لیا میں نے تو بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں

اجل شرما گئی سمجھی کہ مجھ کو پیار کرتے ہیں


مرا خط پھینک کر قاتل کے مُنہ پر طنز سے بولے

خلاصہ سارے اس طومار کا یہ ہے کہ مرتے ہیں

ابھی اے جاں تو نے مرنے والوں کو نہیں دیکھا
جیئے ہم تو دکھا دیں گے کہ دیکھ اس طرح مرتے ہیں

قیامت دور، تنہائی کا عالم، روح پر صدمہ
ہمارے دن لحد میں دیکھیئے کیوں کر گزرتے ہیں

جو رکھ دیتی ہے شانہ آئینہ تنگ آ کے مشاطہ
ادائیں بول اُٹھتی ہیں کہ دیکھو یوں سنورتے ہیں

چمن کی سیر ہی چھوٹی تو پھر جینے سے کیا حاصل؟
گلا کاٹیں مرا صیاد ناحق پر کترتے ہیں

قیام اس بحرِ طوفاں خیز دنیا میں کہاں ہمدم؟
حباب آ سا ٹھہرتے ہیں تو کوئی دم ٹھہرتے ہیں
٭٭٭




Similar Threads: