PDA

View Full Version : صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انداز محبت



intelligent086
10-17-2014, 08:32 AM
صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انداز محبت
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x10865_33089340.jpg.pagespeed.ic.KJi8YymEpO .jpg
مولانا محمد عمران عطاری
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے شدید سردی اوراندھیری رات میںایک جگہ آگ کی روشنی دیکھی اور وہاں تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ جلیل القدر صحابی حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ وہاںآپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک عورت کو دیکھا کہ اس کے ساتھ تین بچے ہیں، بھوک سے تینوں کی حالت غیر ہے۔ ایک بچہ رو رو کر کہہ رہا ہے امی جان میرے آنسوئوں پر رحم کرو، کچھ تو کھانے کو دو ،دوسرا بچہ یہ کہہ رہا ہے کہ ماں شدت بھوک سے میری جان نکلی جارہی ہے، تیسرا بچہ بھی بھوک کی وجہ سے رو رہا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کی معلومات کی کہ ماجرہ کیا ہے، اور بچوں پر جو یہ بھوک اور اس گھر پر جو غربت کا عالم ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ توجواب ملا کہ میری حالت کا ذمہ دار ہمارا امیر المؤمنین عمر بن خطاب ؓہے، یہ کیساحکمران ہے جو اپنی رعایا کی خبر گیری سے غافل ہے۔ یہ جواب سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے بیت المال تشریف لے گئے ۔بیت المال کے جو ذمہ دار تھے۔ انہوںنے کہا امیر المومنین خیریت تو ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا، ایک آٹے کی بوری لی ،گھی اور شہد کا ایک ایک ڈبہ بیت المال سے لیا، اور اپنی پیٹھ پر ساراسامان لاد کر اُس عورت کے گھر کی طرف گئے اوروہاں خود ہی کھانا تیار کر کے اس میں گھی اور شہد ملاکر اپنے ہاتھوں سے ان بھوکے بچوں کو کھانا کھلانا شروع کردیا۔ یہ ماجرا دیکھ کرماں پکار اُٹھی کہ کاش آپ ہمارے امیر المومنین ہوتے۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ واپس آگئے۔ پھر اگلے روز اُن یتیم بچوں کی ماں کسی کام سے جب وہاں حاضر ہوئی جہاں امیر المومنین عوام کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے، تو حیران و پشیمان رہ گئی کہ مسند خلافت پرجلوہ افروز امیر المؤمنین حضرت سیدنا فاروق اعظم تو وہی ہیں جن سے گزشتہ شب انہی کی ذات ِ برد بار کے خلاف کلام کر بیٹھی تھی۔ اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت کا واقعہ ہے کہ مدینہ منورہ کے قرب و جوار میں ایک نابینا عورت رہتی تھی۔ رات کو اس کے گھر کا پانی بھردینا، اس کی خبر گیری کرنا اور دوسرے دیگر کام کردینا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے معمولات کا حصہ تھا۔ ایک روزجب آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس کے یہاں تشریف لے گئے تو اس کے روزمرہ کے تمام کام ہوچکے تھے، حتی کہ اس دن کے بعد روزانہ اس نابینا عورت کے کام کاج کوئی شخص آکر نمٹا جاتا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کون شخص ہے جو آتا ہے اور سارے کام کرکے چلا جاتا ہے لہٰذا آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایک دن کہیں چھپ کر بیٹھ گئے کہ میں دیکھوں کہ یہ ہے کون ہے جو مجھ سے پہلے آتا ہے اور اس نابینا عورت کے سارے کام کردیتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی نے دیکھا وہ کوئی اور نہیں امیر المؤمنین سیدناصدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ خلافت راشدہ میں سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی لیا گیا ہے کیونکہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنتیں اورچاروں خلفاء کاطرزِ حکومت آپ کی سیرت میں ملتا ہے، لہٰذا ہم سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت کے چند گوشے بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب مسلمانوں نے اپنا خلیفہ منتخب فرمایا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی ، حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم پر درود وسلام پڑھے اس کے بعد بیان فرمایا: ’’اے لوگوں میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، تم تقوی اختیار کرو ،اپنی آخرت کے لیے نیکیاںجمع کرو بے شک جو شخص آخرت کے لیے نیک اعمال کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دنیاوی حاجات کو خود پورا فرمادے گا۔‘‘ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت میں امن اور عوام کی خوشحالی کو بہت زیادہ فوقیت دی گئی۔ مسافروں کی خیر خواہی کے لیے آپ نے جگہ جگہ ایسے مسافر خانے تعمیر کروائے، جن میں مہمان نوازی کی جائے اور مریضوںکا علاج کیا جائے۔عوامی لنگر خانے بنائے تاکہ مساکین کو کھانا ملتا رہے، اسی طرح عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے ایک شخص باقاعدہ اعلان کیا کرتا تھا کہاں ہیں قرض دار، کہاں ہیں نکاح کی خواہش رکھنے والے، کہاں ہیں مساکین اور یتیم، جب یہ لوگ ان سے رابطہ کرتے تو وہ ان کی ضروریات پوری کی جاتیں۔ نابینا، فالج زدہ ،یتیموں ، اپا ہجوں، قحط زدگان وغیرہ کیلئے وظائف مقرر فرمائے، جن میں بتدریج اضافہ کیا جاتا، غریبوںکے امداد کے الگ الگ ذرائع بنائے گئے، ناجائز آمدنیوں کی روک تھام ،ظلم کے سدِ باب کے اقدامات کیے نیز مال و اسباب کی دیانتدارانہ تقسیم فرمائی جس کی بدولت ایک سال ہی میں لوگوںکے مالی حالات اتنے بہتر ہوگئے کہ کوئی شخص بھاری رقم لاتا اور کسی اہم شخصیت سے کہتا کہ آپ کی نظر میں کوئی ضرورت مند ہو تو ان کو یہ مال دے دیجئے تو بڑی دوڑ بھاگ اور پوچھ گچھ کے باوجود بھی کوئی ایسا شخص نہ ملتا کہ جسے وہ مال دیا جائے ۔آخرکار اس کو وہ مال واپس لے جانا پڑتا۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ نے گورنر عبدالحمید بن عبدالرحمن کو لکھاکہ بیت المال سے لوگوں کو وظائف عطا کردو۔ انہوں نے لکھا کہ میں نے وظائف دے دیئے مگر بیت المال میں ابھی بھی مال باقی ہے تو آپ نے لکھا ہر اس مقروض کا قرض ادا کرو جس کا قرض کسی حماقت کی بنا پرنہ ہو،۔اُنہوں نے جواب دیا کہ میں نے ایسوں کے قرضے بھی ادا کردیئے مگر بیت المال میں مال باقی ہے، فرمایا ان کنواروں کو تلاش کرو جو مفلس ہو اور شادی کے لیے اخراجات نہ ہو، فرمایا میں نے ایسے لوگوں کی شادیاں کروادی مگر بیت المال میں مال باقی ہے۔ دیکھا آپ نے کہ ہمارے اسلاف کا انداز حکومت کیسا ہردلعزیز ہوا کرتا تھا، جس کی برکت سے امن و خوشحالی کی فضاء قائم رہتی تھی۔ غربت وبے روز گاری، ظلم و ستم ، ناانصافی و خیانت، دہشتگردی و دھوکہ بازی، بھوک و افلاس، قتل و ڈکیتی جیسے ناسور پر ہمارے اسلاف نے اپنے اپنے دور حکومت میں مکمل قابو پایا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنے اپنے منصب و ذمہ داری کے فرائض اپنے اسلاف کے انداز حکومت کی روشنی میں سر انجام دیں اور ہر معاملہ میں دیانت داری اور عدل وانصاف کو پیش پیش رکھیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: تم سب نگران ہو، اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا، امیر (حاکم وبادشاہ)نگران ہے اُس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اُس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اپنی اولاد کی نگران ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھاجائے گا، اور خادم (ملازم، نوکر ) نگہبان ہے اپنے سردار(سیٹھ، آفیسر) کے مال کا ،تو خادم سے اس بارے میں سوال ہوگا۔ ٭٭٭

BDunc
10-17-2014, 02:46 PM
MAsha Allah

UmerAmer
10-17-2014, 07:56 PM
JazakAllah

ayesha
10-17-2014, 10:57 PM
jazak Allah....

intelligent086
10-18-2014, 12:16 AM
MAsha Allah


JazakAllah


jazak Allah....


شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔