Log in

View Full Version : پاکستان میں ایڈز اور ہیپا ٹائٹس آلودہ سر 



intelligent086
10-11-2014, 07:55 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x10793_20764336.jpg.pagespeed.ic.DpMBoJrgmZ .jpg

گونیلا گل
پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد افراد ایچ آئی وی ’ایڈز‘ جبکہ پانچ لاکھ سے زائد ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں۔ تاہم انجیکشنز کے ذریعے منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور ماہرین اسے ایڈز کے پھیلاؤ کے حوالے سے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ٹیکوں کے ذریعے منشیات استعمال کرنے والوں کو ’IDUs‘ کہا جاتا ہے۔ منشیات کے عادی افراد کے حوالے سے مرتب کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق پاکستان کی 180 ملین کی آبادی میں سے چار لاکھ بیس ہزار افراد انجیکشنز کے ذریعے نشہ اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انسداد منشیات کے قومی پروگرام ’NACP ‘ کے سید محمد جاوید کا کہنا ہے کہ متعدد IDUs ایک دوسرے کی ایچ آئی وی سے متاثرہ سرنجیں استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ ان کے ذریعے ایڈز دیگر شہریوں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صوبائی دارلحکومت میں منشیات کے عادی افراد میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیلنے کا انکشاف ہواہے۔ خصوصاً وہ منشیات کے عادی افراد جو انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں ان میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کی وجہ انجکشن میں استعمال ہونے والی سرنج ہے جو کئی افرادایک ہی استعمال کرتے ہیں جس سے یہ مرض ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہورہاہے۔ ایڈز خطرناک اور لاعلاج مرض ہے اور خدشہ ہے کہ جن افراد کو یہ مرض لاحق ہوچکا ہے ان کے بیوی بچے بھی اس مرض سے متاثر ہونگے۔ایڈز کے بچائو اور تحفظ کیلئے کام کرنے والی نجی تنظیم کے نمائندے احسن اقبال نے کہا کہ اس وقت صوبہ بھر میں ابتدائی طور پر جو ٹیسٹ کئے گئے ہیں ان میں سرنج سے منشیات استعمال کرنے والوں میں سے 50 فیصد سے زائد کے نتائج مثبت ہیں۔ اگلے مرحلے میں ان کے بیوی بچوں کے بھی ٹیسٹ کئے جائیں گے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات اور جرائم کی عالمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتیں ایسی ادویات کے بڑھتے ہوئے استعمال کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں جنہیں ’قانونی‘حیثیت حاصل ہے۔ عالمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر ہیروئن اور کوکین جیسی روایتی نشہ آور ادویات کے استعمال میں اضافہ نہیں ہوا ہے،لیکن ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے دیگر نشہ آور ادویات انٹرینٹ کے ذریعے پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے بازار میں فروخت ہونے والی ایسی سکون بخش ادویات روایتی منشیات سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں۔منشیات کی عالمی رپورٹ کے متن کے مطابق نئی سکون بخش ادویات کتنی محفوظ ہیں یہ جانچا نہیں گیا مگر یہ ادویات ’صحت کے لیے غیر متوقع چیلنج‘ ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصالحہ یا باتھ سالٹ یا میاؤں میاؤں جیسے نا م والی ادویات نوجوانوں کو ’کم خطرے والی تفریح‘ کی جانب گمراہ کرتی ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق حکام جب تک نئی سکون بخش ادویات کی شناخت کرتے ہیں اس وقت تک اس کاروبار میں ملوث افراد اسے منڈیوں میں فروخت کر چکے ہوتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ذہنی سکون کی ایسی زیادہ تر ادویات براعظم ایشیا میں تیار ہوتی ہیں اور پھر انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھرمیں پھیلائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں منشیات کا استعمال افغانستان میں روس کی مداخلت سے شروع ہوتا ہے اوراسّی کی دہائی کے بعد پاکستان میں افغانستان کے توسط سے سب سے بڑی برائی جو بہت تیزی سے پھیلی ‘وہ منشیات ہے۔ یہ ایک ایسا ناسور تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اتنی تیزی سے ہماری نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لیا کہ ہم چاہتے ہوئے بھی اس کو ختم نہ کر سکے منشیات کا نوجوان نسل میں استعمال بہت خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے کچھ لوگ تو اسے بطور فیشن اپناتے ہیں اور بعد ازاں اس کے عادی ہو کر ہمیشہ کے لئے اس لعنتی طوق کو گلے میں ڈال لیتے ہیں ۔اپر کلاس ،مڈل کلاس ،لوئراپر کلاس ہر جگہ لوگ اس کو بکثرت استعمال کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں منشیات کا استعمال روز بروز بڑھ رہا ہے۔اس میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو اپنے ڈپریشن کو ختم یا کم کرنے کے لئے جبکہ نوجوانوں میں اسے بطور فیشن اور بطور ایڈوانچر بھی اپنایا جاتا ہے جو بعد ازاں ان کے لئے چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ آتا کہاں سے ہے؟ اور کس طرح اس کو لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے؟ کیا اس کی خبر انسداد منشیات کے اداروں کو نہیں ہوتی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات تاحال ڈھونڈنے ہیں۔ اس کے بیوپاری مختلف طریقوں سے اپنے گاہکوں کو تیار کرتے ہیں مثال کے طور پر سکول ،کالجز اور اب تو اعلیٰ تعلیمی اداروں مثلا یونیورسٹیز میں ان لوگوں کے خاص کارندے ہوتے ہیں ۔جو پہلے پہل تو یہ نشہ ان لوگوں کومفت مہیا کرتے ہیں اور جب یہ نوجوان پوری طرح اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں تو ان سے منہ مانگے دام لیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان سے ایسے کام لئے جاتے ہیں جو ملک دشمن عناصر کی فہرست میں آتے ہیں۔ منشیات کی روک تھام کے لیے انتظامیہ اور انسداد منشیات کے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے جو اس سلسلے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہے۔ نشہ کرنے والے بعض ادویات کو بھی بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ نشے کے عادی افراد کی اکثریت ان نوجوانوں میں سے ہوتی ہے جو انتہائی حساس یا ذہین ہوتے ہیں یہ نوجوان زمینی حقائق سے فرار کی راہ تلاش کرنے کے لیے نشہ کے غار میں پناہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے کے آسودہ حال طبقات اور خاندانوں کے چشم و چراغ اس لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ کوکین، ہیروئن ، شراب، چرس اور مہنگی نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ نشہ کا عادی اعصابی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بڑے شہروں، دور افتادہ دیہات تک نشہ ایک وبا کی طرح پھیل چکا ہے نشے کا عادی ہر فرد بنیادی طور پر مریض ہوتا ہے جو ہمیشہ ہمدردی اور توجہ کا مستحق ہوتا ہے توجہ اور ہمدردی سے ہی انہیں اس دلدل سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ منشیات فروشی کے تمام اڈوں اور ٹھکانوں کے خلاف مؤثر کریک ڈاؤن کیا جائے اور ہمسایہ ملک چین اور برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے تعریزی قوانین کی طرح منشیات فروشوں کو کڑی سزائیں دی جائیں۔ منشیات جب آسانی سے دستیاب ہوں گی تو نشہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو گا۔ اسی طرح تمام میڈیکل سٹور مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ مستند ڈاکٹری نسخہ کے بغیر نشہ آور ادویات فروخت نہ کریں اور اگر کوئی ایسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہو تو اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ اس حوالے سے کسی بھی سیاسی دباؤ کو خاطر میں نہ لایا جائے اور ایسا میکنزم تیار کیا جائے جس سے اس لعنت پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔