intelligent086
10-20-2014, 08:06 AM
http://mag.dunya.com.pk/magazin_news/2013/September/09-02-13/754_77703249.jpg
دنیا میں جب اسلام کا ظہور ہوا تو بہت سی چھوٹی بڑی مملکتیں بھی موجود تھیں اور آسمانی و غیر آسمانی مذاہب ،ترقی پذیر نظریات و فلسفے اور انفرادی و اجتماعی خواہشیں بھی ۔تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تاریخ کے آغاز سے آج تک انسانی معاشرے کا یہی مزاج رہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آخری نبی ؐ کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو آپ ؐ کو پورا احساس تھا کہ پوری دنیا کے لئے رحمت ہونے کی حیثیت سے آپ کو پوری انسانیت کو خوش بخت بنانے اور اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا فریضہ انجام دینا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل کی گئی ہے اور جو عمل و نمونہ آپ ؐ پیش کر رہے ہیں اس میں قوموں کو قدیم امراض سے نجات دلانے کا سامان ہے۔ میں یہ آیت پڑھ رہا تھا: ترجمہ :ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائو اور انہیں تاریخ الٰہی کے واقعات سنا کر نصیحت کر۔(ابراہیم) تو مجھے خیال آیا کہ بنی اسرائیل مصر میں صاف آسمان کے نیچے رہ رہے تھے ، جسے سورج کی کرنیں روشن کئے رہتی تھیں تب کس اندھیرے سے انہیں نکالا جا رہا تھا؟ بلا شبہ یہ سیاسی استبداد و فرعونیت کی تاریکی تھی۔ اسی سورہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت محمد ؐ سے فرماتا ہے: ترجمہ:یہ کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائو ان کے رب کی توفیق سے اس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ (ابراہیم) یہ نئی کتاب لوگوں کو اندھیروں سے نکالنے والی تھی جن کا سامنا پہلے بنی اسرائیل کر چکے تھے۔ اسی طرح ہر علاقہ پر مسلط جاہلیت اور دینی و سیاسی صنم پرستی کے اندھیروں سے نکالنے والی تھی۔ لوگ جب ایک خدا کو سجدہ کرنے لگتے تو خوف و امید اور شوق و ڈر کے سارے احساسات بھی اس کی ذات سے وابستہ ہو جاتے جو تنہا نفع یا نقصان پہنچانے اور اٹھانے یا گرانے کی طاقت رکھتا تھا۔ کسی بھی انسان سے اس طرح کے احساسات کو زندہ کرنے والی سیاسی یا اقتصادی تقلید بگاڑ کا ذریعہ ہے اور اسے مٹانا اسلامی نظام کی بنیادی اصلاحات میں سے ہے۔ اسلامی شریعت گود سے گور (قبر) تک انسان کے ہر معاملے میں ہدایت دیتی ہے: ترجمہ:اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے۔ یہ ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی اور سر تسلیم خم کرنے والوں کے لئے ہدایت ،رحمت اور بشارت ہے۔(النحل) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسلامی حکومت نہ کسی بھی نسل کی برتری کی دعوت ہو سکتی ہے نہ ہی محض کسی بھی قوم کے افراد کے درمیان کھانے۔ کپڑے کے کسی متعین معیار کے حصول کے لئے باہمی تعاون کی۔ وہ تو ایک آسمانی مذہب و شریعت کے تحفظ کا ذریعہ ہو گی ۔ جیسے لوگ کسی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں نہ کہ اس کے امام کی۔ اسی طرح لوگ اپنے حکمراں کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کریں گے نہ کر حکمران کی خوشنودی اور دنیاوی فائدہ کے لئے۔ اسلامی نظام حکومت کی عام امتیازی خصوصیت یہی ہے اور اس نظام میں اختیارات کا سر چشمہ قوم ہو گی۔ یعنی تنہا اس کو یہ حق ہو گا کہ وہ اپنے ذمہ داروں کو منتخب کرے اور ان کے کاموں کا محاسبہ کرے اور ضرورت ہو تو انہیں سزا دے یا معزول کر دے۔ اقتدار کا سرچشمہ آج کے دور کی اصطلاح ہے۔ ہم الفاظ سے کھیلنے کے قائل نہیں بلکہ حقیقت پر توجہ دیتے ہیں۔ مسلمانوں نے رسول ؐ اللہ کے انتقال کے فوراً بعد خلیفہ یعنی مملکت کے سربراہ کے انتخاب کا حق استعمال کیا اور یہ مسلک واضح کر دیا کہ غصب یا فوجی انقلاب یا وراثت یا کسی بھی عصبیت اور زبردستی کی بنیاد پر خلافت قائم نہیں ہو سکتی۔ یہ تو آزادانہ بیعت ہے، سب سے زیادہ اہل شخص کے نام پر ، پھر امت اس کی نگرانی کرے گی۔ اگر خلیفہ صحیح راہ پر گامزن رہتا ہے تو اس کی اطاعت دین اور اس کا احترام تقویٰ ہو گا اور اگر وہ انحراف کرتا ہے تو نہ وہ احترام کا حقدار ہو گا نہ اطاعت کا۔ کسی منصب کے لئے اہل شخص ہی کو امیدوار بننا چاہئے جیسا کہ حضرت یوسف ؑنے کہا تھا کہ ترجمہ: ملک کے خزانے میرے حوالے کر دیجئے میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ (یوسف) یا حضرت خالد بن ولید ؓنے اپنے آپ کو معرکہ یر موک میں مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ دار ی اٹھانے کے لئے پیش کیا تھا اور جیسے حضرت عمر ؓ و حضرت ابو عبیدہ ؓ بن جراح نے امت کی سربراہی کے لئے حضرت ابوبکرؓکا نام تجویز کیا تھا۔ دوسری طرف حضرت ابوذر ؓ نے امارت کی خواہش ظاہر کی تھی تو رسول اللہ ؐنے سمجھا دیا کہ وہ اپنی پرہیز گاری کے باوجود اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے۔ آپ ؐ نے امارت کے شوقین لوگوں کو عہدہ دینے سے بالکل انکار کر دیا تھا۔ بڑے عہدوں پر بہت سے لوگ فائز ہونا چاہتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنی صلاحیتوں کے سلسلے میں خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں یہ تنہا قوم ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ کون زیادہ اہل ہے اور کس میں طاقت و دیانت کی زیادہ صفات جمع ہیں۔ یہ محض حماقت ہو گی اگر یہ سمجھا جائے کہ اسلام عوام کو کسی بھی حاکم کو ماننے پر مجبور کرتا ہے چاہے وہ اسے ناپسند کریں محض اس لئے کہ وہ فلاں خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے شروع کے دور میں نظام حکومت کو خلافت راشدہ کا نام دیا جبکہ اس کے بعد مسلط ہو جانے والے طاقت ور خاندانوں سے یہ نام چھین لیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو لوگوں کی امامت کرے جبکہ وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں جبکہ نماز آسانی سے ادا ہونے والی عبادت ہے اور اسے نیک و بدسبھی ادا کر سکتے ہیں۔ رہی امت کی سربراہی یا اس طرح کے بڑے ذمہ دار عہدے تو یہ بڑا بوجھ ہیں اور معمولی لوگ ان پر قابض ہو جائیں تو بہت بڑی مصیبت ثابت ہوں گے ۔ شاید اسلام کا جھنڈا سرنگوں ہونے میں یہی بنیادی سبب بھی رہا ہے۔ خلافت ،فرعونیت ،کسرویت اور قیصریت سے بہت دور نظام ہے، خلیفہ کا انتخاب امت اپنی مرضی سے کرتی ہے پھر اس کے کام کی نگرانی کرتی ہے۔ اگر ٹھیک ہے تو باقی رکھتی ہے ورنہ ہٹا دیتی ہے۔ اما م حز م ؒ لکھتے ہیںجس امام کی اطاعت واجب ہے وہ ایسا امام ہو گا جو کتاب و سنت پر چلتا ہو، اگر ان سے انحراف کرے تو اسے روک دیا جائیگا اور اسے سزا دی جائے گی اور اگر اس کی معزولی کے بغیر اس کی بدعملیوں سے نجات نہ مل سکتی ہو تو اسے معزول کر دیا جائے گا۔ یہی مطلب ہے امت کے اقتدار کا سرچشمہ ہونے کا۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس کو آج کے مختلف مکاتب فکر بھی مانتے ہیں۔ جو لوگ ہر حکمران کی اطاعت کرنے کو تیار رہتے ہیں چاہے وہ جس طریقہ سے بھی قابض ہو گیا ہو ، چاہے نو آباد کاروں کے ذریعہ ہی ، وہ نہ دین کے مطلب کے ہیں نہ دنیا کے۔ حضرت ابوبکر ؓ کا پہلا خطبہ پڑھئے جو آپ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد دیا تھا: لوگو!مجھے تمہارا ولی بنا دیا گیا ہے جبکہ میں تم میں سے سب سے بہتر نہیںہوں۔ تب اگر میں اچھا کرتا ہوں تو میری مدد کرو اور اگر میں برا کرتا ہوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق حاصل کر لوں ان شا ء اللہ۔ اور تم میں جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق چھین لوں۔ ا ن شاء اللہ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کروں تب تک تم میری پیروی کرو میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کی نافرمانی کرنے لگوں تو تمہارے اوپر میری کوئی پیروی واجب نہیں۔ امت کے اس پہلے منتخب خلیفہ و سربراہ کے جملوں پر غور کیجئے وہ کیسے اپنے آپ کو عوام ہی میں سے ایک قرار دے رہے ہیں اور کس طرح کمزوروں کو حق دلانے اور طاقتوروں کو دوسروں کا حق ادا کرنے پر مجبور کرنے کا عہد کر رہے ہیں اور کیسے واضح کر رہے ہیں کہ لوگوں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ امت کے اقتدار اور طاقت کا اس سے زیادہ واضح اعتراف کیا ہو سکتا ہے۔ یہ اقتدار بلندی پر سے انسانوں کو پستی میں سے نہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ خلیفہ امت سے طلب کرتا ہے کہ اس کو اور اس کے خاندان کے گزارے کے لئے کوئی تنخواہ مقرر کر دے ۔ وہ خود سے خدا کے مال میں سے بے دریغ تصرف نہیں کرتا۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دین اور اپنے مرتبہ کو پہچانیں ورنہ موروثی حالات انہیں نیست و نابود کر کے چھوڑیں گے۔ اسلام اپنی حکومت کے علاقہ میں رہنے والے تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب باعزت مقام اور مساویانہ حقو ق دیتا ہے… اسلام کے نام پر کسی قابض حکمراں کا فعل خود اس کی ذمہ داری ہے۔ وہ اقتدار پر ناجائز قبضہ کر کے سب سے پہلے تو اسلام کے بنیادی اصولوں ہی کو پامال کرتا ہے۔ پھر حکمران یعنی خلیفہ یا سربراہ کو کوئی بالاتر مقام نہیں ملتا نہ اسے کوئی تقدس یا امتیاز حاصل ہوتا ہے۔ وہ عام لوگوں میں سے ایک فرد ہوتا ہے جس پر زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور بس۔ شورائیت ہمیشہ سے اعلیٰ انسانی صفت رہی ہے اور ہر زمانہ میں سے اسے قابل تعریف سمجھا جاتا رہا ہے۔ حضرت حسن بصری ؒ کہتے ہیں لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں ایک پوراآدمی ہوتا ہے جو رائے اور مشورے سے کام لیتا ہے ، دوسرا آدھا آدمی ہوتا ہے جو صاحب رائے تو ہوتا ہے لیکن مشورہ نہیں کرتا اور تیسرا وہ شخص ہے جو آدمی ہے ہی نہیں وہ نہ صاحب رائے ہوتا ہے نہ مشورہ کرتا ہے۔ ٭٭٭٭
دنیا میں جب اسلام کا ظہور ہوا تو بہت سی چھوٹی بڑی مملکتیں بھی موجود تھیں اور آسمانی و غیر آسمانی مذاہب ،ترقی پذیر نظریات و فلسفے اور انفرادی و اجتماعی خواہشیں بھی ۔تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تاریخ کے آغاز سے آج تک انسانی معاشرے کا یہی مزاج رہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آخری نبی ؐ کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو آپ ؐ کو پورا احساس تھا کہ پوری دنیا کے لئے رحمت ہونے کی حیثیت سے آپ کو پوری انسانیت کو خوش بخت بنانے اور اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا فریضہ انجام دینا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل کی گئی ہے اور جو عمل و نمونہ آپ ؐ پیش کر رہے ہیں اس میں قوموں کو قدیم امراض سے نجات دلانے کا سامان ہے۔ میں یہ آیت پڑھ رہا تھا: ترجمہ :ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائو اور انہیں تاریخ الٰہی کے واقعات سنا کر نصیحت کر۔(ابراہیم) تو مجھے خیال آیا کہ بنی اسرائیل مصر میں صاف آسمان کے نیچے رہ رہے تھے ، جسے سورج کی کرنیں روشن کئے رہتی تھیں تب کس اندھیرے سے انہیں نکالا جا رہا تھا؟ بلا شبہ یہ سیاسی استبداد و فرعونیت کی تاریکی تھی۔ اسی سورہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت محمد ؐ سے فرماتا ہے: ترجمہ:یہ کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائو ان کے رب کی توفیق سے اس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ (ابراہیم) یہ نئی کتاب لوگوں کو اندھیروں سے نکالنے والی تھی جن کا سامنا پہلے بنی اسرائیل کر چکے تھے۔ اسی طرح ہر علاقہ پر مسلط جاہلیت اور دینی و سیاسی صنم پرستی کے اندھیروں سے نکالنے والی تھی۔ لوگ جب ایک خدا کو سجدہ کرنے لگتے تو خوف و امید اور شوق و ڈر کے سارے احساسات بھی اس کی ذات سے وابستہ ہو جاتے جو تنہا نفع یا نقصان پہنچانے اور اٹھانے یا گرانے کی طاقت رکھتا تھا۔ کسی بھی انسان سے اس طرح کے احساسات کو زندہ کرنے والی سیاسی یا اقتصادی تقلید بگاڑ کا ذریعہ ہے اور اسے مٹانا اسلامی نظام کی بنیادی اصلاحات میں سے ہے۔ اسلامی شریعت گود سے گور (قبر) تک انسان کے ہر معاملے میں ہدایت دیتی ہے: ترجمہ:اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے۔ یہ ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی اور سر تسلیم خم کرنے والوں کے لئے ہدایت ،رحمت اور بشارت ہے۔(النحل) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسلامی حکومت نہ کسی بھی نسل کی برتری کی دعوت ہو سکتی ہے نہ ہی محض کسی بھی قوم کے افراد کے درمیان کھانے۔ کپڑے کے کسی متعین معیار کے حصول کے لئے باہمی تعاون کی۔ وہ تو ایک آسمانی مذہب و شریعت کے تحفظ کا ذریعہ ہو گی ۔ جیسے لوگ کسی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں نہ کہ اس کے امام کی۔ اسی طرح لوگ اپنے حکمراں کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کریں گے نہ کر حکمران کی خوشنودی اور دنیاوی فائدہ کے لئے۔ اسلامی نظام حکومت کی عام امتیازی خصوصیت یہی ہے اور اس نظام میں اختیارات کا سر چشمہ قوم ہو گی۔ یعنی تنہا اس کو یہ حق ہو گا کہ وہ اپنے ذمہ داروں کو منتخب کرے اور ان کے کاموں کا محاسبہ کرے اور ضرورت ہو تو انہیں سزا دے یا معزول کر دے۔ اقتدار کا سرچشمہ آج کے دور کی اصطلاح ہے۔ ہم الفاظ سے کھیلنے کے قائل نہیں بلکہ حقیقت پر توجہ دیتے ہیں۔ مسلمانوں نے رسول ؐ اللہ کے انتقال کے فوراً بعد خلیفہ یعنی مملکت کے سربراہ کے انتخاب کا حق استعمال کیا اور یہ مسلک واضح کر دیا کہ غصب یا فوجی انقلاب یا وراثت یا کسی بھی عصبیت اور زبردستی کی بنیاد پر خلافت قائم نہیں ہو سکتی۔ یہ تو آزادانہ بیعت ہے، سب سے زیادہ اہل شخص کے نام پر ، پھر امت اس کی نگرانی کرے گی۔ اگر خلیفہ صحیح راہ پر گامزن رہتا ہے تو اس کی اطاعت دین اور اس کا احترام تقویٰ ہو گا اور اگر وہ انحراف کرتا ہے تو نہ وہ احترام کا حقدار ہو گا نہ اطاعت کا۔ کسی منصب کے لئے اہل شخص ہی کو امیدوار بننا چاہئے جیسا کہ حضرت یوسف ؑنے کہا تھا کہ ترجمہ: ملک کے خزانے میرے حوالے کر دیجئے میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ (یوسف) یا حضرت خالد بن ولید ؓنے اپنے آپ کو معرکہ یر موک میں مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ دار ی اٹھانے کے لئے پیش کیا تھا اور جیسے حضرت عمر ؓ و حضرت ابو عبیدہ ؓ بن جراح نے امت کی سربراہی کے لئے حضرت ابوبکرؓکا نام تجویز کیا تھا۔ دوسری طرف حضرت ابوذر ؓ نے امارت کی خواہش ظاہر کی تھی تو رسول اللہ ؐنے سمجھا دیا کہ وہ اپنی پرہیز گاری کے باوجود اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے۔ آپ ؐ نے امارت کے شوقین لوگوں کو عہدہ دینے سے بالکل انکار کر دیا تھا۔ بڑے عہدوں پر بہت سے لوگ فائز ہونا چاہتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنی صلاحیتوں کے سلسلے میں خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں یہ تنہا قوم ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ کون زیادہ اہل ہے اور کس میں طاقت و دیانت کی زیادہ صفات جمع ہیں۔ یہ محض حماقت ہو گی اگر یہ سمجھا جائے کہ اسلام عوام کو کسی بھی حاکم کو ماننے پر مجبور کرتا ہے چاہے وہ اسے ناپسند کریں محض اس لئے کہ وہ فلاں خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے شروع کے دور میں نظام حکومت کو خلافت راشدہ کا نام دیا جبکہ اس کے بعد مسلط ہو جانے والے طاقت ور خاندانوں سے یہ نام چھین لیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو لوگوں کی امامت کرے جبکہ وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں جبکہ نماز آسانی سے ادا ہونے والی عبادت ہے اور اسے نیک و بدسبھی ادا کر سکتے ہیں۔ رہی امت کی سربراہی یا اس طرح کے بڑے ذمہ دار عہدے تو یہ بڑا بوجھ ہیں اور معمولی لوگ ان پر قابض ہو جائیں تو بہت بڑی مصیبت ثابت ہوں گے ۔ شاید اسلام کا جھنڈا سرنگوں ہونے میں یہی بنیادی سبب بھی رہا ہے۔ خلافت ،فرعونیت ،کسرویت اور قیصریت سے بہت دور نظام ہے، خلیفہ کا انتخاب امت اپنی مرضی سے کرتی ہے پھر اس کے کام کی نگرانی کرتی ہے۔ اگر ٹھیک ہے تو باقی رکھتی ہے ورنہ ہٹا دیتی ہے۔ اما م حز م ؒ لکھتے ہیںجس امام کی اطاعت واجب ہے وہ ایسا امام ہو گا جو کتاب و سنت پر چلتا ہو، اگر ان سے انحراف کرے تو اسے روک دیا جائیگا اور اسے سزا دی جائے گی اور اگر اس کی معزولی کے بغیر اس کی بدعملیوں سے نجات نہ مل سکتی ہو تو اسے معزول کر دیا جائے گا۔ یہی مطلب ہے امت کے اقتدار کا سرچشمہ ہونے کا۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس کو آج کے مختلف مکاتب فکر بھی مانتے ہیں۔ جو لوگ ہر حکمران کی اطاعت کرنے کو تیار رہتے ہیں چاہے وہ جس طریقہ سے بھی قابض ہو گیا ہو ، چاہے نو آباد کاروں کے ذریعہ ہی ، وہ نہ دین کے مطلب کے ہیں نہ دنیا کے۔ حضرت ابوبکر ؓ کا پہلا خطبہ پڑھئے جو آپ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد دیا تھا: لوگو!مجھے تمہارا ولی بنا دیا گیا ہے جبکہ میں تم میں سے سب سے بہتر نہیںہوں۔ تب اگر میں اچھا کرتا ہوں تو میری مدد کرو اور اگر میں برا کرتا ہوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق حاصل کر لوں ان شا ء اللہ۔ اور تم میں جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق چھین لوں۔ ا ن شاء اللہ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کروں تب تک تم میری پیروی کرو میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کی نافرمانی کرنے لگوں تو تمہارے اوپر میری کوئی پیروی واجب نہیں۔ امت کے اس پہلے منتخب خلیفہ و سربراہ کے جملوں پر غور کیجئے وہ کیسے اپنے آپ کو عوام ہی میں سے ایک قرار دے رہے ہیں اور کس طرح کمزوروں کو حق دلانے اور طاقتوروں کو دوسروں کا حق ادا کرنے پر مجبور کرنے کا عہد کر رہے ہیں اور کیسے واضح کر رہے ہیں کہ لوگوں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ امت کے اقتدار اور طاقت کا اس سے زیادہ واضح اعتراف کیا ہو سکتا ہے۔ یہ اقتدار بلندی پر سے انسانوں کو پستی میں سے نہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ خلیفہ امت سے طلب کرتا ہے کہ اس کو اور اس کے خاندان کے گزارے کے لئے کوئی تنخواہ مقرر کر دے ۔ وہ خود سے خدا کے مال میں سے بے دریغ تصرف نہیں کرتا۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دین اور اپنے مرتبہ کو پہچانیں ورنہ موروثی حالات انہیں نیست و نابود کر کے چھوڑیں گے۔ اسلام اپنی حکومت کے علاقہ میں رہنے والے تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب باعزت مقام اور مساویانہ حقو ق دیتا ہے… اسلام کے نام پر کسی قابض حکمراں کا فعل خود اس کی ذمہ داری ہے۔ وہ اقتدار پر ناجائز قبضہ کر کے سب سے پہلے تو اسلام کے بنیادی اصولوں ہی کو پامال کرتا ہے۔ پھر حکمران یعنی خلیفہ یا سربراہ کو کوئی بالاتر مقام نہیں ملتا نہ اسے کوئی تقدس یا امتیاز حاصل ہوتا ہے۔ وہ عام لوگوں میں سے ایک فرد ہوتا ہے جس پر زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور بس۔ شورائیت ہمیشہ سے اعلیٰ انسانی صفت رہی ہے اور ہر زمانہ میں سے اسے قابل تعریف سمجھا جاتا رہا ہے۔ حضرت حسن بصری ؒ کہتے ہیں لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں ایک پوراآدمی ہوتا ہے جو رائے اور مشورے سے کام لیتا ہے ، دوسرا آدھا آدمی ہوتا ہے جو صاحب رائے تو ہوتا ہے لیکن مشورہ نہیں کرتا اور تیسرا وہ شخص ہے جو آدمی ہے ہی نہیں وہ نہ صاحب رائے ہوتا ہے نہ مشورہ کرتا ہے۔ ٭٭٭٭