intelligent086
11-21-2014, 09:34 PM
کائنات میں تفکر (http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-11-21/11239)
فتی محمد قاسم قادری جس طرح کسی کی عظمت، قدرت، حکمت اور علم کی معرفت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس کی بنائی ہوئی چیز ہوتی ہے کہ اس میں غوروفکر کرنے سے یہ سب چیزیں آشکار ہو جاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عظمت قدرت، حکمت، وحدانیت اور اس کے علم کی پہچان حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ اس کی پیدا کی ہوئی یہ کائنات ہے۔اس میں موجود تمام چیزیں اپنے خالق کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی اور اس کے جلال و کبریائی کی مظہر ہیں اور ان میں تفکر اور تدبر کرنے سے خالق کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کائنات میں موجود تمام مختلف چیزوں جیسے انسانوں کی تخلیق، زمین و آسمان کی بناوٹ، زمین کی پیداوار، ہوا اور بارش سمندر میں کشتیوں کی روانی، زبانوں اور رنگوں کا اختلاف وغیرہ بے شمار اشیاء میں غوروفکر کرنے کی دعوت اور ترغیب دی گئی تاکہ انسان ان میںغوروفکر کے ذریعے اپنے حقیقی رب کو پہچانے، صرف اسی کی عبادت بجا لائے اور اس کے تمام احکام پر عمل کرے۔ اللہ ربّ العزت نے بنی آدم کو صرف اپنی عبادت وبندگی کیلئے اس دنیائے آب وگل میں بھیجا اورپھر انسانوں کی ہدایت کیلئے وقتاً فوقتاً انبیاء ورسل کو مبعوث فرماتا رہا جو اللہ تعالیٰ کے احکام بندوں تک من وعن پہنچاتے رہے اور آخر میں خاتم النبیین رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایااور نبوت کے سلسلے کوختم فرماکر تاقیامت شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باقی رکھا،لہٰذا اب رہتی دنیا تک دینِ مصطفویؐ ہی کے احکام پر عمل کیاجائے گاکہ اس کے علاوہ دیگر شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔ ان احکام کا دارو مدار چار بنیادی مآخذ قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس پرہے۔واضح رہے کہ قرآن وحدیث سے استدلال واستنباطِ مسائل ہر کس وناکس کا کام نہیں کیونکہ انسان کے لکھے ہوئے کلام کوبھی سمجھنے کیلئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی گھر بیٹھے کتابیں پڑھ کر ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن جاتا بلکہ انہیں سمجھنے کیلئے یونیورسٹیز اور کالجز قائم کئے جاتے ہیں تو پھر کلام اللہ تو کلام اللہ ہے اسے بغیر استاد کیسے سمجھا جا سکتا ہے بلکہ سمجھنا تو دور کی بات ہے بغیر استاد کے اسے درست پڑھنا بھی دشوار ہے ایسے ہی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استدلال واستنباطِ احکام ہر ایک کیلئے ممکن نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد معنی ومرادِ حدیث کو سمجھنا ایک نیا مرحلہ ہے جس کیلئے کئی علوم وفنون میں مہارت کے ساتھ ساتھ، تقویٰ واخلاص ،مجاہدہ ،عبادت وریاضت درکار ہے، تب کہیں جاکر انسان اس مقام پر پہنچتاہے کہ حدیث سے استدلال کرے۔ امام محمدغزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’آسمان اپنے ستاروں، سورج، چاند ان کی حرکت اور طلوع و غروب میں ان کی گردش کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ زمین کا مشاہدہ اس کے پہاڑوں، نہروں، دریائوں حیوانات، نباتات اور ان چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں جیسے بادل، برف گرج چمک، ٹوٹنے والے ستارے اور تیز ہوائیں۔ یہ وہ اجناس ہیں جو آسمانوں، زمینوں اور ان کے درمیان دیکھی جاتی ہیں، پھر ان میں سے ہر جنس کی کئی انواع ہیں، ہر نوع کی کئی اقسام ہیں، ہر قسم کی کئی شاخیں ہیں صفات، ہیئت، ظاہری و باطنی معانی کے اختلاف کی وجہ سے اس کی تقسیم کا سلسلہ کہیں رکتا نہیں۔ زمین و آسمان کے جمادات، نباتات، حیوانات، فلک اور ستاروں میں سے ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کے حرکت دئیے بغیر حرکت نہیں کر سکتا اور ان کی حرکت میں ایک حکمت ہو یا دو، دس ہوں یا ہزار، یہ سب اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہیں اور اس کے جلال و کبریائی پر دلالت کرتی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں اور علامات ہیں۔فی زمانہ مسلمان اللہ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غوروفکر کرنے اور اس کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ کے کمال و جمال اور جلال کی معرفت حاصل کرنے اور اس کے احکام کی بجاآوری کرنے سے انتہائی غفلت کا شکار ہیں اور ان کے علم کی حد صرف یہ رہ گئی ہے جب بھوک لگی تو کھانا کھا لیا، جب پیاس لگی تو پانی پی لیا، جب کام کاج سے تھک گئے تو سو کر آرام کر لیا، جب شہوت نے بے تاب کیا تو حلال یا حرام ذریعے سے اس کی بے تابی کو دُور کر لیا اور جب کسی پر غصہ آیا تو اس سے جھگڑا کر کے غصے کو ٹھنڈا کر لیا، الغرض ہر کوئی اپنے تن کی آسانی میں مست نظر آ رہا ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں ’’اندھا وہ ہی ہے جو اللہ کی تمام صنعتوں کو دیکھے لیکن انہیں پیدا کرنے والے خالق کی عظمت سے مدہوش نہ ہو اور اس کے جلال و جمال پر عاشق نہ ہو۔ ایسا بے عقل انسان حیوانوں کی طرح ہے جو فطرت کے عجائبات اور اپنے جسم میں غوروفکر کرے، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل جو تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اسے ضائع کر دے اور اس سے زیادہ علم نہ رکھے کہ جب بھوک لگے تو کھانا کھا لیا، کسی پر غصہ آئے تو جھگڑا کر لیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فرمائے، آمین۔ ٭…٭…٭
فتی محمد قاسم قادری جس طرح کسی کی عظمت، قدرت، حکمت اور علم کی معرفت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس کی بنائی ہوئی چیز ہوتی ہے کہ اس میں غوروفکر کرنے سے یہ سب چیزیں آشکار ہو جاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عظمت قدرت، حکمت، وحدانیت اور اس کے علم کی پہچان حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ اس کی پیدا کی ہوئی یہ کائنات ہے۔اس میں موجود تمام چیزیں اپنے خالق کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی اور اس کے جلال و کبریائی کی مظہر ہیں اور ان میں تفکر اور تدبر کرنے سے خالق کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کائنات میں موجود تمام مختلف چیزوں جیسے انسانوں کی تخلیق، زمین و آسمان کی بناوٹ، زمین کی پیداوار، ہوا اور بارش سمندر میں کشتیوں کی روانی، زبانوں اور رنگوں کا اختلاف وغیرہ بے شمار اشیاء میں غوروفکر کرنے کی دعوت اور ترغیب دی گئی تاکہ انسان ان میںغوروفکر کے ذریعے اپنے حقیقی رب کو پہچانے، صرف اسی کی عبادت بجا لائے اور اس کے تمام احکام پر عمل کرے۔ اللہ ربّ العزت نے بنی آدم کو صرف اپنی عبادت وبندگی کیلئے اس دنیائے آب وگل میں بھیجا اورپھر انسانوں کی ہدایت کیلئے وقتاً فوقتاً انبیاء ورسل کو مبعوث فرماتا رہا جو اللہ تعالیٰ کے احکام بندوں تک من وعن پہنچاتے رہے اور آخر میں خاتم النبیین رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایااور نبوت کے سلسلے کوختم فرماکر تاقیامت شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باقی رکھا،لہٰذا اب رہتی دنیا تک دینِ مصطفویؐ ہی کے احکام پر عمل کیاجائے گاکہ اس کے علاوہ دیگر شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔ ان احکام کا دارو مدار چار بنیادی مآخذ قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس پرہے۔واضح رہے کہ قرآن وحدیث سے استدلال واستنباطِ مسائل ہر کس وناکس کا کام نہیں کیونکہ انسان کے لکھے ہوئے کلام کوبھی سمجھنے کیلئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی گھر بیٹھے کتابیں پڑھ کر ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن جاتا بلکہ انہیں سمجھنے کیلئے یونیورسٹیز اور کالجز قائم کئے جاتے ہیں تو پھر کلام اللہ تو کلام اللہ ہے اسے بغیر استاد کیسے سمجھا جا سکتا ہے بلکہ سمجھنا تو دور کی بات ہے بغیر استاد کے اسے درست پڑھنا بھی دشوار ہے ایسے ہی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استدلال واستنباطِ احکام ہر ایک کیلئے ممکن نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد معنی ومرادِ حدیث کو سمجھنا ایک نیا مرحلہ ہے جس کیلئے کئی علوم وفنون میں مہارت کے ساتھ ساتھ، تقویٰ واخلاص ،مجاہدہ ،عبادت وریاضت درکار ہے، تب کہیں جاکر انسان اس مقام پر پہنچتاہے کہ حدیث سے استدلال کرے۔ امام محمدغزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’آسمان اپنے ستاروں، سورج، چاند ان کی حرکت اور طلوع و غروب میں ان کی گردش کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ زمین کا مشاہدہ اس کے پہاڑوں، نہروں، دریائوں حیوانات، نباتات اور ان چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں جیسے بادل، برف گرج چمک، ٹوٹنے والے ستارے اور تیز ہوائیں۔ یہ وہ اجناس ہیں جو آسمانوں، زمینوں اور ان کے درمیان دیکھی جاتی ہیں، پھر ان میں سے ہر جنس کی کئی انواع ہیں، ہر نوع کی کئی اقسام ہیں، ہر قسم کی کئی شاخیں ہیں صفات، ہیئت، ظاہری و باطنی معانی کے اختلاف کی وجہ سے اس کی تقسیم کا سلسلہ کہیں رکتا نہیں۔ زمین و آسمان کے جمادات، نباتات، حیوانات، فلک اور ستاروں میں سے ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کے حرکت دئیے بغیر حرکت نہیں کر سکتا اور ان کی حرکت میں ایک حکمت ہو یا دو، دس ہوں یا ہزار، یہ سب اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہیں اور اس کے جلال و کبریائی پر دلالت کرتی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں اور علامات ہیں۔فی زمانہ مسلمان اللہ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غوروفکر کرنے اور اس کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ کے کمال و جمال اور جلال کی معرفت حاصل کرنے اور اس کے احکام کی بجاآوری کرنے سے انتہائی غفلت کا شکار ہیں اور ان کے علم کی حد صرف یہ رہ گئی ہے جب بھوک لگی تو کھانا کھا لیا، جب پیاس لگی تو پانی پی لیا، جب کام کاج سے تھک گئے تو سو کر آرام کر لیا، جب شہوت نے بے تاب کیا تو حلال یا حرام ذریعے سے اس کی بے تابی کو دُور کر لیا اور جب کسی پر غصہ آیا تو اس سے جھگڑا کر کے غصے کو ٹھنڈا کر لیا، الغرض ہر کوئی اپنے تن کی آسانی میں مست نظر آ رہا ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں ’’اندھا وہ ہی ہے جو اللہ کی تمام صنعتوں کو دیکھے لیکن انہیں پیدا کرنے والے خالق کی عظمت سے مدہوش نہ ہو اور اس کے جلال و جمال پر عاشق نہ ہو۔ ایسا بے عقل انسان حیوانوں کی طرح ہے جو فطرت کے عجائبات اور اپنے جسم میں غوروفکر کرے، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل جو تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اسے ضائع کر دے اور اس سے زیادہ علم نہ رکھے کہ جب بھوک لگے تو کھانا کھا لیا، کسی پر غصہ آئے تو جھگڑا کر لیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فرمائے، آمین۔ ٭…٭…٭