intelligent086
11-07-2014, 07:36 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x11092_89139067.jpg.pagespeed.ic.hUDsDuM1ld .jpg
محمدسعید جاوید
گائوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کی عزت کرتے اور ہر مسئلے میں اچھی سماجی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر طرح سے ضرورت مند کی دستگیری کرتے تھے۔ہر آتے جاتے کو سلام کرنا اور اس کی خیریت پوچھنا ایک اچھی ریت روائت تھی، گائوں سے گزرتے ہوئے مسافروں کو ہر قدم پر کوئی نہ کوئی روک کر لسّی پانی یا کھانے کے لیے مدعو کرتا۔ یہ دعوت محض رسمی نہیں ہوتی تھی بلکہ اس میں صرف خلوص ہوتا تھا جس کا مظاہرہ اتنی محبت سے کیا جاتا تھا کہ نہ تو مہمان کی عزت نفس مجروح ہوتی تھی اور نہ ہی میزبان زیادہ تکلّفات میں پڑتے جو بھی اس وقت اس کے ڈیرے یا گھر میں موجود ہوتا اس کے سامنے رکھ دیتے۔ گائوں کے مسافر بھی عجیب ہوتے تھے، گائوںمیں داخل ہونے سے کافی پہلے ہی مرد اپنی سواری سے، جو عموماً اونٹ یا گھوڑا ہوتا تھا، نیچے اتر جاتے تھے۔ کوئی ایسا کرنے کو کہتا تھا اور نہ ہی ایسا کوئی معاہدہ یا طریقہ کار تھا لیکن انھیں گھروں میں رہنے والی خواتین کی بے پردگی کا اتنا احساس ہوتا تھا کہ کسی کو تانک جھانک کا شائبہ تک بھی نہ ہوتا تھا۔ وہ سر جھکا کرچپ چاپ گائوں کی گلیوں میں سے گزر جاتے۔ ہر گھر میں ایک مخصوص چارپائی اور ایک صاف ستھرا بستر علیحدہ سے رکھا ہوتا تھا، چارپائی کے پائے، دری، کھیس اور سرہانے کے کونوں پر پکّی روشنائی سے گھر کے مالک کا نام اور ولدیت لکھی ہوتی تھی جیسے ہی گائوں والوں کو کسی گھر میں شادی یا کسی اور تقریب کا علم ہوتا وہ ان کی ضرورت کا احساس کر کے خود ہی مقررہ چارپائی اور بستر وہاں پہنچا دیا کرتے تھے جسے مہمانوں کی رخصتی کے بعد واپس بھیج دیا جاتا تھا۔ اسی طرح کسی کی فوتگی کی اطلاع پر سارے محلے والے اپنے روزمرہ کے کام روک کر فوراً وہاں پہنچ جاتے اور غمزدہ خاندان کے گھر کا سارا نظام خود سنبھال لیتے اور گھر آئے ہوئے سوگواروں کے لیے کھانے کا بندوبست کرتے تھے۔ زیادہ تر یہ کام پڑوسی یا رشتے دار انجام دیتے تھے۔ اس دوران سارے گائوں کی مصروفیات معّطل ہو جاتیں اور لوگ جوق در جوق میّت والے گھر میں پہنچ جاتے۔ مرد تو باہر ہی بیٹھ جاتے اور خواتین میّت کے پاس دو دو کی جوڑیاں بنا کر بیٹھ جاتیں اور گلے مل کر بین شروع کر دیتیں، بیچ میں رک کر وہ جانے والی شخصیت کی صرف اچھائیاں بیان کرتی تھیں اور اپنی بات پر زور دینے کے لیے جنت مکانی کے کچھ فرضی قصّے اور خوبیاں بھی بیان کرتی تھیں جن کا علم صرف انھیں ہی ہوتا تھا۔ وارثوں کو تسّلیاں بھی اسی رونے دھونے کے دوران دے دی جاتیں تھیں اور ساتھ آئے ہوئے اپنے بچوں کو ہدایت نامہ بھی جاری کرتی جاتی تھیں،کن انکھیوں سے یہ بھی دیکھتی جاتی تھیں کہ ان کے درد بھرے بین سے گھر والے متاثر بھی ہو رہے ہیں یا نہیں۔ یہ سلسلہ کھانے کے بٹوارے تک چلتا رہتا اورپھر ایک ایک کر کے رخصت ہو جاتیں، اور گھر میں سکون ہو جاتا۔ چوری کا تصوریہاں ابھی آیا نہیں تھا اس لیے نہ صرف یہ کہ گھر کا کوئی بیرونی دروازہ نہیں ہوتا تھا بلکہ گھرکے اکلوتے کمرے کو بھی تالا نہیں لگتا تھا ، باہرجاتے وقت صرف زنجیر والا کنڈا ا لگادیا جاتا اور و ہ بھی محض اس لیے کہ بعد میںکواڑ ہوا سے بجتے نہ رہیں یا پھر کوئی آوارہ جانور اندر نہ گھس جائے۔ دراصل وہاں چرانے کے لیے کچھ ہوتا ہی نہیں تھا۔ ہاں کبھی کبھار رات کو کسی کے ڈیرے سے کوئی بھینس کھول کر لے جاتا تو گائوں کا کھوجی ایک دو دن میں مالک کو چورکے دروازے پر پہنچا دیتا تھا۔ جہاں اس کو سب کی موجودگی میں جوتے لگا کر ذلیل کیا جاتا ،اور کچھ گالم گلوچ کرکے اپنا جانور واپس لے آتے۔ عدالتوں اور قانونی مو شگافیوں کی کسی میں ہمت تھی اور نہ ہی وقت۔ اس لیے وہ ہر اس کام سے بچتے تھے جس کا دوسرا سرا تھانے یا کچہریوں تک پہنچتا تھا۔ اتنی پیار محبت ہونے کے باوجود آپس میں کبھی نہ کبھی کوئی تلخی ہو بھی جاتی تھی جسے مل بیٹھ کر کچھ بزرگوں اور نمبردار کی موجودگی میں حل کر لیا جاتا، جو فریقین کو سمجھا بجھا کر ان کا غصہ ٹھنڈا کر دیتے۔ اور جب وہ وہاں سے اٹھتے تو سب کچھ فراموش کر چکے ہوتے تھے اور زندگی پرانی ڈگر پر چل پڑتی۔ گرمیوں کے دن بڑے طویل ہوتے تھے اتنے لمبے کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتے تھے، سخت گرمی، مکھّیاں اور لو خواتین کو دو گھڑی کمر سیدھی کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی تھی۔اس لیے ساری دوپہر وہ کمروں میں یا چھپرّتلے بیٹھی دریاں یا ازار بند بنتی رہتیں اور لڑکیاں بالیاں کروشیئے سے کڑھائیاں کرتیں۔ گھر کے مرد وں کے لیے بھی گرمیوں کی دوپہر بہت ہی اذیت ناک ہوتی تھی، بے پناہ حبس اور مکھیوں کی یلغار ان کو گھڑی بھر کے لیے آنکھ نہ لگانے دیتی، دستی پنکھا جھلتے جھلتے نیند کی ایک لہر سی آتی اور پنکھا ہاتھ سے چھٹ کر سینے پر گر جاتااورآنکھیں بند ہوجاتیں، جب ذرا سا سکون آتا تو رواں دواںپسینے کی گدگدی یا کسی مکھی کے ناک میں گھس جانے پر وہ ہڑبڑا کر اٹھتے، خالی خالی اور حیران کن نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ،حالات کی نوعیت کو سمجھ کر دوبارہ پنکھا اٹھا کر مشینی انداز جلدی جلدی ہاتھ ہلانے لگتے اور ایک بار پھر اٹھنے کے لیے نیند کی نسبتاً کم گہری وادیوں میں اتر جاتے۔ ہماری بیٹھک کی چھت کے عین وسط میں رسوں سے بندھا ہوا ایک بھاری بھر کم شہتیرتھا، جس پر موٹے دری نما کپڑے کا بنا ہواایک پنکھاجھالر کی طرح لٹکاہواتھا اور اسے ایک لمبی رسی سے باندھ کرکسی ملازم کو تھما دیا جاتا تھا جو باہر بیٹھا دھیرے دھیرے رسی کھینچتا رہتا تھا، پنکھا آگے پیچھے ہلتا اور یوں اس کے نیچے بیٹھے یا لیٹے ہوئے لوگوں کوہلکی پھلکی ہواآتی رہتی ، اس طرح کسی غریب انسان کا استحصال کر کے دو گھڑی کا سکون حاصل کر لیا جاتا تھا۔ گھر میں کوئی تقریب تھی اور بہت سارے لوگ بیٹھک میں موجود تھے ، باہر بیٹھا ملازم حسب معمول پنکھا جھل رہا تھا،ا س دن کم بخت کسی بات پر تپا بیٹھا تھا ، جوش میں آکر زیادہ زور لگا دیا ،رسہ پہلے ہی کثرت استعمال سے گھس گیا تھا سو جھٹکا برداشت نہ کر سکا اور ٹوٹ گیا، دو تین من وزنی شہتیرایک دھماکے سے نیچے گرا، اکثر لوگ تو عین وقت پر اٹھ کر بھاگ گئے یا ادھر ادھر ہو گئے پر تایا رحمت علی نہ بھاگ سکا اور اس کا شکار ہوا ۔وہ پنکھے کے ساتھ ہی زمین پر گرا مگر گرنے سے پہلے وہ ایک واضح اعلان کر گیا کہ ’’ لو بھئی دوستو میں تو چلا،میرا کلمہ پڑھ لو۔‘‘ قدرتی طور پر سب پریشان ہو گئے، بابے کو تسلی دی اور حوصلہ بلند رکھنے کو کہا گیا، پھر گڑ والا شربت پلایا تو وہ حیران کن طور پرسنبھل گیا اور کندھا پکڑے ہائے ہائے کرتا وہاں سے رخصت ہو گیا۔ اس کے بعد وہ پنکھا وہاں نظر نہ آیا۔ عصر کی اذان کے بعد موسم اس قابل ہوتا کہ وہ لوگ باہر نکلتے اور شام کے کھانے کی تیاریاں شروع ہو جاتیں۔شام کا کھانا مغرب سے ذرا پہلے کھا لیا جاتا تھا، گرمیوں میں تو لوگ کھانے کے بعد ہوشیار ہوتے اور باہر نکل جاتے لیکن سردیوں میں تو فوراً لحافوں میں گھس جاتے اور عشاء کے وقت سارے گائوں میں دو چار بزرگ ہی کھانس کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے وہ بھی صرف اس لیے جاگتے رہتے تھے کہ انھیں عشاء کی نماز پڑھ کر ہی سونا ہوتا تھا۔ صبح پہلے پہر ہی لوگ اٹھ جاتے تھے اور اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔ ایک نیا دن شروع ہو جاتا جس میں شاید کچھ بھی نیا نہیں ہوتا تھا اور ایک بار پھر سارے سلسلے اسی ترتیب سے شروع ہو جاتے۔ ( کتاب ’’ اچھی گزر گئی...‘‘ سے ماخوذ) ٭…٭…٭
محمدسعید جاوید
گائوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کی عزت کرتے اور ہر مسئلے میں اچھی سماجی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر طرح سے ضرورت مند کی دستگیری کرتے تھے۔ہر آتے جاتے کو سلام کرنا اور اس کی خیریت پوچھنا ایک اچھی ریت روائت تھی، گائوں سے گزرتے ہوئے مسافروں کو ہر قدم پر کوئی نہ کوئی روک کر لسّی پانی یا کھانے کے لیے مدعو کرتا۔ یہ دعوت محض رسمی نہیں ہوتی تھی بلکہ اس میں صرف خلوص ہوتا تھا جس کا مظاہرہ اتنی محبت سے کیا جاتا تھا کہ نہ تو مہمان کی عزت نفس مجروح ہوتی تھی اور نہ ہی میزبان زیادہ تکلّفات میں پڑتے جو بھی اس وقت اس کے ڈیرے یا گھر میں موجود ہوتا اس کے سامنے رکھ دیتے۔ گائوں کے مسافر بھی عجیب ہوتے تھے، گائوںمیں داخل ہونے سے کافی پہلے ہی مرد اپنی سواری سے، جو عموماً اونٹ یا گھوڑا ہوتا تھا، نیچے اتر جاتے تھے۔ کوئی ایسا کرنے کو کہتا تھا اور نہ ہی ایسا کوئی معاہدہ یا طریقہ کار تھا لیکن انھیں گھروں میں رہنے والی خواتین کی بے پردگی کا اتنا احساس ہوتا تھا کہ کسی کو تانک جھانک کا شائبہ تک بھی نہ ہوتا تھا۔ وہ سر جھکا کرچپ چاپ گائوں کی گلیوں میں سے گزر جاتے۔ ہر گھر میں ایک مخصوص چارپائی اور ایک صاف ستھرا بستر علیحدہ سے رکھا ہوتا تھا، چارپائی کے پائے، دری، کھیس اور سرہانے کے کونوں پر پکّی روشنائی سے گھر کے مالک کا نام اور ولدیت لکھی ہوتی تھی جیسے ہی گائوں والوں کو کسی گھر میں شادی یا کسی اور تقریب کا علم ہوتا وہ ان کی ضرورت کا احساس کر کے خود ہی مقررہ چارپائی اور بستر وہاں پہنچا دیا کرتے تھے جسے مہمانوں کی رخصتی کے بعد واپس بھیج دیا جاتا تھا۔ اسی طرح کسی کی فوتگی کی اطلاع پر سارے محلے والے اپنے روزمرہ کے کام روک کر فوراً وہاں پہنچ جاتے اور غمزدہ خاندان کے گھر کا سارا نظام خود سنبھال لیتے اور گھر آئے ہوئے سوگواروں کے لیے کھانے کا بندوبست کرتے تھے۔ زیادہ تر یہ کام پڑوسی یا رشتے دار انجام دیتے تھے۔ اس دوران سارے گائوں کی مصروفیات معّطل ہو جاتیں اور لوگ جوق در جوق میّت والے گھر میں پہنچ جاتے۔ مرد تو باہر ہی بیٹھ جاتے اور خواتین میّت کے پاس دو دو کی جوڑیاں بنا کر بیٹھ جاتیں اور گلے مل کر بین شروع کر دیتیں، بیچ میں رک کر وہ جانے والی شخصیت کی صرف اچھائیاں بیان کرتی تھیں اور اپنی بات پر زور دینے کے لیے جنت مکانی کے کچھ فرضی قصّے اور خوبیاں بھی بیان کرتی تھیں جن کا علم صرف انھیں ہی ہوتا تھا۔ وارثوں کو تسّلیاں بھی اسی رونے دھونے کے دوران دے دی جاتیں تھیں اور ساتھ آئے ہوئے اپنے بچوں کو ہدایت نامہ بھی جاری کرتی جاتی تھیں،کن انکھیوں سے یہ بھی دیکھتی جاتی تھیں کہ ان کے درد بھرے بین سے گھر والے متاثر بھی ہو رہے ہیں یا نہیں۔ یہ سلسلہ کھانے کے بٹوارے تک چلتا رہتا اورپھر ایک ایک کر کے رخصت ہو جاتیں، اور گھر میں سکون ہو جاتا۔ چوری کا تصوریہاں ابھی آیا نہیں تھا اس لیے نہ صرف یہ کہ گھر کا کوئی بیرونی دروازہ نہیں ہوتا تھا بلکہ گھرکے اکلوتے کمرے کو بھی تالا نہیں لگتا تھا ، باہرجاتے وقت صرف زنجیر والا کنڈا ا لگادیا جاتا اور و ہ بھی محض اس لیے کہ بعد میںکواڑ ہوا سے بجتے نہ رہیں یا پھر کوئی آوارہ جانور اندر نہ گھس جائے۔ دراصل وہاں چرانے کے لیے کچھ ہوتا ہی نہیں تھا۔ ہاں کبھی کبھار رات کو کسی کے ڈیرے سے کوئی بھینس کھول کر لے جاتا تو گائوں کا کھوجی ایک دو دن میں مالک کو چورکے دروازے پر پہنچا دیتا تھا۔ جہاں اس کو سب کی موجودگی میں جوتے لگا کر ذلیل کیا جاتا ،اور کچھ گالم گلوچ کرکے اپنا جانور واپس لے آتے۔ عدالتوں اور قانونی مو شگافیوں کی کسی میں ہمت تھی اور نہ ہی وقت۔ اس لیے وہ ہر اس کام سے بچتے تھے جس کا دوسرا سرا تھانے یا کچہریوں تک پہنچتا تھا۔ اتنی پیار محبت ہونے کے باوجود آپس میں کبھی نہ کبھی کوئی تلخی ہو بھی جاتی تھی جسے مل بیٹھ کر کچھ بزرگوں اور نمبردار کی موجودگی میں حل کر لیا جاتا، جو فریقین کو سمجھا بجھا کر ان کا غصہ ٹھنڈا کر دیتے۔ اور جب وہ وہاں سے اٹھتے تو سب کچھ فراموش کر چکے ہوتے تھے اور زندگی پرانی ڈگر پر چل پڑتی۔ گرمیوں کے دن بڑے طویل ہوتے تھے اتنے لمبے کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتے تھے، سخت گرمی، مکھّیاں اور لو خواتین کو دو گھڑی کمر سیدھی کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی تھی۔اس لیے ساری دوپہر وہ کمروں میں یا چھپرّتلے بیٹھی دریاں یا ازار بند بنتی رہتیں اور لڑکیاں بالیاں کروشیئے سے کڑھائیاں کرتیں۔ گھر کے مرد وں کے لیے بھی گرمیوں کی دوپہر بہت ہی اذیت ناک ہوتی تھی، بے پناہ حبس اور مکھیوں کی یلغار ان کو گھڑی بھر کے لیے آنکھ نہ لگانے دیتی، دستی پنکھا جھلتے جھلتے نیند کی ایک لہر سی آتی اور پنکھا ہاتھ سے چھٹ کر سینے پر گر جاتااورآنکھیں بند ہوجاتیں، جب ذرا سا سکون آتا تو رواں دواںپسینے کی گدگدی یا کسی مکھی کے ناک میں گھس جانے پر وہ ہڑبڑا کر اٹھتے، خالی خالی اور حیران کن نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ،حالات کی نوعیت کو سمجھ کر دوبارہ پنکھا اٹھا کر مشینی انداز جلدی جلدی ہاتھ ہلانے لگتے اور ایک بار پھر اٹھنے کے لیے نیند کی نسبتاً کم گہری وادیوں میں اتر جاتے۔ ہماری بیٹھک کی چھت کے عین وسط میں رسوں سے بندھا ہوا ایک بھاری بھر کم شہتیرتھا، جس پر موٹے دری نما کپڑے کا بنا ہواایک پنکھاجھالر کی طرح لٹکاہواتھا اور اسے ایک لمبی رسی سے باندھ کرکسی ملازم کو تھما دیا جاتا تھا جو باہر بیٹھا دھیرے دھیرے رسی کھینچتا رہتا تھا، پنکھا آگے پیچھے ہلتا اور یوں اس کے نیچے بیٹھے یا لیٹے ہوئے لوگوں کوہلکی پھلکی ہواآتی رہتی ، اس طرح کسی غریب انسان کا استحصال کر کے دو گھڑی کا سکون حاصل کر لیا جاتا تھا۔ گھر میں کوئی تقریب تھی اور بہت سارے لوگ بیٹھک میں موجود تھے ، باہر بیٹھا ملازم حسب معمول پنکھا جھل رہا تھا،ا س دن کم بخت کسی بات پر تپا بیٹھا تھا ، جوش میں آکر زیادہ زور لگا دیا ،رسہ پہلے ہی کثرت استعمال سے گھس گیا تھا سو جھٹکا برداشت نہ کر سکا اور ٹوٹ گیا، دو تین من وزنی شہتیرایک دھماکے سے نیچے گرا، اکثر لوگ تو عین وقت پر اٹھ کر بھاگ گئے یا ادھر ادھر ہو گئے پر تایا رحمت علی نہ بھاگ سکا اور اس کا شکار ہوا ۔وہ پنکھے کے ساتھ ہی زمین پر گرا مگر گرنے سے پہلے وہ ایک واضح اعلان کر گیا کہ ’’ لو بھئی دوستو میں تو چلا،میرا کلمہ پڑھ لو۔‘‘ قدرتی طور پر سب پریشان ہو گئے، بابے کو تسلی دی اور حوصلہ بلند رکھنے کو کہا گیا، پھر گڑ والا شربت پلایا تو وہ حیران کن طور پرسنبھل گیا اور کندھا پکڑے ہائے ہائے کرتا وہاں سے رخصت ہو گیا۔ اس کے بعد وہ پنکھا وہاں نظر نہ آیا۔ عصر کی اذان کے بعد موسم اس قابل ہوتا کہ وہ لوگ باہر نکلتے اور شام کے کھانے کی تیاریاں شروع ہو جاتیں۔شام کا کھانا مغرب سے ذرا پہلے کھا لیا جاتا تھا، گرمیوں میں تو لوگ کھانے کے بعد ہوشیار ہوتے اور باہر نکل جاتے لیکن سردیوں میں تو فوراً لحافوں میں گھس جاتے اور عشاء کے وقت سارے گائوں میں دو چار بزرگ ہی کھانس کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے وہ بھی صرف اس لیے جاگتے رہتے تھے کہ انھیں عشاء کی نماز پڑھ کر ہی سونا ہوتا تھا۔ صبح پہلے پہر ہی لوگ اٹھ جاتے تھے اور اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔ ایک نیا دن شروع ہو جاتا جس میں شاید کچھ بھی نیا نہیں ہوتا تھا اور ایک بار پھر سارے سلسلے اسی ترتیب سے شروع ہو جاتے۔ ( کتاب ’’ اچھی گزر گئی...‘‘ سے ماخوذ) ٭…٭…٭