intelligent086
11-10-2014, 10:41 PM
قبلہ محترم
وہ ہمیشہ سے میرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے۔ جس زمانے میں میرے خسر نہیں بنے تھے تو پھوپا ہوا کرتے تھے اور پھوپا بننے سے پہلے میں انہیں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھی یقیناً وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت میں نے بولنا شروع نہیں کیا تھا۔ ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور میں رشتے ناتے ابلی ہوئی سویوں کی طرح الجھے اور پیچ در پیچ گھتے ہوتے ہیں۔ ایسا جلالی، ایسا مغلوب الغضب آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا تو میری عمر آدھی ادھر، آدھی ادھر، چالیس کے لگ بھگ تو ہوگی۔ لیکن صاحب! جیسی دہشت ان کی آنکھیں دیکھ کر چھٹ پن میں ہوئی تھی، ویسے ہی نہ صرف ان کے آخری دم تک رہی، بلکہ میرے آخری دم تک بھی رہے گی۔ بڑی بڑی آنکھیں اپنے ساکٹ سے نکلی پڑتی تھیں۔ لال سرخ، ایسی ویسی؟ بالکل خون کبوتر! لگتا تھا بڑی بڑی پتلیوں کے گرد لال ڈوروں سے ابھی خون کے فوارے چھوٹنے لگیں گے اور میرا منہ خونم خون ہوجائے گا۔ ہر وقت غصے میں بھرے رہتے تھے۔ ’’جنے کیوں‘‘ گالی ان کا تکیہ کلام تھی اور جو رنگ تقریر کا تھا وہی تحریر کا۔ رکھ ہاتھ نکلتا ہے دھواں مغز قلم سے۔ ظاہر ہے کچھ ایسے لوگوں سے بھی پالا پڑتا تھا جنہیں بوجوہ گالی نہیں دے سکتے۔ ایسے موقعوں پر زبان سے تو کچھ نہ کہتے لیکن چہرے پر ایسا ایکسپریشن لاتے کہ قد آدم گالی نظر آتے۔ کس کی شامت آئی تھی کہ ان کی کسی بھی رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار، اگر کوئی شخص محض ڈر کے مارے ان کی رائے سے اتفاق کرلیتا تو فوراً اپنی رائے تبدیل کرکے الٹے اس کے سر ہوجاتے۔
ارے صاحب! بات اور گفتگو تو بعد کی بات ہے، بعض اوقات محض سلام سے مشتعل ہوجاتے تھے۔ آپ کچھ بھی کہیں، کیسی ہی سچی اور سامنے کی بات کہیں وہ اس کی تردید ضرور کریں گے۔ کسی کی رائے سے اتفاق کرنے میں اپنی سبکی سمجھتے تھے۔ ان کا ہر جملہ ’’نہیں‘‘ سے شروع ہوتا تھا۔ ایک دن کانپور میں کڑاکے کی سردی پڑرہی تھی۔ میرے منہ سے نکل گیا کہ ’’آج بڑی سردی ہے۔‘‘ بولے۔ ’’نہیں، کل اس سے زیادہ پڑے گی۔‘‘
(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’آب گم‘‘ سے اقتباس)
وہ ہمیشہ سے میرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے۔ جس زمانے میں میرے خسر نہیں بنے تھے تو پھوپا ہوا کرتے تھے اور پھوپا بننے سے پہلے میں انہیں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھی یقیناً وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت میں نے بولنا شروع نہیں کیا تھا۔ ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور میں رشتے ناتے ابلی ہوئی سویوں کی طرح الجھے اور پیچ در پیچ گھتے ہوتے ہیں۔ ایسا جلالی، ایسا مغلوب الغضب آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا تو میری عمر آدھی ادھر، آدھی ادھر، چالیس کے لگ بھگ تو ہوگی۔ لیکن صاحب! جیسی دہشت ان کی آنکھیں دیکھ کر چھٹ پن میں ہوئی تھی، ویسے ہی نہ صرف ان کے آخری دم تک رہی، بلکہ میرے آخری دم تک بھی رہے گی۔ بڑی بڑی آنکھیں اپنے ساکٹ سے نکلی پڑتی تھیں۔ لال سرخ، ایسی ویسی؟ بالکل خون کبوتر! لگتا تھا بڑی بڑی پتلیوں کے گرد لال ڈوروں سے ابھی خون کے فوارے چھوٹنے لگیں گے اور میرا منہ خونم خون ہوجائے گا۔ ہر وقت غصے میں بھرے رہتے تھے۔ ’’جنے کیوں‘‘ گالی ان کا تکیہ کلام تھی اور جو رنگ تقریر کا تھا وہی تحریر کا۔ رکھ ہاتھ نکلتا ہے دھواں مغز قلم سے۔ ظاہر ہے کچھ ایسے لوگوں سے بھی پالا پڑتا تھا جنہیں بوجوہ گالی نہیں دے سکتے۔ ایسے موقعوں پر زبان سے تو کچھ نہ کہتے لیکن چہرے پر ایسا ایکسپریشن لاتے کہ قد آدم گالی نظر آتے۔ کس کی شامت آئی تھی کہ ان کی کسی بھی رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار، اگر کوئی شخص محض ڈر کے مارے ان کی رائے سے اتفاق کرلیتا تو فوراً اپنی رائے تبدیل کرکے الٹے اس کے سر ہوجاتے۔
ارے صاحب! بات اور گفتگو تو بعد کی بات ہے، بعض اوقات محض سلام سے مشتعل ہوجاتے تھے۔ آپ کچھ بھی کہیں، کیسی ہی سچی اور سامنے کی بات کہیں وہ اس کی تردید ضرور کریں گے۔ کسی کی رائے سے اتفاق کرنے میں اپنی سبکی سمجھتے تھے۔ ان کا ہر جملہ ’’نہیں‘‘ سے شروع ہوتا تھا۔ ایک دن کانپور میں کڑاکے کی سردی پڑرہی تھی۔ میرے منہ سے نکل گیا کہ ’’آج بڑی سردی ہے۔‘‘ بولے۔ ’’نہیں، کل اس سے زیادہ پڑے گی۔‘‘
(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’آب گم‘‘ سے اقتباس)