شروع کردیا۔بڑی مشکل سے ان کی گزر بسرہورہی ہے،بچے بھی زیادہ بڑے نہیں ،دو اسکول میں پڑھ
رہے ہیں اور دو چھو ٹے بچے، اخرا جات پورے نہ ہونے کی وجہ سےپڑھ نہیں جاتے ۔مجھے ندا کی خالہ پر خا صاترس آیا۔ دعوت ختم ہونے کے بعد ندا نے مجھے روک لیا
سب مہمان ایک ایک کرکے چلےگئے تھے ۔گھر کی ماسی بر تن دھو کر فارغ ہوکر ندا کی والدہ کے پاس آکر بیٹھی تھی ۔مجھے خاصی دیر ہو گئی تھی ،میں ان سے اجازت لینے جب
ان کے پاس گئی تو وہ ندا سے بو لی ، ندا ذرا بھاگ کر الماری کا تالا کھول کر میراپرس تو نکال کرلے آؤ۔ندانے مجھے رْکنے کا اشارہ کیا اور پرس لینے ان کے کمرے میں چلی گئی
اس دوران میں ندا کی امی اور ماسی کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتی رہی۔ماسی کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی
ندا کی امی نے اس کی مدد کیلئے برتن اور کپڑوں وغیرہ کا انتظام کیا تھااور وہ کارٹن اس کے گھر بھجوانےکی با تیں کررہی تھی۔ماسی کہہ رہی تھی کہ وہ یہ سامان شام کو اپنے
بیٹے کو بھیج کر ان کے گھر سے منگوالے گی ۔وہ خود آٹھ روز کی رخصت پر جارہی تھی ، اس لیے کام کے بارے میں بتارہی تھی کہ اگلے روز سے وہ اپنی کسی جاننے والی کو
کام پر بھیجے گی ۔ نداکی امی اسے یہ بھی بتا رہی تھی کہ اس کارٹن میں انہوں نے کیا کیا چیزیں رکھوائی ہیں ۔ان کی تفصیل سن کر ایسا لگا کے سارا جہیز ندا کی والدہ ہی نےدیا
ہے۔ بہر حال یہ بات بڑی خوشی کی تھی کہ وہ غریبوں کا کتنا خیال رکھتی تھی ۔ندا پرس لے کر آئی تو اس میں سے ہزار ہزار کے کئی نوٹ نکال کر اپنی ماسی کے حوالے
کر دیے۔ وہ واقعی ضرورت مندوں کا خیال رکھنے والی ہمدردطبیعت خاتون تھی ۔ندا نے بتا یا کہ اس کی امی کبھی بھی زکوٰ ۃ ،صدقہ وخیرات وغیرہ کرنے میں کنجوسی نہیں
کرتی ، شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں برکت بھی دی ہوئی تھی۔میں نے گھر آکر اپنی امی کو بتایا ،وہ بھی بہت متاثر ہوئی۔ندا سے میری ملاقات ہفتے میں
ایک دو بارہو نے لگی تھی ۔اس کا کالج پی ای سی ایچ ایس میں تھااور میں ناظم آباد میں واقع کالج کی طالبہ تھی۔ہمارے فائنل کے امتحانات ہونے والے تھے ،اس لیے
ملاقا توں میں وقفہ آگیا ۔ ایک روز میں کا لج سے نکل رہی تھی کہ ایک عورت کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی ۔ صورت کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔ اس عورت نے بر قع
پہنا ہواتھا ۔اس کے ساتھ چار سال کا بچہ تھا ۔وہ بھکارن تھی اور آتے جاتے لو گوں سے بھیک مانگ رہی تھی۔دہن پر ذرا سا زور دیا ، تو یاد آگیا کہ اسے میں نے ندا کے
گھر حلیم کی دعوت کے روز دیکھا تھا ،وہ خالہ رشیدہ تھی ۔ندا کی سب سے چھوٹی خالہ کو بھکارن کے روپ میں دیکھ میں حیران کھڑی رہی اور ہمت نہیں پڑی کہ ان کے
پھیلے ہوئے ہاتھ پر چند سِکے رکھ سکوں ۔ میں نے اپنے گیٹ کے چو کیدار سے پو چھا ، یہ عورت کیا روزانہ یہاں بھیک مانگنے آتی ہے ؟ چو کیدار نے بتایا کہ ہفتے میں ایک
دو بار آتی ہے ،وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیا آپ اسے جا نتی ہیں ؟ میں نے اسے گول مول جواب دے کر ٹال دیا ، مگر جی یہ چاہا کہ کسی دن ندا کو اپنے ساتھ لے کر آؤں
اور اسے یہ منظر دکھا کر پوچھوں کہ تمہاری والدہ اتنی سخی اور خیرات کے نام پر بے تحا شا خرچ کر نے والی خاتو ن ہیں، تو انہیں اپنی بہن نظر کیوں نہیں آتی ،جو غربت
کے ہاتھوں تنگ آکر دْور کے علاقوں میں بھیک ما نگنے پر مجبور ہو گئی تھی ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ معاشرے میں اپنی نمودو نمائش کے لیے ہم اسلام کی اصل روح کو
نظر انداز کر دیتے ہیں۔ صدقہ ، خیرات اور زکوٰۃ ادا کرنے کا احسن طریقہ اسلام نے یہ بتایا کہ ان پر سب سے پہلا حق اپنے قر یبی رشتے داروں کا ہے ،جو عسرت کی
زندگی بسر کر ہے ہوں ۔ہم ان کی مدد کرنے کے بجائے اپنی زکوٰۃ ایسے لو گوں میں دینا پسند کرتے ہیں ،جن سے معاشرے میں ہماری سخاوت کے خر چے ہوں ۔یہ
کبھی لا علمی میں اور کبھی کج فہمی میں کیا جاتاہے یا پھر اپنی سخاوت کی شہرت کے لیے ۔ نداکی والدہ کا شمار بھی ان میں سے کسی کیٹیگر ی میں ہوتا ہے ۔میں نے کئی بار
سوچاکہ نداکو اس حقیقت سے آشناکراؤں کہ اس کی خالہ کس حال میں پہنچ چکی ہے ، چراغ تلے اندھیرا کے مصداق ، ہزاروں روپے غریب غربا کے نام پر تقسیم
کر تے ہوئے وہ انہیں بھی ایک نظر دیکھ لیں ، جو اپنا حلیہ چھپا کر بھیک مانگ رہی ہیں، تو کیا حرج ہے۔ اگر چہ مجھ میں اب تک یہ اخلا قی جرات پیدا نہیں ہوئی
کہ ندااور اس کی والدہ سے بات کہہ سکوں، لیکن اس واقعے نے میری روح تک کو بے چین کردیا ہے۔