intelligent086
10-10-2014, 07:49 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x10786_72003514.jpg.pagespeed.ic.4WjBZ_Ye0m .jpg
ڈاکٹر مفتی ضیاء الحبیب کاظمی صابری
جزیرہ نما عرب کے قبائلی ماحول کے ہر قبیلے کا مخصوص تہذیبی ثقافتی اور معاشرتی کلچر تھا۔ ہر چند کہ ہر قبیلہ اپنی اہمیت کا حامل تھا۔ مگر قبائل کی اس دنیا میں اس وقت کی تجارتی شاہراہ پر واقع شہر مکہ کا ایک قبیلہ ’’قریش‘‘ جو اپنی حشمت، ہیبت، تجارتی سطوت اور قوت کی بدولت تمام قبائلِ عرب میں خاص قدر و قیمت رکھتا تھا اسی قبیلے کی ایک نمایاں شاخ ’’بنی اُمیّہ‘‘ اپنے دانش وروں کی فکر رسائی، زیرکی، معاملہ فہمی، جوانوں کی بہادری، زبان و بیان میں فصاحت و بلاغت کی فراوانی کی بدولت کوئی دوسرا ان کی ٹکر کا نہیں تھا… قریش کا قومی پرچم ’’عقاب‘‘ بنو امیہ ہی کی تحویل میں تھا۔(دائرہ معارف اسلامی، ج: 12، ص: 1001) البتہ خانہ کعبہ کی تولّیت کی (ظاہری) وجہ سے قریش کے سرمایہ فخر و مباہات قبیلہ بنو ہاشم کو جزیرہ نما عرب میں تقدیس و تکریم کا رُتبہ حاصل تھا۔ جس کی وجہ سے بنی امیہ اس قبیلہ سے (بظاہر دیگر وجوہات) الجھتے اور حسد کرتے تھے۔اسی بنی امیہ کے ایک سردار عفّان کے ہاں وُلِدَ فِیْ السَّنَۃِ السَّادِسَۃِ بَعْدَ الْفِیْل 6 عام الفیل (576ء) کی ایک مبارک ساعت میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ جس کا گھر والوں نے ’’عثمان‘‘ نام رکھا۔(تہذیب التہذیب، ج: 7، ص: 128۔ الاستیعاب ابن عبد البر، ج: 3، ص: 1037)نومولود کی والدہ أرویٰ بنت کُر َیز تھیں۔ (الاستیعاب، ج: 3، ص: 1038) حُلیہ مبارک میانہ قد، حسین چہرہ، گھنی داڑھی، نکھرا گورا رنگ، متوسط بدن بھاری نہ دُبلا، بالوں کو زرد خضاب فرماتے۔ (اُسد الغابہ، ج: 6، ص: 218۔ الاستیعاب، ج: 3، ص: 1042) مزاج و عمومی حالات انتہائی حلیم، نرم خو، منکسر المزاج، ہمدرد و غمگسار، حق گو، حق شناس، سلیم الفطرت، سخی، غنی ، فیّاض، شب زندہ دار، ایک رکعت میں پورا قرآن مجید تلاوت فرماتے، رئیس ہونے کے باوجود سادہ غذا، عموماً سادہ لباس، کاتب وحی کے علاوہ حضور نبی کریم علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام کے معتمد، ذریعہ معاش تجارت ۔ (الاستیعاب، ج: 3، ص: 1040۔ تہذیب التہذیب، ج: 7، ص: 128) دامنِ رسول علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام میں ہر شخص کی زندگی میں اس کے دوست بڑی اہمیت رکھتے ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے‘‘ صحبت کے اثرات ثمرات و عواقب سے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں ایسا دوست میسر آجائے جو زندگی کا رُخ بدل دے… اسی لیے ہر شخص کو دوستی کا معیار قرآن و سنت کو بنانا چاہیے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سعادت مندی اور قسمت کا دروازہ بھی ایک سچے دوست کی دوستی کی بدولت کھُلا، کیوں نہ ہو جب دوست ’’صدیق‘‘ ہو تو انسان اندھیروں میں کیوں بھٹکتا پھرے!مسلمان ہونیوالے آپؓ چوتھے خوش نصیب ہیں۔ حضرت صدیق اکبرؓ کی تحریک پر آپؓ اس نعمت سے سرفراز ہوئے۔ 34 سالہ حضرت عثمان غنیؓ کے اسلام میں داخل ہونے پر خاندان کا ردّ عمل بہت سخت تھا، آپؓ کا خاندان اسلام اور مسلمانوں کا نہائت سخت دشمن تھا۔ اسی لیے آپؓ کے چچا حِکم ابن ابی العاص نے آپؓ پر ہر طرح کا ستم روا رکھا، حتٰی کہ سب کچھ چھین لیا۔ اور کہا کہ دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لو، دامنِ رسولؐ یا خاندان… آپؓ نے بے ساختہ جواب دیا ’’بس محمد علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام… اس بات پر چچا تلملا اُٹھا اور حضرت عثمانؓ کے تن سے کپڑے بھی اتار لیے ،مار پیٹ روز کا معمول تھا لیکن اسیرِ زُلفِ مصطفی علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام کے پائے استقلال لغزش سے نا آشنا رہے ہر طرح کی ترغیب و ترہیب ہر طرح کا حربہ ناکام ہوا۔ حِکم ابن ابی العاص کی پریشانی کا سبب ’’عثمان‘‘ کا صرف مسلمان ہونا نہیں تھا بلکہ غصہ اس بات کا تھا یہ تھا کہ نسل در نسل عداوت و عناد کے بھڑکتے شعلوں کے باوجود بنو امیہ کے بیٹے نے دشمن قبیلے بنو ہاشم کے داعیٔ حق کو رسول مان کر خاندانی وقار کو (نعوذ باللہ) بٹہ لگا دیا ہے۔ دراصل حضرت عثمانؓ کا قبولِ اسلام محمد مصطفی علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ عرب معاشرہ جہاں عداوتوں کی فصلیں پروان چڑھانا فخر و مباہات کا باعث ہونا اس معاشرے میں کوئی شخص اٹھے اور دشمن قبیلے کے فرد کو نبی مان کر اپنا سب کچھ انکے قدموں میں ڈھیر کر دے جہاں حضور کریمؐ کی صداقت و حقانیت کی دلیل ہے وہاں حضرت عثمانؓ کی حق شناسی، فطرتِ سلیمہ اور ایمانِ راسخ کی سند ہے۔ ادبِ مصطفی ؐ اورعثمان غنی ؓ ادب و عشق رشتۂ عقیدت کی اساس ہیں۔ ادب اور عشق باہم لازم و ملزوم ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ادب و عشق کی چلتی پھرتی تصویریں تھیں۔ ہر دن ہر لمحہ صحابہ کرامؓ کی طرف سے ادب و عشق کا ایک نیا جہان آباد ہوتا۔ نئے چمن نئے گلشن مہکتے، حدیبیہ کا میدان ہو یا مسجد نبویؐ میں حالتِ نماز، ہرہر جگہ ادب و عشق کی تابانیاں قدسیوں کیلئے نظارہ گاہ رہیں، حضرت عثمانؓ ادب کا بیان یوں فرماتے ہیں کہ:وَلَا وَضَعْتُ یَمِیْنِیْ عَلیٰ فَرْجِیْ مُنْذُ بَا یَعْتُ بِہَا رَسُوْلَ اللّٰہعلیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام(تاریخ الاسلام امام ذہبی، ج: خلفائے راشدین، ص: 469) اہل اُمّ القریٰ (مکہ مکرمہ) کی طرف سے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو عمرہ ادا کرنے سے روکنا اور مکہ مکرمہ جا کر بات چیت کرنے کیلئے حضرت عثمانؓ کو فریضہ سفارت سونپنا جسے ادا کرنے میں آپ ؓنے کسی قسم کی غفلت یا کوتاہی نہیں کی بلکہ اہل مکہ نے آپ ؓکو طواف کعبہ کی پیشکش کی تو آپ ؓنے محض اس لیے انکار کیا کہ یہ ادب کے خلاف ہے۔ صاحب الہجرتین اذنِ الٰہی ہوا تو حضور پُر نور شافع یوم النشور علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام نے وابستگانِ دامن رحمت کو ’’حبشہ‘‘ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ اپنی زوجہ سیّدہ رقیہؓ کے ساتھ سفرِ ہجرت کا اعزاز پاتے ہیں۔ آپؓ کی یہ ہجرت سفر محبت کے عازمین کیلئے اس شان کی دوسری مثال تھی اس باب کی پہلی مثال سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذات ہے کہ کسی جوڑے نے راہِ حق میں ہجرت کی صعوبت اٹھائی… اہل مکہ کے مسلمان ہونے کی غلط اطلاع پر آپؓ واپس مکہ لوٹ آئے مگر یہاں آکر حقیقت حال معلوم ہوئی تو آپ ؓنے دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضرت عثمانؓ کا مدنی دورِ حیات حضور نبی کریم ؐہجرت فرما کر یثرب کو طَیْبَہ، طابَ بناتے ہیں تو مہاجرین حبشہ بھی دیارِ محبوب مدینہ منورہ آجاتے ہیں۔ بے سر و سامانی کے عالم میں مکی مسلمانوں کا مدینہ منورہ آنا مسائل کا انبار تھا۔ جسے کونین کے والی خاتم النبیین ؐنے اپنی کمال حکیمانہ بصیرت افروز روش سے آسان فرما دیا۔ آپ ؐنے مہاجرین و انصار مدینہ میں ’’مواخات‘‘ قائم فرما کر اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ کی تفسیر فرما دی۔حضرت عثمان ؓور اوس بن ثابت انصاری ؓکے درمیان رشتہ مواخات جوڑ دیا۔ اوس مشہور ثناخوانِ مصطفیؐ حضرت حسّان بن ثابت ؓکے بھائی تھے۔(اُسد الغابہ، ج: 6، ص: 218) مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کی شدید قلت تھی۔ صرف ایک کنواں ایک یہودی کی ملکیت تھا جو مسلمانوں کو اس کا پانی بھاری قیمت پر دیتا۔ سیّد العالمین خاتم النبیین علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام کی ترغیب پر حضرت عثمانؓ نے ’’بئرِ رومہ‘‘ 20یا 30 ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا۔ اس کے علاوہ آپؐ نے مدینہ طیبہ اور مضافات میں متعدد کنوئیں بنوائے جن میں بئرِ سائب، بئرِ عامر اور بئرِ اُریس بہت مشہور ہیں۔(تاریخ الاسلام، ج: خلفائے راشدین، ص: 474) اسی طرح جب غلّے کا شدید قحط پڑا تو آپؓ نے سارا تجارتی غلہ اللہ کی راہ میں تقسیم فرما کر مسلمانوں کی زندگی آسودہ کر دی۔ غزوات میں مشہور غزوہ ’’جیش العسرہ‘‘ کی تیاری کیلئے آپؓ نے ایک ہزار مجاہدین کی مکمل تیاری کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ایک ہزار سرخ دینار اور 70 گھوڑے پیش کیے… اسی مبارک موقع پر مالک کونین محبوب ربّ المشرقین و المغربین علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمان ؓ کیلیے قابل صد ہزار رشک تعریفی کلمات عطا فرمائے۔’’آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل باعث ضرر نہ ہو گا‘‘۔ْ(سنن ترمذی، حدیث: 3700۔ مسند احمد، ج5، ص: 63۔ تاریخ الاسلام ذہبی، ج: خلفائے راشدین، ص: 470۔ البدایہ والنہایہ، ج: 7، ص: 187)غرضیکہ حضرت عثمان ؓ نے دیگر صحابہ کرامؓ کی طرح اپنے آقا و مولاؐ اور دین اسلام کی بھرپور خدمت کی لیکن حضرت عثمان ؓ کی مالی خدمات کا پلہ سب سے بھاری ہے۔ کسی محب کی سعادتوں کی معراج ہے کہ اس کا محبوب بھی اسے چاہنے لگے، حضرت عثمانؓ کی سعادت مندیوں کا سورج کس بلندی پر ہے ملاحظہ فرمائیے آقا کریم ؐ نے فرمایا’’ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان ہے‘‘(ترمذی، حدیث: 3698)۔ حضرت عثمان غنی ؓکیلئے یہ بڑا اعزاز ہے کہ آقا ؐ نے اپنے غلام کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔ اور اس ایمان پرور منظر پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوش ہونا اور اپنی رضا کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنا رہتی دنیا تک عظمت عثمانؓ کی دلیل بنا رہے گا۔ غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ بنی غطفان کے مواقع پر سیّد المرسلین علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمانؓ کو مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ یہ بھی غالباً تربیتی نکتہ نظر سے تھا۔ منصبِ خلافت حضرت عمر فاروق ؓکی شہادت کے 3 دن بعد حضرت عثمان غنیؓ پر فرائض خلافت کی بجا آوری کی ذمہ داری ڈال دی گئی ۔آپؓ کا تقریباً 12سالہ دور تاریخ کا منفرد دور ہے۔ خصوصاً فتوحات کا عالم یہ تھا کہ انسانی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے کی فتوحات کا کہیں ذکر نہیں۔ فاروق اعظمؓ کے بعد بعض مقامات پر بغاوتیں ہوئیں۔ آپؓ کے عہد میں ان بغاوتوں کو ناکام کیا گیا، ان شورش زدہ ممالک میں اسکندریہ، آذر بائیجان، آرمینیا، انطاکیہ اور طرطوس کے درمیان واقع رومی قلعے بغاوت کچل کر دوبارہ زیر نگیں لائے گئے، اسی طرح آپؓ کے دور میں طرابلس المغرب، تیونس، الجزائر، مراکش، قفلس، خراسان، طبرستان، جرجان، سوات، کابل، سجستان، نیشاپور، تخارستان، کرمان، کوہ قاف، ہند میں گجرات کے ساحلی علاقے، بحیرہ اسود کے ساحلی علاقے اور اندلس کے بعض حصے جزوی طور پر فتح ہوئے۔ آپؓ کے دور خلافت کا ابتدائی تقریباً نصف زمانہ نہایت پُرسکون، سماجی، معاشی، معاشرتی ترقی و فراوانی کا زمانہ تھا۔ مفتوحہ ممالک کی فتوحات مالِ غنیمت کی کثرت و فراوانی نے مسلمانوں کو آہستہ آہستہ آرام پسند، عیش و عشرت کا دلدادہ بنانا شروع کر دیا۔ صحابہ کرام ؓتیزی سے دارِ آخرت کی طرف رُخصت فرما رہے تھے، نئی نسلوں اور عجمی خطّوں کے نو مسلموں میں وہ خلوص وہ دینی ولولہ ناپید ہونے لگا اور اس کی جگہ حسد و نفرت اور سابقہ پرانی رنجشوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا غیر مسلموں کوکھُل کھیلنے کا موقع ملا سازشیں، جوڑ توڑ، فتنہ و فساد کے جملہ عوامل جمع ہو گئے اور وہ وقت آگیا جب اہلِ مدینہ خوف و ہراس، حزن و اضطراب کے بحر اسود میں ڈوبنے لگے۔ بلوائیوں کا شور دن بدن زور پکڑتا گیا حتٰی کہ معززین مدینہ منورہ سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ آپؓ خلیفہ سے ملیں تاکہ کوئی بہتر صورت نکلے اور بلوائیوں کی شر انگیزیوں سے جوار نبوی علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام کے مکینوں کو سکون ملے، اکابر صحابہؓ کے ایما ء پرحضرت علیؓ حضرت عثمان غنیؓ کے پاس تشریف لے گئے اوران سے بات چیت کی ۔مولا علی کرم اللہ وجہہ کی اس گفتگو اور مشاورت کے بعد بلوائیوں اور دیگر مخالفین کی شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے لائحہ عمل طے کیا گیا جس کی روشنی میں چند فوری اقدامات کیے گئے… مگر افسوس صد افسوس ہنگامے اور جلوس پُرشور ہوتے گئے یہاں تک کہ 18ذی الحج 35ھ جمعہ کے دن بعد نماز عصر 82یا 86 سالہ حضرت عثمان غنی ؓ کو50روزہ محاصرہ کے ذریعے میٹھے پانی سے 40 دن محروم رکھنے اور آخری 10 روز مکمل ناکہ بندی کے ذریعے بھوکا پیاسا رکھ کر شہید کر دیا گیا ۔ بدبخت کنانہ بن بشیر نے آپؓ کی پیشانی پر لوہے کی لاٹھی زور سے ماری کہ عثمان غنی ؓچکرا کر پہلو پر گر گئے۔ اور زبان سے کہا بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ خون کا فوارہ کتابِ ہدایت کی آیت فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم پر گرا۔(طبقات ابن سعد، ج: 3)اس کے بعد عمرو بن الحمق مسلسل وار کرتا رہا اسی موقع پر سودان ابن حمران نے تلوار کے وار سے آپؓ کو شہید کر دیا۔ (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن) عثمان غنیؓ برسوں پہلے اپنے آقا و مولاؐ کی زبان وحی ترجمان سے سن چکے تھے جب حضور پاک شیخین اور آپؓ کے ساتھ احد پر کھڑے تھے۔ تو اس لمحہ محبت پر احد میں بانداز ناز جنبش سی ہوئی تو محبوب ہر دو سرا علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’اُحد سکون کر کوئی (عام بندہ) نہیں بلکہ اللہ کا نبی اور صدیق اور دو شہید موجود ہیں‘‘(بخاری۔ حدیث: 3698) ۔ حضرت عثمان غنی ؓکی شہادت کی خبر سے صحابہ کرامؓ غم کے سمندر میں ڈوب گئے،حزن و ملال رنج و اندوہ کا ایک طوفان تھا اور تو اور دہشتگردوں نے آپؓ کی تدفین تک کسی کو نہ کرنے دی ہر کوئی خوف زدہ اپنے اپنے گھر میں سہما ہوا بے بسی پر آنسو بہا رہا تھا۔ حسّان بن ثابتؓ نے آپ ؓکا طویل مرثیہ کہا۔علامہ ابن عبدالبر نے جنازے کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ، ہشام بن ارویٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اکثر مؤرخین نقل کرتے ہیںکہ تدفین کے بعد آپؓ کی قبر مبارک کو بے نشان کر دیا گیا۔ (تاریخ الاسلام ذہبی، ج: خلفائے راشدین، ص: 481)گیارہ سال، گیارہ ماہ اور چودہ دن آپؓ خلافت پر متمکّن رہے۔(اُسد الغابہ، ج: 6، ص: 217۔ تاریخ اسلام ندوی، ج: 1، ص: 299) ٭٭٭٭
ڈاکٹر مفتی ضیاء الحبیب کاظمی صابری
جزیرہ نما عرب کے قبائلی ماحول کے ہر قبیلے کا مخصوص تہذیبی ثقافتی اور معاشرتی کلچر تھا۔ ہر چند کہ ہر قبیلہ اپنی اہمیت کا حامل تھا۔ مگر قبائل کی اس دنیا میں اس وقت کی تجارتی شاہراہ پر واقع شہر مکہ کا ایک قبیلہ ’’قریش‘‘ جو اپنی حشمت، ہیبت، تجارتی سطوت اور قوت کی بدولت تمام قبائلِ عرب میں خاص قدر و قیمت رکھتا تھا اسی قبیلے کی ایک نمایاں شاخ ’’بنی اُمیّہ‘‘ اپنے دانش وروں کی فکر رسائی، زیرکی، معاملہ فہمی، جوانوں کی بہادری، زبان و بیان میں فصاحت و بلاغت کی فراوانی کی بدولت کوئی دوسرا ان کی ٹکر کا نہیں تھا… قریش کا قومی پرچم ’’عقاب‘‘ بنو امیہ ہی کی تحویل میں تھا۔(دائرہ معارف اسلامی، ج: 12، ص: 1001) البتہ خانہ کعبہ کی تولّیت کی (ظاہری) وجہ سے قریش کے سرمایہ فخر و مباہات قبیلہ بنو ہاشم کو جزیرہ نما عرب میں تقدیس و تکریم کا رُتبہ حاصل تھا۔ جس کی وجہ سے بنی امیہ اس قبیلہ سے (بظاہر دیگر وجوہات) الجھتے اور حسد کرتے تھے۔اسی بنی امیہ کے ایک سردار عفّان کے ہاں وُلِدَ فِیْ السَّنَۃِ السَّادِسَۃِ بَعْدَ الْفِیْل 6 عام الفیل (576ء) کی ایک مبارک ساعت میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ جس کا گھر والوں نے ’’عثمان‘‘ نام رکھا۔(تہذیب التہذیب، ج: 7، ص: 128۔ الاستیعاب ابن عبد البر، ج: 3، ص: 1037)نومولود کی والدہ أرویٰ بنت کُر َیز تھیں۔ (الاستیعاب، ج: 3، ص: 1038) حُلیہ مبارک میانہ قد، حسین چہرہ، گھنی داڑھی، نکھرا گورا رنگ، متوسط بدن بھاری نہ دُبلا، بالوں کو زرد خضاب فرماتے۔ (اُسد الغابہ، ج: 6، ص: 218۔ الاستیعاب، ج: 3، ص: 1042) مزاج و عمومی حالات انتہائی حلیم، نرم خو، منکسر المزاج، ہمدرد و غمگسار، حق گو، حق شناس، سلیم الفطرت، سخی، غنی ، فیّاض، شب زندہ دار، ایک رکعت میں پورا قرآن مجید تلاوت فرماتے، رئیس ہونے کے باوجود سادہ غذا، عموماً سادہ لباس، کاتب وحی کے علاوہ حضور نبی کریم علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام کے معتمد، ذریعہ معاش تجارت ۔ (الاستیعاب، ج: 3، ص: 1040۔ تہذیب التہذیب، ج: 7، ص: 128) دامنِ رسول علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام میں ہر شخص کی زندگی میں اس کے دوست بڑی اہمیت رکھتے ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے‘‘ صحبت کے اثرات ثمرات و عواقب سے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں ایسا دوست میسر آجائے جو زندگی کا رُخ بدل دے… اسی لیے ہر شخص کو دوستی کا معیار قرآن و سنت کو بنانا چاہیے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سعادت مندی اور قسمت کا دروازہ بھی ایک سچے دوست کی دوستی کی بدولت کھُلا، کیوں نہ ہو جب دوست ’’صدیق‘‘ ہو تو انسان اندھیروں میں کیوں بھٹکتا پھرے!مسلمان ہونیوالے آپؓ چوتھے خوش نصیب ہیں۔ حضرت صدیق اکبرؓ کی تحریک پر آپؓ اس نعمت سے سرفراز ہوئے۔ 34 سالہ حضرت عثمان غنیؓ کے اسلام میں داخل ہونے پر خاندان کا ردّ عمل بہت سخت تھا، آپؓ کا خاندان اسلام اور مسلمانوں کا نہائت سخت دشمن تھا۔ اسی لیے آپؓ کے چچا حِکم ابن ابی العاص نے آپؓ پر ہر طرح کا ستم روا رکھا، حتٰی کہ سب کچھ چھین لیا۔ اور کہا کہ دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لو، دامنِ رسولؐ یا خاندان… آپؓ نے بے ساختہ جواب دیا ’’بس محمد علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام… اس بات پر چچا تلملا اُٹھا اور حضرت عثمانؓ کے تن سے کپڑے بھی اتار لیے ،مار پیٹ روز کا معمول تھا لیکن اسیرِ زُلفِ مصطفی علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام کے پائے استقلال لغزش سے نا آشنا رہے ہر طرح کی ترغیب و ترہیب ہر طرح کا حربہ ناکام ہوا۔ حِکم ابن ابی العاص کی پریشانی کا سبب ’’عثمان‘‘ کا صرف مسلمان ہونا نہیں تھا بلکہ غصہ اس بات کا تھا یہ تھا کہ نسل در نسل عداوت و عناد کے بھڑکتے شعلوں کے باوجود بنو امیہ کے بیٹے نے دشمن قبیلے بنو ہاشم کے داعیٔ حق کو رسول مان کر خاندانی وقار کو (نعوذ باللہ) بٹہ لگا دیا ہے۔ دراصل حضرت عثمانؓ کا قبولِ اسلام محمد مصطفی علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ عرب معاشرہ جہاں عداوتوں کی فصلیں پروان چڑھانا فخر و مباہات کا باعث ہونا اس معاشرے میں کوئی شخص اٹھے اور دشمن قبیلے کے فرد کو نبی مان کر اپنا سب کچھ انکے قدموں میں ڈھیر کر دے جہاں حضور کریمؐ کی صداقت و حقانیت کی دلیل ہے وہاں حضرت عثمانؓ کی حق شناسی، فطرتِ سلیمہ اور ایمانِ راسخ کی سند ہے۔ ادبِ مصطفی ؐ اورعثمان غنی ؓ ادب و عشق رشتۂ عقیدت کی اساس ہیں۔ ادب اور عشق باہم لازم و ملزوم ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ادب و عشق کی چلتی پھرتی تصویریں تھیں۔ ہر دن ہر لمحہ صحابہ کرامؓ کی طرف سے ادب و عشق کا ایک نیا جہان آباد ہوتا۔ نئے چمن نئے گلشن مہکتے، حدیبیہ کا میدان ہو یا مسجد نبویؐ میں حالتِ نماز، ہرہر جگہ ادب و عشق کی تابانیاں قدسیوں کیلئے نظارہ گاہ رہیں، حضرت عثمانؓ ادب کا بیان یوں فرماتے ہیں کہ:وَلَا وَضَعْتُ یَمِیْنِیْ عَلیٰ فَرْجِیْ مُنْذُ بَا یَعْتُ بِہَا رَسُوْلَ اللّٰہعلیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام(تاریخ الاسلام امام ذہبی، ج: خلفائے راشدین، ص: 469) اہل اُمّ القریٰ (مکہ مکرمہ) کی طرف سے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو عمرہ ادا کرنے سے روکنا اور مکہ مکرمہ جا کر بات چیت کرنے کیلئے حضرت عثمانؓ کو فریضہ سفارت سونپنا جسے ادا کرنے میں آپ ؓنے کسی قسم کی غفلت یا کوتاہی نہیں کی بلکہ اہل مکہ نے آپ ؓکو طواف کعبہ کی پیشکش کی تو آپ ؓنے محض اس لیے انکار کیا کہ یہ ادب کے خلاف ہے۔ صاحب الہجرتین اذنِ الٰہی ہوا تو حضور پُر نور شافع یوم النشور علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام نے وابستگانِ دامن رحمت کو ’’حبشہ‘‘ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ اپنی زوجہ سیّدہ رقیہؓ کے ساتھ سفرِ ہجرت کا اعزاز پاتے ہیں۔ آپؓ کی یہ ہجرت سفر محبت کے عازمین کیلئے اس شان کی دوسری مثال تھی اس باب کی پہلی مثال سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذات ہے کہ کسی جوڑے نے راہِ حق میں ہجرت کی صعوبت اٹھائی… اہل مکہ کے مسلمان ہونے کی غلط اطلاع پر آپؓ واپس مکہ لوٹ آئے مگر یہاں آکر حقیقت حال معلوم ہوئی تو آپ ؓنے دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضرت عثمانؓ کا مدنی دورِ حیات حضور نبی کریم ؐہجرت فرما کر یثرب کو طَیْبَہ، طابَ بناتے ہیں تو مہاجرین حبشہ بھی دیارِ محبوب مدینہ منورہ آجاتے ہیں۔ بے سر و سامانی کے عالم میں مکی مسلمانوں کا مدینہ منورہ آنا مسائل کا انبار تھا۔ جسے کونین کے والی خاتم النبیین ؐنے اپنی کمال حکیمانہ بصیرت افروز روش سے آسان فرما دیا۔ آپ ؐنے مہاجرین و انصار مدینہ میں ’’مواخات‘‘ قائم فرما کر اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ کی تفسیر فرما دی۔حضرت عثمان ؓور اوس بن ثابت انصاری ؓکے درمیان رشتہ مواخات جوڑ دیا۔ اوس مشہور ثناخوانِ مصطفیؐ حضرت حسّان بن ثابت ؓکے بھائی تھے۔(اُسد الغابہ، ج: 6، ص: 218) مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کی شدید قلت تھی۔ صرف ایک کنواں ایک یہودی کی ملکیت تھا جو مسلمانوں کو اس کا پانی بھاری قیمت پر دیتا۔ سیّد العالمین خاتم النبیین علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام کی ترغیب پر حضرت عثمانؓ نے ’’بئرِ رومہ‘‘ 20یا 30 ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا۔ اس کے علاوہ آپؐ نے مدینہ طیبہ اور مضافات میں متعدد کنوئیں بنوائے جن میں بئرِ سائب، بئرِ عامر اور بئرِ اُریس بہت مشہور ہیں۔(تاریخ الاسلام، ج: خلفائے راشدین، ص: 474) اسی طرح جب غلّے کا شدید قحط پڑا تو آپؓ نے سارا تجارتی غلہ اللہ کی راہ میں تقسیم فرما کر مسلمانوں کی زندگی آسودہ کر دی۔ غزوات میں مشہور غزوہ ’’جیش العسرہ‘‘ کی تیاری کیلئے آپؓ نے ایک ہزار مجاہدین کی مکمل تیاری کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ایک ہزار سرخ دینار اور 70 گھوڑے پیش کیے… اسی مبارک موقع پر مالک کونین محبوب ربّ المشرقین و المغربین علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمان ؓ کیلیے قابل صد ہزار رشک تعریفی کلمات عطا فرمائے۔’’آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل باعث ضرر نہ ہو گا‘‘۔ْ(سنن ترمذی، حدیث: 3700۔ مسند احمد، ج5، ص: 63۔ تاریخ الاسلام ذہبی، ج: خلفائے راشدین، ص: 470۔ البدایہ والنہایہ، ج: 7، ص: 187)غرضیکہ حضرت عثمان ؓ نے دیگر صحابہ کرامؓ کی طرح اپنے آقا و مولاؐ اور دین اسلام کی بھرپور خدمت کی لیکن حضرت عثمان ؓ کی مالی خدمات کا پلہ سب سے بھاری ہے۔ کسی محب کی سعادتوں کی معراج ہے کہ اس کا محبوب بھی اسے چاہنے لگے، حضرت عثمانؓ کی سعادت مندیوں کا سورج کس بلندی پر ہے ملاحظہ فرمائیے آقا کریم ؐ نے فرمایا’’ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان ہے‘‘(ترمذی، حدیث: 3698)۔ حضرت عثمان غنی ؓکیلئے یہ بڑا اعزاز ہے کہ آقا ؐ نے اپنے غلام کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔ اور اس ایمان پرور منظر پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوش ہونا اور اپنی رضا کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنا رہتی دنیا تک عظمت عثمانؓ کی دلیل بنا رہے گا۔ غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ بنی غطفان کے مواقع پر سیّد المرسلین علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمانؓ کو مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ یہ بھی غالباً تربیتی نکتہ نظر سے تھا۔ منصبِ خلافت حضرت عمر فاروق ؓکی شہادت کے 3 دن بعد حضرت عثمان غنیؓ پر فرائض خلافت کی بجا آوری کی ذمہ داری ڈال دی گئی ۔آپؓ کا تقریباً 12سالہ دور تاریخ کا منفرد دور ہے۔ خصوصاً فتوحات کا عالم یہ تھا کہ انسانی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے کی فتوحات کا کہیں ذکر نہیں۔ فاروق اعظمؓ کے بعد بعض مقامات پر بغاوتیں ہوئیں۔ آپؓ کے عہد میں ان بغاوتوں کو ناکام کیا گیا، ان شورش زدہ ممالک میں اسکندریہ، آذر بائیجان، آرمینیا، انطاکیہ اور طرطوس کے درمیان واقع رومی قلعے بغاوت کچل کر دوبارہ زیر نگیں لائے گئے، اسی طرح آپؓ کے دور میں طرابلس المغرب، تیونس، الجزائر، مراکش، قفلس، خراسان، طبرستان، جرجان، سوات، کابل، سجستان، نیشاپور، تخارستان، کرمان، کوہ قاف، ہند میں گجرات کے ساحلی علاقے، بحیرہ اسود کے ساحلی علاقے اور اندلس کے بعض حصے جزوی طور پر فتح ہوئے۔ آپؓ کے دور خلافت کا ابتدائی تقریباً نصف زمانہ نہایت پُرسکون، سماجی، معاشی، معاشرتی ترقی و فراوانی کا زمانہ تھا۔ مفتوحہ ممالک کی فتوحات مالِ غنیمت کی کثرت و فراوانی نے مسلمانوں کو آہستہ آہستہ آرام پسند، عیش و عشرت کا دلدادہ بنانا شروع کر دیا۔ صحابہ کرام ؓتیزی سے دارِ آخرت کی طرف رُخصت فرما رہے تھے، نئی نسلوں اور عجمی خطّوں کے نو مسلموں میں وہ خلوص وہ دینی ولولہ ناپید ہونے لگا اور اس کی جگہ حسد و نفرت اور سابقہ پرانی رنجشوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا غیر مسلموں کوکھُل کھیلنے کا موقع ملا سازشیں، جوڑ توڑ، فتنہ و فساد کے جملہ عوامل جمع ہو گئے اور وہ وقت آگیا جب اہلِ مدینہ خوف و ہراس، حزن و اضطراب کے بحر اسود میں ڈوبنے لگے۔ بلوائیوں کا شور دن بدن زور پکڑتا گیا حتٰی کہ معززین مدینہ منورہ سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ آپؓ خلیفہ سے ملیں تاکہ کوئی بہتر صورت نکلے اور بلوائیوں کی شر انگیزیوں سے جوار نبوی علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام کے مکینوں کو سکون ملے، اکابر صحابہؓ کے ایما ء پرحضرت علیؓ حضرت عثمان غنیؓ کے پاس تشریف لے گئے اوران سے بات چیت کی ۔مولا علی کرم اللہ وجہہ کی اس گفتگو اور مشاورت کے بعد بلوائیوں اور دیگر مخالفین کی شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے لائحہ عمل طے کیا گیا جس کی روشنی میں چند فوری اقدامات کیے گئے… مگر افسوس صد افسوس ہنگامے اور جلوس پُرشور ہوتے گئے یہاں تک کہ 18ذی الحج 35ھ جمعہ کے دن بعد نماز عصر 82یا 86 سالہ حضرت عثمان غنی ؓ کو50روزہ محاصرہ کے ذریعے میٹھے پانی سے 40 دن محروم رکھنے اور آخری 10 روز مکمل ناکہ بندی کے ذریعے بھوکا پیاسا رکھ کر شہید کر دیا گیا ۔ بدبخت کنانہ بن بشیر نے آپؓ کی پیشانی پر لوہے کی لاٹھی زور سے ماری کہ عثمان غنی ؓچکرا کر پہلو پر گر گئے۔ اور زبان سے کہا بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ خون کا فوارہ کتابِ ہدایت کی آیت فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم پر گرا۔(طبقات ابن سعد، ج: 3)اس کے بعد عمرو بن الحمق مسلسل وار کرتا رہا اسی موقع پر سودان ابن حمران نے تلوار کے وار سے آپؓ کو شہید کر دیا۔ (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن) عثمان غنیؓ برسوں پہلے اپنے آقا و مولاؐ کی زبان وحی ترجمان سے سن چکے تھے جب حضور پاک شیخین اور آپؓ کے ساتھ احد پر کھڑے تھے۔ تو اس لمحہ محبت پر احد میں بانداز ناز جنبش سی ہوئی تو محبوب ہر دو سرا علیہ وآلہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’اُحد سکون کر کوئی (عام بندہ) نہیں بلکہ اللہ کا نبی اور صدیق اور دو شہید موجود ہیں‘‘(بخاری۔ حدیث: 3698) ۔ حضرت عثمان غنی ؓکی شہادت کی خبر سے صحابہ کرامؓ غم کے سمندر میں ڈوب گئے،حزن و ملال رنج و اندوہ کا ایک طوفان تھا اور تو اور دہشتگردوں نے آپؓ کی تدفین تک کسی کو نہ کرنے دی ہر کوئی خوف زدہ اپنے اپنے گھر میں سہما ہوا بے بسی پر آنسو بہا رہا تھا۔ حسّان بن ثابتؓ نے آپ ؓکا طویل مرثیہ کہا۔علامہ ابن عبدالبر نے جنازے کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ، ہشام بن ارویٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اکثر مؤرخین نقل کرتے ہیںکہ تدفین کے بعد آپؓ کی قبر مبارک کو بے نشان کر دیا گیا۔ (تاریخ الاسلام ذہبی، ج: خلفائے راشدین، ص: 481)گیارہ سال، گیارہ ماہ اور چودہ دن آپؓ خلافت پر متمکّن رہے۔(اُسد الغابہ، ج: 6، ص: 217۔ تاریخ اسلام ندوی، ج: 1، ص: 299) ٭٭٭٭