تم سے جانم عاشقی کی جائے گی

اور ہاں یکبارگی کی جائے گی


کر گئے ہیں کوچ اس کوچے کے لوگ
اب تو بس آوارگی کی جائے گی

تم سراپا حُسن ہو، نیکی ہو تم
یعنی اب تم سے بدی کی جائے گی

یار اس دن کو کبھی آنا نہیں
پھول جس دن وہ کلی کی جائے گی

اس سے مِل کر بے طرح روؤں گا میں
ایک طرفہ تر خوشی کی جائے گی

ہے رسائی اس تلک دل کا زیاں
اب تو یاراں نارسی کی جائے گی

آج ہم کو اس سے ملنا ہی نہیں
آج کی بات آج ہی کی جائے گی

ہے مجھے احساس کم کرنا ہلاک
یعنی اب تو بے حسی کی جائے گی


Similar Threads: