زندہ رہنا تھا سو جاں نذرِ اجل کر آیا

میں عجب عقدۂ دشوار کو حل کر آیا


میں نے کی تھی صفِ اعدا سے مبارز طلبی
تیر لیکن صفِ یاراں سے نکل کر آیا

تو نے کیا سوچ کے اس شاخ پہ وارا تھا مجھے
دیکھ میں پیرہنِ برگ بدل کر آیا

یہ ہوس ہو کہ محبت ہو، مگر چہرے پر
اِک نیا رنگ اسی آگ میں جل کر آیا

*************





Similar Threads: