intelligent086
10-31-2014, 08:34 AM
http://mag.dunya.com.pk/magazin_news/2014/September/09-24-14/1732_81069580.jpg
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کو دلوں کے اطمینان کا ذریعہ بتا یا ہے(الرعد13:28)۔مگر ہمارے ہاں لوگ عام طور پر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کا ذکر کرکے بھی دل بے چین و مضطرب رہتا ہے۔وہ صبح و شام تسبیحات پڑھتے ہیں ، مگر پھر بھی زندگی حز ن و ملال اور بے چینی و انتشار میں گزرتی ہے۔
ؔٓاصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں اطمینان سے مراد سکون کی وہ کیفیت نہیں ہے جو کسی نشے کو اختیار کرنے کے بعد انسان پر طاری ہوجاتی ہے۔اور جس کے بعد انسان دنیا و مافیہا کے ہر غم سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ بلکہ یہاں اطمینان سے مراد وہ ذہنی کیفیت ہے جس میں انسان کو یہ یقین ہوتاہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے، جس کو اس نے اپنا رب اور اپنا معبود ماناہے، و ہی در حقیقت خالق و مالک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے ۔اور جس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا، اللہ تعالیٰ اسے کبھی رسوا اور محروم نہیں کرے گا۔ تاہم یہ یقین اللہ کے جس ذکر سے پیدا ہوتا ہے وہ محض تسبیح پر انگلیاں پھیرنے کا عمل نہیں بلکہ اس کی یاد میں جینے کا نام ہے۔یہ محض کچھ اذکار کو زبان سے ادا کرنے کا عمل نہیں ،اس کے ذکر سے منہ میں شیرینی گھل جانے کا نام ہے۔یہ اس کے نام کی مالا جپنے کاعمل نہیں، ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ سمجھنے کی کیفیت کا نام ہے۔یہ اللہ ھو کا ورد کرنے کا عمل نہیں، رب کی محبت اور اس کے ڈرمیں زندگی گزارنے کا نام ہے۔اس یاد کی بڑی خوبصورت تعبیر ، اگر فیض کے الفاظ مستعار لیں توکچھ یوں ہے۔ رات یوں دل میں تری بھولی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے جیسے صحراؤںمیںہولے سے چلے بادِ نسیم جیسے بیمار کو بے و جہ قرار آ جائے قرآن نے اس بات کوواضح کیا ہے کہ اطمینان قلب کی وہ کیفیت جس میں انسان کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی اندیشہ ،اللہ کے دوستوںکو عطا کی جاتی ہے۔فرمایا: ’’سن لو کہ اللہ کے دوستوں کے لیے کوئی خوف ہے اور نہ کوئی اندیشہ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔ان کے لیے خوشخبری ہے ،دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی،اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (یونس10:62-64) یہاں قرآن یہ بھی بیان کرتا ہے کہ اللہ کے یہ دوست کون ہوتے ہیں؟ یہ کوئی ’’بزرگ‘‘ قسم کے لوگ نہیںبلکہ وہ سچے اہل ایمان ہیں جو اپنے ایمان کا ثبوت تقویٰ سے دیتے ہیں۔یعنی رب کی یاد ان کا احاطہ اس طرح کر لیتی ہے کہ زندگی کے ہر کمزور لمحے میں وہ یہ سوچ کر گناہ سے بچتے ہیں کہ اللہ میرے ساتھ ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے۔یہی لوگ اللہ کے ولی اور اس کے دوست ہیں ۔ اور جو اللہ کا دوست ہو وہ کیسے کسی خوف و حزن کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں۔ کسی ملک کے صدر یا وزیر اعظم سے جو ملک کا طاقتور ترین شخص ہوتا ہے اگر کسی شخص کی براہِ راست دوستی ہوجائے تو پھر اس ملک کا کوئی سرکاری محکمہ اسے تنگ نہیں کرسکتا۔ کہیں اس کا کام پھنس نہیں سکتا ۔جب ایک فانی انسان کا یہ حال ہے تو جن لوگوں کوا للہ تعالیٰ اپنا دوست قرار دیدے،ان کے معاملات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔وہ ایمان و تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور اللہ انہیں ہر خوف و حزن سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ اللہ کی یاد میں جیتے ہیں اور اللہ ان کے دلوں کو اطمینان سے بھردیتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اللہ کے نیک بندوں پر تکالیف بھی آتی ہیں، بلکہ اکثر انہی پر آیا کرتی ہیں توپھر یہ لوگ کس طرح خوف و حزن سے محفوظ ہوئے۔اس کا جواب یہ ہے کہ حزن و خوف دل کی ایک کیفیت کا نام ہے۔جو لوگ اللہ کی یاد میں جیتے ہیں، ان کے اردگرد وقتی طور پر پریشان کن حالات پیدا ہوسکتے ہیں، مگر ان کے قلب پر اطمینان کی وہ کیفیت طاری رہتی ہے جس سے انسان ہمیشہ پرسکون رہتاہے۔ اس کا سب سے اچھا نمونہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی سیرت ہے۔ آپ کو اپنی زندگی میں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ہجرت کے موقع پر تو خون کے پیاسے لوگ آپ کو تلاش کرتے ہوئے غارثور تک آپہنچے ۔ آپ کے ساتھ سوائے حضرت ابو بکرؓ کے اور کوئی نہ تھا۔ مگرآپ اس موقع پر ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ جب حضرت ابوبکر ؓ آپ کی طرف سے فکرمند ہوئے تو آپ نے ان کو اس طرح تسلی دی کہ اے ابو بکر! ان دوکے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا رفیق خود اللہ ہے۔ ایک بندہ مومن پر جب زندگی کی مشکلات آتی ہیںتو اس کا ایمان اسے بتاتا ہے کہ اللہ چاہے تو باآسانی اسے ان مشکلات سے نکال سکتا ہے۔چنانچہ وہ اپنے رب ہی کو پکارتا اور اسی سے مدد چاہتا ہے۔ جس کے نتیجے کے طور پر اللہ تعالیٰ اسے اس مشکل سے نجات عطا کردیتے ہیں۔تاہم اسے یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ یہ مشکلات ،اگر دور نہیں ہورہیں تب بھی ،جنت میں اس کے درجات بلند کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور آخرت کے دکھوں سے اسے بچارہی ہیں۔چنانچہ مشکلات و تکالیف بھی اسے یہ اطمینان فراہم کرتی ہیں کہ اس کی تکلیف کا ہر اک لمحہ جنت میں اس کی راحتوں میں اضافہ کا سبب بنے گا۔جو شخص اطمینا ن کی اس کیفیت میں جیتا ہو، اس کے سکون ِقلب کے کیا کہنے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے امتحان کی تیاری میں مصروف کوئی قابل طالبعلم رات بھر جاگتا اور نیند کی راحت سے محروم رہتا ہے ۔ مگر اسے یہ تکلیف اس لیے گوارا ہوتی ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اس کا بہترین نتیجہ دیکھے گا۔ یا کوئی کاروباری شخص اپنے کاروبار میں پیسے لگاتا ہے اور مشقت اٹھاتا ہے ، اس امید پر کہ آنے والے دنوں میں اسے بھرپور منافع ملے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی یاد میں بڑا سکون ہے۔ مگر اس شخص کے لیے جو ایمان و تقوی کی کیفیات میں جیتا ہو۔ نہ اس شخص کے لیے جسے عام حالات میں اللہ یاد رہے نہ آخرت بلکہ اس کی زندگی کا مقصود دنیا کی لذتیں ہوں۔ ہاں اسے کبھی تکلیف پہنچ جائے تو اس تکلیف سے نجات پانے کے لیے وہ وظیفے پڑھنا شروع کردے اور سمجھے کہ یہ اللہ کی یاد ہے جس سے اسے سکون مل جائے گا۔ مچھر اور انسان انسانوں کو اذیت دینے والے حشرات میں مچھر کا نام بہت نمایا ںہے۔یہ نہ صرف انسانوں کا خون چوستے ہیں بلکہ اس عمل میں انسانوں کو ایک غیر معمولی تکلیف بھی پہنچاتے ہیں۔خون چوسنے اور تکلیف پہنچانے کے علاوہ مچھر بعض جان لیوابیماریوں کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ جیسے ملیریا، زرد بخار اور ڈینگی کی بیماریاں وغیرہ۔ ہمارے ملک پاکستان میں جہاں عوامی مسائل کو حل کرنا ،صاحب اقتدار لوگوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ،ایک عام آدمی کے پاس صرف یہی راستہ بچتا ہے کہ وہ مضر صحت دھواں اور بو پیدا کرنے والی پروڈکٹس سے مچھروں کو گھر سے بھگانے کی کوشش کرے۔یہ کوشش اکثر ناکام ہی جاتی ہے اور مچھر بلا خوف و خطر رات بھر انسانوں کو کاٹتے رہتے ہیں۔ مچھر انسا نوں کو سوتے ہوئے ہی نہیں ، جاگتے ہوئے بھی کاٹ لیتے ہیں۔مچھر یہ کام اتنی آہستگی سے کرتے ہیں کہ انسان کو اس وقت اس واردات کا پتہ چلتا ہے جب مچھر، دانے اورجلن کی نشانی پیچھے چھوڑ کر اڑ چکا ہوتاہے۔ان میں اس قدر پھرتی ہوتی ہے کہ آدمی اگرہاتھ مارکر انہیں مارنے کی کوشش کرے تو وہ پلک جھپکنے میں اس حملے کی پہنچ سے دور نکل جاتے ہیں۔ تاہم کوئی مچھر اگر خون پی پی کر بہت موٹا ہوجائے یا خون چوسنے کے عمل میں بالکل غافل ہوجائے تو انسان کا تیز رفتار حملہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے۔خون چوسنے میں حد سے زیادہ انہماک اور غفلت جس طرح مچھر کی موت کا سبب بن جایا کرتا ہے اسی طرح دنیا کمانے میں حد سے زیادہ انہماک اور غفلت انسان کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بنایا ہے۔اسباب ِدنیا اس کی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جب انسان آخرت کو بھول کر دنیا کے حصول کو اپنا مقصدبنا لیتا ہے تو پھر غفلت کا پیدا ہونا لازمی ہے۔اسباب زندگی کا ایک حد سے زیادہ انسان کے پاس اکٹھا ہوجانا اسے شیطان کے لیے تر نوالہ بنادیتا ہے۔ رزق حرام،لالچ، تکبر، بخل،اسراف اور ان جیسے ان گنت ہتھیار شیطان اپنے ہاتھوں میں لیے انسان کا شکار کرنے کو بیٹھا ہے۔دنیا کو مقصود بنالینے والا غافل انسان شیطان کا سب سے آسان ہدف ہوتا ہے۔اور مچھر جیسا یہ غافل انسان شیطان کے پہلے حملے ہی میں اپنی آخرت گنوابیٹھتا ہے۔ چڑھائی گدھاگاڑی پر اتنا سریہ لدا ہوا تھا جس کا وزن گدھے کے وزن سے کئی گنا زیادہ تھا۔ گدھا اس بوجھ کواوپر جاتی ہوئی سڑک پر ڈھوتا ہوا ،یہاں تک توآگیا ،مگراب اس کی ہمت نے جواب دے دیا تھا۔ وہ اپنی جگہ کھڑ اہوگیا ۔ گدھے کا مالک اترا اور اسے حرکت میں لانے کے لیے ایک موٹے ڈنڈے سے گدھے کو پیٹنے لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب میں وہاں پہنچا۔یہ میرا روز کا راستہ تھا مگر میری مشینی سواری نے مجھے کبھی اس چڑھائی کے بلند ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا تھا۔مگر آج اس چڑھائی پر ،گدھے پر لدے بوجھ اور اس کے مالک کی بے رحمی نے مجھے تمام انسانوں کے مالک کی رحمت کا ایک نیا رخ دکھایا۔ خدا چاہتا تو انسانوں پر اتنے بوجھ ڈال دیتا کہ انسان کی زندگی درد و الم کی ایک داستان بن کر رہ جاتی۔بوجھ ڈالنا تو دور کی بات ہے اس نے انسان کو زمین کا اقتدار دے دیا۔سواریوں کو اس کے لیے مسخر کیا۔ مویشیوں کو اس کے لیے حلال کیا۔مادہ کو اس کے تصرف میں دے دیا۔سبزہ وفضا، پانی وہوا کو اس کی دسترس میں دے دیا۔غرض زندگی اور بادشاہت کے سارے اسباب اکٹھے کردیے۔البتہ یہ مطالبہ کردیا کہ بندہ کو اطاعت کی چڑھائی چڑھنی ہوگی ۔کیونکہ اطاعت کی یہ اونچی سڑک ہی جنت کو جاتی ہے۔ مگر یہاں بھی اس کی رحمت دیکھیے کہ شریعت کی صورت میں وہ متوازن طریقہ دیا جو اس چڑھائی کے لیے کسی مشینی سواری سے کم نہیں ہے۔جس میں دین و دنیا کی کوئی علیحدگی نہیں۔ جس میں کھانے پینے، گھر بار، شادی بیاہ ، زیب و زینت، سیر و تفریح ، کمانے اورخرچ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔بس شرط یہ ہے کہ ا ن چیزوں کو مقصود ِزندگی نہ بناؤ۔اسراف نہ کرو۔ حد سے نہ گزرو۔اللہ اور بندوںکے حقوق پورے کرتے رہو۔اورجب تمہارے مالک کے دین کو تمھاری ضرورت ہو تو منہ نہ موڑو۔ مگر کیا کیجیے۔ انسان نے یہ چڑھائی نہ پہلے کبھی چڑھی نہ آج چڑھنے کے لیے تیار ہے۔ ایسے میں گدھے پر ڈنڈا اٹھانے والا یہ بے رحم انسان اگر اطاعت کی چڑھائی مشینی سواری پر بھی چڑھنے کے لیے تیار نہیں تو پھر اسے خدا کے احتساب کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کو دلوں کے اطمینان کا ذریعہ بتا یا ہے(الرعد13:28)۔مگر ہمارے ہاں لوگ عام طور پر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کا ذکر کرکے بھی دل بے چین و مضطرب رہتا ہے۔وہ صبح و شام تسبیحات پڑھتے ہیں ، مگر پھر بھی زندگی حز ن و ملال اور بے چینی و انتشار میں گزرتی ہے۔
ؔٓاصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں اطمینان سے مراد سکون کی وہ کیفیت نہیں ہے جو کسی نشے کو اختیار کرنے کے بعد انسان پر طاری ہوجاتی ہے۔اور جس کے بعد انسان دنیا و مافیہا کے ہر غم سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ بلکہ یہاں اطمینان سے مراد وہ ذہنی کیفیت ہے جس میں انسان کو یہ یقین ہوتاہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے، جس کو اس نے اپنا رب اور اپنا معبود ماناہے، و ہی در حقیقت خالق و مالک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے ۔اور جس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا، اللہ تعالیٰ اسے کبھی رسوا اور محروم نہیں کرے گا۔ تاہم یہ یقین اللہ کے جس ذکر سے پیدا ہوتا ہے وہ محض تسبیح پر انگلیاں پھیرنے کا عمل نہیں بلکہ اس کی یاد میں جینے کا نام ہے۔یہ محض کچھ اذکار کو زبان سے ادا کرنے کا عمل نہیں ،اس کے ذکر سے منہ میں شیرینی گھل جانے کا نام ہے۔یہ اس کے نام کی مالا جپنے کاعمل نہیں، ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ سمجھنے کی کیفیت کا نام ہے۔یہ اللہ ھو کا ورد کرنے کا عمل نہیں، رب کی محبت اور اس کے ڈرمیں زندگی گزارنے کا نام ہے۔اس یاد کی بڑی خوبصورت تعبیر ، اگر فیض کے الفاظ مستعار لیں توکچھ یوں ہے۔ رات یوں دل میں تری بھولی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے جیسے صحراؤںمیںہولے سے چلے بادِ نسیم جیسے بیمار کو بے و جہ قرار آ جائے قرآن نے اس بات کوواضح کیا ہے کہ اطمینان قلب کی وہ کیفیت جس میں انسان کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی اندیشہ ،اللہ کے دوستوںکو عطا کی جاتی ہے۔فرمایا: ’’سن لو کہ اللہ کے دوستوں کے لیے کوئی خوف ہے اور نہ کوئی اندیشہ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔ان کے لیے خوشخبری ہے ،دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی،اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (یونس10:62-64) یہاں قرآن یہ بھی بیان کرتا ہے کہ اللہ کے یہ دوست کون ہوتے ہیں؟ یہ کوئی ’’بزرگ‘‘ قسم کے لوگ نہیںبلکہ وہ سچے اہل ایمان ہیں جو اپنے ایمان کا ثبوت تقویٰ سے دیتے ہیں۔یعنی رب کی یاد ان کا احاطہ اس طرح کر لیتی ہے کہ زندگی کے ہر کمزور لمحے میں وہ یہ سوچ کر گناہ سے بچتے ہیں کہ اللہ میرے ساتھ ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے۔یہی لوگ اللہ کے ولی اور اس کے دوست ہیں ۔ اور جو اللہ کا دوست ہو وہ کیسے کسی خوف و حزن کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں۔ کسی ملک کے صدر یا وزیر اعظم سے جو ملک کا طاقتور ترین شخص ہوتا ہے اگر کسی شخص کی براہِ راست دوستی ہوجائے تو پھر اس ملک کا کوئی سرکاری محکمہ اسے تنگ نہیں کرسکتا۔ کہیں اس کا کام پھنس نہیں سکتا ۔جب ایک فانی انسان کا یہ حال ہے تو جن لوگوں کوا للہ تعالیٰ اپنا دوست قرار دیدے،ان کے معاملات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔وہ ایمان و تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور اللہ انہیں ہر خوف و حزن سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ اللہ کی یاد میں جیتے ہیں اور اللہ ان کے دلوں کو اطمینان سے بھردیتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اللہ کے نیک بندوں پر تکالیف بھی آتی ہیں، بلکہ اکثر انہی پر آیا کرتی ہیں توپھر یہ لوگ کس طرح خوف و حزن سے محفوظ ہوئے۔اس کا جواب یہ ہے کہ حزن و خوف دل کی ایک کیفیت کا نام ہے۔جو لوگ اللہ کی یاد میں جیتے ہیں، ان کے اردگرد وقتی طور پر پریشان کن حالات پیدا ہوسکتے ہیں، مگر ان کے قلب پر اطمینان کی وہ کیفیت طاری رہتی ہے جس سے انسان ہمیشہ پرسکون رہتاہے۔ اس کا سب سے اچھا نمونہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی سیرت ہے۔ آپ کو اپنی زندگی میں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ہجرت کے موقع پر تو خون کے پیاسے لوگ آپ کو تلاش کرتے ہوئے غارثور تک آپہنچے ۔ آپ کے ساتھ سوائے حضرت ابو بکرؓ کے اور کوئی نہ تھا۔ مگرآپ اس موقع پر ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ جب حضرت ابوبکر ؓ آپ کی طرف سے فکرمند ہوئے تو آپ نے ان کو اس طرح تسلی دی کہ اے ابو بکر! ان دوکے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا رفیق خود اللہ ہے۔ ایک بندہ مومن پر جب زندگی کی مشکلات آتی ہیںتو اس کا ایمان اسے بتاتا ہے کہ اللہ چاہے تو باآسانی اسے ان مشکلات سے نکال سکتا ہے۔چنانچہ وہ اپنے رب ہی کو پکارتا اور اسی سے مدد چاہتا ہے۔ جس کے نتیجے کے طور پر اللہ تعالیٰ اسے اس مشکل سے نجات عطا کردیتے ہیں۔تاہم اسے یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ یہ مشکلات ،اگر دور نہیں ہورہیں تب بھی ،جنت میں اس کے درجات بلند کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور آخرت کے دکھوں سے اسے بچارہی ہیں۔چنانچہ مشکلات و تکالیف بھی اسے یہ اطمینان فراہم کرتی ہیں کہ اس کی تکلیف کا ہر اک لمحہ جنت میں اس کی راحتوں میں اضافہ کا سبب بنے گا۔جو شخص اطمینا ن کی اس کیفیت میں جیتا ہو، اس کے سکون ِقلب کے کیا کہنے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے امتحان کی تیاری میں مصروف کوئی قابل طالبعلم رات بھر جاگتا اور نیند کی راحت سے محروم رہتا ہے ۔ مگر اسے یہ تکلیف اس لیے گوارا ہوتی ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اس کا بہترین نتیجہ دیکھے گا۔ یا کوئی کاروباری شخص اپنے کاروبار میں پیسے لگاتا ہے اور مشقت اٹھاتا ہے ، اس امید پر کہ آنے والے دنوں میں اسے بھرپور منافع ملے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی یاد میں بڑا سکون ہے۔ مگر اس شخص کے لیے جو ایمان و تقوی کی کیفیات میں جیتا ہو۔ نہ اس شخص کے لیے جسے عام حالات میں اللہ یاد رہے نہ آخرت بلکہ اس کی زندگی کا مقصود دنیا کی لذتیں ہوں۔ ہاں اسے کبھی تکلیف پہنچ جائے تو اس تکلیف سے نجات پانے کے لیے وہ وظیفے پڑھنا شروع کردے اور سمجھے کہ یہ اللہ کی یاد ہے جس سے اسے سکون مل جائے گا۔ مچھر اور انسان انسانوں کو اذیت دینے والے حشرات میں مچھر کا نام بہت نمایا ںہے۔یہ نہ صرف انسانوں کا خون چوستے ہیں بلکہ اس عمل میں انسانوں کو ایک غیر معمولی تکلیف بھی پہنچاتے ہیں۔خون چوسنے اور تکلیف پہنچانے کے علاوہ مچھر بعض جان لیوابیماریوں کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ جیسے ملیریا، زرد بخار اور ڈینگی کی بیماریاں وغیرہ۔ ہمارے ملک پاکستان میں جہاں عوامی مسائل کو حل کرنا ،صاحب اقتدار لوگوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ،ایک عام آدمی کے پاس صرف یہی راستہ بچتا ہے کہ وہ مضر صحت دھواں اور بو پیدا کرنے والی پروڈکٹس سے مچھروں کو گھر سے بھگانے کی کوشش کرے۔یہ کوشش اکثر ناکام ہی جاتی ہے اور مچھر بلا خوف و خطر رات بھر انسانوں کو کاٹتے رہتے ہیں۔ مچھر انسا نوں کو سوتے ہوئے ہی نہیں ، جاگتے ہوئے بھی کاٹ لیتے ہیں۔مچھر یہ کام اتنی آہستگی سے کرتے ہیں کہ انسان کو اس وقت اس واردات کا پتہ چلتا ہے جب مچھر، دانے اورجلن کی نشانی پیچھے چھوڑ کر اڑ چکا ہوتاہے۔ان میں اس قدر پھرتی ہوتی ہے کہ آدمی اگرہاتھ مارکر انہیں مارنے کی کوشش کرے تو وہ پلک جھپکنے میں اس حملے کی پہنچ سے دور نکل جاتے ہیں۔ تاہم کوئی مچھر اگر خون پی پی کر بہت موٹا ہوجائے یا خون چوسنے کے عمل میں بالکل غافل ہوجائے تو انسان کا تیز رفتار حملہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے۔خون چوسنے میں حد سے زیادہ انہماک اور غفلت جس طرح مچھر کی موت کا سبب بن جایا کرتا ہے اسی طرح دنیا کمانے میں حد سے زیادہ انہماک اور غفلت انسان کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بنایا ہے۔اسباب ِدنیا اس کی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جب انسان آخرت کو بھول کر دنیا کے حصول کو اپنا مقصدبنا لیتا ہے تو پھر غفلت کا پیدا ہونا لازمی ہے۔اسباب زندگی کا ایک حد سے زیادہ انسان کے پاس اکٹھا ہوجانا اسے شیطان کے لیے تر نوالہ بنادیتا ہے۔ رزق حرام،لالچ، تکبر، بخل،اسراف اور ان جیسے ان گنت ہتھیار شیطان اپنے ہاتھوں میں لیے انسان کا شکار کرنے کو بیٹھا ہے۔دنیا کو مقصود بنالینے والا غافل انسان شیطان کا سب سے آسان ہدف ہوتا ہے۔اور مچھر جیسا یہ غافل انسان شیطان کے پہلے حملے ہی میں اپنی آخرت گنوابیٹھتا ہے۔ چڑھائی گدھاگاڑی پر اتنا سریہ لدا ہوا تھا جس کا وزن گدھے کے وزن سے کئی گنا زیادہ تھا۔ گدھا اس بوجھ کواوپر جاتی ہوئی سڑک پر ڈھوتا ہوا ،یہاں تک توآگیا ،مگراب اس کی ہمت نے جواب دے دیا تھا۔ وہ اپنی جگہ کھڑ اہوگیا ۔ گدھے کا مالک اترا اور اسے حرکت میں لانے کے لیے ایک موٹے ڈنڈے سے گدھے کو پیٹنے لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب میں وہاں پہنچا۔یہ میرا روز کا راستہ تھا مگر میری مشینی سواری نے مجھے کبھی اس چڑھائی کے بلند ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا تھا۔مگر آج اس چڑھائی پر ،گدھے پر لدے بوجھ اور اس کے مالک کی بے رحمی نے مجھے تمام انسانوں کے مالک کی رحمت کا ایک نیا رخ دکھایا۔ خدا چاہتا تو انسانوں پر اتنے بوجھ ڈال دیتا کہ انسان کی زندگی درد و الم کی ایک داستان بن کر رہ جاتی۔بوجھ ڈالنا تو دور کی بات ہے اس نے انسان کو زمین کا اقتدار دے دیا۔سواریوں کو اس کے لیے مسخر کیا۔ مویشیوں کو اس کے لیے حلال کیا۔مادہ کو اس کے تصرف میں دے دیا۔سبزہ وفضا، پانی وہوا کو اس کی دسترس میں دے دیا۔غرض زندگی اور بادشاہت کے سارے اسباب اکٹھے کردیے۔البتہ یہ مطالبہ کردیا کہ بندہ کو اطاعت کی چڑھائی چڑھنی ہوگی ۔کیونکہ اطاعت کی یہ اونچی سڑک ہی جنت کو جاتی ہے۔ مگر یہاں بھی اس کی رحمت دیکھیے کہ شریعت کی صورت میں وہ متوازن طریقہ دیا جو اس چڑھائی کے لیے کسی مشینی سواری سے کم نہیں ہے۔جس میں دین و دنیا کی کوئی علیحدگی نہیں۔ جس میں کھانے پینے، گھر بار، شادی بیاہ ، زیب و زینت، سیر و تفریح ، کمانے اورخرچ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔بس شرط یہ ہے کہ ا ن چیزوں کو مقصود ِزندگی نہ بناؤ۔اسراف نہ کرو۔ حد سے نہ گزرو۔اللہ اور بندوںکے حقوق پورے کرتے رہو۔اورجب تمہارے مالک کے دین کو تمھاری ضرورت ہو تو منہ نہ موڑو۔ مگر کیا کیجیے۔ انسان نے یہ چڑھائی نہ پہلے کبھی چڑھی نہ آج چڑھنے کے لیے تیار ہے۔ ایسے میں گدھے پر ڈنڈا اٹھانے والا یہ بے رحم انسان اگر اطاعت کی چڑھائی مشینی سواری پر بھی چڑھنے کے لیے تیار نہیں تو پھر اسے خدا کے احتساب کے لیے تیار رہنا چاہیے۔