PDA

View Full Version : گرمی بھی ہے ٹھنڈک بھی، روانی بھی سکوں بھی



intelligent086
10-06-2014, 12:39 AM
مدح
حسین شہید سہروردی مرحوم نے راولپنڈی "سازش" کیس ملزموں کی جانب سے وکالت کی تھی۔ مقدمے کے خاتمے پر انھیں یہ سپاسنامہ پیش کیا گیا۔

کس طرح بیاں ہو ترا پیرایۂ تقریر
گویا سرِ باطل پہ چمکنے لگی شمشیر
وہ زور ہے اِک لفظ اِدھر نُطق سے نکلا
واں سینۂ اغیار میں پیوست ہُوئے تیر
گرمی بھی ہے ٹھنڈک بھی، روانی بھی سکوں بھی

تاثیر کا کیا کہیے، ہے تاثیر سی تاثیر
اعجاز اسی کا ہے کہ اربابِ ستم کی
اب تک کوئی انجام کو پہنچی نہیں تدبیر
اطرافِ وطن میں ہُوا حق بات کا شُہرہ
ہر ایک جگہ مکر و ریا کی ہُوئی تشہیر
روشن ہوئے اُمّید سے رُخ اہلِ وفا کے
پیشانیِ اعدا پہ سیاہی ہوئی تحریر


(2)

حرّیتِ آدم کی رہِ سخت کے رہگیر
خاطر میں نہیں لاتے خیالِ دمِ تعزیر
کچھ ننگ نہیں رنجِ اسیری کہ پُرانا
مردانِ صفا کیش سے ہے رشتۂ زنجیر
کب دبدبۂ جبر سے دبتے ہیں کہ جن کے
ایمان و یقیں دل میں کیے رہتے ہیں تنویر
معلوم ہے ان کو کہ رہا ہو گی کسی دن
ظالم کے گراں ہاتھ سے مظلوم کی تقدیر
آخر کو سرافراز ہُوا کرتے ہیں احرار
آخر کو گرا کرتی ہے ہر جَور کی تعمیر
ہر دَور میں سر ہوتے ہیں قصرِ جم و دارا
ہر عہد میں دیوارِ ستم ہوتی ہے تسخیر
ہر دَور میں ملعون شقاوت ہے شمر کی
ہر عہد میں مسعود ہے قربانیِ شبّیر


(3)

کرتا ہے قلم اپنے لب و نطق کی تطہیر
پہنچی ہے سرِ حرفِ دعا اب مری تحریر
ہر کام میں برکت ہو ہر اک قول میں قوّت
ہر گام پہ ہو منزلِ مقصود قدم گیر
ہر لحظہ ترا طالعِ اقبال سوا ہو
ہر لحظہ مددگار ہو تدبیر کی تقدیر
ہر بات ہو مقبول، ہر اک بول ہو بالا
کچھ اور بھی رونق میں بڑھے شعلۂ تقریر
ہر دن ہو ترا لطفِ زباں اور زیادہ
اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ

Dr Danish
09-13-2015, 09:14 PM
مدح


حسین شہید سہروردی مرحوم نے راولپنڈی "سازش" کیس ملزموں کی جانب سے وکالت کی تھی۔ مقدمے کے خاتمے پر انھیں یہ سپاسنامہ پیش کیا گیا۔



کس طرح بیاں ہو ترا پیرایۂ تقریر
گویا سرِ باطل پہ چمکنے لگی شمشیر
وہ زور ہے اِک لفظ اِدھر نُطق سے نکلا
واں سینۂ اغیار میں پیوست ہُوئے تیر
گرمی بھی ہے ٹھنڈک بھی، روانی بھی سکوں بھی

تاثیر کا کیا کہیے، ہے تاثیر سی تاثیر
اعجاز اسی کا ہے کہ اربابِ ستم کی
اب تک کوئی انجام کو پہنچی نہیں تدبیر
اطرافِ وطن میں ہُوا حق بات کا شُہرہ
ہر ایک جگہ مکر و ریا کی ہُوئی تشہیر
روشن ہوئے اُمّید سے رُخ اہلِ وفا کے
پیشانیِ اعدا پہ سیاہی ہوئی تحریر


(2)

حرّیتِ آدم کی رہِ سخت کے رہگیر
خاطر میں نہیں لاتے خیالِ دمِ تعزیر
کچھ ننگ نہیں رنجِ اسیری کہ پُرانا
مردانِ صفا کیش سے ہے رشتۂ زنجیر
کب دبدبۂ جبر سے دبتے ہیں کہ جن کے
ایمان و یقیں دل میں کیے رہتے ہیں تنویر
معلوم ہے ان کو کہ رہا ہو گی کسی دن
ظالم کے گراں ہاتھ سے مظلوم کی تقدیر
آخر کو سرافراز ہُوا کرتے ہیں احرار
آخر کو گرا کرتی ہے ہر جَور کی تعمیر
ہر دَور میں سر ہوتے ہیں قصرِ جم و دارا
ہر عہد میں دیوارِ ستم ہوتی ہے تسخیر
ہر دَور میں ملعون شقاوت ہے شمر کی
ہر عہد میں مسعود ہے قربانیِ شبّیر


(3)

کرتا ہے قلم اپنے لب و نطق کی تطہیر
پہنچی ہے سرِ حرفِ دعا اب مری تحریر
ہر کام میں برکت ہو ہر اک قول میں قوّت
ہر گام پہ ہو منزلِ مقصود قدم گیر
ہر لحظہ ترا طالعِ اقبال سوا ہو
ہر لحظہ مددگار ہو تدبیر کی تقدیر
ہر بات ہو مقبول، ہر اک بول ہو بالا
کچھ اور بھی رونق میں بڑھے شعلۂ تقریر
ہر دن ہو ترا لطفِ زباں اور زیادہ
اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ



Wah Bohat Umda
Sharing ka shukariya@};-

intelligent086
09-14-2015, 02:39 AM
Wah Bohat Umda
Sharing ka shukariya@};-


پسند اور خوب صورت آراء کا شکریہ