intelligent086
10-13-2014, 08:12 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/10815_94338430.jpg
محمد سعید جاوید
دن بھر کی شدید گرمی اور دھوپ کے ستائے ہوئے لوگ رات کو باہر نکل آتے، نو عمر لڑکیاں اپنے گدّے اور ککلی میں مشغول ہو جاتیں، خواتین گھریلو باتوں کے علاوہ حسب ضرورت محلے کی سیاست پر بحث و مباحثہ بھی کر لیتیں۔ لڑکے بالے کبڈی کے پالے مارتے یا کھدو کھونڈی کھیلتے ہوئے دور تک نکل جاتے، اتنا دور کہ رات گئے انھیں ڈھونڈ کر ہی واپس لانا پڑتا تھا۔ یہ دیسی ہاکی کی ایک شکل ہوتی تھی جس میں پھٹے پرانے کپڑوں کو کس کر ایک گولے کی کی شکل میں لپیٹ لیا جاتا اور پھر اس کے چاروں طرف سوت کی مضبوط رسی کو لپیٹ کر روائتی گیند کی شکل دے دی جاتی جسے سب کھدو کہتے تھے، اسی طرح بیری کے پیڑسے کاٹی ہوئی ایک طرف سے قدرے خمیدہ لکڑی کو کانٹ چھانٹ کرکھونڈی بنا لیا جاتا اور پھر سب مل کر بیدردی سے اس نرم سی کھدو کومارتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلتے جاتے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کھیل کے کوئی قاعدے قانون نہیں ہوا کرتے تھے بس سزا ہی سزا تھی جو ایک کرب مسلسل کی طرح گیند کو ملتی رہتی ا ور کھیل ختم ہونے تک تقریباً روزانہ ہی اس جان لیوا کھیل میں وہ اپنی زندگی کی بازی ہار کر ایک بار پھر چیتھڑوں میں تبدیل ہو جاتی۔ حیرت انگیز طور پر یہ بھی مائوں کے فرائض میں شامل تھا کہ اگلی شام سے پہلے اپنے اپنے سپوتوں کے لیے نئی کھدو تیار کرکے رکھیں۔ بڑے لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے اور پھر حقے کی گڑگڑاہٹ میں دن بھرکے جھوٹے سچے کارنامے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے۔ کوئی ایک بیٹھا اونچی اونچی چھوڑ رہا ہوتا تھا کہ’’ میری بیلوں کی جوڑی نے آج پورا ایک کھیت جوت ڈالا ہے‘‘۔ دوسرے حیران ہو کر کہتے ’’بڑی بات ہے بھئی‘‘ اور یہ حضرت کچھ زیادہ ہی چوڑے ہو جاتے۔ ایسے موقعے پر چاچاصدیق اپنے کٹے ہوئے کان پر ہاتھ رکھ کر ہیر رانجھا کی تان اٹھاتا تو ماحول پر سحر طاری ہو جاتا۔ اس نے ہیر رانجھا کے کچھ غمگین سے اشعار یاد کر رکھے تھے اور ہر وقت اس انتظار میں رہتا کہ کوئی اسے سنانے کی خواہش یا فرمائش کرے، ورنہ اکثر اوقات تو حاضرین محفل کامزاج دیکھ کر خود ہی ابتدا کر دیتا۔ گانے کے دوران اس کی رال مسلسل ٹپکتی رہتی تھی جسے وہ تھوڑی تھوڑی دیربعدبلند آواز کے سا تھ سڑکا مار کر اندر کھینچ لیتا تھا۔جب وہ ہیر کے ڈولی چڑھنے کا دردناک قصہ بیان کرتا تو سامعین کچھ لمحوں کے لیے سوگوار ہو جاتے اور سر جھکا کر گہری سوچوں میں گم ہو جاتے جیسے اس سارے واقعہ کے ذمہ دار وہی تھے۔اس موقعہ پرحقہ بھی کچھ دیر کے لیے خاموش ہو کر اس اجتما عی غم میں اپنی شرکت کا احساس دلاتا۔ ہیر کو رخصت کر کے چاچاصدیق شمع محفل کسی اور کے حوالے کر کے خاموش ہو جاتا۔ اس وقت بجلی کا تو نام بھی کسی نے نہ سنا تھا ،لیکن چاند کی چاندنی اتنی زبردست ہوتی تھی کہ یوں لگتا تھا جیسے رات میں سورج نکل آیا ہو، بعض پڑھاکو بچے اس موقع پر کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے کہ دکھایا جاسکے کہ ان کی نظر اتنی تیز ہے کہ وہ چاندنی رات میں بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔یوں رات کے دوسرے پہر اور کچھ دیر پہلے نیند سے یہ محفلیں اختتام کو پہنچتیں اور لوگ تیز تیز قدموں سے گھروں کو روانہ ہو جاتے اور گھر پہنچتے ہی بستر میں گر جاتے تھے۔ دن بھر کی بے آرامی اور سخت محنت کے بعد نیند کی وادیوں میں اترتے کسی کو زیادہ دیر نہ لگتی تھی کیونکہ زیادہ تر لوگوں کوــ صبح سویرے اٹھنا بھی تو ہوتا تھا۔ہم لوگ بھی بستر میں لیٹے آسمان پر چمکنے والے تارے گنتے رہتے۔تب ہی دور کھیتوں سے لومڑیوں کی چیخیں اور گیڈروں کی کوک سنائی دینے لگتی۔ کبھی کبھار کوئی گدھا اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے اپنا ہی راگ چھیڑ دیتا۔ قریبی ٹوبے کے اردگرد ٹٹیریوں نے اپنی حال دہائی مچائی ہوتی تھی۔ سونے سے کچھ پہلے ’’سائیں سائیں‘‘ کی ایک خوفناک آواز آتی اور کوئی چیزہمارے سروں پر سے پھڑ پھڑاتی ہوئی تیزی سے مغرب کی طرف گزر جاتی۔ کئی بار دیکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ میری نانی بتاتی تھیں کہ یہ موت کے فرشتے ہیں جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے جا رہے ہوتے ہیں۔یہ آخری آواز ہوتی تھی اور بلا ناغہ آتی تھی، اس کے فوراً بعد نیند ہمیں بھی آ لیتی۔ گائوں کی صبح تین بجے ہو جاتی تھی، گھر کی عورتیں پہلے دودھ دوہنے میں اور بعد ازاں رات کے جمائے ہوئے دہی کو بلونے میں لگ جاتیں۔ لڑکیاں جھاڑو اٹھا کر سارے گھر کی صفائی میں مشغول ہو جاتیں۔ مرد تھوڑی سی کاہلی کرتے اور پھر اٹھ جاتے اور یکے بعد دیگرے ٹانگ جتنے لمبے دو تین گلاس تازہ تازہ لّسی کے پی کر منہ اندھیرے ہی اپنے کھیتوں کی طرف روانہ ہو جاتے۔بیلوں کے گلے میں ہولے ہولے بجتی ہوئی گھنٹیاں صبح کے ٹھنڈے موسم میں بڑا ہی رومانوی ماحول بنا دیتی تھیں۔ہم بچوں کو پو پھٹنے تک سونا ہوتا تھا، لیکن ہر طرف اتنا شور اور ہا ہا کار مچ جاتی تھی کہ ویسے بھی سونا محال ہو جاتا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں ہوشیار ہونا پڑتا تھا۔ جس دن موسم خراب ہوتا اور بارش کے آثار نظر آتے تھے تو سر شام ہی بچے اور عورتیں بھوسہ اور گوبرمیں گندھی ہوئی گیلی مٹی سے بھری تگاریاں لے کے گھر کی کچی چھت پر چڑھ جاتے اور اس کے کمزور حصوں کی مرہم پٹی کر دیتے تاکہ پانی ٹپکنے سے کچھ بچت ہو جائے۔اس دوران ہم فضول ہی چھت پر ادھر اُدھردوڑتے پھرتے۔ بجلی کی دل ہلا دینے والی کڑک سے سب ہی دہشت زدہ ہو جاتے تھے۔دیہاتوں میں عموماً لوگ موسم کی دو صورتوں سے بہت خوف زدہ رہتے تھے ایک تو ہلکی مگر مسلسل بارش جس سے کچے گھر ریت کے گھروندوں کی طرح بیٹھ جاتے تھے، دوسرا بجلی کی زبردست گرج چمک سے، جو ہر ایک کی جان ہی نکال دیتی تھی۔جیسے ہی طوفان بادوباراں کا سلسلہ شروع ہوتا ،گھر کی بڑی بوڑھیاں اونچی آواز میں کلمہ پڑھنا شروع ہوجاتیں اور مشورہ دیتیں کہ فوراً ہانڈی کی ڈوئی باہر صحن میں پھینکو۔ بزرگ اونچی جگہ کھڑے ہو کر اذانیں دینے لگتے اور بچے منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے اور چلاّتے تھے۔ ہر طرف ایک عجیب سی کھلبلی مچی ہوتی تھی جو اس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتی جب کمرے میں تین فٹ اونچے لکڑی کے سٹینڈ پر رکھا ہوا سرسوں کے تیل کا دیا پھڑپھڑاتا اور پھر اچانک بجھ جاتا، ایسے موقعے پر باہر سے آتی ہوئی آسمانی بجلی کی خیرہ کر دینے والی چمک اور بھی زیادہ دہشت زدہ کر دیتی تھی۔ ہم بچے اپنی چیخ و پکار میں شد ت لے آتے اور ماحول کو اور بھی زیادہ ڈرائونا بنا دیتے تھے۔ اسی دوران کوئی بڑا اندھیرے میں ٹٹول کر ماچس تلاش کر کے دوبارہ دیا روشن کرتا، تو قدرے سکون ہو جاتا تاہم ہلکی پھلکی ہچکیاں بڑ ی دیر تک کمرے میں گونجتی رہتیں۔ مٹی کا دیا دیہاتوں میں ایک بہت اہم مقام رکھتا ہے، اس کی تیاری بھی بڑی آسان ہے، مٹی کی چھوٹی سے پیالی میں چلّو بھر سرسوں کا تیل ڈالا اور روئی کی بتی بنا کر آگ دکھا دی تیل کم ہوا تو پاس رکھی ہوئی کُپّی سے اورانڈھیل لیا۔ گائوں کی مسجد میں رات کو یہ دیا مسلسل روشن رکھنے کے لیے ہر گھر سے عورتیں یا بچے ہفتے میں ایک بار پیالی بھر سرسوں کا تیل لے کر مسجد جاتے اور وہاں دروازے کے پاس رکھے ہوئے کنستر میں ڈال آتے تھے۔ کچھ تو مسجد کا بڑا دیا جلانے کے کام آجاتا اور باقی تیل بیچ کر امام صاحب اپنی یا مسجد کی ضروریات پوری کر لیتے تھے۔ امام صاحب کی ذاتی ضروریات بھی بڑی سادہ اور مختصر سی ہوتی تھیں، وہ ہر وقت معمولی سے کپڑوں میں رہتے لیکن جمعہ کے دن دھلی ہوئی سفید کرتے اور دھوتی میں وہ کاندھے پر رنگین رومال رکھ کر مسجد آتے اور اس دن وہ عطر لگانا بھی نہ بھولتے تھے، کہتے تھے کہ یہ سنت رسولؐ ہے۔ عطر کی چھوٹی سی شیشی تب کوئی دو آنے کی آ جاتی تھی، اس کا داغ کپڑوں سے نہیں جاتا تھا اس لیے اکثر لوگ اسے تھوڑی سی روئی میں لگا کر کان میں ٹھونس لیتے تھے- ان دنوں کسی کے کان میں اگر روئی ٹُھنسی ہوئی ہوتی تھی تو یا تو اس کا کان خراب ہوتا تھایا وہ عطر لگا کر یقیناًاپنے سسرال یا کسی قریبی گائوں میں میلہ دیکھنے جا رہا ہو تاتھا۔ ( کتاب ’’ اچھی گزر گئی...‘‘ سے ماخوذ) ٭…٭…٭
محمد سعید جاوید
دن بھر کی شدید گرمی اور دھوپ کے ستائے ہوئے لوگ رات کو باہر نکل آتے، نو عمر لڑکیاں اپنے گدّے اور ککلی میں مشغول ہو جاتیں، خواتین گھریلو باتوں کے علاوہ حسب ضرورت محلے کی سیاست پر بحث و مباحثہ بھی کر لیتیں۔ لڑکے بالے کبڈی کے پالے مارتے یا کھدو کھونڈی کھیلتے ہوئے دور تک نکل جاتے، اتنا دور کہ رات گئے انھیں ڈھونڈ کر ہی واپس لانا پڑتا تھا۔ یہ دیسی ہاکی کی ایک شکل ہوتی تھی جس میں پھٹے پرانے کپڑوں کو کس کر ایک گولے کی کی شکل میں لپیٹ لیا جاتا اور پھر اس کے چاروں طرف سوت کی مضبوط رسی کو لپیٹ کر روائتی گیند کی شکل دے دی جاتی جسے سب کھدو کہتے تھے، اسی طرح بیری کے پیڑسے کاٹی ہوئی ایک طرف سے قدرے خمیدہ لکڑی کو کانٹ چھانٹ کرکھونڈی بنا لیا جاتا اور پھر سب مل کر بیدردی سے اس نرم سی کھدو کومارتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلتے جاتے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کھیل کے کوئی قاعدے قانون نہیں ہوا کرتے تھے بس سزا ہی سزا تھی جو ایک کرب مسلسل کی طرح گیند کو ملتی رہتی ا ور کھیل ختم ہونے تک تقریباً روزانہ ہی اس جان لیوا کھیل میں وہ اپنی زندگی کی بازی ہار کر ایک بار پھر چیتھڑوں میں تبدیل ہو جاتی۔ حیرت انگیز طور پر یہ بھی مائوں کے فرائض میں شامل تھا کہ اگلی شام سے پہلے اپنے اپنے سپوتوں کے لیے نئی کھدو تیار کرکے رکھیں۔ بڑے لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے اور پھر حقے کی گڑگڑاہٹ میں دن بھرکے جھوٹے سچے کارنامے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے۔ کوئی ایک بیٹھا اونچی اونچی چھوڑ رہا ہوتا تھا کہ’’ میری بیلوں کی جوڑی نے آج پورا ایک کھیت جوت ڈالا ہے‘‘۔ دوسرے حیران ہو کر کہتے ’’بڑی بات ہے بھئی‘‘ اور یہ حضرت کچھ زیادہ ہی چوڑے ہو جاتے۔ ایسے موقعے پر چاچاصدیق اپنے کٹے ہوئے کان پر ہاتھ رکھ کر ہیر رانجھا کی تان اٹھاتا تو ماحول پر سحر طاری ہو جاتا۔ اس نے ہیر رانجھا کے کچھ غمگین سے اشعار یاد کر رکھے تھے اور ہر وقت اس انتظار میں رہتا کہ کوئی اسے سنانے کی خواہش یا فرمائش کرے، ورنہ اکثر اوقات تو حاضرین محفل کامزاج دیکھ کر خود ہی ابتدا کر دیتا۔ گانے کے دوران اس کی رال مسلسل ٹپکتی رہتی تھی جسے وہ تھوڑی تھوڑی دیربعدبلند آواز کے سا تھ سڑکا مار کر اندر کھینچ لیتا تھا۔جب وہ ہیر کے ڈولی چڑھنے کا دردناک قصہ بیان کرتا تو سامعین کچھ لمحوں کے لیے سوگوار ہو جاتے اور سر جھکا کر گہری سوچوں میں گم ہو جاتے جیسے اس سارے واقعہ کے ذمہ دار وہی تھے۔اس موقعہ پرحقہ بھی کچھ دیر کے لیے خاموش ہو کر اس اجتما عی غم میں اپنی شرکت کا احساس دلاتا۔ ہیر کو رخصت کر کے چاچاصدیق شمع محفل کسی اور کے حوالے کر کے خاموش ہو جاتا۔ اس وقت بجلی کا تو نام بھی کسی نے نہ سنا تھا ،لیکن چاند کی چاندنی اتنی زبردست ہوتی تھی کہ یوں لگتا تھا جیسے رات میں سورج نکل آیا ہو، بعض پڑھاکو بچے اس موقع پر کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے کہ دکھایا جاسکے کہ ان کی نظر اتنی تیز ہے کہ وہ چاندنی رات میں بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔یوں رات کے دوسرے پہر اور کچھ دیر پہلے نیند سے یہ محفلیں اختتام کو پہنچتیں اور لوگ تیز تیز قدموں سے گھروں کو روانہ ہو جاتے اور گھر پہنچتے ہی بستر میں گر جاتے تھے۔ دن بھر کی بے آرامی اور سخت محنت کے بعد نیند کی وادیوں میں اترتے کسی کو زیادہ دیر نہ لگتی تھی کیونکہ زیادہ تر لوگوں کوــ صبح سویرے اٹھنا بھی تو ہوتا تھا۔ہم لوگ بھی بستر میں لیٹے آسمان پر چمکنے والے تارے گنتے رہتے۔تب ہی دور کھیتوں سے لومڑیوں کی چیخیں اور گیڈروں کی کوک سنائی دینے لگتی۔ کبھی کبھار کوئی گدھا اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے اپنا ہی راگ چھیڑ دیتا۔ قریبی ٹوبے کے اردگرد ٹٹیریوں نے اپنی حال دہائی مچائی ہوتی تھی۔ سونے سے کچھ پہلے ’’سائیں سائیں‘‘ کی ایک خوفناک آواز آتی اور کوئی چیزہمارے سروں پر سے پھڑ پھڑاتی ہوئی تیزی سے مغرب کی طرف گزر جاتی۔ کئی بار دیکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ میری نانی بتاتی تھیں کہ یہ موت کے فرشتے ہیں جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے جا رہے ہوتے ہیں۔یہ آخری آواز ہوتی تھی اور بلا ناغہ آتی تھی، اس کے فوراً بعد نیند ہمیں بھی آ لیتی۔ گائوں کی صبح تین بجے ہو جاتی تھی، گھر کی عورتیں پہلے دودھ دوہنے میں اور بعد ازاں رات کے جمائے ہوئے دہی کو بلونے میں لگ جاتیں۔ لڑکیاں جھاڑو اٹھا کر سارے گھر کی صفائی میں مشغول ہو جاتیں۔ مرد تھوڑی سی کاہلی کرتے اور پھر اٹھ جاتے اور یکے بعد دیگرے ٹانگ جتنے لمبے دو تین گلاس تازہ تازہ لّسی کے پی کر منہ اندھیرے ہی اپنے کھیتوں کی طرف روانہ ہو جاتے۔بیلوں کے گلے میں ہولے ہولے بجتی ہوئی گھنٹیاں صبح کے ٹھنڈے موسم میں بڑا ہی رومانوی ماحول بنا دیتی تھیں۔ہم بچوں کو پو پھٹنے تک سونا ہوتا تھا، لیکن ہر طرف اتنا شور اور ہا ہا کار مچ جاتی تھی کہ ویسے بھی سونا محال ہو جاتا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں ہوشیار ہونا پڑتا تھا۔ جس دن موسم خراب ہوتا اور بارش کے آثار نظر آتے تھے تو سر شام ہی بچے اور عورتیں بھوسہ اور گوبرمیں گندھی ہوئی گیلی مٹی سے بھری تگاریاں لے کے گھر کی کچی چھت پر چڑھ جاتے اور اس کے کمزور حصوں کی مرہم پٹی کر دیتے تاکہ پانی ٹپکنے سے کچھ بچت ہو جائے۔اس دوران ہم فضول ہی چھت پر ادھر اُدھردوڑتے پھرتے۔ بجلی کی دل ہلا دینے والی کڑک سے سب ہی دہشت زدہ ہو جاتے تھے۔دیہاتوں میں عموماً لوگ موسم کی دو صورتوں سے بہت خوف زدہ رہتے تھے ایک تو ہلکی مگر مسلسل بارش جس سے کچے گھر ریت کے گھروندوں کی طرح بیٹھ جاتے تھے، دوسرا بجلی کی زبردست گرج چمک سے، جو ہر ایک کی جان ہی نکال دیتی تھی۔جیسے ہی طوفان بادوباراں کا سلسلہ شروع ہوتا ،گھر کی بڑی بوڑھیاں اونچی آواز میں کلمہ پڑھنا شروع ہوجاتیں اور مشورہ دیتیں کہ فوراً ہانڈی کی ڈوئی باہر صحن میں پھینکو۔ بزرگ اونچی جگہ کھڑے ہو کر اذانیں دینے لگتے اور بچے منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے اور چلاّتے تھے۔ ہر طرف ایک عجیب سی کھلبلی مچی ہوتی تھی جو اس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتی جب کمرے میں تین فٹ اونچے لکڑی کے سٹینڈ پر رکھا ہوا سرسوں کے تیل کا دیا پھڑپھڑاتا اور پھر اچانک بجھ جاتا، ایسے موقعے پر باہر سے آتی ہوئی آسمانی بجلی کی خیرہ کر دینے والی چمک اور بھی زیادہ دہشت زدہ کر دیتی تھی۔ ہم بچے اپنی چیخ و پکار میں شد ت لے آتے اور ماحول کو اور بھی زیادہ ڈرائونا بنا دیتے تھے۔ اسی دوران کوئی بڑا اندھیرے میں ٹٹول کر ماچس تلاش کر کے دوبارہ دیا روشن کرتا، تو قدرے سکون ہو جاتا تاہم ہلکی پھلکی ہچکیاں بڑ ی دیر تک کمرے میں گونجتی رہتیں۔ مٹی کا دیا دیہاتوں میں ایک بہت اہم مقام رکھتا ہے، اس کی تیاری بھی بڑی آسان ہے، مٹی کی چھوٹی سے پیالی میں چلّو بھر سرسوں کا تیل ڈالا اور روئی کی بتی بنا کر آگ دکھا دی تیل کم ہوا تو پاس رکھی ہوئی کُپّی سے اورانڈھیل لیا۔ گائوں کی مسجد میں رات کو یہ دیا مسلسل روشن رکھنے کے لیے ہر گھر سے عورتیں یا بچے ہفتے میں ایک بار پیالی بھر سرسوں کا تیل لے کر مسجد جاتے اور وہاں دروازے کے پاس رکھے ہوئے کنستر میں ڈال آتے تھے۔ کچھ تو مسجد کا بڑا دیا جلانے کے کام آجاتا اور باقی تیل بیچ کر امام صاحب اپنی یا مسجد کی ضروریات پوری کر لیتے تھے۔ امام صاحب کی ذاتی ضروریات بھی بڑی سادہ اور مختصر سی ہوتی تھیں، وہ ہر وقت معمولی سے کپڑوں میں رہتے لیکن جمعہ کے دن دھلی ہوئی سفید کرتے اور دھوتی میں وہ کاندھے پر رنگین رومال رکھ کر مسجد آتے اور اس دن وہ عطر لگانا بھی نہ بھولتے تھے، کہتے تھے کہ یہ سنت رسولؐ ہے۔ عطر کی چھوٹی سی شیشی تب کوئی دو آنے کی آ جاتی تھی، اس کا داغ کپڑوں سے نہیں جاتا تھا اس لیے اکثر لوگ اسے تھوڑی سی روئی میں لگا کر کان میں ٹھونس لیتے تھے- ان دنوں کسی کے کان میں اگر روئی ٹُھنسی ہوئی ہوتی تھی تو یا تو اس کا کان خراب ہوتا تھایا وہ عطر لگا کر یقیناًاپنے سسرال یا کسی قریبی گائوں میں میلہ دیکھنے جا رہا ہو تاتھا۔ ( کتاب ’’ اچھی گزر گئی...‘‘ سے ماخوذ) ٭…٭…٭