saba
10-27-2014, 06:44 PM
بقا
زرد پتہ ہوا کے دوش پر اِدھر سے اُدھر اُڑا جارہا تھا ۔ منزل کا کوئی ٹھکانہ نہیں ، کچھ لمحے پہلے ، نہیں نہیں کچھ دن پہلے ، یا شاید ۔۔کچھ ہفتے پہلے کسی خوبصورت پیڑ کی ڈَال کی زینت ہوگا۔ ہری بھری خوشنما ڈَال جس کے ارد گرد ہوائیں گھومتی ہونگیں ۔ طائر اُس ڈَال پر بیٹھ کر خدا کی حمد و ثناء کرتے ہونگے۔ راہ سے گزرنے والے قدرت کے حسین شاہکار کو کو دیکھ کر دل ہی دل میں مسرور گزر جاتے ہونگے۔ مگر کبھی کسی نے بھی یہ نہ سوچا ہوگا ( یا شاید سوچا ہو)کہ جب موسم بدلتا ہے خزاں رُت آتی ہے۔ تو پیڑ کے تمام ساتھی جو اس سے جڑے ہوتے ہیں ، اُس سے جدا ہوجاتے ہیں۔اور ایک دن فنا ۔حتیٰ کہ خود فنا ہونے والا بھی اِس احساس کو اپنے اندر کہیںُ سلائے ہوئے ہوتا ہے، کہ ایک روز اپنی ذات کے زُعم میں مبتلا اِسی خاک کا حصہ بن جانا ہے۔
کیا میں بھی زرد پتہ ہو؟ یا میں خوبصورت پیڑ ہوں؟ یا ڈَال ڈَال بیٹھنے والا طائر؟ یا راہ سے گزرنے والا مسافر؟ کوئی بھی ہوں ،اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر پڑتا بھی ہے تو مجھے کیا۔۔۔۔۔خاک تو مجھے بھی ہونا ہے۔ ہاں اگر احساس ہوجائے کہ فنا ہونا ہے۔ اور یقین آجائے کہ جدا ہونا ہے۔ تو فرق پڑتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ احساس کیسے ہوگا ؟ کب ہوگا؟ اور کیوں کر ہوگا؟
یقینااُس کے بعد دل یقین کی منزل کی طرف گامزن ہوجائے گا۔ شاید یہ احساس کی پہلی رمق ہی ہے جو میرے دل میں اُس زرد پتے کو دیکھ کر اِدراک ہونا شروع ہوا۔ اور دل میں سوال آیا کہ میں کون ہوں،اور مجھے بھی فنا ہونا ہے۔
بات فقط یہیں ختم نہیں ہوجاتی کہ فنا ہونا ہے۔۔بات تو یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے بعد منزل کیا ہے۔تو احساس بھی اُسی منزل کا ،ادراک بھی اُسی منزل کا ،اور یقین بھی اُسی منزل کا چاہئے ۔ جو اُس کے بعد کی ابتداء ہے ۔ یعنی فنا ہونے میں ہی بقا ہے۔ دائمی بقا۔ ۔
27.10.14
زرد پتہ ہوا کے دوش پر اِدھر سے اُدھر اُڑا جارہا تھا ۔ منزل کا کوئی ٹھکانہ نہیں ، کچھ لمحے پہلے ، نہیں نہیں کچھ دن پہلے ، یا شاید ۔۔کچھ ہفتے پہلے کسی خوبصورت پیڑ کی ڈَال کی زینت ہوگا۔ ہری بھری خوشنما ڈَال جس کے ارد گرد ہوائیں گھومتی ہونگیں ۔ طائر اُس ڈَال پر بیٹھ کر خدا کی حمد و ثناء کرتے ہونگے۔ راہ سے گزرنے والے قدرت کے حسین شاہکار کو کو دیکھ کر دل ہی دل میں مسرور گزر جاتے ہونگے۔ مگر کبھی کسی نے بھی یہ نہ سوچا ہوگا ( یا شاید سوچا ہو)کہ جب موسم بدلتا ہے خزاں رُت آتی ہے۔ تو پیڑ کے تمام ساتھی جو اس سے جڑے ہوتے ہیں ، اُس سے جدا ہوجاتے ہیں۔اور ایک دن فنا ۔حتیٰ کہ خود فنا ہونے والا بھی اِس احساس کو اپنے اندر کہیںُ سلائے ہوئے ہوتا ہے، کہ ایک روز اپنی ذات کے زُعم میں مبتلا اِسی خاک کا حصہ بن جانا ہے۔
کیا میں بھی زرد پتہ ہو؟ یا میں خوبصورت پیڑ ہوں؟ یا ڈَال ڈَال بیٹھنے والا طائر؟ یا راہ سے گزرنے والا مسافر؟ کوئی بھی ہوں ،اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر پڑتا بھی ہے تو مجھے کیا۔۔۔۔۔خاک تو مجھے بھی ہونا ہے۔ ہاں اگر احساس ہوجائے کہ فنا ہونا ہے۔ اور یقین آجائے کہ جدا ہونا ہے۔ تو فرق پڑتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ احساس کیسے ہوگا ؟ کب ہوگا؟ اور کیوں کر ہوگا؟
یقینااُس کے بعد دل یقین کی منزل کی طرف گامزن ہوجائے گا۔ شاید یہ احساس کی پہلی رمق ہی ہے جو میرے دل میں اُس زرد پتے کو دیکھ کر اِدراک ہونا شروع ہوا۔ اور دل میں سوال آیا کہ میں کون ہوں،اور مجھے بھی فنا ہونا ہے۔
بات فقط یہیں ختم نہیں ہوجاتی کہ فنا ہونا ہے۔۔بات تو یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے بعد منزل کیا ہے۔تو احساس بھی اُسی منزل کا ،ادراک بھی اُسی منزل کا ،اور یقین بھی اُسی منزل کا چاہئے ۔ جو اُس کے بعد کی ابتداء ہے ۔ یعنی فنا ہونے میں ہی بقا ہے۔ دائمی بقا۔ ۔
27.10.14