PDA

View Full Version : شاہد آفریدی اچھا متبادل نہیں



intelligent086
10-19-2014, 09:17 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x10886_44332411.jpg.pagespeed.ic.f0MZkPH_oI .jpg


منصور علی بیگ
قیادت کا بحران…اب وقت آگیا ہے کہ آپس کی لڑائیاں اور اختلافات ایک سائیڈ پر رکھ دئیے جائیں ****** پی سی بی سوچ سمجھ لے کہ یہ فرض کسے نبھانا ہے ، تاخیر کرنا پاکستانی ٹیم کو ناکامی کے گڑھے میں گرانے جیسا ہی ہوگا ***** ورلڈ کپ ٹورنامنٹ جس تیزی سے قریب آ رہا ہے اتنی ہی سرعت سے ہم اس اہم ایونٹ میں کامیابی سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔کئی ماہ سے کوششیں تو یہ ہو رہی ہیں کہ کسی بھی طرح تیاریوں کو ایک ایسی درست سمت دے دی جائے جس کی بدولت کامیابی کی راہیں کھل سکیں لیکن لگتا یہ ہے کہ قسمت ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ نہیں اور آئے روز کوئی نیا قصہ سر اٹھا رہا ہے جس میں کپتانی کا روایتی مسئلہ بھی شامل ہے۔سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب دو چیئرمین حضرات کی جانب سے لگاتار یہ فیصلہ برقرار رکھا گیا کہ مصباح الحق کو ہی ورلڈ کپ 2015ء میں قیادت کرنا ہے تو پھر شاہد آفریدی نے یہ غیر ضروری سوال کیوں اٹھایا کہ اگر انہیں کپتانی دینے کا اراداہ ہے تو اس بارے میں پہلے سے ہی آگاہ کر دیا جائے،اگر اس بیان پر ان کیخلاف کوئی تادیبی کارروائی کی جاتی ہے تو اس سے پہلے اس بات کا پتہ لگانا بھی از حد ضروری ہے کہ انہیں کس نے اس بات کی اتنی پکی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنے الفاظ کو میڈیا تک جانے سے نہ روک سکے۔ان کی جانب سے یہ بات پہلی بار سامنے نہیں آئی بلکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد بھی انہوں نے اسی قسم کے بیانات دے کر کئی ماہ کے بعد آخرکار ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت حاصل کر لی اور اب وہ شاید ورلڈ کپ میں کپتانی کے اعزاز کے ساتھ رخصتی کے بارے میں سوچ رہے ہیں تب ہی انہوں نے اپنے دل میں موجود تمنا کو الفاظ کا روپ دے کر بلا وجہ ہی مسائل کھڑے کر دیئے۔چیئرمین پی سی بی نے ایک بار پھر مصباح الحق کی پیٹھ پر تھپکی دے کر بوم بوم آل راؤنڈر کے ارمانوں کو گہری نیند سلا دیا ہے لیکن دوسری جانب ایک ’’در‘‘کھلا بھی چھوڑ دیا گیا ہے کہ اگر مصباح الحق نے از خود ہی قیادت چھوڑ دی تو اس کیلئے متبادل سوچ رکھا ہے جسے قبل از وقت منظر عام پر لانا درست نہیں ہوگا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ آسٹریلیا کیخلاف حالیہ سیریز کو ورلڈ کپ کیلئے تیاری کے تناظر میں دیکھا جا رہا تھا لیکن واحد ٹی ٹوئنٹی میچ میں ناکامی کے بعد قومی ٹیم ون ڈے سیریز میں بھی کلین سوئپ شکست سے دوچار ہو گئی اور اب صورت حال یہ ہے کہ ورلڈ کپ میں کپتانی کا معاملہ کسی حد تک ’’مسائل‘‘ سے دوچار ہو چکا ہے کیونکہ خود مصباح الحق بھی یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ میگا ایونٹ میں قیادت کر سکیں گے کیونکہ ان کی ذاتی کارکردگی بری طرح متاثر ہو چکی ہے جس میں بہتری کیلئے وہ آسٹریلیا کیخلاف ٹیسٹ سیریز کو ہدف بنا رہے ہیں۔ مصباح الحق نے خود ہی یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ وہ ورلڈ کپ 2015ء میں کپتانی کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک ان کی فارم میں بہتری نہیں آ جاتی اور یہی وہ پہلو ہے جس نے قومی ٹیم میں قیادت کے امیدواروں کو جگا دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ کینگروز کیخلاف تیسرے میچ میں از خود ہی باہر بیٹھے تھے اور ان کا ارادہ اس کے سوا کچھ اور نہیں تھا کہ کوئی اور کھلاڑی ان کی جگہ لے کر میچ جتوائے اور وہ ٹیسٹ سیریز کے دوران فارم کی بحالی کی کوششیں کریں کیونکہ ٹیم کیلئے رنز بناناسب سے اہم ہے۔’’اگر میں رنز اسکور نہیں کرتا اور میری فارم بحال نہیں ہوتی تو پھر میں نہیں سمجھتا کہ مجھے کھیلنا چاہئے کیونکہ ٹیم اور پاکستان سب سے پہلے ہے۔اگر میری فارم واپس آجاتی ہے اور میں رنز کرنے لگتا ہوں تو ٹھیک ہے میں واپس آ جاؤں گا لیکن ایسا نہیں ہوتا تو پھر ظاہر سی بات ہے کہ ٹیم کو مشکل حالات سے دوچار نہیں کیا جا سکتا اور اپنے طور پر ہی کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔‘‘انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ’’ٹیسٹ سیریز کیلئے ایک سے ڈیڑھ ماہ کا وقت لگے گا لیکن میری فارم ابھی تک خراب ہے جس کا ٹیم پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے لہٰذا میں نے سوچا کہ کوئی بات نہیں کسی اور کھلاڑی کو میری جگہ سامنے آنا چاہئے۔ٹیسٹ میچوں کا مزید دباؤ کے ساتھ آغاز کرنے سے بہتر تھا کہ میں اپنی فارم پر توجہ دوں اور ملنے والے مختصر سے وقفے میں تازہ سوچ کے ساتھ واپسی کی کوشش کروں۔‘‘مصباح الحق نے تو اپنی بات کہہ ڈالی لیکن اس کے جو اثرات سامنے آئے وہ بھی کچھ کم نقصان دہ نہیں ہیں اور بورڈ کو آفریدی کے ساتھ ہی مصباح الحق سے بھی بازپرس کرنا چاہئے کہ انہوں نے میڈیا میں قیادت کے حوالے سے یہ غیر ذمہ دارانہ بیان کیوں دیا کیونکہ اگر انہیں فارم کی جانب سے مسائل تھے تو انہیں ٹیم انتظامیہ اور بورڈ کے ’’بڑوں ‘‘سے بات چیت کرنا چاہئے تھی۔ 2014ء میں 22.14کی معمولی اوسط کے ساتھ دس ون ڈے میچز کھیلنے والے مصباح الحق گزشتہ پانچ میچوں میں 36رنز کی ایک قابل ذکر اننگز کھیل سکے ہیں اور انہیں چار مرتبہ رن آؤٹ ہو کر میدان چھوڑنا پڑاجس کے بارے میں ان کا یہ کہنا ہے کہ بعض اوقات قسمت ساتھ نہیں دیتی ہے اور سیٹ ہونے کے بعد اچانک رن آؤٹ ہونا پڑتا ہے جیسے کہ حالیہ عرصے میں چار مرتبہ ہوالیکن ان کی فارم مکمل طور پر خراب نہیں ہے اور نیٹ سیشن کے دوران گیند بیٹ کے درمیان میں آ رہی ہے۔ اگر ان کی فارم اتنی خراب نہیں تھی تو پھر فارم کو بنیاد بنا کر ورلڈ کپ تک کی بات کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ آسٹریلیا کیخلاف حالیہ شکستوں پر پردہ ڈال دیا جائے اور کپتانی کے بارے میں اپنی حب الوطنی کے اس مظاہرے کے بعد لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ لی جائیں جو ان کے ساتھ نہیں ہیں کیونکہ لوگ تو کھلے بندوں یہ مطالبات کر رہے ہیں کہ ورلڈ کپ سے قبل قیادت میں تبدیلی لائی جائے۔مصباح الحق نے کہا کہ ’’میرا خیال تھا کہ ممکنہ طور پر شاہد آفریدی تازہ ذہن کے ساتھ اس فتح کو یقینی بنائے جس کی ٹیم کو زیادہ ضرورت ہے اور شاید یہ طریقہ کار مددگار ثابت ہو ۔‘‘مگر ان کی یہ منصوبہ بندی فیل ہو گئی یا کر دی گئی کہ ایک اچھا بھلا جیتا ہوا میچ شکست پر ختم کیا گیا ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاہد آفریدی کو جس بے بسی کے عالم میں یہ میچ ہارنا پڑا اس پر انہیں خود بھی یقین نہیں آ رہا تھا اور ڈریسنگ روم کے دروازے پر کھڑے جب وہ شکست کے اس کھیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے تو انہیں خود پر بھی غصہ آیا ہوگا کہ انہوں نے بیٹنگ کے دوران خود ہی اضافی کوشش کر کے اس میچ کو اپنے قابو میں کیوں نہیں کیا۔اگر سچائی کے ساتھ دیکھا جائے تو مصباح الحق اگر اپنی فارم کے سبب ورلڈ کپ جیسے ایونٹ میں قیادت کی قربانی دینے کو تیار ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی فارم کی بحالی نہ ہو سکے تو کسی اور کو یہ موقع دیا جائے تو شاہد آفریدی بھی اس ’’خانے‘‘میں فٹ نہیں ہوتے کیونکہ ان کی ذاتی کارکردگی بھی کوئی ایسی کما ل کی نہیں کہ اس کی بنیاد پر پاکستان کی کامیابی کی امید کی جا سکے۔ہم ایک کپتان کو صرف اس کی خراب فارم کی بنیاد پر ایک بڑے اعزاز سے محروم کر رہے ہیں تو شاہد آفریدی اس کے بہترین متبادل کسی طرح بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کی فارم تو خود کئی ماہ سے بدترین دور سے گزر رہی ہے اور انہیں ایک بار پھر یہ بیان دینا پڑا ہے کہوہ بالر پہلے ہیں جبکہ ان کی بیٹنگ ثانوی درجہ رکھتی ہے لیکن کیا انہیں ایک بار پھر یہ بات یاددلائی جائے کہ ان کی بالنگ بھی کوئی کمال کے درجے کو نہیں پہنچی ہوئی ہے کہ جسے جیت کی ضمانت سمجھ لیا جائے۔ شاہد آفریدی نے بورڈ کے چیئرمین کی جانب سے اس وضاحت کے بعد کہ ورلڈ کپ تک کپتانی مصباح الحق ہی کریں گے اچانک ’’پینترا‘‘بدلتے ہوئے یہ بیان دے ڈالا کہ مصباح الحق ہی میگا ایونٹ میں کپتانی کیلئے بہترین انتخاب ہیں اور انہوں نے پہلے جس طرح انہیں سپورٹ کیا ہے اسی طرح اب بھی کرتے رہیں گے۔ان کی سوچ کی تبدیلی کے پیچھے صرف ایک ہی بات تھی جس نے انہیں یکایک ’’سیدھا ‘‘کر دیا جب پی سی بی کے چیئرمین نے یہ بات کہنے میں قطعی تامل نہیں کیا کہ شاہد آفریدی کیلئے سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ایک کھلاڑی کے طور پر ان کی قومی ٹیم میں جگہ بھی بنتی ہے یا نہیں۔آل راؤنڈر نے یہ بات محسوس کر لی کہ اگر انہوں نے فوری طور پر معاملات کو نہ سنبھالا تو ان کیلئے سب کچھ آؤٹ آف کنٹرول بھی ہو سکتا ہے لہٰذا انہوں نے حسب عادت ایک بار پھر ’’یو ٹرن‘‘لیتے ہوئے بجائے کپتانی کی خواہشات ظاہر کرنے کے اپنی جگہ بچانا مناسب سمجھی جو داؤ پر لگ گئی تھی ورنہ یہ شاہد آفریدی ہی تھے جنہوں نے اس سے پہلے یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا کہ ان کا قیادت کا انداز مصباح الحق سے یکسر مختلف ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ جارحانہ انداز بعض اوقات میچ گنوانے کا سبب بھی بن جاتا ہے لیکن کپتان کو مثال بننا پڑتا ہے اور انہیں اس بات پر کامل یقین ہے کہ نتیجہ اور کارکردگی بعد میں قابل غور سمجھ جاتی ہے سب سے پہلے کوشش اور فائٹ کو دیکھا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ باڈی لینگویج ہی میدان میں آپ کے ارادوں کی عکاس ہوتی ہے اور لوگ صرف اچھی کوشش کو دیکھ کر ہی نتیجہ اور ذاتی کارکردگی فراموش کر دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی اس بات کی پیشگوئی نہیں کر سکتا کہ وہ کسی میچ میں پانچ وکٹیں لے گا یا نصف سنچری بنائے گاتو پھر کسی بھی نتیجے سے بالاتر ہو کر میچ میں فائٹ کیوں نہ کی جائے۔آفریدی کے مطابق ہر کپتان کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے اور نہ مصباح الحق ان کی طرح قیادت کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ مصباح کی طرح کپتانی کے فرائض نبھا سکتے ہیں۔اگر مصباح الحق اپنی اپروچ کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن ان کے ارد گرد موجود کھلاڑی ان کی طرح نہیں بن سکتے کیونکہ ہر کھلاڑی کی اپنی ایک مضبوطی ہوتی ہے اور وہ اسی کے مطابق کھیلتا ہے۔اب کوئی بوم بوم سے صرف یہ پوچھے کہ اگر مصباح الحق کی کپتانی میں انہیں ورلڈ کپ کھیلنا تھا تو ان کے اس بیان کے پیچھے کیا بات چھپی ہوئی تھی۔کیا یہ ایک اچھا عمل ہے کہ ہر کھلاڑی میگا ایونٹ کی طرف بڑھتے ہوئے مصباح الحق سے اپنی قائدانہ خصوصیات کا مقابلہ کرنے لگے۔اگر یہ ’’مادر پدر آزاد ‘‘تبصرے جاری رہے تو پی سی بی کا وہ قانون کہاں چلا گیا ہے جو کھلاڑیوں کو غیر ضروری باتوں پر بیانات دینے سے روکتا ہے؟ آفریدی کا کہنا تھا کہ’’ میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی جارحانہ انداز سے کھیلیں کیونکہ میں اس بات سے واقف ہوں کہ پاکستانی کھلاڑی ہمیشہ جارحانہ انداز اپنا کر ہی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر پاتے ہیں ۔‘‘مگر حقائق صرف یہ ہیں کہ شاہد آفریدی بھی حالیہ عرصے میں اپنی ’’بے خوف‘‘قائدانہ اپروچ اور جارحانہ طرز عمل کے ساتھ دو میچز میں شکست پر مجبور ہوئے ہیں اور ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اگر کارکردگی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو مصباح الحق اور شاہد آفریدی کم از کم قیادت کیلئے کسی طرح بھی بہتر چوائس نہیں نظر آ رہے جن کی بجائے یہ تاج کسی اور کے سر پر سجانا پڑے گا۔پی سی بی نے فی الحال تیسرا آپشن خفیہ رکھا ہوا ہے لیکن یہ طریقہ کار بھی درست نہیں کیونکہ اچانک جسے بھی یہ فرض سونپا جائے گا وہ ہکا بکا رہ جائے گا اور ٹیم بھی اس کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر سکے گی جس کا نتیجہ وہی نکلے گا جس کے خدشات مصباح اور آفریدی کے ساتھ ہیں لہٰذا پی سی بی کے حکام جلد از جلد سوچ سمجھ لیں کہ یہ فرض کسے نبھانا ہے کیونکہ اس حوالے سے تاخیر کرنا پاکستانی ٹیم کو ناکامی کے گڑھے میں گرانے جیسا ہی ہوگا۔