intelligent086
10-15-2014, 07:46 AM
...!
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x10827_80584459.jpg.pagespeed.ic.wMvtIO_WsI .jpg
زبیر وحید
چند ماہ قبل برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے ایک دلچسپ خبر آئی۔ وہاں محققوں نے یہ جائزہ لیا کہ کن کھیلوں کے کھلاڑی سب سے زیادہ تندرست و توانا ہوتے ہیں؟اس باب میں گاف کے کھلاڑیوں نے اول نمبر پایا۔ اس کی وجہ…؟ وجہ یہ معلوم ہوئی کہ گاف کے کھلاڑیوں کو دوران کھیل بہت زیادہ چلنا پڑتا ہے۔ یہی پیدل چلنا انھیں پھرہر لحاظ سے صحت مند رکھتا ہے۔ یہ سچائی عیاں کرتی ہے کہ پیدل چلنا صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ قابل ِذکر بات یہ ہے کہ بہت کم افراد اچھے انداز سے چلتے ہیں۔ اگر آپ اپنی گلی کے نکڑ پر کھڑے ہو کر آنے جانے والوں کا مشاہدہ کریں، تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بہت کم افراد سلیقے اور تمکنت سے چل رہے ہیں۔ اکثر افراد لڑکھڑاتی چال، کچھ چھوٹے چھوٹے قدموں سے اور کچھ اکڑ کر بے ڈھنگی سی چال چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ پروقار طریقے سے چلنا آسان بات نہیں کیونکہ ہر قدم کے شروع اور اختتام پر رکنے اور آگے بڑھنے کا عمل جنم لیتا ہے اور اس عمل میں ’’30مختلف عضلات‘‘ کام کرتے ہیں۔ انسانی چال میں بنیادی طور پر یکسانیت نہیں ہوتی۔ وجہ یہی ہے کہ چلنے میں توازن کے بدلتے تال میل کو برقرار رکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ چلنے کے دوران ہمارا پانچ فٹ یا اس سے لمبا ڈھانچا اپنی بنیاد مستقل طور پر تبدیل کرتا رہتا ہے۔ اس باعث چلنے کا معرکہ بالکل اسی طرح مشکل ہوتا ہے جیسے بازی گر چھے فٹ اونچے پول پر ٹھوڑی کے بل کھڑا ہو۔اس قسم کا کرتب سیکھنے اور انجام دینے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے چناںچہ بچہ کئی مہینوں میں چلنا سیکھتا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ مناسب انداز میں چلنا سیکھ نہیں پاتے اور بدلے میں اپنی پوری عمر خوا ہ مخواہ تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں۔ بہرحال چلنے کی میکانیت پر کافی سائنسی تحقیق ہو چکی۔ اسی لیے پچھلے چند عشروں کے دوران کسی معذوری کے سبب نہ چلنے والے افراد کے لیے ایسی ٹانگیں تیار کی جا چکی جن کی مدد سے وہ بآسانی چل سکتے ہیں۔ ایسے افراد مصنوعی ٹانگ سے بھی اپنی چال پُروقار اور رواں بنا سکتے ہیں۔ رواں اور مناسب چال کے لیے چند باتیں غور طلب ہیں اور اس میں بنیادی بات پائوں پر وزن کی تقسیم ہے۔ ہر قدم پر یہ ضروری ہے کہ وزن پہلے ایڑی کی طرف آئے اور اس کے بعد اسی لمحے اسے نیچے پائوں کی اگلی جانب منتقل کیا جائے۔ اس طرح وزن پائوں کے پنجوں سے ہوتا ہوا انگوٹھے تک جائے گا۔ اس عمل سے پائوں کے زمین سے اٹھنے میں دھکیل ملتی ہے اور وہ جھولا کرسی کے مانند کام کرتا ہے۔ لہٰذا یوں پائوں کے کسی بھی حصے پر جسم کا پورا بوجھ نہیں پڑتا۔ چپٹے اور چوڑے پائوں والی چال کے مقابلے میں کم سے کم دبائو اور جھٹکے لگتے ہیں۔ چلنے کے دوران گھٹنوں کی چپنیاں بالکل سامنے کے رخ ہونی چاہئیں۔ اس طرح گھٹنا اور ٹخنا ایک سیدھ میں ہونے سے ان کے جوڑ چلنے کے دوران آسانی سے حرکت کرتے ہیں۔ آپ نے بعض افراد کو سیدھا چلنے کے لیے ٹانگیں کھول کر چلتے دیکھا ہو گا۔ ایسی بے ڈھنگی چال گھٹنوں اور ٹخنوں کے جوڑوں پر بے جا بوجھ ڈالتی ہے۔ ٹخنے کا جوڑ کچھ ٹیڑھے زاویے پر ہوتا ہے‘ معنی یہ کہ جب گھٹنے کا رخ سامنے کی طرف ہو، تو پائوں قدرے باہر کی طرف مڑتا ہے۔ اس قدرتی چال میں جوتوں کے بغیر پائوں 15 ڈگری کے زاویے اور اونچی ایڑی والا جوتا پہنے ہوئے اس سے قدرے کم زاویے پہ ہوتا ہے چناںچہ زیادہ اونچی ایڑی والے جوتے سے چلنے میں دقت ہوتی ہے۔ اگر پائوں اس سے زیادہ مڑیں، تو چپٹے پائوں والی بے ہنگم چال بنتی ہے۔ نتیجے میں پیروں اور گھٹنوں کے اندرونی رخ والے رباط (Ligaments) پر غیرضروری بوجھ پڑتا ہے۔رباط عضلات بدن کو ہڈیوں کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتے ہیں۔ انہی کی بدولت جسم کے عضلات اپنے صحیح مقام پر رہتے ہیں۔چلنے کے دوران سر، کمر اور پیڑو سب ایک سیدھ میں ہونے چاہئیں۔ اس سے توازن قائم ہوتا ہے اور کھڑے ہونے میں دشواری نہیں ہوتی۔ یوں جسمانی یا ذہنی تنائو بھی جنم نہیں لیتا۔ چلتے ہوئے سر کو نہ تو زیادہ آگے اور نہ ہی پیچھے کی جانب جھکائیں۔ اس انداز سے چلنے کی کوشش کریں کہ آپ قد آور دکھائی دیں۔خود کو ایک پتلی تصور کریں جسے ایک مرکزی تار کی مدد سے حرکت دی جا رہی ہو۔ اچھی چال کا ایک حتمی اور اہم راز یہ ہے کہ چلتے ہوئے خود کو قدرتی انداز میں اور پر سکون محسوس کریں۔ کھڑے ہونے کے بعد چلنا شروع کرتے وقت اپنے دھڑ کو مضبوط کر کے چلیے۔ کھڑے ہونے کی حالت سے آگے بڑھنے کے لیے اپنے دھڑ کو کولھوں سے تھوڑا سا آگے کی طرف جھکائیں تا کہ جسمانی وزن کا مرکز ثقل آگے پیروں کے بالکل سامنے ہو۔ اس غیر مستحکم وضع میں ہم منہ کے بل گر سکتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم پہلے اپنی ایک ٹانگ اور پھر دوسری کو حرکت دیتے ہیں، اس سے ہمارے جسم کے تبدیل ہوتے مرکز ثقل کو عارضی طور پر سہارا ملتا ہے۔ یکے بعد دیگرے اس عمل کو ایک پائوں سے دوسرے پر منتقل کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ چلنے کے لیے جسم کو اوپر نیچے اچھالنے یا دبانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چلنا دراصل جسم کو قابو میں رکھتے ہوئے لڑکھڑانے کا دوسرا نام ہے۔ چلنے سے نہ صرف ہم ایک سے دوسرے مقام تک پہنچنے کے فوائد حاصل کرتے ہیں بلکہ اس سے جسمانی فائدے بھی ملتے ہیں۔ یہ صحت کے لیے بھی مفید ہے۔ مثال کے طور پر چلنے سے دوران خون میں اضافہ ہوتا ہے چناںچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ چلنا دوران خون کو تیز کرنے کا بہترین محرک ہے۔ دورِ جدیدمیں خون کی سست رفتار گردش، معمولی مشقت سے سانس پھولنا، جوڑوں میں اکڑائو اور لچکیلے تھل تھل کرتے عضلات عمر میں اضافے کی علامات نہیں بلکہ ان کی وجہ ورزش کا فقدان ہے چناںچہ چلنے کی روزانہ ورزش جوانی برقرار رکھنے اور تندرست و توانا رہنے کا سرچشمہ ہے۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x10827_80584459.jpg.pagespeed.ic.wMvtIO_WsI .jpg
زبیر وحید
چند ماہ قبل برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے ایک دلچسپ خبر آئی۔ وہاں محققوں نے یہ جائزہ لیا کہ کن کھیلوں کے کھلاڑی سب سے زیادہ تندرست و توانا ہوتے ہیں؟اس باب میں گاف کے کھلاڑیوں نے اول نمبر پایا۔ اس کی وجہ…؟ وجہ یہ معلوم ہوئی کہ گاف کے کھلاڑیوں کو دوران کھیل بہت زیادہ چلنا پڑتا ہے۔ یہی پیدل چلنا انھیں پھرہر لحاظ سے صحت مند رکھتا ہے۔ یہ سچائی عیاں کرتی ہے کہ پیدل چلنا صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ قابل ِذکر بات یہ ہے کہ بہت کم افراد اچھے انداز سے چلتے ہیں۔ اگر آپ اپنی گلی کے نکڑ پر کھڑے ہو کر آنے جانے والوں کا مشاہدہ کریں، تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بہت کم افراد سلیقے اور تمکنت سے چل رہے ہیں۔ اکثر افراد لڑکھڑاتی چال، کچھ چھوٹے چھوٹے قدموں سے اور کچھ اکڑ کر بے ڈھنگی سی چال چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ پروقار طریقے سے چلنا آسان بات نہیں کیونکہ ہر قدم کے شروع اور اختتام پر رکنے اور آگے بڑھنے کا عمل جنم لیتا ہے اور اس عمل میں ’’30مختلف عضلات‘‘ کام کرتے ہیں۔ انسانی چال میں بنیادی طور پر یکسانیت نہیں ہوتی۔ وجہ یہی ہے کہ چلنے میں توازن کے بدلتے تال میل کو برقرار رکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ چلنے کے دوران ہمارا پانچ فٹ یا اس سے لمبا ڈھانچا اپنی بنیاد مستقل طور پر تبدیل کرتا رہتا ہے۔ اس باعث چلنے کا معرکہ بالکل اسی طرح مشکل ہوتا ہے جیسے بازی گر چھے فٹ اونچے پول پر ٹھوڑی کے بل کھڑا ہو۔اس قسم کا کرتب سیکھنے اور انجام دینے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے چناںچہ بچہ کئی مہینوں میں چلنا سیکھتا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ مناسب انداز میں چلنا سیکھ نہیں پاتے اور بدلے میں اپنی پوری عمر خوا ہ مخواہ تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں۔ بہرحال چلنے کی میکانیت پر کافی سائنسی تحقیق ہو چکی۔ اسی لیے پچھلے چند عشروں کے دوران کسی معذوری کے سبب نہ چلنے والے افراد کے لیے ایسی ٹانگیں تیار کی جا چکی جن کی مدد سے وہ بآسانی چل سکتے ہیں۔ ایسے افراد مصنوعی ٹانگ سے بھی اپنی چال پُروقار اور رواں بنا سکتے ہیں۔ رواں اور مناسب چال کے لیے چند باتیں غور طلب ہیں اور اس میں بنیادی بات پائوں پر وزن کی تقسیم ہے۔ ہر قدم پر یہ ضروری ہے کہ وزن پہلے ایڑی کی طرف آئے اور اس کے بعد اسی لمحے اسے نیچے پائوں کی اگلی جانب منتقل کیا جائے۔ اس طرح وزن پائوں کے پنجوں سے ہوتا ہوا انگوٹھے تک جائے گا۔ اس عمل سے پائوں کے زمین سے اٹھنے میں دھکیل ملتی ہے اور وہ جھولا کرسی کے مانند کام کرتا ہے۔ لہٰذا یوں پائوں کے کسی بھی حصے پر جسم کا پورا بوجھ نہیں پڑتا۔ چپٹے اور چوڑے پائوں والی چال کے مقابلے میں کم سے کم دبائو اور جھٹکے لگتے ہیں۔ چلنے کے دوران گھٹنوں کی چپنیاں بالکل سامنے کے رخ ہونی چاہئیں۔ اس طرح گھٹنا اور ٹخنا ایک سیدھ میں ہونے سے ان کے جوڑ چلنے کے دوران آسانی سے حرکت کرتے ہیں۔ آپ نے بعض افراد کو سیدھا چلنے کے لیے ٹانگیں کھول کر چلتے دیکھا ہو گا۔ ایسی بے ڈھنگی چال گھٹنوں اور ٹخنوں کے جوڑوں پر بے جا بوجھ ڈالتی ہے۔ ٹخنے کا جوڑ کچھ ٹیڑھے زاویے پر ہوتا ہے‘ معنی یہ کہ جب گھٹنے کا رخ سامنے کی طرف ہو، تو پائوں قدرے باہر کی طرف مڑتا ہے۔ اس قدرتی چال میں جوتوں کے بغیر پائوں 15 ڈگری کے زاویے اور اونچی ایڑی والا جوتا پہنے ہوئے اس سے قدرے کم زاویے پہ ہوتا ہے چناںچہ زیادہ اونچی ایڑی والے جوتے سے چلنے میں دقت ہوتی ہے۔ اگر پائوں اس سے زیادہ مڑیں، تو چپٹے پائوں والی بے ہنگم چال بنتی ہے۔ نتیجے میں پیروں اور گھٹنوں کے اندرونی رخ والے رباط (Ligaments) پر غیرضروری بوجھ پڑتا ہے۔رباط عضلات بدن کو ہڈیوں کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتے ہیں۔ انہی کی بدولت جسم کے عضلات اپنے صحیح مقام پر رہتے ہیں۔چلنے کے دوران سر، کمر اور پیڑو سب ایک سیدھ میں ہونے چاہئیں۔ اس سے توازن قائم ہوتا ہے اور کھڑے ہونے میں دشواری نہیں ہوتی۔ یوں جسمانی یا ذہنی تنائو بھی جنم نہیں لیتا۔ چلتے ہوئے سر کو نہ تو زیادہ آگے اور نہ ہی پیچھے کی جانب جھکائیں۔ اس انداز سے چلنے کی کوشش کریں کہ آپ قد آور دکھائی دیں۔خود کو ایک پتلی تصور کریں جسے ایک مرکزی تار کی مدد سے حرکت دی جا رہی ہو۔ اچھی چال کا ایک حتمی اور اہم راز یہ ہے کہ چلتے ہوئے خود کو قدرتی انداز میں اور پر سکون محسوس کریں۔ کھڑے ہونے کے بعد چلنا شروع کرتے وقت اپنے دھڑ کو مضبوط کر کے چلیے۔ کھڑے ہونے کی حالت سے آگے بڑھنے کے لیے اپنے دھڑ کو کولھوں سے تھوڑا سا آگے کی طرف جھکائیں تا کہ جسمانی وزن کا مرکز ثقل آگے پیروں کے بالکل سامنے ہو۔ اس غیر مستحکم وضع میں ہم منہ کے بل گر سکتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم پہلے اپنی ایک ٹانگ اور پھر دوسری کو حرکت دیتے ہیں، اس سے ہمارے جسم کے تبدیل ہوتے مرکز ثقل کو عارضی طور پر سہارا ملتا ہے۔ یکے بعد دیگرے اس عمل کو ایک پائوں سے دوسرے پر منتقل کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ چلنے کے لیے جسم کو اوپر نیچے اچھالنے یا دبانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چلنا دراصل جسم کو قابو میں رکھتے ہوئے لڑکھڑانے کا دوسرا نام ہے۔ چلنے سے نہ صرف ہم ایک سے دوسرے مقام تک پہنچنے کے فوائد حاصل کرتے ہیں بلکہ اس سے جسمانی فائدے بھی ملتے ہیں۔ یہ صحت کے لیے بھی مفید ہے۔ مثال کے طور پر چلنے سے دوران خون میں اضافہ ہوتا ہے چناںچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ چلنا دوران خون کو تیز کرنے کا بہترین محرک ہے۔ دورِ جدیدمیں خون کی سست رفتار گردش، معمولی مشقت سے سانس پھولنا، جوڑوں میں اکڑائو اور لچکیلے تھل تھل کرتے عضلات عمر میں اضافے کی علامات نہیں بلکہ ان کی وجہ ورزش کا فقدان ہے چناںچہ چلنے کی روزانہ ورزش جوانی برقرار رکھنے اور تندرست و توانا رہنے کا سرچشمہ ہے۔ ٭…٭…٭